ڈاکٹر سید رضا مرتضویان سے بات چیت

آپریشن کے بعد کے ایام

احمد رضا امیری سامانی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-12-15


ڈاکٹر سید رضا مرتضویان اس وقت اصفہان کے شہید آیت اللہ صدوقی ہسپتال کے سربراہ ہیں۔ وہ ایسے ڈاکٹر ہیں جن کے پاس دفاع مقدس کے زمانے کے بہترین واقعات ہیں اور وہ جنگ کے کٹھن ایام میں چوئبدہ صحرائی (نہر اورند کے پاس) اور علی ابن ابی طالبؑ  (آبادان میں) نامی دو ہسپتالوں کے منیجر رہے ہیں۔ وہ دفاع مقدس کے پورے عرصے میں ملک کے جنوبی اور مغربی جنگی علاقوں میں حاضر رہے اور اُن کا یہی حاضر ہونا اس بات کا باعث بنا کہ وہ یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کی فیلڈ کو خیر باد کہہ دیں اور میڈیکل فیلڈ کو اختیار کرلیں۔ اُن کے ذہن میں جنگ کے  مختلف واقعات موجود ہیں۔ نجات اور حیات  سے مربوط واقعات، نہ موت اور آگ سے مربوط واقعات جو جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز اورمیڈیکل ٹیم ، نجات دینے والے ہاتھ ہیں جنہوں نے خود جنگ میں زخم کھائے ہیں۔ انھوں نے بھی زخمی ہونے کے بعد پہلے ہی گام پر سپاہیوں کی بدترین اور ایمرجنسی ترین وضعیت کا مشاہدہ کیا تھا۔ اسی تجربہ کی وجہ سے صحت ہسپتال کا ایک رضا کار سپاہی  دو ہسپتالوں کے مدیر میں بدل گیا  اور اسی تجربہ کے ذریعہ میڈیکل فیلڈ میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر سید رضا مرتضویان نے اصفہان یونیورسٹی سے  بی ہوش کرنے اور خصوصی نگہداشت کی مہارت  کی ڈگری حاصل کی اور سن  ۱۹۹۹ء میں  ایک ڈاکٹر اور ہسپتال کے سربراہ کے عنوان سے، خوزستان اور اصفہان کے صوبوں میں ڈیوٹی انجام دی ہے۔ میں نے انٹرویو کے پیرائے میں ڈاکٹر صاحب سے بہت سے واقعات سنے ہیں؛ انٹرویو کے کچھ حصے کو میں نے ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کے مخاطبین کیلئے تیار کیا ہے۔

 

سب سے پہلے اپنا تعارف کروائیں۔

خدایا تیری مدد سے شروع کرتا ہوں، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں ۱۶ اپریل سن ۱۹۶۳ والے دن شہر اصفہان کے ایک محلہ میں پیدا ہوا، جس کا پرانا نام کوی کارگران (حالیہ نام شاہراہ سعادت آبادہے) تھا۔ میں نے ایسے گھرانے میں پرورش پائی جو کافی حد تک مذہبی گھرانہ تھا  اورمیرے والد صاحب وطن ابریشم کارخانہ میں کام کرتے تھے۔ دس بچوں سے بھرا ہوا ایک گھرانہ کہ جس کا میں آخری بچہ تھا۔ میں اصلیت میں کردی ہوں اور میرے نام کے آخری میں خاندانی نام دھکردی آتا ہے، لیکن میرے والد صاحب دس سال کی عمر میں اصفہان آگئے تھے۔  میں نے اُسی محلے میں  تعلیم حاصل کی  اور انٹر کیا۔

 

آپ نے یونیورسٹی کی پڑھائی کب شروع کی؟

سن  ۱۹۸۳ء تھا جب میں نے اصفہان کی  ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں جنرل مکینکل فیلڈ میں داخل لیا۔ جب دو سمسٹر گزر گئے،  وہ وقت بدر آپریشن کا زمانہ تھا۔ مجھے انفنٹری فورس کے عنوان سے زید چیک پوسٹ کے علاقے میں بھیجا گیا۔ سن ۱۹۸۴ء میں مارچ  کے مہینے کے آغاز سے  دو یا تین اپریل تک میں وہاں رہا۔ میں آخری دن  زخمی ہوگیا۔ البتہ یونیورسٹی جانے سے پہلے، سن  ۱۹۸۱ء میں بھی  میں نے بستان کو آزاد کرانے والے آپریشن طریق القدس میں انفنٹری فورس کے عنوان سے شرکت کی تھی  اور میرا کان اور دونوں ہاتھ زخمی ہوئے تھے ۔  لیکن ۱۹۸۴ء کے اپریل  میں ہمارا بعثی افواج سے دوبدو مقابلہ ہوا تھا۔ بم دھماکے کے لہر سے میرے حواس بھی باختہ ہوگئے تھے اور میرے جسم کی مختلف جگہوں پر بم کے ٹکڑے بھی لگے تھے۔ بم دھماکے کی لہر  کی وجہ سے کافی عرصے تک میری نفسیاتی حالت خراب رہی  اور میں تناؤ کا شکار رہنے لگا ، اس کے باوجود کہ یونیورسٹی کو میری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن میں نے خود ہی یونیورسٹی کو چھوڑ دیا۔

میں اپنی حالت بہتر ہوجانے کے بعد،  سپاہ کے صحت سینٹر میں چلا گیا۔ کچھ مہینوں بعد نئے بننے والے ہسپتال یعنی شہید آیت اللہ صدوقی  ہسپتال  میں مجھے اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے نوکری مل گئی۔ میں یہاں پر اکاؤنٹنٹ  اور مریضوں کے داخلے کے کاموں کو بھی انجام دیتا اور سپاہ کے صحت سینٹر کی طرف سے امدادی کارکن کے عنوان سے جنگی علاقوں میں بھی جاتا۔ جب میں پہلی دفعہ گیا تھا تو تقریباً دس مہینے تک جنگی علاقے میں رہا اور میرا یہ رہ جانا ہی باعث بنا کہ میں میڈیکل فیلڈ کی طرف قدم بڑھاؤں۔ میں آبادان میں ٹھہرا ہوا تھا۔ جنوب میں فوجی میڈیکل سینٹر کے کمانڈر سردار فتحیان، جب وہ مجھ سے پہلی دفعہ ملے تو انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں تمہاری آبادان کے جنوب میں ایک صحرائی ہسپتال  میں ڈیوٹی لگادوں۔  میں نے سوچا کہ شاید مجھے ایک معمولی فوجی کے عنوان سے مثلاً کسی دفتر میں یا کسی جانشین کے عنوان سے کام کرنے کیلئے بھیج رہے ہیں۔  خلاصہ یہ کہ میں راضی ہوگیا اور چوئبدہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) ہستپال پہنچ گیا، نہر اروند کے پاس۔ لیکن میں جیسے ہی وہاں پہنچا، مجھے ہسپتال کے منیجر کا عہدہ سونپ دیا گیا۔  میں نے کہا: مجھے بالکل بھی ہسپتال چلانے اور  ان کاموں کا علم نہیں ہے! انھوں نے کہا: ہم تصور کرلیں گے کہ آپ کو کام آتا ہے۔ آٹھویں و الفجر  آپریشن کے بعد کے ایام تھے اور ہسپتال پر بھی اُس سے تقریباً دس دن پہلے بمباری ہوچکی تھی۔ سراسیمگی کا ماحول تھا۔ اتفاق سے اُس عرصے میں جب میں ہسپتال پہنچا تھا، نہ تو ہسپتال کا کوئی منیجر تھا اور نہ کوئی سربراہ۔ مجھ سے پہلے، ڈاکٹر عوض حیدر پور ہسپتال کے سربراہ تھےجو وہیں پر کیمیائی بمباری کی وجہ سے زخمی ہوکر واپس چلے گئے  تھے۔ میں بن گیا ہسپتال کا منیجر، بغیر کسی سربراہ کے۔ ہسپتال کی ذمہ داریوں کا بوجھ میرے کندھوں پر آگیا اور میں مجبوراً مختلف وارڈوں میں گھومنے  لگا اور کاموں سے آشنا ہونے لگا۔ یہی وہ پہلا قدم تھا جس نے مجھے صحت اور علاج کے راستہ پر گامزن کردیا۔

 

ہسپتال کے سربراہ اور منیجر میں کیا فرق ہے؟

سربراہ عام طور سے اُسے کہا جاتا ہے  جو خصوصی کاموں اور میڈیکل کے کاموں پر نظارت کرتا ہے۔ مثلاً آپریشن تھیٹر کیلئے سرجن  کا انتظام کرے اور ایمرجنسی وارڈ کیلئے ڈاکٹر کو معین کرے اور آپریشن تھیٹر کیلئے  میڈیکل مشینوں  کا آرڈر دے، خود ڈاکٹروں پر نظر رکھے و۔۔۔ خود بھی ڈاکٹر ہو۔ منیجر کا زیادہ تر کام ہسپتال کو چلانا ہوتا ہے۔ کام کرنے والے عملہ کو دیکھنا، سہولیات، خوارک، بجلی، پانی، گیس اور ایمبولینسوں کا آنا جانا اور یہ سب کام منیجر کے ذمہ ہوتے ہیں۔ مگر ایسے مواقع پر کہ جب سربراہ نہیں ہوتا  تو منیجر کو اُس کے کاموں میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ میرے آنے کے تقریباً بیس دن بعد، ہسپتال کا ایک سربراہ بھی آگیا۔

ہسپتال کتنا بڑا تھا؟ اس میں کیا وسائل تھے؟

کنکریٹ سے بنا پہلا صحرائی ہسپتال تھا۔ اُس سے پہلے ایک دو صحرائی ہسپتال جیسے امام رضا (ع) ہسپتال اور خاتم الانبیاء (ص) ہسپتال کو  فلزی پائپوں سے بنایا گیا تھا ۔ اُن کی چھتیں فلزی شیٹ کی بنی ہوئی تھیں کہ جس پر مٹی ڈال دیتے تھے۔ بہت ضعیف اور کمزور تھے۔ لیکن حضرت زہرا  (س) ہسپتال کنکریٹ کے پلروں اور گارڈروں سے بنا ہوا تھا کہ جن کا منہ پانچ سے چھ میٹر چوڑا تھا۔  میرے خیال سے  ہمارے پاس چھ یا آٹھ آپریشن تھیٹر تھے۔ مربع شکل کے فریموں کو ایک ساتھ لایا گیا تھا اور ایک سرنگ سی بن گئی تھی جو آپریشن تھیٹر تک جاتی تھی۔ راہداریوں اور مختلف ذیلی راستوں کو بھی انہی فریموں سے  بنایا گیا تھا۔  حتی اسٹاف کے آرام کرنے اور کھانے وغیرہ کی جگہ بھی تھی۔ لاجسٹک سامان کیلئے کچھ انبار بھی موجود تھے جو ہسپتال سے الگ تھے؛  جیسے ڈیزل کااسٹور اور کھانے پینے کی چیزوں کا اسٹور وغیرہ۔ کنکریٹ کے ٹکڑوں  کو بہت ہی مخفیانہ انداز میں نصب کیا گیا اور اُن کے اوپر تقریباً دس میٹر مٹی ڈالی گئی تھی۔ اس طرح سے کہ ایک دفعہ ایک بہت ہی جاندار بمب ہسپتال کی چھت پر گرا، چھت ٹوٹ گئی، لیکن کسی کو زیادہ نقصان نہیں ہوا ، صرف کچھ لوگوں کی دھماکے کی لہر کی وجہ سے حالت خراب ہوئی تھی۔

 

آپ فاو سے نزدیک تھے؛ یہ بات صحیح ہے؟

ہمارا ہسپتال  فاو سے ۲۴ یا ۲۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ ہم نہر اروند کے اس پار تھے اور فاو، اروند کے اُس پار تھا۔ حال ہی میں فاو کو آزاد کرایا  تھا اور عراق کی اصلی جوابی کاروائیاں کم ہوگئی  تھیں۔ لیکن ابھی بھی جھڑپیں جاری تھیں۔ بمباری ہو رہی تھی  اور آپریشن کے لحاظ سے علاقے میں سرگرمی تھی۔ جب ہم نے پوزیشنیں سنبھال لی تو اُس کے بعد الامیہ اور البکر جیٹیوں کو آزاد کرانے کیلئے کربلائے ۳ آپریشن کا آغاز ہوا اور ہم نے تیزی کے سا تھ زخمیوں کیلئے ہسپتال کو تمام چیزوں سے بھر دیا۔ الحمد للہ زیادہ زخمی نہیں ہوئے تھے لیکن ہر اعتبار سے دریائی جنگ تھی اور تیراکی کرنے والے اور  کشتی پر بیٹھنے والے افراد جو بمب یا مارٹر کی وجہ سے پانی کے اندر زخمی ہوگئے تھے ، اُن کو ہمارے ہسپتال میں لایا جاتا۔ ہم بھی ضروری علاج اور جراحیوں کو انجام دیکر انہیں پیچھے کی طرف واپس بھیج دیتے۔ تین چار مہینے بعد، زندگی کیلئے جدوجہد کرنے والے ادارے کے افراد نے نہر اروند پر پل بعثت بنانا شروع کردیا۔ ایک بہت طولانی اور خطرے سے بھرپور پروجیکٹ۔ عراق بھی جو نہیں چاہتا تھا کہ یہ پل پایہ تکمیل تک پہنچے، ہر روز وہاں پر بمباری کرتا۔ کوئی ایسا دن نہیں تھا کہ جس دن ہمارے ہسپتال میں کوئی نیا مریض نہیں آتا ہو۔ خاص طور سے سپاہ  کے ٹیکنیکل اور انجینئر حضرات کہ جن پر بمباری ہوتی تھی  اور وہ اروند کے اُس گہرے پانی میں گر جاتے تھے۔

 

وہاں کی صورت حال اور سہولیات کیسی تھیں؟

ہمارے پاس اچھی خاصی سہولیات تھیں۔  جس زمانے میں کوئی جنگی آپریشن ہوتا تھا آپریشن کرنے والی دو تین مکمل ٹیمیں (سرجن، بے ہوش کرنے کا ماہر، آپریشن تھیٹر  کے ٹیکنیشن، بے ہوش کرنے کے ٹیکنیشن) وہاں آجاتی تھیں اور آپریشن تھیٹرز مسلسل خالی ہو رہے ہوتے  تھے اور بھر رہے  ہوتے تھے۔ لیکن دفاعی پوزیشنوں کے وقت کہ جب محاذ کی صورت حال معمولی ہوتی تھی، اُس وقت ہمارے پاس آپریشن کیلئے صرف ایک  ٹیم ہوتی تھی کہ جس میں ایک سرجن، ایک آرتھوپیڈک، ایک بے ہوش کرنے والا ماہر، اور اُن کا اسٹاف ہوتا تھا۔ ہر دفعہ یہ ٹیمیں بھی کسی ایک شہر سے آتی تھیں؛ ایک دفعہ مشہد سے، ایک دفعہ شیراز، ایک دفعہ تہران سے اور ۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ کربلائے ۳ آپریشن میں ہم نے مریضوں کو تیار کیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں، میرے ایک اور دوست، جناب ڈاکٹر مہر داد معمار زادہ بھی ہسپتال کے سربراہ کے عنوان سے ہمارے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ میں نے ان سے بہت سی چیزوں کو سیکھا۔ آپریشن کا معمول یہ تھا کہ افراد رات کے ایک ، دو بجے کے قریب  دشمن پر حملہ کرتے۔ صبح کے وقت زخمیوں کو لانا شروع کرتے تھے۔ ہم نے ہسپتال کا ایک چکر لگایا اور تمام چیزوں کو چیک کرلیا۔ لیکن رات کے دو بجے کا وقت تھا کہ بتایا گیا: آپریشن تھیٹر کا گٹر اُبل گیا ہے اور آپریشن تھیٹر آلودہ ہوگیا ہے! ہمیں اس بات پر تعجب تھا کہ ہم نے تمام چیزوں کی تحقیق کرلی تھی، ہم آپریشن تھیٹر کی طرف دوڑے اور ہم نے انتظامی امور کے افراد کو جمع کیا۔ دو گھنٹے کام کرنے کے بعد ہمیں پتہ چل کہ متاسفانہ کسی نے خراب کاری  کی ہے اور پتہ نہیں تھا کہ کس نے گٹر کی لائن میں ایک ڈرپ کو گھسیڑ دیا تھا۔ جی ہاں اُس زمانے میں مخالف اور منافق گروپس،  خراب کاری کرنے والے افراد بھی تھے جو ہر طریقے سے کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے افراد اُس آپریشن تھیٹر میں صبح تک کام کرتے  رہے  اور واقعاً یہ ا فراد آپریشن میں شرکت کرنے والے افراد سے زیادہ تھک گئے تھے۔ صبح تک آپریشن تھیٹر میں گٹر کے پائپ کی تعمیر کا کام ہوگیا۔  ہم نے کمرے کو دھویا اور  جراثیم سے پاک کردیا۔ اب ہم تھک ہار کر آرام کرنا چاہتے تھے کہ زخمیوں کو لیکر آنا شروع ہوگئے۔

 

کس حالت میں آتے تھے؟

ہمارے پاس ایسے زخمی آتے تھے کہ جنہیں مثلاً بمب کا کوئی ٹکڑا لگ گیا ہو اور اُن کا کوئی عضو پھٹ  جاتا تھا، اور ایسے بھی تھے جن کی حالت بری ہوتی تھی اور اُنہیں کوما کی حالت میں لایا جاتا تھا۔ لیکن سب کا جوش و جذبہ بہت زبردست تھا۔ ہم زخمیوں سے اکثر کہا کرتے تھے: آپ کو آپریشن تھیٹر میں جانا چاہیے یا اس وقت ہم تمہیں واپس بھیج رہے ہیں، وہ رونے لگتا اور کہتا کہ مجھے پٹی باندھ دو تاکہ میں دوبارہ محاذ پر چلا جاؤں۔ اس چیز سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے اندر بہادری اور جوش و جذبہ تھا۔

 

سہولیات کی کمی کے بارے میں بتائیں؟ کمی تھی؟ مثلاً ٹانکے لگانے کا دھاگہ، گیس، بے ہوش کرنے والی دوا وغیرہ

نہیں۔ واقعاًہمیں ہر طرح کی حمایت حاصل تھی اور ہر چیز کا انتظام ہوتا تھا۔

 

ٹھنڈا اور گرم کرنے کا سسٹم کیسا تھا؟

چلر لگے ہوئے  تھے۔ رہائش اور شہر سازی کے افراد اور سپاہ کے انجینئرز افراد نے بہت کام کئے تھے۔ ہسپتال کے د و حصوں میں دو چلر لگے ہوئے تھے۔ وہاں کا موسم خراب تھا۔ کبھی کبھار ہمارے جنریٹرز خراب ہوجاتے یا اُنہیں بمب کا کوئی ٹکڑا لگ جاتا، اُس گرم اور مرطوب موسم میں ہسپتال کا بیسمنٹ (تہہ خانہ) جہنم کی طرح ہوجاتا تھا۔ ہمارے پاس اف – ایکس ٹیلی فون بھی تھے کہ جن سے ہم براہ  راست اصفہان فون کرتے تھے۔

 

جس زمانے میں آپ وہاں تھے کیا ہسپتال پر براہ راست حملہ نہیں ہوا؟

نہیں بھئی۔ حملے، مجھ سے پہلے تھے۔ (ہنس رہے ہیں)۔ مجھے وہاں گئے ہوئے دس مہینے ہوئے تھے کہ کربلائے چار آپریشن کیلئے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ہم متوجہ تھے کہ طے ہے کہ کوئی بہت بڑا آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ آبادان کے نزدیک علی ابن ابی طالب (ع) نامی ایک جنگی ہسپتال بنا رہے تھے۔ اُس زمانے میں، ہم اہواز جاتے ہوئے کبھی کبھار وہاں کا چکر لگا لیتے تھے۔ وہ ہسپتال فاطمہ زہرا (س) ہسپتال سے بہت بڑا تھا۔ جناب ڈاکٹر معمار زادہ آہستہ آہستہ فاطمہ زہرا (س) ہسپتال سے جدا ہوگئے اور اُس ہسپتال میں چلے گئے تاکہ اُس کو جنگی آپریشن کیلئے  تیار کریں۔ میں بھی جب کسی کام کیلئے وہاں پر جانا ضروری سمجھتا تو وہاں کا چکر لگالیتا اور وہاں کے ماحول اور وسائل وغیرہ کے بارے میں تجویز دےدیتا۔ جب اُس کی عمارت بن گئی، ہم اصفہان گئے اور  جناب ڈاکٹر معمار زادہ کے ساتھ اصفہان یونیورسٹی میں میڈیکل سائنسز کی فیکلٹی کی انتظامی کونسل کی میٹنگ میں شرکت کی اور ہم نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اس ہسپتال کو تیار کریں؛ چاہے وہ ملازمین کی بھرتی ہو ، چاہے وہ وسائل کے لحاظ سے مدد کرنا ہو۔ اُس زمانے میں، ڈاکٹر احمد اکبری یونیورسٹی کے ہیڈ تھے۔ انھوں نے اُس میٹنگ میں اعلان  کیا کہ جو ہماری توان میں ہوگا ہم اُس سلسلے میں مدد کریں گے،  لیکن ہمارے پاس زیادہ سرمایہ نہیں ہے۔ مجھے ڈاکٹر معمار زادہ نے وسائل اورسامان جمع کرنے کا انچارج بنا دیا۔ ڈاکٹر اکبری نے بھی ڈاکٹر محمدی کو ایک لیٹر لکھ کر میرا تعارف کروایا جو  اصفہان یونیورسٹی میں میڈٰکل سامان اور دوائیوں کے انچارج  تھے۔ طے یہ تھا کہ ہمیں کچھ مختصر سا سامان دیا جائے  کہ میرے زور دینے اور ڈاکٹر محمدی کی مدد سے ہم سامان سے بھرے چھ ٹریلر اور ٹرک لیکر آبادان پہنچے۔ حتی ہمارے وسائل میں ریڈیولوجی مشین اور لیبارٹری ریفریجریٹر بھی تھا۔ الحمد للہ آبادان کے جنگی ہسپتال کا دو تہائی حصہ انہی وسائل سے بھر گیا۔

 

اس کام میں کتنا وقت لگا؟

بارہ سے تیرہ دن لگے ہوں گے  اور بعد میں ہم دوبارہ چوئبدہ کے فاطمہ زہرا (س) ہسپتال لوٹ گئے، تاکہ رات میں آپریشن شروع ہو، شام سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ آپریشن ہونا ہے۔

 

کربلائے چار آپریشن؟

جی۔ شام کے پانچ یا چھ بجے کا وقت تھا۔ ابھی دن کا اُجالا باقی تھا۔ سردار نصر اللہ فتحیان (سپاہ کے فوجی میڈیکل کمانڈر)کے ایک جانشین نے مجھے اہواز سے فون کرکے کہا: "سید ہم میڈیکل ٹیم بھیجنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کام اس وقت ہونا چاہیے جب آپریشن شروع ہوچکا  ہو۔ ہمارا کہیں سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے اور لائنیں بھی کٹ چکی ہیں۔ آپ جاکر دیکھیں کہ آپریشن شروع ہوا یا نہیں؟ اگر شروع ہوگیا ہو تو ہمیں بتائیں۔" میں چوئبدہ سے آبادان کی طرف چل پڑا۔ ہمیشہ اس راستے کو ۴۵ منٹ – اس چیز پر منحصر تھا کہ اُس طرف دشمن حملہ کر رہا ہے یا نہیں – میں طے کرتے تھے۔ میں مغرب سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آبادان پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ پورا آسمان روشن ہو رہا ہے۔ آپریشن کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا اور لائٹیں روشن کی ہوئی تھیں۔ جب تک میں ہسپتال واپس پہنچتا، ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ طیارے ہر جگہ پر بمباری کر رہے تھے؛ ہائی وے سے لیکر جنگی محاذ سے تک۔

حتماً بہت زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہوں گے۔

بہت زیادہ۔ جب ہم پہنچے، ہم نے دیکھا کہ وہ آپریشن جس کے زخمیوں کو  عام طور سے صبح کے وقت لایا جاتا تھا، ابھی اُسے ایک گھنٹہ نہیں گزرا تھا، ایمبولینسیں اُسی طرح زخمیوں کو لیکر آرہی ہیں۔ میں نے وہیں سے اہواز خبر پہنچائی اور مدد کرنے کیلئے یہیں پر ٹھہر گیا ۔ کام کے شروع میں ہی، مجھے ایمبولینسوں کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ہمارے پاس بس ایمبولینس بھی تھی۔  (ایسی  بسیں کہ جن کی سیٹوں کو اکھاڑ لیا گیا تھا اور اُن کی زمین پر روئی کے گدے رکھ دیئے تھے۔) جن زخمیوں کی حالت تھوڑی بہتر تھی میں اُنہیں بس کے ایک کونے پر بٹھا دیتا اور بقیہ افراد کہ جن کی حالت زیادہ خراب تھیں اُنہیں گدّوں پر لیٹا دیتا۔ ہم بسوں کے اندر عام طور سے  لیٹے ہوئے دس سے چودہ زخمی اور بیٹھے ہوئے دس سے بیس زخمیوں کو رکھ سکتے تھے۔ ہر ایمبولینس میں بھی دو یا زیادہ سے تین زخمی بھیجتے تھے۔ جب ہلکا اُجالا اور ہلکا اندھیرا رہ گیا، ہیلی کاپٹرز بھی زخمیوں کو اِدھر سے اُدھر لے جانے کیلئے مدد کرنے آجاتے۔ آپ تصور کریں، ہسپتال کا احاطہ ایسے زخمیوں سے بھرا ہوا تھا جنہیں ہم نے لٹایا ہوا تھا اور وہ کسی سواری اور ہیلی کاپٹر کا انتظار کر  رہے  ہوتے تھے۔ اور اُدھر سے ہسپتال کے آٹھوں آپریشن تھیٹر  سرگرم عمل تھے۔ ایسے زخمی جن کی حالت زیادہ خراب ہوتی اُن کا آپریشن ایمرجنسی وارڈ میں ہی کردیتے تھے۔ باقیوں کو لے جاکر آپریشن تھیٹر کے باہر رکھ دیتے تھے۔ وہاں پر واقعاً ایسے ڈاکٹرز تھے جو ۳۶ گھنٹوں سے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوئے تھے اور ایک کے بعد ایک آپریشن کر رہے تھے۔ نرسیں، ٹیکنشنز اور بے ہوش کرنے والے ماہرین کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ ہمارے پاس ایک گروپ تھا جسے  انصار الحسین (ع) کہا جاتا تھا۔ وہ زخمیوں کی مدد کرنے والا گروپ  تھا۔ اُن کا کا م یہ تھا کہ وہ زخمیوں کو اسٹریچر  کے ذریعے جا بجا کرتے تھے؛ اب چاہے آپریشن تھیٹر کے سامنے لانا ہو یا لیبارٹری یا ہیلی کاپٹر یا ایمبولینس کے پاس لانا ہو۔ ان کی حالت بالکل خراب ہوچکی تھی۔ اس طرح ہوگیا تھا کہ صبح آٹھ یا ۹ بجے جب یہ اسٹریچر اٹھانا چاہتے تھے، گھٹنا لگا کر اٹھاتے تھے۔ آخر میں میرا کام یہ ہوگیا تھا کہ میں بھاگ کر اُن کی پیٹھ تھپتھپاتا اور کہا کرتا: "بھاگو پہلوان، ماشاء اللہ ۔۔۔ تمہارے بازؤں  پر قربان جاؤں ۔۔۔ یا علی ۔۔۔ تھکنا نہیں ۔۔۔" میں اس طرح انہیں حرکت میں لاتا  کہ وہ دو زخمیوں کو لے جائیں ، البتہ میں خود بھی ان کی مدد کرتا تھا۔ خود جناب فتحیان جب دو تین افراد کے ساتھ جنگی علاقے سے وہاں واپس آئے اور جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی  انھوں نے آرام کا خیال ذہن سے نکال دیا  اور انھوں نے خود بھی زخمیوں کو  اٹھانا شروع کردیا۔ جب ان لوگوں نے کام کرنا شروع کیا تو انصار گروپس کے افراد نے دوبارہ سے حوصلہ اور ہمت پکڑی۔ آپریش کے دوسرے دن ظہر تک یہ صورت حال چلتی رہی۔

 

آپ کے ہسپتال میں زخمیوں کو لانے کا راستہ تھا؟

جی۔ ہر ڈویژن یابریگیڈ کا اپنا ایک ایمرجنسی اور طبی امداد کا بڑا سا ہال اور مورچہ  تھا کہ اگر جس کو بھی آپریشن کی ضرورت ہوتی، پہلے اُسے وہاں لےجاتے اور اُس کے خون بہنے کو روکتے، بعد میں ایمبولینس کے ذریعے اُسے علی ابن ابی طالب (ع) ہسپتال میں لے آتے۔ آپریشن تھیٹرز کے علاوہ ہمارے پاس دو سرجن ڈاکٹر بھی تھے  کہ جنہوں نے اپنے سامان کو  اپنی بیلٹ کے ساتھ  باندھا ہوا تھا اور وہ داخل ہونے والے زخمیوں  کے درمیان گھومتے رہتے اور زندگی بخشنے والے کام انجام دیتے۔ مثلاً کسی کے پھیپھڑے پر بمب کا کوئی ٹکڑا لگ جاتا اور وہ مرنے کے نزدیک ہوتا، یہ جلدی سے اُس کے پھیپھڑے میں ایک سوراخ بناتے کہ خون  نکل اور زخمی سانس لے سکے۔ خدمت انجام دینے والے افراد کہ جن کا کام صفائی کرنا تھا، وہ بھی مشینوں کی طرح کام کرتے تھے۔ زخمی آتے۔ اُن کے بیڈ کے نیچے خون بھر جاتا۔ ہم جب تک اُن کی پٹی کرتے اور انہیں ایمبولنس میں رکھتے، ہم  دیکھتے کہ وہ جگہ صاف ہوچکی ہے۔ خونی چادریں، کپڑے، روئی کے بنڈل اور خونی پٹیاں وغیرہ ، ان سب کو بیڈ کے نیچے ڈال دیتے تھے ، ہر جگہ گندی ہوجاتی، لیکن ۳۰ سیکنڈ بعد دیکھتے کہ صاف ہے۔ اُن کا ایک انچارج تھا جو شیراز کا رہنے والا تھا۔ وہ مخصوص لہجے  اورانداز میں اُن کو  ہدایات دیتا تھا؛ حسن حسین تیسرا بیڈ، حسین ساتواں بیڈ، محمود جواد پانچواں بیڈ۔ دو منٹ بعد پانچواں بیڈ بعد والے زخمی کیلئے تیار ہوتا تھا۔ وہاں اور بھی خوبصورت کام انجام پاتے۔ شام اور مغرب کے وقت، جب زخمی کم ہوتے تھے، وہ افراد جو  امدادی کام کیا کرتے تھے، وہ بیٹھ کر پٹیوں اور بینڈجوں کو تیار کرتے۔ چونکہ اُن کا استعمال بہت زیادہ تھا۔ مثلاً ہم دن میں شاید اُن کے دس ہزار سے زیادہ بنڈل استعمال کرلیتے تھے۔

 

جب آپریشن ختم ہوا اور زخمیوں کو منتقل کردیا گیا، آپ واپس آگئے یا ہسپتال میں ہی رہے؟

کربلائے چار آپریشن کے بعد، ہم تقریباً چودہ دنوں  تک ہسپتال میں رہے۔ اُس کے بعد اصفہان چلے گئے اور ایک دو دن آرام کیا کہ پھر ڈاکٹر معمار زادہ نے ہمیں خبر دی کہ اُسی علاقے میں آپریشن (کربلائے پانچ) ہے اور ہم آبادان واپس آگئے۔



 
صارفین کی تعداد: 2890


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔