تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – بتیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-9-2


گولہ باری بند ہونے کے تین ہفتے بعد میں نے ریجمنٹ کی پوزیشنز کا دورہ کیا۔  اس دورے کے دوران میں نے 5 جنوری 1981ء کو ہونے والی لڑائی کے آثار دیکھے،  جو آرمرڈ بریگیڈ-35 کے انڈر کنٹرول ایریا میں ہوئی تھی۔ میں نے مٹی میں دفن اپنی ایک ایمبولینس دیکھی، اس پر جلنے کے آثار نمایاں تھے۔  میں نے اچھی طرح اس پر سے مٹی ہٹائی تو مجھے انسانوں کے کچھ بال ملے ان سے معلوم ہوتا تھا کہ ایمبولینس کے اندر کوئی لاش موجود ہے۔  انجینئرنگ فورسز کی مدد سے میں ایمبولینس کو موبائل میڈیکل یونٹ کے قریب لے آیا اور ہم نے اس میں موجود قابل استعمال حصوں کو الگ کر لیا۔  اسی طرح میں نے موبائل میڈیکل یونٹ کے قریب ایک ناکارہ "ٹاؤ" میزائل دیکھا جو بظاہر 5 جنوری کو ہونے والی لڑائی میں ایرانی ہیلی کاپٹر سے لانچ کیا گیا تھا۔  کچھ دنوں بعد انجینئرنگ یونٹ کے افراد نے اس میزائل کو دھماکے سے اڑا دیا۔  اس کے علاوہ میں نے اس دن کی لڑائی کی ایک اور نشانی دیکھی جسے دیکھ کر مجھے اور دوسرے لوگوں کو بہت افسوس ہوا۔  کمانڈر نے کچھ فوجیوں کو ریجمنٹ کی پوزیشنز کے مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں بھیجا جسے وہاں کے رہائشیوں اور ہماری فوج نے کافی پہلے خالی کردیا تھا۔  ان فوجیوں کا کام اپنا بنکر بنانے کے لیے لکڑیاں لانا تھا۔  گاؤں کے داخلی راستے پر ان پر کچھ جنگلی کتوں نے حملہ کردیا۔  انہوں نے شروع میں کوشش کی کہ فائرنگ کیے بغیر گاؤں میں داخل ہوجائیں لیکن ان کتوں نے اپنے حملے سے فوجیوں کو گاؤں میں داخل ہونے سے روک دیا۔ فوجیوں کو کتوں کی درندگی سے بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے فائرنگ کرکے سارے کتوں کو مار دیا۔ اس کے بعد وہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے جو ان کے کام آسکتی تھیں گاؤں میں داخل ہوگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ گھروں میں سے بہت گندی بو آرہی ہے۔  تلاش کرنے پر انہوں نے ایک بہت افسوسناک منظر دیکھا۔  ملٹری کمانڈو کے یونیفارم میں ملبوس ایک شخص زمین پر پڑا تھا اور اس کے جسم کے بہت سے اعضاء کھائے جا چکے تھے۔  یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی لاش ایک ایرانی فوجی کی تھی جو کئی مہینوں سے وہاں موجود تھی اور اس پر گردوغبار جمع تھا۔  بظاہر اس فوجی کو زمین میں زیادہ گہرائی پر دفن نہیں کیا گیا تھا بلکہ زمین کی سطح کے قریب دفن کیا گیا تھا اور کتوں نے باآسانی اسے زمین سے نکال کر کھا لیا تھا۔  فوجی واپس لوٹ آئے اور کمانڈر کو ساری بات بتائی۔  یونٹ کمانڈر نے لاش کو اچھی طرح سے دفن کرنے کا حکم دیا۔  کمانڈر نے مجھے بتایا کہ یہ لاش ایرانی کمانڈو یونٹ کے ایک طاقتور فوجی کی ہے جس کے سر میں گہری چوٹیں آئی تھیں۔

"ابوفوزی"  نے کچھ فوجیوں کے ساتھ مل کر لاش کو گاؤں کے قریب دفنا دیا اور اس کی قبر پر ایک نشانی لگا دی۔  واپس لوٹتے وقت غم اور دکھ کے آثار فوجیوں کے چہروں پر بخوبی دیکھے جاسکتے تھے۔  اس سے پتہ چل رہا تھا کہ عراقیوں اور ایرانیوں کی دشمنی معمولی اور ناپائیدار ہے اور آج بھی دونوں فریقوں کے دل اسلام اور انسانیت کے لیے دھڑکتے ہیں۔

جولائی سن 1981ء کے اوائل میں،  کچھ دوائیاں لینے کے لیے میں  فیلڈ میڈیکل یونٹ-11 گیا۔  یونٹ کمانڈر کیپٹن ڈاکٹر "احسان الحیدری" نے بتایا کہ وزیر دفاع کے  حکم سے میری سیکنڈ-لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی ہوگئی ہے۔  اس حکم کے مطابق ہر ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور فارماسسٹ کی افسری عہدے پر ترقی ہوگی(سوائے ان لوگوں کے جن کے شریک حیات یا مائیں عراقی نہیں ہیں)۔  مجھے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی۔  10 جولائی 1981ء  کو عہدے کی ترقی کا لیٹر بٹالیئن پہنچا۔  ریجمنٹ کمانڈر نے مجھے بلایا اور مجھے اس بات کی اطلاع دی۔  میں دو ہفتے سے زیادہ افسری رینک بیج کی اپنے کندھے پر حفاظت نہیں کر پایا۔ کمانڈر اس بات سے بہت ناراض ہوا اور اس نے شدت سے مجھے حکم دیا کہ میں افسری رینک بیج اپنے کندھے پر لگاؤں۔  اس مسئلہ کی بازگشت فوج کے ان سخت قوانین کی جانب تھی جو اس بات کا حکم کرتے تھے کہ جو افسر محاذ پر اپنے رینک بیج کو  اتارے گا اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ ہمارے کچھ ایسے آفیسرز بھی تھے جو اپنے ملٹری رینک بیج اتارنے کے بعد محاذ سے فرار ہو رہے تھے اور یہ چیز فوجیوں کے حوصلوں کو پست کر رہی تھی۔  میں نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔  شام کو میں فیلڈ میڈیکل یونٹ-11 گیا۔ میں اس ڈاکٹر کے بنکر میں گیا جس سے میری پرانی دوستی تھی۔  وہ سویا ہوا تھا۔  میں نے اس کا ملٹری رینک بیج اس کی وردی سے اتار کر اپنے کندھے پر لگالیا اور  ریجمنٹ بیس لوٹ آیا۔

رینک پر ترقی سے پہلے میں  غیر کمیشن یافتہ سپاہی تھا لیکن میں نہ سپاہیوں میں شمار ہوتا تھا اور نہ افسران میں،  بلکہ میں مکمل طور پر مستقل تھا اور جب بھی میں چاہتا تھا چھٹی پر چلا جاتا تھا۔

لیکن اب میرا نام افسروں کی لسٹ میں اور معمول کی چھٹیاں لینے والوں کی باری کی لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔

جنوبی عراق اور خوزستان کے علاقے کی شدید گرمی شروع ہو چکی تھی۔  شدید گرمی نے دم گھونٹ دینے والی رطوبت جسے بصرہ میں "شرجی" کہا جاتا ہے، کے ساتھ مل کر اس علاقے میں رہنا ناممکن بنا دیا تھا۔  عام طور پر جولائی اور اگست وہ مہینے ہیں جس میں درجہ حرارت اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔  لوگ عام طور پر ان مہینوں میں اپنے گھروں میں گرمی اور ہوا کی رطوبت کو برداشت نہیں کر پاتے تھے۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ  اس تپتے ہوئے صحرا کے بیچ زمینی بنکر کے اندر ہماری کیا حالت ہوگی۔

میں ان مشکل اور خوفناک دنوں اور راتوں میں سب سے قیمتی چیز یعنی سکون اور نیند کھو چکا تھا۔  ایک طرف سے مکھیوں اور مچھروں نے اور دوسری طرف سے موذی کیڑے مکوڑوں نے ہمارے جسم میں کوئی صحیح و سالم جگہ باقی نہیں چھوڑی تھی۔  خوزستان کی گرمی اتنی گرم اور سخت ہوتی تھی کہ صبح 9 بجے آپ سراب دیکھ سکتے تھے۔  ان حالات میں بنکرز نہ رات میں رہنے کے قابل تھے اور نہ دن میں۔  دن کے وقت ہم سورج کی تپش سے بچنے کے لیےکھجور کے پتوں اور ٹہنیوں سے بنی جھونپڑی کے سائے اور پنکھے کا سہارا لیتے تھے۔ پانی پینے کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔  دن کے وقت ہمیں شدید گرم ہوا اور رات کے وقت دوسری مشکلات درپیش تھیں۔  سورج غروب ہونے سے پہلے ہم مچھردانیاں لگا لیتے تھے تاکہ سوتے وقت ہم موذی کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہ سکیں۔  اندھیرا چھاتے ہی پریشان کرنے والے مہمان ہمیں ڈھونڈتے ہوئے آجاتے تھے اور جتنا ہوسکتا ہمیں آزار دیتے تھے۔  اس کے باوجود کہ وہاں کیڑے مکوڑوں کی مختلف اقسام موجود تھیں،  لیکن ان کا خطرہ بھوکے سانپوں اور بچھوؤں کے خطرے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔  اس کے علاوہ ہمارے برابر والے بنکرز میں سیکڑوں چوہے رہتے تھے جن کا کام کپڑوں اور دوسری چیزوں میں سوراخ کرنا تھا۔ میں ان کیڑوں کو دور کرنے کے لئے کیڑے مار دوائیں اور دوسری چیزیں استعمال کرتا تھا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔  اس حال میں ہم رات 12 بجے مچھردانی کے اندر آنکھیں بند کر پاتے تھے لیکن رات 3 بجے ایرانی فوج کی مارٹر گولوں کی فائرنگ کی آواز سے ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔  آنکھیں نیند سے بند ہو جاتی تھیں مگر پھر بھی انہیں موت کا بھوت نظر آتا رہتا تھا۔  کبھی کبھار نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ ہم موت کی پرواہ ہی نہیں کرتے تھے۔  مارٹر گولے اور توپ کے گولے ہم سے چند قدم کے فاصلے پر آکر گرتے تھے لیکن اس کے باوجود ہم نیند کی مٹھاس کھونے کے لئے تیار نہیں تھے۔  کبھی کبھار انسان ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ دکھ بھری اور تھکا دینے والی زندگی پر موت کو ترجیح  دینے لگتا ہے۔  میری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔  فرنٹ لائن پر موجود گشت اور گھات لگا کر حملے کرنے میں مشغول فوجیوں کے مقابلے میں موبائل یونٹ کے لوگ زیادہ خوشحال تھے۔  اس علاقے کے حالات نے لوگوں کے حوصلوں پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔  اسی لیے وہ سروس سے بھاگنے کے لیے صحیح موقع کا انتظار کر رہے تھے۔  ایسے حالات میں ڈائریا اور ڈرماٹائٹس کی بیماریاں بہت بڑے پیمانے پر پھیلیں اور کئی لوگوں کو "وائپر سانپوں" اور بچھوؤں نے بھی کاٹا تھا۔  "لشمانیاسس" کی بیماری جو مقامی مچھروں کے کاٹنے سے پھیل رہی تھی، بھی عام ہو چکی تھی۔  ہوا کا درجہ حرارت اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔  لوگوں کی سرگرمیاں دن کے وقت بند ہو جاتی تھیں اور سارے کام اور آپریشنز رات کے وقت انجام دیے جاتے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2205


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔