یادوں بھری رات کا۳۰۷ واں پروگرام – تیسرا حصہ

سن ۱۹۸۳ء میں ہماری ڈیوٹی

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-4-18


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۷  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۴  اکتوبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں امیر حبیبی، محمد غلام حسینی اور عطاء اللہ محبی نامی پائلٹوں  نے عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا ۔

آپ نے اس رپورٹ کے پچھلے حصے میں، پائلٹ بریگیڈیئر محمد غلام حسینی کے بیان کردہ واقعات کے پہلے حصہ کو پڑھ لیا۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "سن ۱۹۸۳ء میں ہمیں ایسی ڈیوٹی ملی تھی جو دوسرے و الفجر آپریشن  سے شروع ہوئی تھی ہمدان  کے بیس پرڈیوٹی تھی کہ اُس علاقے کو فضائی کوریج فراہم کریں، اس کے علاوہ ہمیں برّی افواج کو بھی کوریج دینی ہوتی تھی۔ جیسا کہ ہماری ڈیوٹی جمعہ کے دن تھی، ہم ہمدان میں نماز جمعہ کی فکر میں بھی تھے۔ چونکہ اُس سے پہلے ہمدان میں نماز جمعہ پر حملہ ہوچکا تھا اور دشمن نے اُس شہر کے نمازیوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ ہمارا صبح گیارہ بجے پرواز کرنا طے تھا۔ طیاروں کو ایندھن دینے کے لیے علاقے میں ایندھن سپلائی کرنے والے ہوائی جہاز ٹینکر کا حاضر ہونا بھی  طے تھا۔ ہمارے دوست جناب محمود انصاری اوپر تھے۔ انھوں نے فون کرکے کہا: ایندھن سپلائی کرنے والا ہوائی جہاز ٹینکر نہیں ہے۔ آپ لوگ جلدی اوپر آئیں  کہ ہمارا ایندھن ختم ہوچکا ہے۔

ہم جب تک خود کو تیار کرتے اور اپنے کاموں کو انجام دیتے، محمود آگیا تھا اور زمین پر لینڈ کرچکا تھا۔ ہم جلدی سے گئے، ہم نے طیارے کو لیا اور Take off  کر گئے اور اوپر چلے گئے۔ تقریباً بیس منٹ تک ہم نے ہمدان کے اطراف میں چکر لگائے اور سنندج اور مہاباد کی طرف کے علاقوں کو کور کیا۔ جب ہم کرمانشاہ کی طرف واپس پلٹے، زمینی ریڈار نے اطلاع دی کہ دو طیارے ایران کی طرف آ رہے ہیں۔ ہم نے فوراً چکر کاٹا اور اُن کی بلندی معلوم کی۔ ہم نے ریڈار پر اُنہیں ڈھونڈ لیا۔ میں نے دیکھا کہ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر، وہ بلندی جس پر ہم پرواز کر رہے تھے، ایران کی طرف بڑھے چلے آرہے ہیں۔ ہماراً فاصلہ تقریباً ۷۵ میل تھا۔ زیادہ فاصلہ تھا۔ آہستہ آہستہ  ایک دوسرے سے نزدیک ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق کے میراژ طیارے بھی میدان کار زار میں  وارد ہوگئے تھے۔ میراژ طیارہ  سوپرمیٹرا نامی میزائلوں کو حمل کرتا تھا۔ یہ میزائل بہت ہوشیار تھے۔ ہم جس ریڈار کی فریکوئنسی بھیجتے تھے اُنہیں ٹریک کر لیتے تھے۔ یہ میزائل زیادہ تر طیارے کے اگلے پر پر لگتا تھا۔

ہم آہستہ آہستہ اُن کے نزدیک ہوگئے۔ زمینی ریڈار مسلسل ہمیں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ طیارے میں ایک ایسا سسٹم بھی ہوتا ہے جو دوسرے طیارے کے ریڈار کو دکھاتا ہے اور یہ کہ کیا دوسرا طیارہ کسی دوسری سمت ہیں کہ وہ ہمارے نزدیک آئے گا یا نہیں، لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔ بالآخر ہم اُن دو طیاروں سے درگیر ہوگئے۔ ہم نے پہلے طیارے کو M7 میزائل سے مار گرایا۔ زمینی ریڈار نے اطلاع دی کہ اُن میں سے ایک مارا گیا ہے، دوسرے طیارے سے مقابلہ کرنے کے لیے بہت تیزی کے ساتھ دائیں طرف چکر کاٹیں۔ زمینی ریڈاراسی طرح دوسرے طیارے کے بارے میں معلومات دے رہا تھا کہ اچانک اُس  نے کہا: فوراً چکر کاٹ لیں اور اپنی بلندی  کو نیچے لے آئیں! نیچے سے دو طیارے آپ کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔

دشمن نے اس کے بعد کہ وہ ان میراژ طیاروں کو لایا ہوا تھا اور علاقے میں امریکی آواکس طیارے بھی موجود تھے، دو طیاروں کو شکار کے طور پر قرار دیتا اور دو تین طیاروں کو خاموش ریڈار کے ساتھ، آواکس طیاروں کے زیر نظر علاقے میں بھیجتا۔ جب وہ حملہ کرنے کی حالت میں ہوتے، اپنے ریڈاروں کو آن کرلیتے تھے کہ اُس وقت تک کافی وقت نکل ہوچکا تھا اور دیر ہوچکی ہوتی تھی۔ میں نے سعید ہادی مقدم سے کہا: بائیں طرف چکر کاٹ کر نیچے کی طرف جاؤ۔

ہم جب تک چکر کاٹ کر  اور ڈوبکی لگانے کے انداز میں طیارے کو نیچے  کی طرف لاتے، طیارے کے اگلے حصے پر ایک میزائل لگا۔ سعید ایسے پائلٹوں میں سے تھا کہ  جس نے ۱۴۰ طیاروں کی ٹولی کے ساتھ پرواز کرکے جنگ کی ابتداء میں شرکت کی تھی اور متاسفانہ وہ کیبن میں شہید ہوگیا۔ طیارے کو آگ لگ گئی اور اس نے  قلا بازیاں  کھانا شروع کردیں۔ میزائل لگنے کی وجہ سے دھماکے کی لہر اس حد تک تھی کہ میں چند لمحوں کے لیے کبین میں بیہوش پڑا رہا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا  طیارہ بری طرح سے گر رہا ہے۔ کیبن میں دھواں اور آگ لگی ہوئی تھی۔ میں نے چند بار سعید کو پکارا، میں نے دیکھا کہ وہ جواب نہیں دے رہا۔ طیارہ ایسی حالت میں تھا جو اندر موجود پائلٹ پر بہت دباؤ ڈال رہا تھا۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ میں بالکل بھی خود کنٹرول نہیں کرسکا۔ طیارے سے کودنا یا ایجکٹ کرنا یا کوئی بھی دوسرا کام میرے میں ذہن میں نہیں تھا۔ ہر چیز کا کنٹرول ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ طیارے کی کرسی کو اڑانے والے سسٹم میں کرسی کے اوپر دو دستے ہوتے ہیں  اور دو دستے پائلٹ کے دونوں پاؤں کے درمیان ہوتے ہیں۔ جب طیارے  کا دباؤ مجھے اوپر اور نیچے کر رہا تھا، میں ایک حالت میں جمع ہوگیا اور نیچے آگیا اور اُن دستوں پر میری نگاہ پڑی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اُنہیں پکڑلیا۔  جب ہوا کا دباؤ مجھے اوپر لے گیا، وہ دستے خود بخود کھنچ گئے۔ کرسی کو اُڑانے والے سسٹم کا کرسی پر دباؤ زیادہ ہوتا ہےاور اس کی وجہ سے میں دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔ جیسا کہ طیارے کو میزائل لگا تھا، اوپر کی طرف چند ہزار فٹ تک اچھلا تھا۔ تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی پر میں بہت زیادہ رفتار کے ساتھ  باہر نکلا۔ جب کرسی کھلتی ہے اور کیبن سے باہر آتی ہے، کرسی پر ایک ڈیجیٹل سسٹم ہوتا ہے کہ پیراشوٹ فوراً ہی نہ کھل جائے۔ چونکہ زیادہ بلندی پر آکسیجن نہیں ہوتی اور موسم بھی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ بلندی کی بنیاد پر کچھ سینسروں کو سیٹ کر دیتے ہیں؛ اگر اُس علاقے کی بلند ترین بلندی بارہ ہزار فٹ ہو، اُسے چودہ یا پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر سیٹ کردیتے ہیں۔ کرسی نے نیچے گرنا شروع کیا۔ میں بھی اِدھر اُدھر ہاتھ ما ر رہا تھا کہ دیکھوں پیراشوٹ میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے کہ کھلا یا نہیں؟ میں پیراشوٹ کو ہاتھ سے کھولنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ میں نے ہر جگہ ہاتھ مارا ، حتی میں نے اپنا لباس بھی پھاڑ لیا تھا۔ کرسی کا پیراشوٹ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر کھل گیا۔ فرض کریں کرسی اُس وزن اور پائلٹ کے ساتھ تیزی سے نیچے کی طرف آرہی ہو اور اچانک اُس کی رفتار صفر ہوجائے ۔ جس وقت پیراشوٹ کھلا، میری ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ کر باہر نکل آئی۔ جب میں پیراشوٹ میں لٹکا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ میرا بایاں ہاتھ نہیں ہے اور بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہااب تو وہ الگ ہوچکا ہے!

ہوا اس کے بجائے کہ پیرا شوٹ کو نیچے لائے، اس بات کا سبب بنی ہوئی تھی کہ وہ زیادہ تر افقی حالت میں حرکت کرے۔ میں عراقی سرحد سے کنارہ کشی کر رہا تھا اور ایران کے اندر آرہا تھا۔ میری آنکھیں کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھیں۔ میری پلکیں اکھڑ چکی تھیں اور خون میری آنکھوں میں آرہا تھا۔ میں نے ایک ہاتھ سے اپنے سر سے ہیلمٹ اتارا تاکہ خون کو صاف کروں۔ خون کو صاف کرتے ہی مجھے صاف دکھائی دینے لگا۔ میں نے دیکھا کہ میں جس علاقے میں اتر رہا ہوں، وہ بہت ہی پیچیدہ اور کوہستانی علاقہ ہے۔ میں نے اپنا ہیلمٹ اتار لیا تھا اب میں اسے دوبارہ نہیں پہن سکتا تھا۔ چونکہ مجھے دونوں ہاتھوں سے اُسے کھولنا ہوتا اور پھر اپنے سر پر رکھنا ہوتا۔ پیراشوٹ  بہت آرام سے پہاڑ کی چوٹیوں کے اوپر سے گزر گیااور میرا اس پر بالکل بھی کنٹرول نہیں تھا۔تقریباً بیس سے تیس میٹر کے فاصلے پر لگے چوپانوں کے خیمے  کے اوپر سے گزرا اور جب پیراشوٹ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزرا، جیسا کہ وہاں پر ہوا کبھی بہت تیز ہوجاتی تھی اور کبھی بہت کم، اچانک سے پورا پیرا شوٹ لپٹ گیا اور اُس نے مجھے بیس سے پچیس میٹر کی بلندی پر زور سے ایک پہاڑ سے ٹکرایا۔ میرے سارے دانت ٹونٹ گئے اور میرا دایاں پاؤں چکنا چور ہوگیا۔ میرا بایاں پیر بھی کیبن میں ٹوٹ چکا تھا۔ جب میں وہاں گرا تھا، میری دیوانوں جیسی حالت ہوگئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کردی لباس میں آیا ہے، لیکن وہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر آکر کھڑا ہوگیا۔ پھر احتیاط سے آگے آیا اور میری تلاشی لی کہ کہیں میرا پاس کوئی اسلحہ تو نہیں ہے؟ جب وہ مطمئن ہوگیا کہ میرے پاس اسلحہ نہیں ہے، اُس نے میرے سر کو پتھر سے اٹھا کر اپنے پیر پر رکھ لیا۔ دس منٹ بعد کچھ لوگ اسلحہ کے ساتھ پہنچ گئے۔ جب میں اوپر پیراشوٹ کے ذریعے آرہا تھا، یہ نیچے سے میرے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ وہ پائلٹ کے مخصوص سامان کو الگ کرنا چاہ رہے تھے اور انہیں یہ کام کرنا نہیں آتا تھا۔ وہ مجھے پہاڑوں سے نکال کر اوپر لانا چاہتے تھے۔ میرا پورا جسم ٹوٹ چکا  تھا۔ میرے دائیں پیر کے ران کی ہڈی آٹھ جگہوں سے ٹوٹ گئی تھی اور گوشت چیر کے باہر آگئی تھی۔ میری ہنسلی کی ہڈی باہر نکل چکی تھی۔ میرے گھٹنے کی ہڈی اکھڑ گئی تھی۔ میری گردن ٹوٹ گئی تھی۔ یہ ساری چیزیں ہوچکی تھیں اور یہ لوگ چاہ رہے تھے مجھے گود میں اٹھا کر اوپر لے جائیں۔ مسلسل مجھے کندھے پر ڈال رہے تھے، دس بیس قدم اوپر چڑھتے، پھر مجھے زمین پر رکھ دیتے پھر کندھے پر ڈال لیتے۔ یہاں تک کہ مجھے ایک خیمے کے نزدیک لے گئے، میں نے دیکھا کہ ایک شخص کردی لباس میں آیا ہے اور اُس نے کہا: اُسے زمین پر ڈال دو، میں  اُسے مارنا چاہتا ہوں!

ہماری بولیاں تقریباً ایک جیسی تھیں۔ میری زبان لُری  اور اُن کی کردی تھی۔ دونوں بولیاں ملتی جلتی ہیں۔ دو لوگوں نے چھلانگ لگائی اور اُس سے اسلحہ لے لیا اور کہا: تمہیں اُسے قتل کرنے کا حق نہیں ہے، ہیڈ کوارٹر کو حکم دینا چاہیے۔ جب میں نے اُس اسلحہ کو دیکھا تو پھر میرا منہ کھلا۔ جس نے مجھے اپنے کندھوں پر ڈالا ہوا تھا، میں نے اُس سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں کہاں ہوں؟ وہ بولا: تم اس وقت کردستان میں ہو۔ میں نے پوچھا: ایران کا کردستان یا عراق؟ اُس نے کہا: کردستان! میں نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کون سے شہر کے قریب ہیں؟ اُس نے کہا: مہا باد کے قریب۔  میں نے کہا: اچھا میں اپنے ہی ملک میں ہوں اور اس میں تو خوش آمدید کی بات نہیں! اُس نے کہا: تم اس وقت کردستان آئے ہو اور ہمیں تم سے بہت کام ہے پائلٹ! مجھے ایک خیمے میں لٹا دیا گیا اور دس منٹ بعد گھوڑوں کے ذریعے اُن کے مسئولین وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا: اپنا تعارف کرواؤ۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ اُن میں ایک شخص ایسا تھا جو بہت زیادہ منفی سوچ رکھتا تھا۔ اُس نے کہا: یہ اُنہی پائلٹوں میں سے ہے جو یہاں آکر کردیوں پر بمباری کرتا ہے! میں نے کہا: میں کردیوں کیلئے نہیں آیا ہوں، میں عراق پر بمباری کرنے آیا ہوں۔ اُس نے کہا: اچھا ابھی پتہ چل جائے گا۔ اُس  نے دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ میرے ہاتھ سے بہت خون بہہ رہا تھا۔ وہ کئی بار استعمال ہونے والے پرانے انجکشن لائے اور ایک انجکشن لگا دیا اور کہا: جاؤ جاکر ڈاکٹر کو لے آؤ۔ جناب حمزہ آریا جو اُس زمانے میں جوان تھے، وہ گئے اور تقریباً دو دن بعد کہا: ڈاکٹر آرہا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر کو لیکر آئے تو میں نے دیکھا محلہ کا ایک ہڈی جوڑنے والا اٹھا کر لے آئے ہیں  کہ جس کی ایک طرف ریوالور اور دوسری طرف ایک ہینڈ گرنیڈ لٹکا ہوا تھا۔ وہ تھکا ہارا آیا اور خیمے کے بیچ میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک سگریٹ چلائی اور کہا: یہاں سے عورتوں اور بچوں کو باہر نکال دو۔ عورتوں اور بچوں کو باہر بھیج دیا۔ اُس نے ایک کپ چائے پی اور میرے پاس آکر میرے سر اور گردن پر ایک ہاتھ پھیر کر کہا: اس میں تو بہت کام ہے۔ اُس نے کہا: جاکر گتے ، لکڑیاں اور خالی بوتل لیکر آؤ۔ وہ اپنے ساتھ بھی کچھ مواد جیسے انڈے کی زردی لایا  تھا۔ پٹرول کی ایک بوتل خالی کرکے اُسے دیدی۔ اُس شخص نے مجھ سے کہا: ایک لمبی سانس کھینچو اور اس بوتل میں پھونک مارو۔ میری پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں اور میں سانس نہیں لے سکتا تھا۔ میں نے تھوڑا سا پھونکا۔ اُس نے کہا: تمہیں گہری سانس لینی چاہیے تاکہ تمہارے پھیپھڑوں میں ہوا بھر جائے۔ دوبارہ  نہیں کرسکا۔ اُس نے ریوالور تان کر میری کنپٹی پر رکھا اور کہا: میں تم سے کہہ رہا ہوں ایک گہری سانس لو! میں نے اس ریوالور کے خوف سے ایک گہری سانس لی اور گوشت سے باہر نکلی ہوئی ایک ہڈی اپنی جگہ پر چلی گئی؛ چونکہ جب پھیپھڑا کھلتا ہے، یہ ہڈیاں کھنچ جاتی ہیں۔ اُس نے اُس کو جگہ پر بٹھایا اور اُس پر کچھ دوائی لگائی۔ میرا بایاں ہاتھ ٹوٹی حالت میں اور سوجھا ہوا تھا۔ اُسے پتہ تھا کہ میرا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے، لیکن وہ ٹوٹنے کی جگہ کو مشخص نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ میرے ہاتھ کو کھینچ رہا تھا اور میں چیخنا چاہ رہا تھا، لیکن دو لوگوں نے میرے جبڑے اور دو لوگوں نے میری ٹانگوں کو پکڑا ہوا تھا اور مجھے ہلنے نہیں دے رہے تھے۔ اور وہ بھی جتنا ہو رہا تھا دباؤ ڈال رہا تھا تاکہ اُسے جگہ پر بٹھا دے۔

خود ان کے بقول کہ ہڈیاں اپنی جگہ پر بیٹھ گئی ہیں اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا،  حالانکہ بالکل بھی اپنی جگہ پر نہیں بیٹھی تھیں۔ انھوں نے اپنی کمر باندھنے والی شال  کے ساتھ پٹی کی طرح کا ایک کپڑا بنایا اور اُس کے گرد لپیٹ دیا۔ اُن کی پاس صاف ستھری کوئی بھی چیز نہیں تھی اور میری چاروں طرف اتنے کاغذ کے گتے  لگا دیئے تھے کہ وہاں پر میرا نام "ممد گتے" رکھ دیا تھا۔ میرے دائیں ہاتھ کے علاوہ میرا پورا جسم گتوں میں لپٹا ہوا تھا۔ میں تقریباً بیس دنوں تک وہاں  رہا تھا۔ اُس کے بعد مجھے لمونج گاؤں کے نزدیک ایک جگہ لے گئے۔ البتہ مجھے اس زمانے میں نہیں پتہ تھا کہ اس گاؤں کا نام یہ ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے جاکر ہم نے اُس جگہ کو دیکھا۔ میرے والد صاحب کو ڈیڑھ مہینے بعد پتہ چلا کہ میں زندہ ہوں۔ وہ تین مہینے بعد کردستان بھی آئے اور کردستان کی ڈیموکریٹک  پارٹی سے بات چیت کی۔ طے پایا کہ میں کچھ صحت مند ہوجاؤں تو پھر یہ مجھے آزاد کردیں گے، لیکن میں ٹھیک نہیں ہوا اور فوج اور سپاہ نے بھی کچھ حملات کئے تھے۔ خزاں کا موسم آگیا، بہت سردی تھی  اور برف باری ہو رہی تھی، اُن کے پاس مجھے رکھنے کی جگہ نہیں تھی وہ مجھے آزاد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مجھے اور آیت اللہ موسوی اردبیلی کے بھانجے کو آزاد کردیا اور اُس کے بدلے میں اپنے چار قیدیوں کو آزاد کروالیا۔"

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2320


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔