سن ۱۹۶۸ء میں امام خمینی ؒ کا عزاداری کے طرز طریقے پر اعتراض

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2020-1-16


یہ آٹھ محرم کی صبح تھی جب میں قم گیا۔ امام خمینی ؒ اپنے گھر  کے سامنے والے گھر میں تھے۔ یہ گھر دراصل میرا تھا جو میں نے مرحوم الحاج  آقائے مصطفی کے اختیار میں دے رکھا تھا اور میں نے خود تہران میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ امام خمینی ؒ اُس دن وہاں تھے۔ میں نے ناشتہ اُن کے ساتھ کیا اور بعد میں تہران کی رپورٹ ان کو پیش کی۔

مجھے یاد ہے کہ (اس دن) امام خمینی ؒ کے گھر میں مجلس کا انعقاد تھا، قم کے عزاداروں کی ایک انجمن بھی وہاں تھی جن کے نعروں اور نوحوں کی آواز آرہی تھی۔ نوحے بھی وہی پرانے طرز کے تھے   اور کچھ عجیب قسم کے اشعار۔۔۔

 امام خمینی ؒ نے جب یہ نوحہ سنا تو فرمایا: یعنی کیا مطلب ہے! یہ کیسا نوحہ ہے کہ جس میں صرف یہی ذکر ہے کہ آپ کو فلاں چیز نہیں ملی، فلاں چیز نہیں ملی اور بس۔ امام حسین علیہ السلام نے جو قربانیاں دی ہیں ، جو بہادری کے جوہر دکھائے ہیں ، اُن کا کہیں تذکرہ نہیں ہے؟! خلاصہ یہ کہ امام خمینی ؒ ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ آج آٹھ محرم (کا دن) ہے، خطباء و واعظین منبر پر آئے ہیں لیکن انھوں نے کچھ (خاص) نہیں پڑھا۔ پھر مجھ  سے فرمانے لگے کہ: آج آپ منبر جاکر گفتگو کریں۔ میں بھی آؤں گا۔  خیر، میں منبر پر گیا اور اللہ کا نام لے کر مجلس شروع کی اور مدرسہ فیضیہ پر شاہ کی حکومت کی طرف سے کئے گئے ظلم و ستم اور  ناروا سلوک کو ایک ایک کرکے گنوانے لگا۔ لوگ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام جاری و ساری تھا  اور بعد میں اس پروگرام کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ میری تقریر کے بعد امام نے مجھ سے فرمایا: میں دس محرم والے دن مدرسہ فیضیہ جاؤں گا ، آپ وہاں آئیں اور تقریر کریں۔ میرا گلا بیٹھ چکا تھا اور ادھر سے تہران میں منعقد ہونے والے پروگرام کے ایک بڑے حصے کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ میں نے عرض کی کہ تہران کے پروگرام کا بندوبست میرے ذمہ ہے اگر میں نہ جاؤں تو بہت حرج ہوجائے گا۔ امام نے فرمایا: آپ اچھے پڑھنے والے ایک دو افراد کو بھیج دیں۔ میں نے خطیبوں کا نام لیا اور آخرکار انھوں نے جناب مروارید اور سید غلام حسن شیرازی  کو بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ ان دو خطباء نے روز عاشورا  والے دن مجلس پڑھنی تھی۔ میں نے امام سے عرض کی کہ آپ خود منبر پر نہیں جائیے گا کیونکہ آپ کافی ناراض ہیں تو (خدانخواستہ) کوئی مشکل پیش نہ آئے۔  امام نے فرمایا: فی الحال تو میرا منبر پر جانے کا کوئی ارادہ نہیں، پھر امام  نے نو اور دس محرم کے لئے مجھے کچھ ضروری ہدایات دیں۔ میں ان ہدایات کے ساتھ تہران واپس چلا گیا اور ان دو خطباء کو بھی بھیج دیا اور  نو محرم کی مجلس شروع ہوگئی۔ جو ماتمی انجمنیں آئی ہوئی تھیں ان کے نوحوں کا انداز بدلا ہوا تھا۔ ماتم داری اور سینہ زنی کا انداز بھی مختلف تھا۔ مجھے یاد ہے کہ نوحہ خوان حضرات یہ اشعار پڑھ رہے تھے: کربلا کربلا، فیضیہ بنا قتلگاہ۔ علماء کا خون ناحق جو گرا، امام کی نصرت  بن گیا۔ اور اس طرح کے دیگر اشعار۔ نو اور دس محرم کی رات کو بھی جناب فلسفی نے آذر بائیجانیوں کی مسجد میں جاکر کچھ ایسی ہی مجلس پڑھی اور موجودہ صورت حال کو بیان کیا۔

عاشورا کے دن امام خمینی ؒ خود مدرسہ فیضیہ تشریف لے گئے اور وہاں عجیب انداز میں تقریر کی۔ فیضیہ کے اس منبر سے امام کی وہ تقریر جو اسرائیل پر براہ راست حملہ تھا۔ تہران کا پروگرام بھی کچھ اس طرح سے رکھا گیا تھا کہ عاشورا کے دن کا جلوس  قیام چوک (سابقہ نام: شاہ چوک) میں واقع حاجی ابو الفتح کے مدرسے کے سامنے  سے گزر کر (شاہ کے) محل اور پھر وہاں سے یونیورسٹی کی طرف جائے۔ خیر جلوس نکلا، شاید لاکھوں لوگ شریک تھے جو یونیورسٹی کی طرف گامزن تھے۔ جب محل کے سامنے پہنچے تو شاہ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ اب حکومتی مشینری کو خطرے کا احساس ہوا۔ سب مل کر بیٹھے اور ایک بھیانک منصوبہ بنایا  اور وہ یہ کہ بارہ محرم کی رات مساوی با ۵ جون کو مارشل لاء لگا دیں اور امام اور دیگر مذہبی عمائدین کو جو اس تحریک میں شامل تھے، گرفتار کریں۔

میں مرحوم شہید مرتضیٰ مطہری کے ساتھ "پیروزی" روڈ پر ایک جگہ عشرہ مجالس پڑھنے میں مصروف تھا۔ وہاں ایئر فورس کے افسران بھی آتے تھے اور علاقہ بھی حساس تھا۔ آٹھ میٹر چوڑی سڑک پر قناتیں لگائی گئی تھیں۔ پہلے مرحوم شہید مرتضیٰ مطہری خطاب کرتے تھے اور پھر میں۔ اُسی بارہ محرم کی رات کو شہید مرتضیٰ مطہری مجلس پڑھ کر منبر سے اُترے اور چلے گئے تو حسب معمول میں منبر پر گیا جبکہ شہید مرتضیٰ مطہری کو راستے میں ہی گرفتار کرلیا گیا۔ مسجد والوں کو ان کی گرفتاری کی اطلاع مل گئی اور انھوں یہ خبر ایک پرچی پر لکھ کر مجلس کے دوران ہی وہ پرچی مجھے تھما دی۔ میں نے پرچی کو کھولا تو اس پر لکھا ہوا تھا: "ان (شہید مطہری) کو گرفتار کرلیا گیا ہے، اب آپ بولنے میں ذرا احتیاط سے کام لیجئے گا۔"میں نے وہ پرچی پھاڑ دی اورگفتگو کو جاری رکھا۔ جن افراد کو شہید مطہری کی گرفتاری کا علم تھا وہ میری مجلس ختم ہونے کے بعد میری طرف آئے اور پہلے سے تیار کی گئی گاڑی میں بٹھا کر مجھے صحیح و سلامت وہاں سے نکال دیا گیا۔

میں روزانہ رات بارہ بجے، اپنی مجلس کے اختتام پر نیچے آکر تھوڑی دیر وہیں بیٹھ جاتا تھا اور پھر اس کے بعد اٹھ کر چلا جاتا تھا لیکن اس رات مجھے ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ لوگوں کے بیچ میں سے گزار کر مجھے گاڑی تک لائے۔ پولیس والوں کی بھی ایک گاڑی وہاں موجود تھی۔ مجھے  وہاں سے فرار کرانے والے افراد ان لوگوں کی موجودگی کو بھانپ گئے تھے اور ان کا راستہ (بند کردیا) روک لیا۔ ہم اس  رات بھاگ نکلے اور پولیس والے ہمیں گرفتار نہ کرسکے۔ البتہ صبح میرے گھر آئے جبکہ میں میں گھر پر  بھی نہیں تھا، میں روپوش ہوچکا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 2518


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔