قذافی، قابل بھروسہ نہیں!

مترجم: ضمیر رضوی

2020-3-14


اس وقت(سن 1979 میں) امام خمینی (ره) کی سکونت کے حوالے سے درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ عام طور پر فرانس کا ویزا تین ماه کا تھا اور فرانس کے ایران کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان تھا کہ فرانس، شاه کی حکومت کے دباؤ میں آکر امام کی تین ماه سکونت پوری ہونے کے بعد ان کے فرانس میں رہنے پر راضی نہ ہو۔ اسی بنا پر، ہم نے سوچا کہ ہم بعض ممالک کے سربراہان۔۔۔ سے مذاکرات کریں تاکہ اگر فرانس امام کے روانگی کے لئے دباؤ ڈالے تو امام اس ملک سے ہجرت کرلیں۔

اسی وقت طے پایا کہ میں اور غرضی صاحب بھی لیبیا جائیں اور قذافی کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات شروع کریں۔ اسی لئے ہم نے پیرس میں قائم لیبیا کے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور اس کے بعد ہم نے اپنے ذرائع کے ذریعے لیبیا کے وزیر خارجہ سے رابطہ کیا اور پہلے سے ہم آہنگی کرکے لیبیا روانہ ہوگئے۔ ہم نے پہلے وہاں اس وقت کے وزیر خارجہ احمد شحاط  سے ملاقات کی اور اس کے بعد طے پایا که ہماری قذافی سے ملاقات ہوگی۔ تقریباً  آٹھ دن ہم وہاں رہے۔ جب ہم نے دیکھا کہ ملاقات کے سلسلے میں۔۔۔ وه ہمیں جھوٹے وعدے دے رہے ہیں اور آج کل آج کل کر  کے ٹال رہے ہیں، ہم سمجھ گئے کہ ہمارے رکنے کا کوئی فائده نہیں اور اس طرح سے ہم صرف اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔  جب ہم ایئرپورٹ گئے تو ہم سے کہا گیا کہ قذافی نے ملاقات کا وقت دے دیا ہے...  ہم ڈر گئے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایئرپورٹ سے واپسی کے راستے میں ہمارا کام تمام کردیا جائے کیونکہ ہم پہلے سے ہی امام موسی صدر کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے حکومت لیبیا سے بدگمان تھے۔

بہرحال ہم واپس آئے اور وه ہمیں سیدھا قذافی کے محل لے گئے۔ محل ایک چھاؤنی میں قائم تھا ...  جیسے ہی ہم محل میں داخل ہوئے تو وه فوراً ہی میٹنگ روم میں آگیا۔  ہم نے اسے بتایا کہ امام ایک ممتاز اسلامی شخصیت ہیں جو شاه سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ فرانسیسی حکومت، سکونت کے تین ماه کے اختتام پر ان کے ملک سے نکلنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ اگر آپ راضی ہوں تو وه لیبیا آجائیں اور یہاں سکونت اختیار کرلیں۔ قذافی... نے کہا: "میں ہر طرح کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں... "

ہم قذافی کے رویے سے خوش ہوئے اور فوراً پیرس لوٹ آئے۔

پیرس میں، اسی چھوٹے سے کمرے میں جہاں امام کی رہائش تھی ان کے پاس پہنچے، سفر کی تفصیلات اور قذافی سے ہونے والی گفتگو کو ان کی خدمت میں عرض کیا۔  ہماری توقع کے برعکس کہ ہم سوچ رہے تھے کہ امام خوش ہوں گے، انھوں نے کچھ سوچا اور فرمایا:"قذافی قابل بھروسہ نہیں" اور ایک جملہ مزید فرمایا جو مجھے ٹحیک سے یاد نہیں لیکن اس کا مفہوم یہ تھا کہ قذافی کی رسی کے ساتھ کنویں  میں نہیں اترا جاسکتا۔

خوش قسمتی سے لڑائی کی تحریک کی عروج پذیری اور اس اثر و رسوخ کی وجہ سے جو امام نے حاصل کیا تھا۔ فرانس کے حکام  نے امام کی سکونت کی توسیع کا معاملہ نہیں اٹھایا۔



 
صارفین کی تعداد: 2221


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔