وہ چیف ایڈیٹر جو استاد تھے

ملیحہ کمال الدین

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2020-6-8


میں خود سے پوچھتی ہوں اگر جناب گوردزیانی ہوتے، کیا وہ لکھتے؟ اگر وہ اس وقت ہوتے اور میں اُن سے لکھنے کی اجازت لیتا، وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہتے جیسے تمہاری مرضی؟ میں نے اتنا سوچا کہ مجھے آیا  وہ خود بھی لوگوں کے لئے لکھتے تھے۔ لیکن اُن کی تحریر کہاں اور میری کہاں!

جب میں نے پہلے دن احد گودر زیانی کو دیکھا، طے یہ تھا کہ میں زبانی تاریخ کی سائٹ کے لئے عربی زبان میں نام اور عناوین لیکر جاؤں تاکہ وہ دیکھیں کہ ترجمہ صحیح ہے یا نہیں۔ ہم سائٹ پر تیسری لینگوئج کا کام شروع کرنا چاہ رہے تھے  جو ملتوی ہوگیا۔ وہ آرٹ گیلری کے تیسرے فلور پر، ایک شیشے کے کمرے میں بیٹھتے تھے جو اُن کی طرح پرسکون اور ساکت تھا۔ انھوں نے خود کو بڑا سمجھے بغیر میری مدد۔ اُس کے بعد میں نے کئی مرتبہ اُن سے رجوع کیا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنی تعریف اور بڑائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ اسی منگل ، ۳ دسمبر تک، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ ہماری ملاقات ٹھہری،  انھوں نے ایک دفعہ بھی اپنی تعریف نہیں کی ۔۔۔

مجھے وہ زمانہ یاد نہیں، لیکن انہیں آرٹ گیلری میں کچھ عرصہ گزر چکا تھا، اُسی مستطیل نما کمرے میں جس کے دو دروازے تھے، وہ زبانی تاریخ کی سائٹ کے لئے خبروں کا تعین کرتے۔ دقت کے ساتھ زبانی  تاریخ کی مختصر و کوتاہ ، ہفتہ بھر کی خبریں مہیا کرتے۔  میں ابھی ان کو نہیں پہچانتی تھی، بس میں خوش تھی کہ بہت زیادہ خبروں کی چیکنگ ہوتی ہے۔  چیف ایڈیٹر بننے کے بعد ان کے پاس اب اس کام کے لئے زیادہ فرصت نہیں رہتی تھی۔ اگرچہ وہ کہتے: "آپ خود اس کام میں ماہر ہیں ۔۔۔" لیکن اُن کے مشوروں کے بغیر کوئی خبر تیار نہیں ہوپاتی۔

میں کئی ہفتوں تک بے چینی کے عالم میں کہتی رہی، فلاں  نمبر کی خبر میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ وہ کہتے: "خبر بن جائے گی۔ آپ کام کے بارے میں اتنی مثبت حس رکھتے ہیں کہ اُس میں برکت ہوجاتی ہے۔ خدا بھی مدد کرتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ہر ہفتہ کو آخری  لمحات میں بن ہی جاتی ہیں ۔۔۔"۔

وہ مجھے شوق دلاتے ۔۔۔ کتاب پڑھنے کا ۔۔۔  ایک بات کو کئی دفعہ پڑھنے کا ۔۔۔ مضطرب نہ ہونے کا ۔۔۔ وہ کہا کرتے ہر جگہ اسی طرح ہے۔ اب کسی کے پاس لکھنے کا حوصلہ نہیں ہے ۔۔۔

اگر کسی وقت کسی کام میں جھول نظر آرہا ہوتا، میں اُن کے کمرے میں چلی جاتی اور پرسکون واپس آتا۔ جن دنوں میں تھکا ہوتا، اُن کے پاس نہیں جا پاتا، وہ ٹیلی فون کرتے: "کچھ دیر کے لئے میرے پاس آؤ گے کہ میں اس بات کی وضاحت کردوں"؟

میں نے جناب گودرزیانی سے سلام کے جواب میں یہ کہنا سیکھ لیا تھا: "سلام اور آپ پر درود ہو"۔ جب میں اُن کے کمرے میں ہوتی، اگر کسی کا فون آتا تو وہ کہتے: "خدا تمہیں اپنی امان میں رکھے"۔

اس سال کےشروع کی بات تھی۔ انھوں نے آپس میں ہونے والی گفتگو کے دوران کہا، میں ہر میسج کا جواب دیتا ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے اخلاق کے بارے میں جانتے تھے۔  کام میں ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ہم نے ہم آہنگی نہ کی ہو۔ جب سے وہ موجود نہیں ہیں اس سے ایک ہفتہ پہلے، میں نے کہا آپ کبھی بھی میرے ساتھ چیف ایڈیٹر والا رویہ اختیار نہیں کرتے؛  کبھی بھی مجھ پر کوئی کام مسلط نہیں کرتے۔ آپ کا رویہ اس طرح ہوتا ہے کہ میں خود پوچھوں اور بہترین طریقہ سے کام کو انجام دوں۔ انھوں نے کہا چونکہ تمہیں خود کام کرنا آتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے مجھے بچپن کا یہ شعر یاد آگیا: استاد کا پڑھانا محبت کے زمزمے کی طرح تھا، اسکول سے فرار کرنے والا بچہ جمعہ کے دن بھی اسکول آگیا۔

وہ کہا کرتے کہہ دو کہ خبر کو ابھی شائع نہ کریں، لکھ لیں۔ کوئی بات جب تک تحریر کی صورت میں نہ آجائے، بالکل ایسے ہی جیسے وجود نہیں رکھتی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا۔ وہ کتنا کہا کرتے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ بہت جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔۔۔

میں ہر چیز کو لکھ لیتی۔ لیکن کچھ چیزوں کو اپنے ذہن میں حفظ کرلیتی۔ وہ کہتے کہ چھوٹی سی چھوٹی بات کو بھی لکھ لو۔ ایک جدول بنالو۔  جس طرح بھی ہو تاریخ کے ساتھ لکھو۔ اس بات کی گواہ اُن کے مانیٹر پر لگی تصویر تھی: "اگر میں کوئی بات نہیں  لکھوںوہ میرے اندر رہ جاتی ہے  اور ہر لحظہ مجھے کسی اور طرف لے جاتی ہے۔ 

احد گودرزیانی ایک آزاد انسان تھے۔

افسوس کہ میں انہیں پہچان نہ سکا!



 
صارفین کی تعداد: 2147


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔