سردار صیاد شیرازی شہید کی یادداشیں

پہلوی حکومت کے سامنے استقامت و پائیداری!

مترجم: سید مقدس حسین نقوی

2020-8-9


ایک رات جناب کبریتی تشریف لائے بہت ہی پریشانی اور بے چینی  کی حالت میں تھے،جو ان کے ایمان کی شدت کی وجہ سے تھی۔ انھوں نے کہا: صیاد! ایک طرف سے امام نے اپنے اعلانات میں فرمایا ہے کہ یہاں سے فرار کر جائیں۔ اور آپ کہہ رہے ہیں استقامت دکھاؤ اس لیے کہ چھاؤنی میں رہنا ضروری ہے۔  بالآخر ایک دن تو اسلحہ اٹھانا ہی ہے۔ پھر کہا میں نے جنگ کے لئے حکمت عملی تیار کر لی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب فوجی چھاؤنی کی سربراہی میرے ذمہ ہو تو فوجی جوانوں میں سے وہ افراد جن کو میں جانتا ہوں اور جو بہت متقی و مومن ہوں، میں انہیں انتخاب کروں گا اور ان کے ہمراہ نگہبانی کے فرائض انجام دوں گا اور ہم بیس مسلح افراد پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیں گے، فوجی چھاؤنی بھی ہمارے اختیار میں ہوگی اور اس طرح مسلح ہو کر باہر کی طرف حملہ کردیں گے۔

میں نے کہا اس صورت میں دو مشکلات کاسامنا کرنا ہوگا ایک یہ کہ حملہ کرنے کے بعد کس طرف بڑھیں گے ؟ کیونکہ اپنے آپ کو چھپانے کے لئے ایک مخفی گاہ کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ مخفی گاہ پہنچ کر کیا کرنا ہوگا ؟ وہ بھی پریشان تھے اور جب غور کیا تو میری حالت بھی متغیر تھی اور میں بھی ایک خاص اضطراب میں مبتلا ہو چکا  تھا۔

ان ہی حالات میں جناب اقارب پرست شیراز سے تہران منتقل ہوگئے۔ اور وہ شہید کلاہدوز کے رشتہ دار تھے  اقارب پرست کی اہلیہ شہید کلاہدوز کی ہمشیرہ تھیں اور  شہید کلاہدوز کی اہلیہ اقارب پرست کی رشتہ دار تھیں۔

شہید کے گھر والوں کے ساتھ ہماری رفت و آمد اور خاندانی تعلقات قائم ہوگئے۔ ان سے کہا کہ کلاہدوز سے کہیں اصفہان تشریف لائیں؛ ان تک خبر پہنچی۔ یہ دونوں اپنے گھروالوں کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لے آئے۔البتہ ان کے ہمراہ دو افراد اور بھی موجود تھے۔خواتین ایک طرف اور ہم لوگ دوسرے کمرے میں چلے گئے جس میں  میرا کتابخانہ تھا اور ہم نے بحث و گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے قاطعانہ انداز میں اپنی بات دہرائی کہ اب ہمارا کام کیا ہوگا اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ کیا امام نے نہیں کہا کہ چھاؤنی سے فرار کرجاؤ؟ ہمیں کب نکلنا ہوگا؟

وہاں ایک کچھ لوگ ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے  شہید کلاہدوز نے  بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور مجھے اشارے سے کہہ دیا کے میں بعد میں پھر آتا ہوں اور ہم اس موضوع پر بات کرتے ہیں اور پھر یہی ہوا جب یہ سب لوگ جاچکے غالباً ظہر کے بعد کا وقت تھا یا رات کا، کلاہدوز گھر پر تشریف لائے اور انھوں نے  مکمل طور پر تہران میں تنظیمی کاموں کی وضاحت دی۔ بتایا کہ ہم نے وہاں پر ایک مرکزیت تشکیل دی ہے، ایک تنظیم بنائی ہےاور شہنشاہ کا گارڈ (محافظ) ہمارے ہاتھ میں ہے، یعنی سخت ترین حالات میں بھی انقلابی سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں اور اپنے کام کو جاری رکھا جاسکتا ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد نے  ہمارے ساتھ کام کرنے کی حامی بھری ہے لیکن ہم نے سب کو شامل نہیں کیا۔ ہم حالات پر قابو پا رہے ہیں، امام کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور جو پیغام امام کی طرف سے پہنچتا ہے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں لہذا میں جو آپ سے کہہ رہا ہوں غور سے سنیں: ہمارے لئے آخری وقت تک میدان عمل میں رہنا ضروری ہے کیونکہ ہمیں کسی بھی حادثے یا مشکل پیش آنے کی صورت میں آمادہ رہنا ہوگا اور اپنا فرض انجام دینا ہوگا، لیکن اگر فرار کرنا چاہیں تو کوئی صورت نہیں۔ میں ان کی بات سمجھ گیا۔ انھوں نے کہا میں اصفہان میں اپنے ایک رشتہ دار کو تم لوگوں کے درمیان نمائندہ قرار دوں گا۔ تاکہ وہ امام کے تمام اعلانات اور کیسیٹز، وغیرہ تم لوگوں تک پہنچادے۔



 
صارفین کی تعداد: 2360


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔