یادوں بھری رات کا۳۰۶ واں پروگرام – تیسرا حصہ

افغان شہداء کے مزاروں کی جستجو میں قدم بہ قدم

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-3-12


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۶  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۶ ستمبر۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں علی سید ناصری، سرباز روح اللہ رضوی اور محمد سرور رجائی نے کشمیر اور افغانستان میں انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کے بارے میں بتایا۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۶ ویں پروگرام کے میزبان داؤد صالِحی نے تیسرے راوی کے بیان سے پہلے اُن کے بارے میں کہا: " ۱۹ اگست ۱۹۶۸ء کو کابل میں پیدا ہوئے۔ وہ ۲۶ سال افغانستان میں رہے اور سن ۱۹۹۴ء میں کچھ کام کیلئے ایران آتے ہیں۔ اُسی موقع پر افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوجاتا ہے اور وہ ایران میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ جن سالوں میں ایران میں رہے، شروع میں یونیورسٹی کی اشاعت سے مربوط رہے اور وہاں کام کرتے رہے اور پھر سنجیدہ طور پر ہنر اور ثقافت کی وادی میں قدم رکھ دیا۔ اُن کا ان سالوں میں ثقافت و ادب سے وابستہ رہنے کا ثمر، پانچ کتابیں ہیں۔ ان پانچ کتابوں میں سے تین  داستان کی کتابیں ہیں جو خود افغانستان میں شائع ہوئیں اور ان کی دو دیگر کتابیں ہیں  کہ پہلی کتاب کا عنوان "در آغوش قلب ھا" خاص طور سے افغانیوں کیلئے ہے کہ جس میں انھوں نے امام خمینی ؒ سے عشق و محبت کے اظہار میں اشعار  اور واقعات تحریر کئے ہیں اور دوسری کتاب  کا نام "از دشت لیلی تا جزیرہ مجنون" ہے۔جو نکتہ اہم ہے، یہ ہے کہ انھوں نے کوشش کی ہے  ایسے ناشناختہ افراد کی معلومات حاصل کریں جو ایران میں پیدا ہوئے، ایرانی تھے اور وہ افغانستان کا دفاع کرنے گئے اور وہیں پر شہید ہوگئے اور ہمیں اُن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، یا ایسے افغانی افراد جو دفاع مقدس میں ایرانیوں کے ہمراہ تھے، شہید ، اسیر یا معذور ہوگئے ؛ اگر وہ زندہ ہیں تو خود اُن کے ساتھ بات چیت کی جائے ورنہ اُن کے گھر والوں کےساتھ۔ انھوں نے یہ ساری باتیں اس کتاب میں جمع کی ہیں اور وہ ہمیں ان ناشناختہ افراد  کی پہچان کروانا چاہتے ہیں۔ جس نکتہ پر وہ تاکید کرتے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہم دفاع مقدس کو ایرانی عوام کا اپنے ملک کا دفاع کرنا سمجھیں  تو ہم نے دفاع مقدس کے دائرے کو چھوٹا کردیا ہے۔ دفاع مقدس ایران اور ایک قوم سے بڑھ کر ہے؛ انقلاب کی اقدار کا دفاع، فقہ جعفری اور دین اسلام  کا دفاع ، یہ ایک عالمی حادثہ ہے کہ اس کی حفاظت کیلئے سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دفاع مقدس میں ہمیں شام، بحرین، پاکستان اور فرانس کے افراد نظر آتے ہیں۔ ہر آزادی طلب انسان جب اس واقعہ کی طرف متوجہ ہوا، وہ دفاع کیلئے آیا اور یہی وہ  اصل بات ہے جسے محمد سرور رجائی بیان کرنا چاہتے ہیں۔"

پھر یادوں بھری رات کے ۳۰۶ ویں پروگرام کے تیسرے راوی نے کہا: "جب میں ۹ یا دس سال کا تھا اور روسیوں نے افغانستان پر حملہ کیا ہوا تھا، ایک رات میرے والد نے اپنے ٹوٹے ہوئے ریڈیو کو اپنے کان کے قریب لگایا اور کہا: پرسکون رہو۔ ہم نے باہر کی دنیا سے غافل ہوکر اپنے شور شرابے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اچانک میرے والد صاحب خوشی سے چلائے: امام خمینی  ؒ کا لشکر کامیاب ہوگیا، خرم شہر آزاد ہوگیا۔ میرے والد صاحب نے یہ بات بہت ہی خوشی کے ساتھ اور جھومتے ہوئے کہی۔ میرے والد اس وقت اس پروگرام میں موجود ہیں لیکن شاید انہیں یہ واقعہ یاد نہ ہو۔ یہ واقعہ میں نے اپنے والد صاحب کی وجہ سے سنایا ہے۔

سن ۱۹۷۹ء، جس رات کابل میں افغانستان کے لوگوں کا روس کے خلاف قیام علی الاعلان ہوا، عوام بہت ہی شدید اعتراض کرنا چاہتی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ کابل کی حکومت کو گرا دے۔ ایک ہفتہ پہلے سے پروگرام کو ترتیب دے لیا گیا تھا۔ مسلمان دلاوروں نے پوسٹرز تقسیم کردیئے تھے کہ ۲۲ فروری ۱۹۷۹ء  کی رات افغانستان کے تمام مسلمان چھتوں پر آجائیں اور تکبیر بلند کرکے اپنے اعتراض کا مظاہرہ کریں اور اگلے دن صبح حکومت کے خلاف قیام کریں  اور پہلے مرحلے میں اپنے محلے کی چیک پوسٹ پر قبضہ کریں یہاں تک کہ صدر ہاؤس تک پہنچ جائیں۔ مجھے  یاد ہے وہ رات، بہت ہی ٹھنڈی رات تھی۔ برف باری ہو رہی تھی۔ ہم چھتوں پر چڑھے ہوئے تھے اور مسلسل اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا، بہت سردی تھی۔ آہستہ آہستہ آوازیں دھیمی ہوتی چلی گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اب کسی میں اللہ اکبر کہنے کی طاقت نہیں رہی۔ اُس زمانے میں مشہد ریڈیو کا چینل رات کو  پونے دس بجے افغانستان کیلئے ۱۵ منٹ کا پروگرام چلاتا تھا۔ نہیں معلوم کس کے ذہن کی کارستانی تھی کہ ریڈیو سے جوش دلانے والا ترانہ نشر ہوا ، لوگ دوبارہ جھوم اُٹھے اور جوش میں آگئے اور کئی گھنٹوں تک اللہ اکبر کہتے رہے۔ اگلے دن صبح جن ذمہ دار افراد نے پروگرام کو منظم کیا تھا، وہ پیچھے سے راہنمائی کر رہے تھے، میری ڈیوٹی لگائی تھی کہ میں نزدیک یا دور کی دکانوں سے جتنا بھی شکر، سرف اور صابن ملے ، میں خرید کر لے آؤں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اُن کا کیا کرنا ہے۔ میں گیا اور جاکر ان چیزوں کو لے آیا۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو ہمارے ہی گھر میں آلو کے کباب بنا رہے ہیں۔ جب قیام شروع ہوا، افغانیوں کے تقریباً ہزار سے زیادہ افراد شہید  ہوئے اور قیام کو سرکوب کردیا گیا۔ مجھے اس وقت اس بات کا افسوس ہے کہ اُس زمانے کا کوئی واقع ریکارڈ نہیں ہوا ہے۔ کوئی بھی ثقافتی ذمہ دار اُس دن کے قیام کی فکر میں نہیں ہے۔

سن ۱۹۸۱ء اور  ۱۹۸۲ء میں ایران میں چھپنے والا جہادی میگزین مخفیانہ طور پر ہمارے پاس  پہنچتا تھا۔ پہلی مرتبہ مجھے اُس میں حسین بخش جعفری کا نام نظر آیا۔  وہ مرکزی علاقوں کے اطراف  میں موجود کسی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے اور ایران کے شہر بستان میں شہید ہوئے تھے۔ بعد والے میگزین میں بھی مجھے ایک شہید کا نام نظر  آیا جو قم میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں افغانستان کے شہر ہرات میں جام شہادت نوش کیا تھا۔ اسی طرح شہید کربلائی ابو الفضل پوریزدی کہ جن کی نماز جنازہ عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ سے پہلے ہوئی تھی۔ مجاہدوں کے انچارج بتاتے ہیں: جب کربلائی ابو الفضل پور یزدی کا جنازہ قم پہنچا، ہم پریشان تھے کہ کس طرح لوگوں کو بتائیں۔ اگر یہ بات آشکار ہوگئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ قم کے رہنے والے افغان مہاجرین پر حملہ کردیں  کہ تم  لوگ ہمارے بچے کو لے گئے اور اُسے مار ڈالا اور پھر واپس کر دیا؟ شہید کا جنازہ شاہراہ صفائیہ کی ایک مسجد میں تھا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ تشییع جنازہ کے لئے لوگوں کا ایک جمع غفیر آیا ہوا تھا کہ اچانک لوگوں میں سے دو خواتین اٹھیں اور انھوں نے جرائت کے ساتھ نعرہ لگایا: "افغانی، ایرانی، تمہارا ملاپ مبارک ہو۔"اس نعرے کی وجہ سے ہم شہید کے جنازے کو شیخان قبرستان لے جانے میں کامیاب ہوئے اور وہاں پر انہیں دفن کردیا۔

اس طرف سے بہت سے افغانستانی دفاع مقدس میں شہید ہوئے ہیں کہ ان سالوں میں کسی نے اُن  پر توجہ نہیں کی ہے۔ "از دشت لیلی تا جزیرہ مجنون" نامی کتاب لکھتے وقت مجھے یہ موقع میسر آیا کہ میں وسائل کی کمی کے باوجود، اپنے وطن کے گمنام شہداء اور وہ شہداء جو میرے ثقافتی وطن یعنی ایران سے تعلق رکھتے ہیں اور افغانستان میں شہید ہوئے ہیں، اُن کو ڈھونڈوں۔ شاید میرے ایرانی دوستوں کو شہید احمد رضا  سعیدی کے بارے میں اطلاع نہیں جن کا مزار افغانستان کے شہر بہسود میں ہے۔ شاید وہ احسان پارسی کو نہیں پہچانتے ہوں جو افغانستان کے شہر زابل میں شہید ہوئے۔ شاید وہ کربلائی ابو الفضل پور یزدی کو نہ پہچانیں جو تیرہ افغان مجاہدین کے ہمراہ روسی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے فرنٹ لائن پر شہید ہوئے۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا، اس میں بہت سی مشکلات تھیں، میں نے جہاں بھی ایک افغان شہید یا دلاور کا  نام سنا، میں اُس کی جستجو میں لگ گیا؛ مثلاً شہید رجب علی غلامی کے بارے میں سننا، وہ افغان شہید ہیں جو بجستان میں دفن ہیں۔ میں نے اُن کے ایرانی دوست کو فون کرکے کہا: میں نے رجب علی غلامی کے مزار پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے بجستان کا ٹکٹ لیا اور جب میں وہاں پہنچا تو شہید کے ایرانی دوست اس بات پر بہت اصرار کر رہے تھے کہ ہم نے اس شہید کی بہت سے کرامتیں دیکھی ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ بجستان کی تیس ہزار سے زیادہ جمعیت، اب یہ تمام لوگ شہید رجب علی غلامی کے رشتہ دار ہیں۔ میں دو راتوں تک وہاں رہا۔ شہید کے دوست نے مجھ سے پوچھا: تمہارا کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا: مشہد جانا چاہتا ہوں۔ اُس نے پوچھا: کس طرح مشہد جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: یہاں سے مشہد کیلئے ٹکٹ خریدوں گا۔ اُس نے کہا: ایسا نہیں کرو، کیونکہ  تمہارے پاس یہاں سے گزرنے کا پرمٹ نہیں ہے، راستے میں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ پہلے سبزوار اور پھر وہاں سے مشہد جاؤ۔ میں نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گا۔ جب اُس نے میری ضد کو دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا؛ آپ نے جو رجب علی غلامی کی اتنی کرامات بتائی ہیں میں ان کو آزمانا چاہتا ہوں۔ کیا اُن میں اتنی کرامت ہے کہ مجھے مشہد تک پہنچائیں گے یا نہیں؟ میرے پاس سامان، کیمرہ اور وڈیو بنانے کے وسائل تھے۔ میں نے ٹکٹ خریدا اور مشہد چلا گیا۔ مجھے راستے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور میرا عقیدہ پکا ہوا گیا کہ ہمارے شہداء ہمارے لئے بہت نیک واقعات رونما کرسکتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات احمد رضا سعیدی کے بارے میں بھی پیش آئے۔ میں افغان شہید احمد رضا سعیدی کے دوستوں کا انٹرویو لینے اور رپورٹ تیار کرنے کیلئے کابل گیا۔ شہید کا مزار افغانستان کے شہر بہسود میں ہے۔ تقریباً بیس کلومیٹر کا راستہ طالبان کے اختیار میں تھا اور اُس زمانے میں جو بھی شیعہ اُن کے ہاتھ لگتا تھا وہ اس کی گردن اڑا دیتے تھے۔ میں دو مہینے تک اس سفر پر نہیں جاسکا اور اس سفر میں میری سب سے بڑی رکاوٹ میرے والد صاحب تھے۔ وہ ہمیشہ روتی آنکھوں کے ساتھ میرا راستہ روک لیتے اور کہتے: بیٹا میں تمہارے بہسود جانے پر راضی نہیں ہوں۔ دوسری طرف سے ہم نے شہید احمد رضا سعیدی کی والدہ سے تہران میں وعدہ کرلیا تھا۔ میں نے اُن سے کہا تھا: میں افغانستان میں شہید  احمد رضا کی قبر پر جارہا ہوں، آپ کو کوئی پیغام  دینا ہے؟ اُن کی والدہ نے مجھ سے کہا تھا: جب تم میرے بیٹے کی قبر پر پہنچنا تو کہنا: "احمد! تمہاری ماں نے التماس دعا کہا ہے۔" یہ جملہ مسلسل میرے ذہن میں گھوم رہا تھا اور میں  اس کو برداشت نہیں کرپا رہا تھا۔ میں بے تاب ہوچکا تھا۔ ایک دن والد صاحب کو پتہ چلے بغیر میں نے بہسود کیلئے ٹکٹ لے لیا، لیکن جب میں شام کو گھر پہنچا، تو میں نے دیکھا کہ والد صاحب کو پتہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُن کو کیسے پتہ چلا تھا۔ وہ دوبارہ آنسوؤں کے ساتھ رکاوٹ بن گئے اور میں نے  والد کا دل رکھنے کیلئے بھی اور خود کو بہلانے  کیلئے بھی  کہ جاؤں یا نہ جاؤں، کہا: چلیں استخارہ کرلیتے ہیں۔ جو بھی قرآن کہے گا، میں ویسا ہی کروں گا۔ میں نے سورہ حمد اور کچھ دوسری   سورتیں پڑھیں اور قرآن کو کھولا۔ اگر غلط نہ کہوں تو میں نے سورہ انفال کی ۷۰ ویں آیت سے ۸۱ ویں آیت کو دیکھا۔ اُن آیات میں دو نیکیاں موجود تھیں۔ جب میں نے والد صاحب کو یہ آیات سنائیں، حالانکہ وہ رو رہے تھے لیکن انھوں نے مجھے روکا نہیں۔ انھوں نے کہا: جب قرآن نے تمہارے کام میں دو نیکیاں قرار دیدی ہیں تو پھر  احمد رضا سعیدی کی قبر پر جاؤ۔ میں نے اُن کے افغانی دوست کو ڈھونڈا اور واپس آگیا۔ میں ڈھیر ساری اُمیدوں کے ساتھ تہران پہنچا۔ سب سے پہلا کام جو میں نے کیا یہ تھا کہ میں نے احمد رضا کی والدہ کو فون کیا تاکہ اُن سے کہوں کہ میں تیس سال سے زیادہ عرصہ کے بعد آپ کے بیٹے کی قبر کی تصویریں اور ویڈیو لایا ہوں۔ شہید کی بہن نے فون اٹھایا اور کہا: میری والدہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں۔ میں بات جاری نہیں رکھ سکا۔ اُس التماس دعا نے اپنا کام دکھا دیا تھا۔

میں فرصت کے دنوں میں شہداء کے مزار پر چلا جاتا اور ایک ایک قبر کو دیکھتا کہ اگر مجھے کسی افغان شہید کی قبر مل جائے تو میں  اُس کی معلومات حاصل کرکے اُسے لکھ لوں۔ میرے نگاہ ایک ایسے شہید کی قبر پر پڑی جس کے کتبہ پر لکھا ہوا تھا، شہید خان محمد احمدی۔ میں نے شہید کے تصویر کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا یہ شہید افغانستانی نہیں ہوسکتا ہے، لیکن ایرانی بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ کتبہ پر لکھی عبارت کو میں نے دو تین مرتبہ پڑھا۔ اُس کے افغانی ہونے کی کوئی علامت نہیں تھی، لیکن ایک حس مجھ سے کہہ رہی تھی کہ خان محمد کسی ایرانی کا نام نہیں ہوسکتا۔ میں نے ایک کاغذ پر لکھا: شہید خان محمد احمدی کے محترم رشتہ داروں، میں رجائی ہوں، میں شہداء سے مربوط کاموں کی تحقیق کرتا ہوں۔ برائے مہربانی مجھ سے رابطہ کریں۔ میں نے یہ کاغذ قبر پر لگے شیشے کے بکس میں ڈال دیا۔ اس بات کو چار پانچ مہینے بیت گئے اور میں بھول گیا تھا۔ ایک دن ایک جوان لڑکے نے مجھے فون کیا اور تہرانی لہجے میں مجھ سے کہا: آپ نے میرے ماموں کی قبر کے شیشے کے بکس میں ایک کاغذ ڈالا تھا؟ مجھے فوراً یاد آگیا۔ پتہ چل گیا کہ شہید خان محمد احمدی افغانستانی ہیں۔ افغانستانی اور ایرانی شہداء کی ایک جیسی قبریں بنانے میں بہت سی قبروں سے افغانستانی کا کلمہ  حذف ہوگیا اور نہیں پتہ کہ کون سا شہید ایرانی ہے اور کون سا افغانی ہے۔ تیرہ سال پہلے جب میں شہدائے خرم شہر کے ایک شہید، شہید احمدی  کے مزار پر قم کے گلزار شہداء میں گیا، اُن کے نام کے ساتھ افغانی لکھا ہوا تھا۔ جب میں دو سال کے بعد گیا، افغانی کلمہ کے اوپر ایک چھوٹا سا گلدان رکھ دیا گیا تھا۔ میں نے خود سے کہا پھولوں کا یہ گلدان غلطی سے یہاں رکھ دیا گیا ہے۔ جب میں کچھ عرصے بعد دوبارہ گیا تو دیکھا قبروں کو ایک جیسا کر دیا گیا ہے اور اب وہ کلمہ افغانی بھی نہیں ہے! اس طرح کے بہت سے اتفاقات بہشت رضا نامی گلزار شہداء میں بھی  ہوئے ہیں۔

شہید عبد الرحیم جمشیدی کو کون نہیں پہچانتا؟ (فقط رحیم مخدومی کی کتاب "جنگ پا برھنہ" میں اس شہید کی طرف اشارہ  ہوا ہے۔)وہ ایک افغانستانی ہیں۔ شہید کا بدن تیس سے زیادہ دنوں تک ورامین کے شہید مفتح ہسپتال میں پڑا رہا، اس کے بعد طے پایا کہ اُنہیں شہید گمنام کے عنوان سے تہران منتقل کر دیا جائے پھر مسئولین جو بھی فیصلہ کریں۔ یہ شہید ورامین کے محلہ داؤد آباد میں حاجی کبیری نام کی سبزی کی دوکان پر کام کرتے تھے۔ شہید کی کرامات میں سے ہے کہ جب ایمبولنس ورامین سے تہران کی طرف جا رہی تھی، ہائی وے پر ایک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی کسی چیز سے ٹکرائی اور تابوت نیچے گر گیا۔ لوگ مدد کرنے اور شہید کے جنازے کو زمین سے اٹھانے کیلئے آگے بڑھے۔ ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے شہید کو پہچان لیا اور کہا: یہ تو حاجی کبیری کی دوکان پر کام کرنے والا ہے۔ اُس کے بعد لوگوں نے اُنہیں احترام کے ساتھ اٹھایا اور ہسپتال لے گئے۔ اگلے دن ورامین کے محلہ داؤد آباد میں رہنے والے تمام افغانیوں اور ایرانیوں نے شہید کی شاندار تشییع جنازہ کی اور انہیں داؤد آباد   میں واقع امام زادہ عبد اللہ (ع) کے حرم میں دفنا دیا۔

آپ ایک دفعہ قم میں شاہراہ انقلاب پر واقع گلزار شہداء نامی قبرستان میں جائیں اور انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے بین الاقوامی چہروں کو پہچانیں۔ اگر ہم انقلاب اسلامی اور خاص طور سے دفاع مقدس کو ایران سے مخصوص کردیں تو میرے خیال سے  ہم نے دفاع مقدس کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ میں نے بہت سے اخباروں میں پڑھا ہے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں کہ چلّا رہے ہوتے ہیں: ہم ایرانیوں کا اسلامی انقلاب! ایران کے سپوتوں کا اسلامی انقلاب! ایران کے بیٹے ہمارے ایمانی بھائی ہیں، لیکن اس دفاع مقدس اور اُس عاشقانہ عقیدہ کی حفاظت کیلئے، دوسرے ممالک کے لوگوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ہمیں بات کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے اور ہم اپنے صحیح عقیدے کے بارے میں بات کرسکتے ہیں۔ ابوذر بریگیڈ کے ۸۰ فیصد سپاہی یا تو شہید یا معذور ہوگئے تھے۔ ابوذر بریگیڈ کے سپاہیوں کی کچھ تعداد ایران میں باقی بچ گئی تھی اور شام میں ایک فتنہ نے سر اُبھارا، یہ افراد مردانگی کے ساتھ آگے بڑھے اور انھوں فاطمیون بریگیڈ تشکیل دی اور ماضی میں ان کی جو آرزوئیں اور اہداف رہ گئے تھے انھوں نے اسی اہداف  کو پانے کیلئے قدم بڑھائے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمیون ڈویژن اور بریگیڈ میں بہت سے عظیم شہداء موجود ہیں۔ میری ہمیشہ سے یہ آرزو تھی کہ کاش ایسا ہوتا کہ دفاع مقدس کے دوران کوئی فوٹوگرافر ہمارے افراد کی تصویریں بناتا یا اُن کی موجودگی  کی ویڈیو بناتا یا کوئی مؤلف اُن کا کوئی جملہ لکھ دیتا کہ ایک افغانی دلاور فلاں مورچے میں تھا۔ کچھ سالوں بعد جب میرا فاطمیون ڈویژن سے رابطہ ہوا تو میری یہ حسرت ختم ہوگئی، چونکہ ہمارے بہت سے ثقافتی اور ہنرمند افراد نے ہمارے ساتھ کام کیا۔ اچھے واقعات پیش آئیں گے جو حتماً ہماری تاریخ کو مستقبل میں بیان کریں گے اور ہم لوگ حتماً ان دنوں اور اس بھائی چارے پر اور زیادہ افتخار کریں گے۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۶ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۶ ستمبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ اکتوبر کو منعقد ہوگا۔



 
صارفین کی تعداد: 2480


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔