انجمن اسلامی معلمان کا قیام !

تحریر: طیبه پازوکی
مترجم : سید مقدس حسین نقوی

2020-8-9


سن 1978ء میں  جب جناب رجائی زندان سے آزاد ہوئے تو ہم ان سے ملنے ان کے گھر گئے۔ اگرچہ وہ زندان کے شکنجہ اور سختیوں کے باعث بہت ناتوان و ضعیف ہوچکے تھے؛ مگر بلند ہمت تھے اور ان ہی دنوں میں جب لوگوں کے اعتراضات و احتجاجات اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے، انھوں نے  کہا: ہمارے لئے بھی لازم ہے کہ ہم دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔

اس ملاقات کے بعد، انجمن اسلامی معلمان، اساتید کی سنجیدہ کوششوں کے نتیجے میں تشکیل پائی۔البتہ اس انجمن کی تشکیل کے مقدمات سن 1978ء میں جناب اسدی کی رہائی کے بعد وقوع پذیر ہوئے اس طرح ہم دوست احباب جن میں (مرتضی کتیرایی، جناب علی اکبر سلیمی جھرمی، جناب حسین ذوالانوار اور ڈاکٹر عباسی شیبانی صاحبان) شامل تھے، اپنے گھروالوں کے ہمراہ رفت و آمد کرتے رہے، مل بیٹھتے اور پیش آنے والی خبروں کو آپس میں ردّ و بدل کرتے رہتے۔ البتہ ڈاکٹر شیبانی ثقافتی نہ تھے مگر ہم فکر ہونے کے عنوان سے ہمیشہ تشریف لاتے تھے۔ انسیہ خانم ( ڈاکٹر شیبانی کی اہلیہ)،  جناب سلیمی کی اہلیہ اور ان کی بہنیں  ان میٹنگوں میں شرکت کرتیں اور سرگرم رہتیں تھیں۔ ہم خبریں اکٹھی کرنے کے بعد کسی خبررسان ایجنسی کی طرح سرگرم عمل ہوتے تھے؛ یعنی دوسرے افراد تک پہنچاتے اور ان کو آگاہ کرتے۔ میٹنگیں اسی طریقے سے جاری رہیں یہاں تک کے جناب رجائی زندان سے آزاد ہوگئے۔

ان کی رہائی اور کچھ افراد کے ساتھ ملنے کے بعد( مثلاً جناب محمد محمدی اور جناب محمد شہاب گنابادی وغیرہ۔۔) ہماری میٹنگوں کو چار چاند لگ گئے اور اب آئین نامہ اور اہداف لکھنے پر گفتگو ہونے لگی۔ یہ میٹنگیں  باری باری ہر ایک کے گھر پر منعقد ہوتیں؛ البتہ ہمارے گھر کم اور زیادہ تر؛ جناب محمدی کے گھر ہوتیں، چونکہ یہ حال ہی میں زندان سے آزاد ہوئے تھے  ممکن تھا کہ انٹیلی جنس کے افراد ہمارے گھر آجائیں اور ہم سب کے لئے مشکلات کھڑی ہوجائیں؛ کیونکہ جناب محمدی کو جیل نہیں ہوئی تھی، ان کے بارے میں شک و شبہ کم تھا۔  میرے (گوہر شریعت دستغیب) اور جناب اسدی کا مکمل احتیاط کے ساتھ اس انجمن کے ممبر ہونے میں کوئی شک نہ تھا۔جب کہ ہمارے دوست بہت پریشان تھے ایک دفعہ جناب مرتضی کتیرایی نے جناب اسدی سے کہا: "آپ تو ابھی زندان سے آزاد ہوئے ہیں، کیا بہتر نہیں صرف آپ کی اہلیہ انجمن کی رکن بنیں؟! تاکہ اگر کوئی مشکل پیش آئے تو دونوں گرفتار نہ ہوں" ڈاکٹر اسدی نے جواب دیا "نہیں، کوئی بات نہیں! میں بھی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ فرض کریں مجھے دوبارہ گرفتار کرلیا جاتا ہے، تو مجھ میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں"۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ ہماری میٹنگیں ڈاکٹر باہنر اور جناب گنابادی کے گھر پر منعقد ہوئیں۔ اس میں خواتین میں سے، صرف میں نے اور خانم انسیہ مفیدی نے شرکت کی تھی۔میری شرکت ہمیشہ ہوتی تھی لیکن وہ کبھی کبھی تشریف لاتیں۔ اگر چہ ڈاکٹر بہشتی میٹنگوں میں شرکت نہیں کرپاتے؛ مگر فکری طور پر مدد کرتے رہتے تھے۔ ہم نے آئین نامہ اور اہداف لکھنے اور انجمن کے اصول و ضوابط کے لیے چند جلسات کا انعقاد کیا اور آئین نامے کے ایک  ایک لفظ پر بحث و مباحثہ کیا۔اس کے بعد انجمن اور مرکزی شوریٰ کے ارکان کا انتخاب ہوا۔ڈاکٹر بہشتی، ڈاکٹر باہنر، جناب رجائی، جناب مرتضی کتیرایی،غلام محمد محمدی،ڈاکٹر اسدی، میں اور خانم انسیہ مفیدی انجمن کے اراکین میں سے تھے اور شاید کچھ افراد اور بھی تھے؛لیکن اس وقت یاد نہیں ہے کہ کون تھے اور کون نہ تھے!

دراصل اس انجمن کی بنیاد ان افراد نے رکھی جو سر سخت انقلابی اور جناب بہشتی ، رجائی اور باہنر کے ہم فکر تھے۔ اور یہ انجمن اسلامی معلمان سے مختلف تھی جو کہ سن 1961ء  کے اواخر اور سن 1971ء  کے شروع میں تحریک آزادی تشکیل پانی تھی لیکن وقوع پذیر نہ ہوسکی۔ انجمن اسلامی معلمان کے تشکیل ہوتے ہی حادثات اور واقعات میں تیزی آگئی۔ ہر روز ایک نئی خبر تھی اور ہم لوگ منظم انداز میں متن کو اعلانات کے عنوان سے  انجمن کی طرف سے کاپی اور منتشر کرنے کے لیے آمادہ کرتے تھے۔

ان اعلانات میں ہم ہدف مقاومت، امام کے پیغامات اور ریلیوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرتے تھے اور تمام اعلانات کے آخر میں "گروه معلمان" لکھتے۔ بعض اوقات جب ضروری ہوتا کہ اعلانات کو فوری طور پر آمادہ کیا جائے، تو  جناب اسدی پیش آنے والے واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مضمون تیار کرتے اور میں یہ مضمون جناب ڈاکٹر شیبانی کے گھر لے جایا جاتا تاکہ فوٹوسٹیٹ مشین کے ذریعے (جو کہ گھر  کے تہہ خانے میں تھی) بہت ساری کاپیاں تیار کروں اور اس کے بعد اعلانات انجمن کے اراکین میں تقسیم ہوتے۔ لوگوں کے درمیان اعلانات کو منتشر کرنا اکثر خواتین کے ہاتھوں انجام پذیر ہوتا کیونکہ پرس اور چادر ہونے کی وجہ سے نظروں میں نہیں آتیں تھیں۔ میں کچھ تعداد میں اعلانات ان خواتین کے حوالے کرتی جن کو میں جانتی تھی اور ہم میں سے جو کوئی رستے میں مسجد دیکھتا تو اس میں داخل ہو جاتا اور اعلانات کو چپکے سے ایسی جگہ رکھ دیتا جہاں لوگ آسانی سے دیکھ سکیں، اور باہر آجاتے۔ بعض اوقات شہداء کی مجالس میں جاتے اور اعلانات کو مخفیانہ انداز میں لوگوں کے درمیان منتشر کر دیتے۔ بہرحال یہ  خدشہ بھی درپیش ہوتا کہ مجلس میں انٹیلی جنس کہ افراد بھی موجود ہوں۔

اعلانات منتشر کرنے کے لیے بہشت زہرا (س) بھی اچھی جگہ تھی کیوں کہ فتنہ و فساد جاری تھے اور ہر روز کچھ تعداد میں لوگ شہید ہوتے اور دو تین نماز جنازہ اور تدفین انجام پذیر ہوتیں۔ اور شہداء اور انتقال کرنے والوں کے ساتھ کچھ افراد ہوتے ہی تھے۔ اعلانات کو ان کے درمیان منتشر  کرنے کا اچھا موقع ہوتا تھا۔ کیونکہ فوج بھی وہاں موجود نہیں تھی جو ہمارے کام کے آڑے آئے۔

بعض اوقات میں اور کچھ خواتین چند روز تک ، مسلسل بہشت زہرا (س) جایا کرتے تھے۔ معمولاً ہمارا مرکز قطعہ نمبر 14 تھا جہاں پر بعض 17 شہریور کے شہداء مثلاً محبوبہ دانش دفن تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 2147


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔