وہ انٹرویوز جو آج کی باتیں کرتے ہیں

کتاب "جنگ سے دفاع مقدس تک" کے بارے میں مینو خانی سے گفتگو

زبانی تاریخ کی بدولت ماضی قریب سے آشنائی

مرتب: مریم اسدی جعفری

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-12-12


"جنگ سے لیکر دفاع مقدس تک؛ متن اور حاشیے" نامی کتاب بیس انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ ان انٹرویوز میں جنگ کے اجتماعی اثرات اور پھر آرٹسٹ حضرات کے آثار میں اس جنگ کی جو تصویر پیش کی گئی ہے، پر بات کی گئی ہے اور ان انٹرویوز کو کتاب کی شکل دینے کا سہرا ڈاکٹر مینو خانی کے سر ہے جسے نومبر ۲۰۱۹ میں ناشر "ہمای ہنر" نے چھاپا ہے، کتاب کے صفحات کی تعداد ۲۲۱ ہے۔  اور یہ بیس انٹرویوز جن بیس افراد سے لئے گئے ہیں ان کے اسامی درج ذیل ہیں: حبیب احمدزاده، عمادالدین افروغ، محمود اکرامی‌فر، داؤد امیریان، هدایت‌الله بهبودی، ابراهیم حاتمی‌کیا، احمدرضا درویش، احمد دهقان، محمدحسن رجبی، محسن رضائی، رضا رئیسی، فرهاد ساسانی، حسام‌الدین سراج، مرتضی سرهنگی، محمدرضا سنگری، ابراهیم فیاض، عبدالجبار کاکائی، علی رضا کمری، محمدصادق کوشکی اور علی‌اکبر ولایتی۔ اس کتاب کو تشکیل دینے والی شخصیت اور "ایران کی زبانی تاریخ" کی سائٹ کے صحافیوں کے مابین جو گفتگو ہوئی اسے آپ ذیل میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

 

کتاب "جنگ سے لیکر دفاع مقدس تک" کا مواد آپ نے کیسے اکٹھا کیا؟

دراصل یہ کتاب ایسے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو مجھے اپنے ڈاکٹریٹ کے تھیسز کے سلسلے میں لینے پڑے۔ میرے تھیسز  کا موضوع تھا: "۱۹۸۱ کے بعد سے ایرانی پینٹنگ میں جنگ کی عکاسی" ۱۹۸۱ یعنی یہ اسی جنگ کے آغاز کا زمانہ ہے جو عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کی گئی تھی۔ شروع میں تو ارادہ یہی تھا کہ اپنے تھیسز میں جنگ کی عکاس ایرانی پینٹنگز کو محور بناؤں لیکن اس کام کے لیے کچھ مقدمات فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ میرے فرانس کے استاد  "ڈاکٹر کرسٹف بالائے" کا نظریہ یہ تھا کہ اس جنگ کے متعلق میری نگاہ سوشیالوجیکل ہونی چاہیے یعنی مجھے فقط جنگ کو نہیں دیکھنا بلکہ میرے سامنے دونوں ممالک کے  معاشرے بھی ہونے چاہئیں تاکہ اسی بنیاد پر  میں ان پینٹنگز کی تجزیہ و تحلیل کرسکوں۔ اس نظرئیے پر اس کی دلیل بھی تھی اور وہ یہ کہ اس (استاد) نے دو بار ایران میں قیام کیا اور دونوں دفعہ ہی تقریباً چار چار، پانچ پانچ سال ایران میں رہا ہے۔ ایران کے ہم عصر ادبیات پر گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس نے ایران کی جنگی ادبیات، ادبیات کے دفتر اور آرٹ گیلری کے مقاومتی ہنر پر بھی اچھی خاصی مہارت حاصل کر رکھی تھی اور اس نے بے شمار جنگی واقعات بھی پڑھ رکھے تھے بلکہ آج بھی اس کی لائبریری میں ان واقعات پر مشتمل کتابیں موجود ہیں۔ یہی وجہ  تھی کہ اس کا نظریہ یہ تھا کہ یہ جنگ ایرانیوں کے لئے معاشرتی سطح پر نہایت اہم حادثہ کے طور پر ثابت ہوئی۔ اور دوسرا نکتہ یہ تھا کہ  اس استاد کی نگاہ میں ایرانی آرٹسٹس اپنے فن میں نہایت سوچ سمجھ کر اس جنگ اور حادثے پر عاقلانہ قدم اٹھا رہے ہیں  تاکہ (دنیا والوں تک) صحیح پیغام پہنچا سکیں۔ اور یہاں پر ہی وہ اصل نکتہ تھا یعنی جنگی پینٹنگز کے متعلق تنقید اور تحقیق کی اساس پر انہی مذکورہ دو  محوروں پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ تو اس (استاد) نے مجھے مشورہ دیا کہ میں لازمی طور پر آرٹسٹ، لکھاری، شاعر، سینما سے متعلق افراد کی بڑی تعداد اور جنگی کمانڈر حضرات اور ان افراد سے ملاقات کرکے انٹرویوز لوں جو کسی بھی طرح سے جنگ یا جنگ سے متعلقہ امور میں فعال تھے، اور انٹرویو میں ان کے سامنے یہ دو بنیادی سوال رکھوں، تو میں نے بھی اس سے پہلے کہ جنگی پینٹنگز پر کام کرتا، انہی مذکورہ افراد سے رابطہ کیا اور دو سالوں یعنی ۲۰۰۹ء   اور ۲۰۱۰ء  میں ان بیس انٹرویوز پر اچھا خاصا کام کیا البتہ ایک دو انٹرویو بعد کے سالوں میں انجام پائے جیسے جناب احمد رضا درویش سے میں نے ۲۰۱۲ء میں انٹرویو لیا۔

 

جو نتیجہ حاصل ہوا کیا آپ اُس سے راضی تھے؟

جی ہاں بالکل، کیوں کہ مجھے ایسے افراد کی تلاش تھی جو کسی بھی صورت میں جنگ سے مربوط ہوں خصوصاً وہ افراد جنھوں نے اپنے آرٹ کے فن میں جوہر دکھائے۔ بہرحال مجھے اس زمینے کے نامور افراد سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے میں کامیابی ملی اور چونکہ میں اپنے دوسرے سوال کے جواب  کا بھی متلاشی تھی کہ کیوں آرٹسٹ حضرات اس جنگی حادثہ کو بھرپور توجہ دے رہے ہیں؟ اور کیوں جنگ کے موضوع کو اپنے فن کی دنیا میں اولین ترجیح دے رہے ہیں؟ اسی لئے میں نے اس فیلڈ سے متعلق آرٹسٹ اور لکھاری حضرات سے گفتگو کی۔ لیکن تھیٹر اور گرافگ ڈیزائنر حضرات سے بات چیت نہیں ہوسکی۔ ہاں البتہ شاعر، لکھاری، واقعات نویس اور سینما والے حضرات سے ملا ہوں اور بلکہ جناب حسام الدین سراج سے بھی گفتگو کی ہے جو محاذ جنگ میں  تو نہیں رہے لیکن سن ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جنگی موسیقی کو تشکیل دینے والے چند افراد میں سے تھے اور جناب محسن نفر بھی ان کے ساتھ تھے۔  ان سب کے علاوہ مجھے چند سیاسی شخصیات جیسے جناب ڈاکٹر علی اکبر ولایتی اور جنگی کمانڈر جیسے جناب محسن رضائی یا ڈاکٹر محمد صادق کوشکی (یونیورسٹی میں علم سیاسیات کے استاد) سے ملنا پڑا اور گفتگوکی۔

 

ان انٹرویوز کو کتابی شکل دینے کا خیال کیسے آیا؟

جب میں یہ انٹرویوز لے رہا تھا تو اس دوران ہی مجھ سے یہ کہا گیا کہ میں ان (انٹرویوز) کو ہلکا نہ لوں۔ تعلیمی سلسلہ ختم ہونے کے بعد ان کو نشر کرنے کے مراحل انجام دیئے۔ میں شروع میں  "فن اوردفاع مقدس کی ادبیات" کے ادارے سے متعلق دو سیکشن میں گیا۔ تو انھوں نے تھیٹرز میں کام کرنے والوں اور گرافگ ڈیزائنرز حضرات کا خانہ خالی رہ جانے کے باعث ا سے قبول نہ کیا لیکن میرا نظریہ یہ تھا کہ ان نئے انٹرویوز سے غیر ضروری مواد ہٹا کر اسے کتابی متن میں اضافہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ انٹرویوز ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ میں لئے گئے تھے اور اب ان نئے افراد کا اضافہ مناسب نہیں تھا ،کیونکہ آج کے معاشرے کا طرز زندگی اور رہن سہن ماضی کے دس سال پرانے طرز سےبہت زیادہ مختلف ہوگیا ہے۔ انٹرویو دینے والے افراد اب ایک او رفضا میں جی رہے ہیں۔ باہمی گفتگو اور انٹرویو کی فضا اب وہ نہیں رہی۔ اور یہ بھی ہے کہ میرے نظریہ کے مطابق اگر انہی افراد سے آج دوبارہ انٹرویو لیا جائے تو اس بات کا احتمال ہے کہ سوالات کا جواب ہی بدل جائے۔  لیکن یہی انٹرویوز جو میں نے ماضی میں اُس وقت لئے تھے ان انٹرویوز کے بارے میں، میں نے ایک صاحب رائے شخصیت سے مشورہ لیا تو ان کی رائے کے مطابق ان انٹرویوز میں ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ آج دس سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ اپنی اُسی آب و تاب کے ساتھ چھپوائے جانے کے لائق ہیں، ان کے الفاظ یہ تھے: "یہ باتیں آج بھی نئی ہیں اور اپنی افادیت کے باعث آج بھی تازہ اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔" یعنی عملاً کام آسکتی ہیں۔ ان کا کتابی شکل میں منظر عام پر آنا نہ  فقط اچھا قدم ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ کچھ انٹرویوز میں تو ایسی باتیں سامنے آئی ہیں کہ کہنے والوں نے ا س سے پہلے بیان نہیں کیں۔ بہ الفاظ دیگر، ان  افراد نے ایک ایسا زمینہ فراہم کیا کہ جس کی مدد سے نئے پیرائے میں گفتگو ہو، گفتگو بھی ایسی کہ جو آج بھی زندہ اور تازہ ہے۔

 

جیسے کہ آپ نے کہا کہ ڈاکٹریٹ کے تھیسز کے لئے آپ کو کچھ مقدمات فراہم کرنے کی ضرورت پیش آئی، تو آپ نے انٹرویو لینے کا ہی کیوں سوچا؟ کیا یہ استاد کا مشورہ تھا؟ بہرحال تحریری صورت میں بھی تو آپ سوالات کا جواب لے سکتے تھے یا ایسا مقالہ لکھ سکتے تھے جو آپ کے سوالات سے مربوط ہو؟

تحقیقی کام کرنے کے لئے جو روشیں اپنائی جاتی ہیں  ان میں سے ایک روش گفتگو کرنے کی ہے۔ فرانس میں یونیورسٹی کی تحقیقات میں میدانی روش بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے چاہے گفتگو کی صورت میں ہو یا سوال نامے کی شکل میں ہو۔ کیونکہ اس کے ذریعہ ہم دراصل  ایک بالکل نئی بات سامنے لانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ سو یہ میدانی روش کسی بھی تحقیق کو جاندار بنانے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے جس کی بنیاد پر جدید علمی بات سامنے آسکتی ہے میری انہی کوششوں کے نتیجہ میں  مجھے یہ علم ہوا کہ میرے ان دو سوالوں، ایک یہ کہ "آیا جنگ ایک معاشرتی سانحہ کے طور پر تبدیل ہوئی ہے یا نہیں؟ اور دوسرا سوال یہ کہ "کیوں آرٹسٹ حضرات جنگ کو فنی آثار کی تخلیق کاباعث قرار دے رہے ہیں؟"، کا جواب اس سے پہلے کسی کتاب میں نہ تھا اور یہ بات میرے خود عملی میدان میں داخل ہونے کی وجہ بنی۔

اور رہا یہ سوال کہ ، افراد نے جوابات کو آرٹیکل کی شکل میں یا اپنی سابقہ موجودہ معلومات کی صورت میں پیش کرنا تھا، تو اس کے جواب میں، میں یہ کہوں گا کہ دراصل یہ افراد ایک خاص متن  اور محور سے محروم تھے اور دوسری اہم بات یہ کہ یہ سب کے سب افراد لکھاری نہیں تھے اور پھر ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ انٹرویو میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ تحریری متن میں پیش نہیں آسکتا۔ مثلاً آپ کا مطلوبہ فرد اپنی رائے کو تحریری صورت میں پیش کردے لیکن خود میرے لئے یہ روش بالکل کافی نہ تھی اور نتیجتاً تحقیق میں ایک بڑا خلاء رہ جاتا۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر میں انٹرویو لینے  پر مجبور ہوا۔ اور ایک بات یہ بھی تھی کہ میں ایک دوسرے ملک میں حصول علم میں مشغول تھا یعنی ایک پاؤں ایران میں اور دوسرا فرانس میں  تھا۔ تو ایسی صورت حال میں ان افراد سے مقالے وصول کرنے کی سوچ  قرین قیاس نہ تھی۔ سو، جن مراحل میں، میں ایران میں تھا یہ انٹرویو انجام دیئے۔ متن کے تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ انٹرویوز کو ڈاکٹریٹ کے تھیسز میں شامل کیا گیا لیکن گفتگو کی شکل میں نہیں۔ اور جو انٹرویوز تھے ان کا حجم بھی اچھا خاصا تھا، یہ کسی اور موقع کیلئے رہ گئے جیسے  آج کے دن کیلئے۔

اور دوسری جانب سے ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ افراد کے محض کہہ دینے پر "جی ہاں" میں لکھ کر دوں گا یا جوابات یا مقالہ لکھ ڈالوں گا" اعتماد اور امید قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح کے کاموں میں تحقیق کرنے کے لیے مجھے انتظار اور امید کے ساتھ اچھا خاصا وقت صرف کرنا پڑتا او رنتیجہ شاید پھر بھی صفر ہوتا۔ اور دوسری بات یہ بھی تھی کہ اگر میں ان کو اپنے یہ دونوں مرکزی سوال ا رسال کرتا تاکہ وہ مجھے تحریری جواب دیں  تو بھی ان کی تحریری نگاہ اور نظریات ہرگز جاندار نہ ہوتے، اس لئے وہ ایسے نکات کی طرف اشارہ کرتے جو مزید سوالات کو میرے ذہن میں جنم دیتے۔ اور یہ سب کچھ انٹرویوز میں بھی ہوتا ہے اور دوبدو ہونے  کے باعث فوراً سوالات اور جوابات حاصل ہوتے ہیں، وقت بچتا ہے اور انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ سو، سب کے لئے یہ دو اہم سوال تیار کئے گئے اور ہر شخص کے لئے اس کی متعلقہ فیلڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ خصوصی سوالات بھی بنائے گئے۔

 

ان بیس افراد کا انتخاب آپ نے کس معیار پر کیا؟

اس لئے کہ یہ افراد ہر حوالے سے دفاع مقدس کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ میری چونکہ دفاع مقدس کے حوالے سے کچھ کتابیں طبع ہوچکی تھیں لہذا میں ان آرٹسٹ اور لکھاری حضرات  کو بخوبی جانتا تھا۔ میں نے اپنا کام ان بہترین افراد سے شروع کیا خصوصاً ان افراد سے جو خود میدان جنگ میں رہ چکے تھے اور بعد میں اسی جنگی موضوع پر ادبی یا فنی کام کرچکے تھے۔ اور چونکہ استاد کی نصیحت تھی کہ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے ملوں اس لئے میں سیاستدانوں، کمانڈرز اور یہاں تک کہ یونیورسٹی کے اساتید تک سے بھی ملا ہوں اور پھر یہ بھی تھا کہ پہلے سے بیس افراد کی تعداد کے بارے میں کچھ سوچا نہیں تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ ان افراد کا انتخاب کیا جائے جو کسی نہ کسی حوالے سے جنگ سے مربوط ہوں۔ لیکن جب بات ہو میدانی تحقیق کی تو پھر آخر تک کام کرنا ہوتا ہے۔ جب بیس افراد کا انٹرویو مکمل ہوگیا تو مجھے لگا کہ ان دو مرکزی سوالات کو حل کرنے کے لیے کافی مواد اکٹھا ہوچکا ہے اور یہی سوچ کر میں نے مزید انٹرویوز نہیں لئے۔  اور شاید یہی وجہ تھی کہ تھیٹر اور گرافیگ سے مربوط افراد کا انٹرویو نہیں لے پایا چونکہ ضرورت پوری ہو چکی تھی۔

 

کیا آپ کو اپنے اس موضوع کے متعلق ان افراد سے انٹرویو لینے پر کامیابی کا احساس ہوا ہے؟

جی ہاں،  البتہ بعض اوقات کچھ اچھی جان پہچان والے افراد کے ساتھ بھی گفتگو کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ گفتگو کے دوران انہیں ایسی باتوں اور سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا جنہیں وہ پسند نہیں کرتے لیکن زیادہ تر کچھ افراد  سے پرانی واقفیت، ان کی اچھی نیت اور پُر اعتماد گفتگو کے باعث یہ انٹرویو ز لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ دوبدو گفتگو کرنے کے اصولوں میں سے ایک اصول، سچائی ہے اور میں اصولی طور پر حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ افراد کے بیانات میں کسی قسم کی تبدیلی نہ لاؤں۔ اور جب تک میں مطبوعاتی کاموں سے منسلک رہا میں نے اسی اصول پر عمل کیا اور تو اور میں انٹرویو دینے والے کا لہجہ تک محفوظ رکھنے کا قائل  ہوں، یعنی اس کتاب میں بھی ہر شخص کا لہجہ اور انداز گفتگو محفوظ رکھا ہے۔ مثال کے طور پر جناب سرہنگی کا انداز گفتگو اور لہجہ، جناب کمری یا جناب درویش کی بہ نسبت بالکل  مختلف ہے اور میں نے اس اہم نکتے کا خیال رکھا ہے اور صرف جملات کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک اور بات یہ کہ چونکہ  فرانس میں یونیورسٹی میں  میرا یہ تحقیقی کام جاری تھا تو کافی سارے افراد کی نظر میں ایک خوش آئند اور مثبت بات یہ تھی کہ یہ تھیسزایرانی جنگ کے بارے میں ایک ایسا ایرانی فرد لکھ رہا ہے (یعنی میں) جو اِن کی نگاہوں میں با اعتماد ہے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس سلسلے میں میرے ساتھ بہت تعاون کیا تاکہ دفاع مقدس کے موضوع پر ایک تحریری دستاویز تیار کی جاسکے اور پھر دل کی وہ باتیں جو ہم ایران میں کرتے ہیں ایک ڈاکٹریٹ تھیسز کی شکل میں دنیا کے کسی اور ملک میں پہنچ سکیں، بھلے کسی لائبریری میں ہی یہ کتاب پڑی رہے لیکن یادگار رہ جائے۔  الغرض یہ کہ اس سے میرے کام میں قدرے آسانی پیدا ہوئی۔ جیسے مثال کے طور پر جناب محسن رضائی اور جناب  ولایتی صاحب سے انٹرویو کے لیے وقت لینے کی باری ہوئی تو اس سلسلے میں شعبہ طباعت  کے دوستوں نے میری مدد کی اور خوش قسمتی سے جب میں انٹرویو لینے گیا تو یہ بات مجھے محسوس  ہوئی کہ یہ افراد کس قدر خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اور کھل کر بات کرتے ہیں۔

 

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لکھاری حضرات نے نسبتاً زیادہ بڑھ چڑھ کر اس انٹرویو کے سلسلے میں حصہ لیا ہے؟

جی ہاں، اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ جنگ میں بھی یہ لکھاری حضرات سب سے آگے تھے۔ اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دفاع مقدس کا صحیح چہرہ پیش کرنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے اوروہی درست چہرہ سینما اور مجسماتی آرٹ کی زینت بنا۔ ان چیزوں کو سامنے رکھیں تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ لکھاری کا کام ہی (یعنی ادبیات اور واقعات) اصلی بنیاد تھا۔ یہ افراد چونکہ خود مورچوں میں بھی رہے ہیں اور تحریری آثار بھی تخلیق کئے ہیں تو میری نظر میں ان کی گفتگو میرے تھیسز کو اعلیٰ مرتبے تک پہنچا سکتی تھی۔ اسی وجہ سے آج ہمیں اس کتاب میں لکھاری اور اہل قلم کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔ ایک اور نہایت اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ جنگ لڑنے والے اہل قلم افراد تھے یعنی ان جنگی آثار کی بہترین تصویر کشی ان سے بڑھ کر کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ انٹرویو دینے والے یہ افراد خود مورچوں میں رہ کر جنگ لڑتے رہے ہیں اور اب واقعہ نویس، سینما گر یا اہل قلم اور لکھاری بن گئے ہیں۔ جناب ابراہیم حاتمی کیا کا کہنا ہے کہ: "میں جنگ لڑنے کی خاطر گیا لیکن مجھے اسلحہ چلانا نہیں آتا تھا تو میں نے اپنے اسلحہ یعنی کیمرے کا استعمال کیا" اب یہاں آکر دوسرے سوال کا جواب بھی حل ہوتا ہوا نظر آنے لگا کہ ان حضرات کو جنگ نزدیک سے دیکھنے کا بھی تجربہ رہا ہے اور یہی تجربہ ان کو شاہکار آثار کی تخلیق کی طرف لے کر آیا ہے۔

 

آپ کے تھیسز میں ان انٹرویو سے استفادہ ہوا ہے تو اب جبکہ آپ نے ان تمام انٹرویوز کو مکمل طور پر ایک کتاب کی شکل میں چھاپا ہے تو یہ اب اپنے مخاطبین کے لیے کیا پیغام دے رہے ہیں؟

جیسے کہ میں بتا چکا ہوں میرے دو مرکزی سوال تھے لیکن ان دو سوالات کے ساتھ ساتھ، ہر شخص سے اس کی فیلڈ سے متعلق کچھ خصوصی سوالات بھی پوچھے۔ مثلاً جناب احمد دھقان سے پوچھا کہ آپ نے جنگی ادبیات پر کیوں کام شروع کیا؟ جناب عبد الجبار کاکائی سے پوچھا کہ آپ نے جنگ کے موضوع پر شاعری کیوں شروع کی اور آج بھی شاعری کر رہے ہیں، کیوں؟ ۲۰۰۲ یا ۲۰۰۳ میں تقریباًٍ پانچ سو شہداء کی مہر آباد ایئرپورٹ سے لیکر انقلاب چوک تک تشییع کی گئی اور اسی مناسبت سے کاکائی صاحب نے بہت اچھی شاعری کی اور مجھے یاد ہے کہ اس شاعری  کے متعلق میں نے تاثرات بھی لکھے تھے۔ اگر یہ سوالات تحقیقی مرحلے سے گزریں اور کسی سے پوچھے جائیں، واقعی اگر کوئی جنگ سے متعلق شاعری پر تحقیق کرنا چاہے تو ہماری اس کتاب میں لائی گئی کاکائی صاحب کی گفتگو یقیناً ان کے لئے مددگار ثابت ہوگی۔ اگر جنگ سے متعلق سینما پر کام کرنا چاہیں تو جناب حاتمی کیا اور درویش صاحب کی باتیں بہت مفید ثابت ہوں گی۔ حتی اگر کوئی ان اشخاص پر تحقیقی کام کرنا چاہے یا دھقان صاحب اور تحریری روش پر ریسرچ کرنا چاہے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس حوالے سے ان کی اپنی گفتگو اپنی ذات کے بارے میں اور میدان جنگ میں ان کی فعالیت کے حوالے سے، محقق کی ضرور مدد کرے گی۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انٹرویو لینے کی کچھ جزئیات کا رجحان، زبانی واقعات سنانے کی طرف بھی ہوگیا اور یوں اکیڈمک ریسرچ میں بھی قابل استفادہ ہوچکی ہیں اور ساتھ ساتھ دیرپا بھی؛ تاکہ آئندہ نسلوں کو ہمارے آج کے معاشرے کا تعارف کرواسکیں۔

 

مطلب یہ کہ انٹرویوز میں گفتگو کا رُخ یادگار واقعات کی طرف بھی مڑ گیا ہے؟

صرف انھوں نے ہی ذکر نہیں چھیڑا بلکہ خود میں نے بھی ان سے پوچھ لیا۔ سوائے ایک فرد کے باقی سب لوگ – بھلے کچھ عرصے کے لیے تھا – جنگی مورچوں میں رہ چکے تھے۔ مثلاً جناب حسام الدین سراج، جنگ میں شریک نہ تھے لیکن یہ ان افراد میں سے تھے جو مورچوں کا مسلسل معائنہ کرتے تھے۔ جنگ کے زمانے میں آرٹ انسٹیٹیوٹ تمام آرٹسٹ حضرات کو جمع کرکے جنگی علاقوں کا معائنہ کروانے کا زمینہ فراہم کرتا تھا۔ یوں یہ حضرات اس فضا سے متاثر ہوکر آثار تخلیق کرتے تھے۔ یا چلیپا صاحب  - البتہ ان کی گفتگو اس کتاب میں شامل نہیں ہے کیونکہ پینٹر حضرات سے انٹرویو نہیں لئے گئے تھے بلکہ ان کے لئے ڈاکٹریٹ لیول پر تھیسز میں تفصیل سے بات ہوئی ہے – کہا کرتے تھے کہ ہم خود ان معائنوں میں جایا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ کمانڈر اور سپاہی حضرات بھی آکر آرٹ انسٹیٹیوٹ کے صحن میں اپنے واقعات سنایا کرتے تھے بعد میں جن کی آرٹسٹ حضرات مجسم عکاسی  کرتے تھے۔

 

کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی اس کتاب کا کچھ حصہ انٹرویو دینے والے ان بیس افراد کے جنگی واقعات پر بھی مشتمل ہے؟

نہیں، سب کا نہیں کہہ سکتے۔ محسن رضائی صاحب نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا لیکن سپاہیوں اور کمانڈرز کے واقعات ذکر کئے ہیں یا جناب ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے خارجہ پالیسی میں وزارت کے دوران مغربی دنیا کے رویے اور ایران کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر ٹھوس موقف کی طرف اشارہ کیا۔

 

کیا ان انٹرویوز میں جنگ کے حوالے سے زبانی تاریخ کا کوئی پہلو بھی شامل ہے؟

جی بالکل ہے۔ انٹرویو دینے والوں کا اپنے بارے میں بھی زبانی تذکرہ ہے اور اپنے اطراف کے بارے میں بھی، چونکہ ان کی فیلڈ میں اہم افراد شامل ہیں اسی لئے ان کی گفتگو میں تاریخی پہلو بھی اُجاگر ہوتا ہے۔

 

زبانی تاریخ کی ایک شکل یہ بھی ہے۔ فرد اُس تاریخی حادثہ میں اپنی کیفیت اور اپنے مشاہدے کے بارے میں بتاتا ہے اور دوسری شکل، وہ مکالمہ یا ڈائیلوگ ہے جو انٹرویو لینے اور دینے والے کے درمیان ایجاد ہوتا ہے۔ یہ بات کہ راوی، اُس موقع کی مناسبت سے اپنے تاثرات اور تحلیل پیش کرتا ہے، تو اپنے ذاتی مشاہدات (و تحلیل) سے ہٹ کر ہم اگر دیکھنا چاہیں تو کس حد تک اس کتاب میں ان بیس افراد کی تحلیل نظر آئے گی؟

میرے  اساتذہ اور دوست احباب کے اس کتاب کے چھپوانے پر اصرار کی ایک وجہ  یہی تھی۔ ان آرٹسٹ حضرات میں سے ہر ایک نے جنگی آرٹ اور جنگ پر ادبیات اور اشعار کہنے کی وجہ ذکر کی ہے اور یہ ان کی اپنی صوابدید تھی، شاید  اسی میں تکرار کا پہلو آجائے، لیکن یہ بات کہ ایران میں اس جنگ نے کیوں ایک معاشرتی اور سماجی سانحے کی حیثیت اختیار کی اور جنگ کے حوالے سے مختلف ہنری اور فنی آثار کی تخلیق نے ایرانی معاشرے پر کیا اثر چھوڑا؟ تو اس موضوع پر کم بات ہوئی ہے۔ یہ باتیں پرانی ہونے والی تو ہیں نہیں۔ سرہنگی صاحب نے شاید اس سے پہلے جنگی ادبیات پر اہم نکات ذکر کئے ہوں لیکن اس کتاب میں انھوں نے اس پر خصوصی بات کی ہے اوربتایا ہے کہ جنگی ادبیات یا ہر تحلیل اور تحقیق جو جنگ کے بارے میں وجود میں آتی ہے، اُس دور کو ہمارے سامنے واضح اور شفاف کرنے میں مدد کرتی ہے اور ہم اپنے ماضی کے بغیر، آگے کا سفر طے نہیں کرسکتے، کم از کم ماضی قریب کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتے؛ یعنی یہی ۱۹۸۰ کی دہائی میں رونما ہونے والے واقعات جو ایرانی معاشرے میں ظاہر ہوئے اس پر اس کتاب میں اچھی خاصی بات چیت ہوئی ہے اوریہ سب  فقط کتاب تک محدود نہیں بلکہ ہمارے حال اور آج پر سنجیدہ نگاہ ڈالنے میں بھی مفید اور سازگار ثابت ہوگا۔  مثلاً  جب میں نے جناب حبیب احمد زادہ سے پوچھا کہ آپ نے جنگ پر لکھنے کا کیوں سوچا؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ "میں ایک لکھاری ہوں میری مثال اس شخص جیسی ہے جس نے المپیک گیمز مقابلے میں ایک ہاتھ میں مشعل اٹھا رکھی ہو اور اسے کسی اور کو پکڑانے کے لئے دوڑ رہا ہو۔ اگر میں اپنے تجربات کو تحریری صورت میں آئندہ نسلوں کو پہنچاؤں گا تو گویا یہ مشعل میں نے کسی دوسرے فرد کو تھما دی ہے۔ یہی بہت ہے کہ ان ادبیات کی مدد سے ایک گولی کم چلے تاکہ کوئی بھی ایک آدمی زندہ بچ جائے۔ اسی سے ہماری آج کی زندگی سنورے گی۔" تو میں نے جب وہ دو محوری سوالات (جنگ کا ایک سماجی سانحہ میں بدل جانا اور پھر اس کے آرٹ پر واقع ہونے والے اثرات) پوچھے ہیں تو گویا ان فراد کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور ساتھ ساتھ معاشرے میں اس جنگ کے اثرات پر ان کی رائے کو بھی حاصل کیا ہے۔ جب میں ایک اجتماعی یا معاشرتی سانحے کی بات کرتا ہوں تو گویا انٹرویو دینے والے سے درحقیقت یہ تقاضا کر رہا ہوں کہ وہ اس موضوع کے اجتماعی پہلو کو مدنظر رکھے نہ کہ صرف فردی پہلو کو؛ پس آپ کہہ سکتے ہیں کہ افراد نے اپنی زندگی کے تجربات کے بارے میں گفتگو کی ہے اور زندگی پر اجتماعی آثار کے اثبات پر بات کی ہے۔

 

آپ کے انٹرویوز میں ایک نکتہ ملاحظہ کیا گیا ہے جو کہ بہت اچھا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے ہر انٹرویو کے آغاز میں وقت اور جگہ کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ چونکہ آپ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں تو آپ اگر ہر انٹرویو کے لئے ایک شہ سرخی کا انتخاب کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا؛ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ نے کسی انٹرویو پر کوئی بھی  حتمی فیصلہ کرنے سے گریز کیا ہے اور انٹرویو دینے والے کا فقط نام انٹرویو کے اوپر ذکر کیا ہے یعنی وہ "شہ سرخی" درحقیقت اس فرد کا نام ہے۔ اور آپ نے ان سب کی گفتگو کو بعینہ سوال وجواب کی شکل میں ذکر کیا ہے۔ اس سے آپ کے انٹرویوز کو زبانی تاریخ کی شکل ملی ہے۔ پس بنابراین، چونکہ آپ "یونیورسٹی آف آرٹس ہسٹری" کے پروفیسر ہیں، تو اسی حیثیت سے آپ "تاریخ" اور "زبانی تاریخ" کی تعریف کریں؟

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں صاحب رائے نہیں ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں کہ اپنی سیکھی ہوئی چیزوں کو پڑھانے کے حوالے سے کام میں لاؤں۔ اور یہ بات کہ "تاریخ، مستقبل کے راستے کا چراغ ہے" مجھ سے پہلے بھی کہی جاچکی ہے اور بعد  میں بھی کہی جائے گی۔ تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ ہم اپنا آج کیسے بہتر انداز میں طے کریں۔  کچھ افراد تاریخ کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن میری نظر ان سے مختلف اور برعکس ہے، میں دور کی تاریخ کے بارے میں سوچتا ہوں اور یہی کہوں گا کہ تاریخ کو دور سے نہیں دیکھنا چاہیے اور یہ باتیں میں کلاس میں بہت زیادہ دہراتا ہوں کہ ہم نے اپنے آج میں خود کو پہچاننا ہے۔ یعنی میں، جتنا میرے لئے ممکن ہے اپنے آج کے معاشرے میں خود کو پہچانوں، اگر ایسا کرلوں تو یہ میں نے صحیح کام کیا ہے، ہاں البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اگر خود کو پہچانوں گا تو ماضی سے میرا تعلق ختم ہوجائے گا، نہیں۔ مجھے آج اپنی ذات کو سماج اور ثقافت کو سامنے رکھ کر پہچاننا ہوگا اور یہ بات میرے لئے دور کی تاریخ سے واقفیت میں مددگار ثابت ہوگی کہ جس سے واقفیت میرے لئے ضروری ہے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اگر میں ایک استاد یا صحافی کے عنوان سے اپنا کام درست طریقے سے انجام دوں تو مجھے ایسی تاریخ کی ضرورت ہوگی کہ جو مجھ سے اور میرے حال سے زیادہ نزدیک ہے۔ مثال کے طور پر مجھے اپنی ماضی کی سو یا دو سو  سالہ تاریخ کو جاننا چاہیے اور زبانی تاریخ، اپنی روش کے ساتھ، اس شناخت میں مدد کرے گی۔

 

گویا آپ کی نظر میں نزدیک کی تاریخ اہم ہے؟

جی ہاں، میں طالب علموں کو فن کی تاریخ اور فن کی تحقیق کی کلاس میں یہی کہتا ہوں کہ کم از کم اپنی سو سالہ گزشتہ تاریخ کا مطالعہ کریں کیونکہ ابھی تک بہت سارے پوشیدہ نکات باقی ہیں اور بہت سی چیزوں پر تحقیق نہیں ہوئی، تو اب اگر ہم نے وقت اور توانائی صرف کرنی ہی ہے تو نزدیک کی تاریخ پر کام کرنا چاہیے۔

 

آپ نے نزدیک کی تاریخ کا ایک پیمانہ مشخص کیا ہے جس کی بنیاد پر آپ کی نگاہ  کے بارے میں، زبانی تاریخ، نزدیک کی تاریخ کے ساتھ مشروط ہے ۔۔۔؟

جی بالکل نزدیک کی تاریخ ہے۔ زبانی تاریخ یعنی کیا؟ میں اپنی رائے بیان کروں گا جو یقیناً زبانی تاریخ کے ماہرین کی بیان کردہ تعریفوں سے مختلف ہے۔ زبانی تاریخ، انسانی حافظہ اور یاد داشت میں نہ آنے والی باتوں کو محفوظ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک بار جب میرا استاد جنگی تصاویر میں "طنز" پر کام کر رہا تھا تو وہ ایسے فوٹو گرافرز کے پاس گیا کہ ان کی تصاویر میں "طنز" کسی حد تک موجود تھا۔ ان فوٹو گرافر حضرات نے ان تصاویر کے بارے میں کبھی کسی سے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔وہ لوگ بالکل مبہوت ہوکر رہ گئے تھے کہ ایک یونیورسٹی کے لڑکے نے پوچھا ہے کہ آپ کی تصویر میں "طنز" کا پہلو کیوں ہے؟ بعد میں یونیورسٹی کے لڑکے نے مجھے بتایا  کہ فلاں فوٹو گرافر نے ایسی باتیں کی ہیں جو کہیں نہیں چھپی ہیں۔ زبانی واقعہ ا س فرد کے ذہن میں ہے جسے اس نے اپنی زندگی میں تجربہ کیا ہے اور وقت کے ساتھ سب کچھ چلا جاتا ہے۔ فردی زندگی کا تجربہ ہی مجموعی علم اور یادگار واقعہ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ تو پس اس بنا پر  جو گزر گیا وہ محفوظ ہوجائے گا چاہے جنگ کے موضوع پر ہو یا کچھ اور۔ کون سے چیز تاریخ کو وجود میں لاتی ہے؟ ہم نے تاریخ میں ھخامنشی یا ساسانی خاندان کے دور حکومت کے سالوں کی آشنائی کیسے حاصل کی؟ اب ہمارے آنے والے لوگ ہمیں کیسے پہچانیں گے؟ چار پانچ دہائیوں کے بعد ایران کے آج کے معاشرے کی پہچان کیسے ہوگی؟ جب ایران کے مؤرخین ایران کی ۱۹۸۰ یا ۱۹۹۰ کی دہائیوں کی تاریخ لکھنا چاہیں گے تو انہی باقی ماندہ آثار کی طرف جائیں گے اور خصوصاً یونیورسٹی کی تحقیقات کی طرف رجوع کریں گے اور پھر کس کا انتخاب کریں گے؟ وہ مورخ اس محقق کے آثار کو معتبر قرار دیں گے جس نے اپنی نگاہ و نظر کے مطابق تحلیل کی ہے یا اس آرٹسٹس کی بات کو مانیں گے جس نے اپنے آثار کو بیان اور تحریر کیا ہے؟ کس کو لیں گے؟ یقیناً اس آرٹسٹ کی محنت اور گفتگو کو اختیار کریں گے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی آرٹسٹ انتقال کرجائے تو ہم بالکل نہیں جان سکتے کہ اس نے یہ آثار کیوں اور کیسے اور کس ہدف کے تحت تخلیق کئے۔ اس کے ذہن میں کیا ہدف تھا؟ تو بس جب تک آرٹسٹ زندہ ہے فوراً ا س کے پاس جاکر اس سے مل کر اس کی زندگی کو ریکارڈ میں لاکر محفوظ کرنا چاہیے۔ کم از کم اس کی نجی زندگی سے صرف نظر کریں۔ اس کی فنی زندگی کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ بات جنگ کے موضوع سے ہٹ کر کہہ رہا ہوں۔ معاشرے کے اہم اور مؤثر افراد کی زندگی کے تجربات کو محفوظ کرنا، اب چاہے وہ آرٹسٹ ہو یا سیاستدان یا کوئی اور ۔۔۔، ہماری زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور یوں ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے اپنی شناخت کے بہترین اور معتبر منابع چھوڑ کر جائیں گے۔



 
صارفین کی تعداد: 3385


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔