آیت‌الله عبدالله محمدی کی یادداشتیں

خرم شہر کے پولیس اسٹیشن پر قبضہ

مترجم : زوار حسین

2020-8-9


11 فروری کی صبح حسب معمول میں نماز فجر کے لیے مسجد گیا  اور نماز کے بعد گھر لوٹ آیا۔ میں عام طور پر نماز فجر کے بعد نہیں سوتا تھا۔ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا جب ہمارے گھر کے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا اور دیکھا کہ خرم شہر پولیس کے چیف احمدی کی کال تھی۔

سلام علیک اور خیریت وغیرہ پوچھنے کے بعد مجھ سے اس طرح مخاطب ہوئے : جناب محمدی! پولیس اسٹیشن آپ کے اور دوسرے علماء کے اختیار میں ہے۔ ہم بھی آپ کے تابعدار ہیں۔ میں نے کہا ، "ٹھیک ہے ، میں پولیس اسٹیشن آرہا ہوں۔" پولیس افسر احمدی  نے جامعہ مسجد کے خطیب جناب شبیر خاقانی اور جناب حاج سید محمد تقی موسوی کو بھی فون کردیا تھا اور انھیں بھی اس صورتحال سے آگاہ کردیا تھا۔

اس فون کال کے بعد میں خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔  ناشتہ کرنے کے بعد ، میں خاقانی صاحب کے گھر گیا۔ کچھ اور علماء بھی آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کے گھر میں میٹنگ کی اور آپس میں مشورت کی اور اس موضوع پر بھی بات چیت کی کہ پولیس اسٹیشن جیسے مراکز کو کیسے سنبھالیں۔ ہم نے اس میٹنگ میں کاموں کی تقسیم بندی کی۔

نوری صاحب کو کارگو کی معاملات کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ملی۔ البتہ کسٹم اور اسلحے سے متعلق کوئی خاص مشکل نہیں تھی کیونکہ کارگو میں کام کرنے والے عوامی (انقلاب کے حامی) لوگ ہی تھے لیکن ایک عالم دین کا وہاں ہونا ضروری تھا۔ ایک اور عالم کو جیل کی صورت حال کی جانچ پڑتال اور وہاں کی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی۔ جیل میں اسلحہ اور گولہ بارود وغیرہ موجود تھا۔

ایک اور عالم کو شہر کا ناظم مقرر کیا گیا۔ لیکن سب سے حساس جگہ پولیس فورس تھی، جہاں مجھے جانے کا حکم ملا اور پولیس فورس کو سنبھالنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی۔ پولیس فورس کو سنبھالنے کے لیے پختہ ارادہ اور مضبوط منیجمنٹ کی ضرورت تھی ، لہذا میرے انقلابی پس منظر اور شہر کے اندر میری ذمہ داریاں ایسی رہی تھیں جن کے باعث میں اس قابل تھا کہ میں یہاں کا کنٹرول سنبھال سکوں۔ دوسری طرف  چونکہ ہمارے جوان پولیس فورس کے بارے میں زیادہ فکر مند تھے، اس لئے مجھے اس کی حفاظت کا ذمہ سونپا گیا تھا۔

بہرحال اس نشست کے بعد ، میں پولیس اسٹیشن گیا۔ جب میں پولیس اسٹیشن پہنچا تو میں نے دیکھا کہ بہت سارے نوجوان ، بھائی اور بہنیں تھانے کے سامنے جمع ہوچکے ہیں اور در حقیقت ایک طرح سے  پولیس اسٹیشن کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

احتجاج کرنے والوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ پولیس نے مین گیٹ کو تالا لگا رکھا تھا تاکہ لوگ پولیس اسٹیشن میں داخل نہ ہوں۔ کیونکہ ان میں سے کچھ مظاہرین پولیس اسٹیشن میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو شور شرابا کم ہوگیا اور میں نے ان سے گفتگو کی اور ان سے کہا "پیارے بھائیو! امام (خمینیؒ) کا حکم ہے کہ ہم پرسکون رہیں۔ "ہم ایسا کام نہ کریں جو خون خرابہ کا باعث بنے، سرکاری اموال جو پروردگار کے لطف و کرم سے اب اس تحریک اور انقلاب کا مال ہے ہمیں حتماً اس کی حفاظت کرنی چاہیے"۔ میں نے ان سے کہا: یہاں رش نہ لگائیں مسئلہ حل ہوگیا ہے اور ملت جو کچھ چاہتی تھی وہ خدا کے لطف و کرم اور امام(خمینیؒ) کے با برکت وجود  سے حاصل ہوگیا ہے۔ اگر آپ امام اور انقلاب سے محبت کرتے ہیں تو  جاکر فوجی ٹریننگ حاصل کریں  اور ان کو بتایا کہ فلاں مقام پر ٹریننگ دی جارہی ہے۔

انہوں نے بھی اونچی آواز سے کہا: " محمدی صاحب! ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک آپ اس تھانہ کا کنٹرول نہ سنبھال لیں اور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ نہ لیں کہ پولیس اسٹیشن کی چابی آپ کے ہاتھ میں ہے اور جب تک آپ یہاں ہیں ہم حملہ نہیں کریں گے، آپ اس مسئلہ کو خود حل کریں۔" بہرحال ، وہ لوگ میرے احترام کے قائل تھے۔

میرے عوام سے کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد تھانے کا دروازہ میرے لیے کھول دیا گیا اسی دوران کچھ نوجوان صحن اور تھانے کے اندر داخل ہوگئے۔ میں اندر داخل ہوا اور تھانے کے انچارج احمدی صاحب ، جو بروجرد شہر کے رہنے والے تھے انہوں نے میرا استقبال کیا۔ تمام پولیس آفیسرز ایک کمرے میں جمع تھے اور خوف سے کانپ رہے تھے۔

ہم بیٹھ کر ایک کمرے میں گفتگو کر رہے تھے جہاں ایک پولیس انسپکٹر  اور دو یا تین اعلی پولیس افسران تھے ہماری گفتگو کے درمیان عرب قبائل کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ  جناب شیخ سید ہادی  جس کو جناب شبیر خاقانی نے بھیجا تھا ، داخل ہوا۔ وہ ایک سادہ لوح آدمی تھا اور وہ آسانی سے دھوکا کھا جاتا تھا ، وہ نہیں چاہتا تھا کہ غیر عرب افراد آگے آگے ہوں۔ مجھے یہ پیغام دیا کہ پولیس فورس کو علماء کے حوالے کرنا مناسب نہیں ہے، پولیس اسٹیشن کا کنٹرول سید ہادی کے حوالے کیا جائے۔ لیکن میں نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ خاقانی صاحب کے احترام میں ، اس بات پر آمادہ ہوں کہ ہم دونوں مل کر اس کا انتظام سنبھالیں ، لیکن میں صرف ان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہوں۔

کافی دیر بحث و مباحثہ کے بعد جب ہم اپنی گفتگو کے نقاط لکھنے بیٹھے تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ جوان بلڈنگ کے اندر آگئے ہیں اور دروازہ کے سامنے بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ "ہم اسلحہ کے ڈپو پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں" آبادان میں جوانوں نے اسی طرح کیا تھا اور پھر اس ڈپو کی حفاظت نہیں کرسکے تھے۔ لہذا میں نے جواب دیا :تمہیں اس کام کی اجازت نہیں ہے کیا تم لوگ انقلاب کے حامی نہیں ہو؟

 کیا ہم انقلاب کے نمائندہ نہیں ہیں؟

کیا تم انقلابی جوان نہیں ہو؟

 کیا تم امام (خمینیؒ) کے مقلد نہیں ہو؟

 اگر ایسا ہے تو تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ اسلحے کے ڈپو پر قبضہ کرو اس کے بعد اسلحے کا ڈپو ہمارے کنٹرول میں ہے، میں ابھی قانونی کاروائی مکمل کرکے پولیس اسٹیشن کا چارج سنبھال لوں گا اور یہ کام تکمیل ہے۔"        

میری گفتگو سے وہ لوگ مطمئن ہوگئے۔

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 2255


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔