یادوں بھری رات کا۳۰۴ واں پروگرام – پہلا حصہ

اسیری سے تلخ ایام کی کہانی

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-8-25


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۴  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۵ جون ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں بخشعلی علیزادہ، ابراہیم خدا بندہ اور محمد ہاشم مصاحب نے مجاہدین خلق آرگنائزیشن(منافقین) اور مرصاد آپریشن سے متعلق اپنے واقعات کو بیان کیا۔

بخشعلی علیزادہ، پروگرام کے پہلے راوی تھے۔ انھوں نے کہا:" میں مارچ سن ۱۹۸۶  کے آخری دنوں میں ایران اور عراق کے مابین ہونے والی جنگ کے محاذ پر، موسیان نامی علاقے میں بعثی فوسرز کے ہاتھوں اسیر ہوا۔ میں تقریباً ساڑھے تین سال تک رمادی کے دس نمبر کیمپ میں، جو عراق میں ایرانی قیدیوں کا کیمپ تھا، رہا۔ وہ کیمپ چار حصوں پر مشتمل تھا، میں اُس کے تیسرے حصے میں تھا۔ میں بہت شدید بیمار تھا اور مجھے بہت زیادہ چوٹیں لگی تھیں، لیکن وہاں پر صحیح سے دیکھ بھال نہیں ہو رہی تھی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ موت کے نزدیک جا رہا ہوں، اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی اسیری کے بقیہ ایام مجاہدین آرگنائزیشن یا رجوی نامی فرقہ میں گزاروں۔ وہ قیدیوں کے کیمپ میں آیا کرتے تھے اور وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا اور تبلیغات کیا کرتے تھے۔ وہ افراد بھرتی کرنا چاہتے تھے۔ میں نے  خود ہی سارا حساب و کتاب کرلیا تھا اور میں نے اپنے آپ سے کہہ دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دو سال تک اُن کے پاس رہوں گا اور جب اسیروں کے تبادلے کا وقت آئیگا تو میں ایران واپس چلا جاؤں گا۔

عراق آرگنائزیشن کا اصلی ہیڈ کوارٹر تھا۔ میں خود کو وہاں تک پہنچانے میں کامیاب رہا اور وہاں پر میں نے ممبر کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔ آرگنائزیشن میں معاشرتی تعلقات کے لحاظ سے بہت زبردست طریقے سے کام کرتے ہیں، بہت تیزی کے ساتھ لوگوں کے منفی اور مثبت پوائنٹس کو ڈھونڈ کر اُن پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔ یہ کہ جو افراد آرگنائزیشن میں آئے ہیں، کون سی چیزوں پر حساسیت رکھتے ہیں، اُن کے مذہبی اعتقادات کس حد تک ہیں؟ اُن کے سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی عقائد کس حد تک ہیں؛ ان تمام چیزوں کو نظر میں رکھتے ہیں اور اُسی "برین واش" کی اصطلاح کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں۔ آرگنائزیشن میں مذہبی لحاظ سے بھی مضبوط افراد تھے۔ ایک ایسا فرد جو اعلیٰ مذہبی عقائد کا مالک ہوتا، اُس کے عقائد پر مسلط ہوجاتے؛ صدر اسلام سے لیکر امام زمانہ (عج) کے زمانے تک اور اُس کے بعد۔ اُن لوگوں کے مقابلے میں جو بے دینی کا دعویٰ کرتے اور مذہبی باتوں سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے، ایسے لوگوں سے اجتماعی طبقاتی مسائل  اور انفرادی و اجتماعی آزادی کے بارے میں باتیں کرتے۔ میں نہ زیادہ مذہبی تھا اور نہ ہی زیادہ بے دین تھا، لیکن معاشرے میں موجود کچھ چیزوں کی نسبت بہت حساسیت رکھتا تھا؛ مثال کے طور پر طبقاتی اونچ نیچ اور غریب و امیر کی بحث۔ میں اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ کچھ ا فراد ناز و نعمت میں زندگی گزاریں اور کچھ افراد فقر، تنگ دستی اور بدبختی میں۔ انھوں نے اس بات کو بہت تیزی سے میرے اندر تلاش کرلیا تھا اور اسی بات کو پکڑ لیا۔ کہنے لگے کہ اس بدبختی اور تنگ دستی کی اصل وجہ جمہوری اسلامی ہے! وہ انقلاب کے شروع میں جو نعرے لگاتے تھے  وہ اُسے عملی کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں، پس انھیں ختم ہوجانا چاہیے!

میں ایسے لوگوں میں سے تھا جو اپنے ملک کا دفاع کرنے گیا تھا، لیکن میں کچھ عرصے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ میں ایک ایسے عنصر میں تبدیل ہوچکا ہو ں کہ ملک کے خلاف کام کر رہا ہوں۔  میں جس زمانے میں گیا، یہ وہی زمانہ تھا جب مرصاد آپریشن ہوا تھا، کہ آرگنائزیشن میں اُسے فروغ جاویدان کہا جاتا۔ اس آپریشن کے بعد آرگنائزیشن کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ۱۵۰۰ کے قریب  افراد کا نقصان ہوا تھا۔ آرگنائزیشن کیلئے کہ جس میں چار ہزار کے قریب افراد تھے، ۱۵۰۰ لوگوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ دوسری طرف سے زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی جس سے عراق کے ہسپتال بھرے پڑے تھے۔ بہت کم افراد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے کہ دراصل وہ بھی جنگی محاذ پر پیچھے رہنے والی فورس تھی۔ اُس زمانے میں مریم رجوی کے کاندھوں پر  ابھی تک کوئی بڑی ذمہ داری نہیں تھی۔ اصلی کام کی ذمہ داری مسعود رجوی کے پاس تھی۔ اُس کی تمام گفتگوؤں کا موضوع لوگوں کو اس مایوسی اور دل ٹوٹ جانے والی ماحول سے باہر نکالنا تھا کہ جو آرگنائزیشن میں پھیل چکا تھا۔ یہ ضربہ کوئی چھوٹا ضربہ نہیں تھا۔ انھوں نے تہران پر قبضہ  کرنے کے ارادے سے حملہ کیا تھا۔ تہران میں رجوی ہیڈکوارٹر تیار ہوچکا تھا۔ انھوں نے اس سوچ کے ساتھ حرکت کی تھی اور اُسے عملی جامہ نہیں پہنا سکے تھے۔ یہ شکست نفسیاتی مار، جسمانی مار، نظریاتی ماراور سیاسی مار تھی۔ آرگنائزیشن  کے وجود پر ہر طرح کے ضربے وارد ہوئے تھے۔ مسعود رجوی کا بھی سارا ھم و غم یہی تھا کہ وہ بکھری ہوئی آرگنائزیشن کو سمیٹے آلٹرنیٹو جمہوری اسلامی کے عنوان سے  اپنی فورسز کو دوبارہ مضبوط بنا کر نظام کے خلاف کاروائی شروع کرے۔ یہ وہ چیز تھی جو تمام نشستوں میں نمایاں تھی، اسی وجہ سے کچھ کمانڈروں کو لایا جاتا تاکہ شکست کی اصلی وجہ کو سمجھا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اصلی وجہ، خود لوگ تھے۔ چار سے پانچ ہزار افراد پر مشتمل فورس ایک ایسے ملک سے لڑنے آئی ہے جس کی افواج کی تعداد کم سے کم دس لاکھ ہے۔ انھیں اصلاً مقابلے پہ آنے والی فورس سے سروکار  ہی نہیں تھا، ہر بات کا قصور وار آرگنائزیشن کی فورس کو ٹھہرا رہے تھے  اور کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے ایسا ہوا کہ ہم تہران نہیں پہنچ سکے۔ وہاں پر کچھ معلومات تھیں جس کی بنیاد پر کہہ رہے تھے کہ ہم چھار زبر کے موڑ سے کیوں عبور نہیں کرسکے؟ کرمانشاہ کے راستے میں اسٹریٹجک ایریا تھا کہ ہائی وے اُس کے درمیان سے گزرتا؛ اُس موڑ کو چھار زبر کہا جاتا تھا۔ آرگنائزیشن اپنی افواج کو وہاں سے گزارنے میں کامیاب نہیں رہی۔ اُس طرف جمہوری اسلامی کی فورسز تھیں اور اس طرف رجوعی فورسز تھیں۔ وہاں پر ایرانی ایوی ایشن ادارے کے جنگی طیارے وارد عمل ہوئے اور انھیں کافی نقصان پہنچایا۔ وہ لوگ بھی جو ہائی وے پر تھے، انھیں شکست ہوئی اور انھوں نے تیزی سے پلٹنا شروع کردیا۔

جب ہم آرگنائزیشن میں آئے، میں دیکھتا کہ وہ جوش و ولولہ دکھائی نہیں دے رہا جو ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے۔ اُن کا سیمای مقاومت کے نام سے ٹی وی پر ایک پروگرام آتا تھا  جو روزانہ تقریباً دو گھنٹے، شام ۷ بجے سے ۹ بجے تک عراق کے ایک نمبر چینل سے آتا تھا۔ پروپیگنڈا تھا۔ مجاہد خواتین اور مردوں کی لڑائی کے مناظر دکھاتے تھے۔ میں نے جاکر دیکھا تو وہاں ایسی کوئی خبر ہی نہیں۔ سب بھرے بیٹھے ہیں اور اُن کے چہروں سے غم عیاں ہے۔ جیسا کہ مجھے معاملے کی زیادہ خبر نہیں تھی تو مجھے وہاں پر چھائے ماحول کو سمجھنے میں دیر لگی کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ جمہوری اسلامی نے آرگنائزیشن کے وجود پر سنگین نظامی ضربہ لگایا ہے۔ اُس کے بعد کویت کی کہانی شروع ہوگئی، جنگ بند ہوئی اور پھر قیدیوں کا تبادلہ۔ میں نے بھی ایسے وقت فیصلہ کیا کہ میں آرگنائزیشن میں  ہی رہوں۔ میں نے دیکھا کہ اُن کے نعرے میرے کچھ عقائد سے میل کھاتے ہیں۔ اصل میں وہ آئیڈیل شہر جو میرے ذہن میں موجود تھا، اُن کے نعروں اور آرزؤں میں دکھائی دیا۔ لہذا میں نے قیدیوں کے تبادلے کے وقت بھی اُن کے پاس رکنے کا فیصلہ کیا۔

انسان جب تک مجاہدین آرگنائزیشن (منافقین) سے وابستہ نہیں رہے گا، اُسے پتہ نہیں چلے گا کہ اُس طرف کیا ہو رہا ہے؟ کچھ لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس طرح ۳۰ سال تک آرگنائزیشن میں رہے؟ یہی محرکات اور یہی اعتقادات وجہ بنے تھے۔ ہم بھی اُس طرف یہ سوچتے تھے کہ ہم ایرانی عوام اور خدا کی رضا کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آرگنائزیشن کو چلانے والا آرگنائزیشن کے افراد سے سوء استفادہ کر رہا ہے۔ مسعود رجوی جس چیز کے درپے تھا وہ حکومت اور قدرت کو حاصل کرنا تھا  اور یہ موضوع اُس کی تقریروں میں بہت عیاں تھا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ انقلاب کے زمانے میں ایرانی سلطنت کو چرا لیا گیا ہے۔ کس سے چرایا گیا ہے؟ اُس کی مراد یہ تھی کہ اُس سے چرایا گیا ہے! وہ کہا کرتا: مجھے صدر بننا چاہئیے تھا، مجھے رہبر بن چاہئیے تھا! یہ موضوع اُس کی تقریروں میں بہت دیکھنے میں آتا۔ اب بھی اُس کی طرف سے جو پیغامات آتے ہیں، یہ موضوع اُس میں دکھائی دیتا ہے۔

عراق نے حملہ  کرکے کویت پر قبضہ کرلیا۔ ہم اشرف چھاؤنی سے پہاڑوں پر منتقل ہوکر وہاں پر چھپنے پر مجبور ہوگئے تاکہ اتحادی افواج کے طیاروں کی بمباری سے امان میں رہیں۔ یہاں تک کہ مروارید آپریشن کا قضیہ پیش آیا۔ ہم اُسے مروارید کہا کرتے تھے اور مجھے نہیں پتہ کہ اُسے ایران میں کیا کہتے تھے۔ عراق میں جو ہلچل مچی ہوئی تھی، رجوی نے کچھ فورسز کو ایران کے بارڈر کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی فورس میں تھا جو خانقین کی طرف گئی۔ وہاں پر جھڑپیں ہوئیں لیکن معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ وہاں پر ایک ہفتہ گزرا اور پھر ہم اشرف چھاؤنی میں واپس آگئے۔ وہاں پر ہنگامہ اور رش بہت تھا۔ جنگ تھی ، آرام کرنے والے دن نہیں تھے۔ اس وقت جب مرصاد کی یاد منائی جا رہی ہے اور میں وہاں بہت زیادہ عرصہ رہنے اور مناظر دیکھنے کے عنوان سے، یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جمہوری اسلامی نے آرگنائزیشن پر جو شدید اور مہلک ضربے لگائے تھے اُس کا ابھی بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اُس زمانے میں انھوں نے نظریاتی انقلاب کے نام سے کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا آپ لوگوں کو چہار زبر موڑ پر شکست کا سامنا ہوا، اس لئے کہ آپ کو اپنے بیوی بچوں کی فکر تھی، جس آدمی کو اپنے بیوی بچوں کی فکر ہو، وہ فداکاری نہیں کرسکتا اور خودکش کاروائی انجام نہیں دے سکتا! آپ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیدیں اور اپنے بچوں کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں! کچھ عرصے بعد عضویت رکھنے والے افراد کو مختلف گروپس کی صورت میں یورپی ممالک بھیجا گیا تاکہ انھیں ایسے گھروں میں رکھا جائے جو آرگنائزیشن کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا اُسے آرگنائزیشن سے نکال دیا جاتا۔

جیسا کہ افراد بنیادی طورپر نظریاتی  افراد میں سے تھے، سن ۱۹۸۱ء کے شروع سے  بہت لوگ  ملحق ہوئے۔ الگ الگ محاذ بنے ہوئے تھے۔ جو لوگ آئے تھے اور آرگنائزیشن کی حمایت کرتے تھے، زیادہ تر رجوی کی شخصیت کی وجہ سے کرتے تھے۔ بیرونی طور پر جس چیز کو دکھایا تھا وہ اندر والی چیز سے مختلف تھی ۔ ہم ظاہری طور پر اُس کو دیکھ رہے ہوتے جو جان کی بازی لگانے والا رہبر ہے اور اُس نے پوری زندگی ایرانی افراد کی آزادی اور رہائی کیلئے  گزار دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم سمجھ گئے کہ جب ہم فرقوں کے رہبر کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں اچھی طرح پتہ چل جاتا ہے کہ فرقہ کا رہبر ظاہری طور پر الگ چیز ہے اور باطنی طور پر ایک وحشتناک حیوان ہے۔ ہم اُس کے ظاہری دھوکے میں آگئے تھے اور ہمیں متوجہ ہونے میں کافی عرصہ لگا۔ سن ۲۰۰۳ ء کے بعد جب امریکا نے حملہ کیا اور صدام حسین کا تختہ اُلٹ گیا اور رجوی مخفی ہوگیا، بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ اگر تم رہبر ہو، اگر تم شہادت کی بات کرتے ہو، اگر تمہارا راستہ وہی امام حسین (ع) والا راستہ ہے، تمہارے مقاصد وہی امام زمانہ (عج) والے مقاصد ہیں اور تم ایران میں غیر طبقاتی توحیدی معاشرہ دیکھنا چاہتے ہو، تم کہاں چھپ گئے ہو؟! باہر نکلو! ہم ہر روز عراقی فوجیوں کی بندوق اور گولیوں کی زد میں تھے، ہر دن کتنے ہی لوگ مارے جاتے اور زخمی ہوتے؛ اگر شہادت اچھی چیز ہے توتم آؤ اور شہید ہوجاؤ اور اگر تم نہیں تو کوئی اور آکر تمہاری جگہ آرگنائزیشن کی قیادت سنبھال لے۔ اُس کے بعد بہت سے لوگ مخالف ہوگئے۔ اگر آپ نگاہ ڈالیں تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ سن ۲۰۰۳ء کے بعد بہت زیادہ لوگ آرگنائزیشن سے نکلے۔ بہت سے افراد فرار کرگئے، بہت سوں نے جدائی کا اعلان کردیا۔ ماجرا اسی طرح گزر رہا تھا۔ ابھی بھی جنگ جاری ہے۔ وہ محاذ اور یہ محاذ ہر کوئی اپنے اپنے کام انجام دے رہا ہے۔ ایسے میں حق ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو قوم پر حکومت کر رہے ہیں اور اگر حق ساتھ نہیں ہوتا، چالیس سال تک حکومت نہیں کرسکتے تھے۔

میں ۳۳ یا ۳۴ سال بعد ایران واپس آیا۔ جو چیزیں میں دیکھ رہا تھا وہ بالکل میرے تصورات سے باہر تھیں۔ میں سن ۱۹۸۱ء کے اوائل میں گیا تھا۔ میں جس ایرانی کو دیکھ رہا تھا وہ اُس ایرانی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس کا پروپیگنڈہ آرگنائزیشن کرتی تھی۔ جب میں پہلی دفعہ تہران کی سڑکوں پر آیا، اُس کی شاہراؤں، اُس کی سرنگوں اور اُس کی عمارتوں کو دیکھتا تو تعجب کرتا۔ یہ تو اُس چیز سے بالکل مختلف ہے جس کا آرگنائزیشن میں پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ آرگنائزیشن میں ہمیشہ  پروپیگنڈہ کیا جاتا کہ ایران پر ایسا ماحول حاکم ہے کہ ایرانی قوم بھوک سے مر رہی ہے اور سڑکوں پر جنازے پڑے ہوئے ہیں! میں الگ ہونے کے بعد تقریباً تین سال یورپی ممالک میں گھوما  اور جرمنی کے بعد ایران واپس آگیا۔ جس زمانے میں ہم آرگنائزیشن میں تھے ہم سوچتے تھے  پھولوں اور پرندوں کے باغات ہیں اور ایران کے علاوہ سب جنت میں رہتے ہیں۔ میں نے یورپ جاکر دیکھا کہ وہ لوگ جو اتنی تعریفیں کرتے ہیں، وہاں بیکاری، غربت، فساد ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے تضاد کو دیکھ رہا تھا۔ آرگنائزیشن میں کیسی باتیں کی جاتی تھیں اور ہم جو اس وقت باہر ہیں، ہمیں ماجرا کس طرح دکھائی دے رہا ہے؟ جب میں ایران میں داخل ہوا، ماجرا سرے سے ہی کچھ اورتھا۔ سب چیزیں بدل چکی تھیں۔ میرے اپنے گھر میں بہت تبدیلی آگئی تھی۔ تین دھائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا، متاسفانہ بہت  سے لوگوں کا انتقال ہوچکا تھا۔ جو بچے چھوٹے تھےوہ بڑے ہوچکے تھے اور اُن کی شادی ہوگئی تھی۔ زندگی اُسی طرح جاری و ساری تھی، لیکن ہمیں بالکل ایک جھوٹی فضا کے اندر برین واش کردیا گیا تھا اور ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔ وہ نظریاتی نشستیں منعقد کرتے۔ ان نشستوں میں افراد متاثر ہوتے۔ وہ کہتے ہیں عوامی ہیرو، لیکن عوامی ہیرو کا وجود نہیں ہے۔ آپ نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ جو لوگ آرگنائزیشن سے الگ ہوئے ہیں، انہی عوامی ہیروز میں سے ہیں۔ انھوں نے کئی سالوں تک آرگنائزیشن کے رہبر کیلئے فداکاری کی، لیکن وہ الگ ہونے والے لوگ آج ملک آلبانیہ میں بہت بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے اُس کے لئے سالوں فداکاری کی، کم سے کم انسانیت بھی یہ دستور دیتی ہے کہ انھیں مالی طور پر سپورٹ کیا جائے۔ لوگوں کو بغیر شناخت کے ایک اجنبی معاشرے میں، وہاں کی زبان سے لابلد، چھوڑ دیا ہے۔ اُن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ آلبانی حکومت نے صرف انہیں ایک کاغذ دیا ہے جس پر اُن کی تصویر لگی ہوئی وہ بھی اس لیے کہ پولیس انہیں گرفتار نہ کرے۔ ہر مہینے یا دو تین مہینے بعد اُس کی مہلت بڑھا دی جاتی ہے۔ آرگنائزیشن نہ صرف یہ کہ اُن کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، اگر کوئی بات بھی کرے، وزارت انٹیلی جنس کے ایجنٹ اُن سے باز پرس کرتے ہیں۔ یہ آرگنائزیشن کس طرح آکر ایک ۸۰ ملین معاشرے کی ذمہ داری سنبھال سکتی ہے؟! میں ایک ایسے شخص کے عنوان سے جس نے دونوں طرف کے معاملات کو دیکھا ہے، اس تضاد کو درک کر رہا ہوں۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ ایران کی ذمہ داری سنبھال لے، نہ صرف یہ کہ وہ حالات کو کنٹرول نہیں کرسکتا، بلکہ حالات کو مزید خراب کردیگا۔ اُس طرف جمہوری اسلامی کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈا ہے ۔ بغیر کسی مبالغہ کے کہہ رہا ہوں کہ اُس طرف جو کچھ بھی ہے، جھوٹ اور بکواس ہے۔"

یادوں بھری رات کے پروگرام کے میزبان سید داؤد صالِحی نے کہا: "ہمیں اشرف چھاؤنی کا کوئی واقعہ سنائیں۔" علیزادہ نے کہا: "اہم ترین واقعہ کا زمانہ وہ تھا جب مختلف گھرانے لوگوں سے ملنے آئے۔ سن ۲۰۰۳ء میں کچھ گھرانے افراد سے ملنے کیلئے عراق آنے میں کامیاب ہوئے۔ چند سال بعد ، یہ رابطہ منقطع ہوگیا۔ سن ۲۰۰۹ء میں جب لوگوں گھر والے آئے، آرگنائزیشن نے دروازوں کو بند کردیا؛ اس وجہ سے کہ یہ لوگ گھر والے نہیں ہیں بلکہ انٹیلی جنس ادارے کے افراد ہیں۔ ہمیں اپنے گھر والوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ اُس زمانے میں میرے والد صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ سازمان کے پروپیگنڈے جو مجھ پر تاثیر ڈالی تھی میں اس وجہ سے، اس کے باوجود کہ میرا اپنے والد سے ملنے کا بہت دل چاہ رہا تھا، لیکن متاسفانہ میں اُن سے ملنے نہیں گیا۔ میں اس بات پر اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکتا۔ میرے والد صاحب اُس زمانے میں ۷۰ سال کے تھے۔ وہ راستے کی اُس سختی اور اتنی ضعیفی میں مجھ سے ملنے آئے تھے۔ یہ بات میرے دل میں رہ گئی اور بعد میں مجھے اس پر بہت شرمندگی ہوئی۔ میں نے اُن کے ہاتھ پاؤں چومے اور اُن سے معافی مانگی۔ لیکن وہ دن، اُن دنو ں میں سے ایک ہے جو میری یادوں میں تلخی کے ساتھ باقی ہے۔"

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2718


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔