استقبال کے لیے پریکٹس اور تیاری

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-11-24


امام خمینی ؒ  کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی۔ اسی حوالے سے ایک دن ہم حفاظتی ٹیم تشکیل دے ہی رہے تھے کہ پیرس سے فون آیا کہ میں یہ ذمہ داری مجاہدین خلق کے سپرد کردوں۔ میرے خیال کے مطابق منصوبہ بندی ڈاکٹر یزدی کی تھی۔ ہم نے اپنی تیاری کو اپنے منصوبے کے مطابق عملی کرنا شروع کیا تو اسی اثناء میں یہ فون آگیا، ہم نے اس اہم کام کی خاطر محترم محمد بروجردی شہید کو بھی مدد کے لیے دعوت دی تھی۔ شہید محمد بروجردی انقلاب سے پہلے مسلح گوریلا فورس میں تھے اور شہید عراقی کے ذریعے میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔ خیر انھوں نے چالیس پچاس سپاہیوں کو اس کام کو منظم کرنے کے لیے جمع کر رکھا تھا۔ سو اسی وجہ سے اس اہم ذمہ داری کا مجاہدین خلق کو سپرد کیا جانا منسوخ ہوگیا۔

البتہ ہماری اس معاملے میں مجاہدین خلق سے مخالفت کی دو اہم وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ میں ان (مجاہدین) لوگوں کو جانتا تھا یعنی جیل میں ان کے ساتھ رہ چکا تھا۔ ان کے نظریے ان کی سوچ اور فکر امام خمینی ؒ کی حمایت میں بالکل نہیں تھی بلکہ وہ امام کو ماننے کے لیے ہی تیار نہ تھے۔  ہماری دوسری دلیل یہ تھی کہ وہ لوگ حال ہی میں جیلوں سے رہا ہوئے تھے سو جسمانی طور پر وہ اس اہم کام کے لئے مناسب نہیں تھے جب کہ شہید بروجردی کے اردگرد کے تمام افراد گوریلا فورس کے آدمی تھی جنھوں نے کئی  سال گوریلا فورس میں ٹریننگ حاصل کی تھی اور ایسے معاملات کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ یہی دلائل ہم نے شورای انقلاب میں دیئے کہ ، جہاں اس حساس موقع پر مسلح گوریلے موجود ہوں اور امام خمینی ؒ کے شیدائی بھی ہوں، ان سے رابطے میں بھی ہوں، مسلح بھی ہوں تو وہاں کیا ضرورت ہے کہ ان مناسب افراد کو چھوڑ  کر ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جنہیں نہ تو حضرت امام خمینی ؒ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ لگاؤ، نہ وہ لوگ کسی قول  اور وعدے کے پابند ہیں نہ ان کے پاس مناسب اسلحہ ہے اور نہ لازمی جسمانی طور پر اس کام کی صلاحیت ہے خلاصہ یہ کہ یہ مجاہدین کسی بھی طور سے امام خمینی کی جان کی حفاظت کے لئے مناسب نہیں تھے۔  شورائے انقلاب کا دفتر اُس وقت مدرسہ رفاہ میں تھا۔ سو، شورائے انقلاب نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ فریقین اس کمیٹی کے سامنے اپنے اپنے دلائل پیش کریں پھر جو فیصلہ ہوگا اسی پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس کمیٹی کے اراکین میں جناب توکلی بینا اور ہاشم صباغیان اور چند دیگر افراد تھے۔ جو ہمارے دلائل سن کر قانع ہوگئے نتیجتاً امام خمینی ؒ کی حفاظت کی ذمہ داری قانونی طور پر ہمیں سونپ دی گئی۔

اور یہی بات مجاہدین خلق کے دلوں میں ہمارے خلاف کینے کا باعث بن گئی  اور وہ ہم سے ناراض ہوگئے۔ خیر یہ فیصلہ ہونے کے بعد اگلے دن جناب بدیع زادگان اور موسی خیابانی مدرسہ رفاہ آئے اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ انہیں بھی اس حفاظتی ٹیم میں شمولیت دی جائے لیکن میں نے نہیں مانا۔ وہ مجبور ہوکر اس کام کی خاطر جناب خلیل اللہ رضائی کے پاس  گئے تو میں نے ان کی بات بھی نہیں مانی جس کے نتیجے میں ان کی کینہ توزی میں اضافہ ہوگیا۔

امام خمینی ؒ کو ایئرپورٹ سے شہر کے اندر لانے کے لیے ہمیں گاڑی کی ضرورت تھی ہمارے دوستوں میں ایک دوست حاجی علی مجمع الصنائع کے پاس بلیزر گاڑی تھی سو ہم نے اسی کا انتخاب کرلیا۔ اور گاڑی کو Miral Push شیشہ فیکٹری میں لے گئے تاکہ اس کے شیشے بلٹ پروف لگوائے جاسکیں۔ گاڑی کی ان مخصوص جگہوں پر فولاد بھی لگایا گیا۔ جہاں امام خمینی ؒ کو بٹھانا تھا۔ خلاصہ یہ کہ جتنا ہمارے بس میں تھا گاڑی کو بلٹ پروف کروا دیا۔ پھر طے یہ ہوا کہ امام کی اس  گاڑی کو مزید آٹھ گاڑیاں اور دس موٹر سائیکلیں سیکیور کریں گی۔ لیکن یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ امام کی گاڑی کون چلائے گا۔ سیکیورٹی پلان کے مطابق مجھے امام کو لے کر ان آٹھ گاڑیوں کے درمیان میں رہنا تھا دو گاڑیاں میرے دائیں بائیں، تین گاڑیاں پیچھے اور ہر گاڑی میں ڈرائیور کے علاوہ چار مسلح افراد کو بٹھایا گیا۔ دس موٹر سائیکلوں میں سے ہر ایک پر دو بندے سوار کئے گئے جن میں ایک مسلح تھا۔ یہ سب احتیاطی تدابیر تھیں۔ جو امام پر کسی بھی ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لئے کی گئیں۔ لیکن مقررہ دن یعنی یکم فروری ۱۹۷۸ ء کو ہم نے دیکھا کہ امام کی حفاظت کا ذمہ خود لوگوں نے لے لیا۔

اسلحہ کی فراہمی بھی ایک اہم کام تھا۔ خود میرے پاس بھی کچھ اسلحہ تھا جو گرفتاری سے قبل میں نے چھپا کر رکھا تھا۔ شہید بروجردی کے بیٹے (صف، منصوریں و موحدین) بھی اسلحہ سمیت جمع ہوگئے اور کچھ اسلحہ میں نے شہید بروجردی کو دے رکھا تھا تو یوں اسلحہ فراہمی کی مشکل بھی حل ہوگئی۔ حفاظتی ٹیم کے سپاہیوں نے بہترین نتائج دکھانے کے لئے پریکٹس کی خاطر مقررہ دن سے قبل صحرا کا انتخاب کیا تھا اور یہ ٹیم ان دنوں مدرسہ رفاہ کی تیسری منزل پر رہائش پذیر تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 2510


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔