تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – تیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-8-9


لمبی گرمیاں

سن 1981،  مئی کے  مہینے کے شروع میں، میں اپنی معمول کی چھٹی سے واپس آیا اور فیلڈ میڈیکل یونٹ-11 میں شامل ہوگیا۔  یہ واپسی مختلف واقعات اور حادثات کے وقوع اور فرنٹ لائن پر لمبے قیام کا آغاز تھی جو مختلف تبدیلیوں اور واقعات سے بھرا ہوا تھا۔  میں ایسے حالات میں دن گزار رہا تھا جس کے تلخ اور تکلیف دہ اثرات کو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ یہ واقعات دکھوں، تکلیفوں اور خوزستان کے ماحول کی دشواریوں اور محاذ کے کمرشکن اور دردناک حالات پر مشتمل تھے۔  اس کے علاوہ روزانہ جنگ طولانی تر ہوتی جا رہی تھی اور امن و امان آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا۔  یقینی طور پر یہ مشکلات اور پریشانیاں عوام کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتی تھیں اور انہیں ان کے آرام و سکون سے محروم کر تی جا رہی تھیں۔ اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ نازک انسانی جذبات اور احساسات رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو اس علاقے میں کیا کیا عذاب جھیلنے پڑے ہوں گے؟!  میرے زخموں کا واحد مرہم اپنے جیسے مظلوم زخمیوں اور بیماروں کی مدد کرنا تھا جن کے پاس اس ناپاک جنگ میں حصہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔  وہ جنگ جسے عراقی حکومت کچھ دنوں میں اختتام تک پہنچانا چاہتی تھی لیکن وہ مہینوں تک طول پکڑ گئی۔

جنگ کے طولانی ہونے کی وجہ سے،  بہت سے ریٹائرڈ ہائی رینک آفیسرز کو دوبارہ ڈیوٹی پر بلا لیا گیا۔  بریگیڈیئر ڈاکٹر "راجی تکریتی" بھی ان افسران میں شامل تھا۔   اسے عراقی فوج کے طبی امور کے سربراہ کے طور پر طلب کیا گیا جو اعلیٰ ترین میڈیکل عہدہ اور فوج کی طبی خدمات کا نگران سمجھا جاتا ہے۔  اس کی واپسی ہم فوجی ڈاکٹرز کے لیے ایک نئی نحوست کا باعث بنی۔  بریگیڈیئر  "راجی" نے فرنٹ لائن  پر موجود تمام کمپنیز  اور ریجمنٹس کے درمیان ملٹری ڈاکٹرز کی مستقل تقسیم کے حوالے سے ایک سرکلر جاری کیا۔یعنی سیکڑوں ملٹری ڈاکٹرز دوسرے فوجیوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر موجود رہتے اور ہر وقت ان کی جانوں کو خطرہ رہتا۔  یہ چیز ملک کے ان قیمتی سرمایوں کے لئے ایک بڑی پریشانی کا پیش خیمہ تھی۔ جن لوگوں نے پڑھائی کی خاطر ایک عمر تک راتیں جاگ جاگ کر گزاریں انہیں مرنے، زخمی ہونے اور قیدی بننے کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔

بریگیڈیئر ڈاکٹر نے جو دوسرا، سرکلر جاری کیا اس میں ملٹری ڈاکٹرز، دانتوں کے ڈاکٹر اور فارماسسٹس کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی سوائے ان لوگوں کے جن کی مائیں یا شریک حیات عراقی نہیں تھے یا جو عرب شمار نہیں ہوتے تھے یعنی انہیں شہری نہیں کہا جاتا تھا۔  یہ اقدام میڈیکل یونٹس میں موجود تنازعات کے حل کے لئے مؤثر ثابت ہوا۔ در حقیقت ایک ڈاکٹر کا وظیفہ رینک کے ساتھ اور پیرامیڈک کا رینکنگ بیج کے ساتھ ہونا، فوج کے قانون کے خلاف ہے۔ اسی لیے ملٹری ڈاکٹرز کو جنہیں ہر سال ریزرو کے عنوان سے 45 دن کام کرنا پڑتا تھا، افسر کا عہدہ دینے سے یہ اعتراضات برطرف ہوگئے۔ اس ترقی سے ہمیں صرف دو ہی فائدے حاصل ہوئے، ایک تو یہ کہ ہماری تنخواہوں میں کچھ ترمیم ہوئی اور دوسرا یہ کہ کچھ بے خبر اور جاہل فوجی سپاہیوں، افسروں اور عہدہ داروں سے ہماری جان چھوٹ گئی، کیونکہ عراقی فوج میں ملٹری رینک ہی فائدہ مند معیار ہے۔ اس کے بر عکس، علم و اخلاق چاہے جتنا بھی ایک فوجی اس سے مانوس ہو کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا جو دوسرے فوجیوں کو احترام پر ابھارے۔

31 مئی 1981ء  کو میری زندگی کے سب سے لمبے موسم گرما کا آغاز ہوا۔ طے پایا کہ بریگیڈیئر "راجی تکریتی" کے حکم کے مطابق مجھے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے بیسویں بریگیڈ کی تیسری ریجمنٹ بھیجا جائے گا۔ میں پہلا ملٹری ڈاکٹر تھا جو فرنٹ لائن پر جانے کے لئے فیلڈ یونٹ کو چھوڑ رہا تھا، اور اصولاً یونٹ میں میری خصوصی حالت کی وجہ سے ایسے دن کی پیشن گوئی غیر متوقع بھی نہیں تھی۔

میں نے اپنا ذاتی سامان جمع کرنے کے بعد اپنے دوستوں اور دشمنوں کو الوداع کہا۔  میرے جانے سے کچھ لوگ خوش تھے اور کچھ لوگ دکھی۔  میں نے پورے فخر سے پہلے گروہ کو خدا حافظ کہا اور مسکراتے ہوئے ان سے رخصت ہوا تاکہ میرے جانے سے پہلے وہ خوش نہ ہوں۔ میں پیرامیڈک وارنٹ آفیسر  "عباس" جو اس سفر میں رہنما کی حیثیت سے میرے ساتھ تھا،  کے ساتھ ایمبولنس میں سوار ہوا۔  فرنٹ لائن تک جانے والا راستہ بہت ناہموار تھا۔  وہ پورے راستے میرا شکریہ ادا کرتا رہا اور یاد دہانی کراتا رہا کہ بیسویں بریگیڈ  ایک پرانی بریگیڈ ہے جس نے "عبدالکریم قاسم" کی سربراہی میں بادشاہت کے خاتمے میں حصہ لیا تھا۔  وہ کہہ رہا تھا کہ : "تیسری ریجمنٹ جہاں آپ ابھی جا رہے ہیں، نے کرنل "عبدالسلام عارف" کی سربراہی میں محل "قصر الرحاب"  کا محاصرہ کر کے  بادشاہ کو قتل کردیا تھا۔"

میں راستے میں مستقبل میں آنے والی پریشانیوں کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی کی باتیں بھی سن رہا تھا۔  میں خوش بھی تھا اور اداس بھی، خوش اس لئے کہ میں فاسد لوگوں اور انٹیلی جنس عناصر سے دور ہو رہا تھا، اور اداس اس لئے کہ محاذ کی فرنٹ لائن کے خطرناک حالات مجھے بہت پریشان کررہے تھے۔

تقریباً صبح کے 10 بجے ہم تیسری ریجمنٹ کی پوزیشنز کے قریب پہنچے اور  میں نے  سڑک کی دائیں جانب مخصوص جگہ پر کھڑی کچھ ایمبولینسیں دیکھیں۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ ریجمنٹ کی موبائل میڈیکل یونٹ کی پوزیشنز ہیں۔  ہم کچی سڑک کو چھوڑ کر موبائل میڈیکل  یونٹ کے لیے  روانہ ہوئے۔

یونٹ کے افراد نے پیرامیڈک وارنٹ آفیسر "محمد سلیم" کی قیادت میں ہمارا استقبال کیا۔  موبائل یونٹ، 3 خندقوں پر مشتمل تھا۔  پہلی خندق چھوٹی اور مضبوط تھی جس میں دوائیاں رکھی جاتی تھیں، دوسری خندق اس کے برابر میں تھی جو پیرامیڈکس کے کام کرنے کی جگہ تھی،  اور تیسری خندق دوسری خندقوں سے 40 میٹر کے فاصلے پر تھی جو ایمبولینس ڈرائیورز کے آرام کی جگہ تھی۔

کچھ دیر آرام کرنے اور چائے پینے کے بعد میں وارنٹ آفیسر "محمد" کے ساتھ ریجمنٹ کے کیمپ گیا اور ٹرانسفر لیٹر پیش کرنے کے ساتھ میری ریجمنٹ کے کچھ آفیسرز سے ملاقات ہوئی،  جن میں ریجمنٹ کے معاون فرسٹ لیفٹیننٹ "کنعان"،  ان کے معاون لیفٹیننٹ "محمد جواد"، انٹیلی جنس آفیسر کیپٹن "سلام" اور سیاسی  جواز آفیسر فرسٹ لیفٹیننٹ "جواد" شامل تھے۔  اس کے بعد میں موبائل میڈیکل یونٹ واپس آگیا  اور وہاں کے لوگوں پیرامیڈیک وارنٹ آفیسر "عبدالخالق"،  پیرامیڈک میجر سارجنٹ "جاسم"،  پیرا میڈیک اسٹاف سارجنٹ "خمیس"،  طبی معاون "غازی" اور ایمبولینس ڈرائیورز "موافق"، "عبدالخمرہ"، "کریم" اور "محمد" سے بالترتیب میری ملاقات ہوئی۔  میں نے دوائیوں کی خندق کو اپنے کام کرنے کی جگہ بنایا۔

ریجمنٹ کی پوزیشنز ایک ہموار میدان میں واقع تھیں جو جنوب سے شمال تک یعنی ایرانی فورسز کی پوزیشن تک پھیلی ہوئی تھیں۔  ہماری ریجمنٹ کی داہنی جانب پہلی ریجمنٹ اور باہنی جانب بیسویں بریگیڈ کی دوسری ریجمنٹ تعینات تھیں۔  ایک کچی سڑک جو ریجمنٹ کے کیمپ کے پیچھے اور موبائل میڈیکل کیمپ کے شمال سے گزرتی تھی، ان ریجمنٹس کو ایک دوسرے سے جوڑتی تھی۔ ہماری ریجمنٹ کی فرنٹ لائن کی پوزیشنز مٹی کے ایک بند کے پیچھے تھیں اور اس کے سامنے موجود پانی ہمارے اور گاؤں "کوہہ" میں مقیم ایرانی فورسز کے درمیان رکاوٹ بنا ہوا تھا، (گاؤں "کوہہ" حمیدیہ اور سوسنگرد کے درمیان واقع ہے)۔ گاؤں "کوہہ" ایک جنگل جس میں آسمانوں سے باتیں کرتے درخت ہیں، کے کنارے اور جنوبی اہواز کے بڑے جنگل کے طول میں واقع ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2281


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔