جلا وطنی کا خرچہ

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-6-26


میں ۳۰ مارچ سن ۱۹۷۸ والے دن  ۱۸ فروری ۱۹۷۸ کو تبریز  میں قیام کرنے والے شہداء کے چہلم کی مجلس پڑھنے کیلئے ارومیہ کی مسجد اعظم میں گیا۔ بہت ہی مفصل مجلس تھی۔ میں نے اپنی باتوں کے درمیان پہلوی حکومت کے جرائم پر تنقید کی۔

اُس زمانے میں ارومیہ کے گورنر کا نام کامران تھا۔ صوبہ کے سیکیورٹی کمیشن میں اُس کی تجویز کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مجھے  کرمان کے انڈسٹریل علاقے میں جلا وطن کردیا جائے، لیکن اس بارے میں خود مجھے ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ میں نے مختلف معتبر افراد سے  سن رکھا تھا کہ ساواک، پولیس اور گورنر سب نے مجھے جلا وطن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، حتی مرحوم حاجی مولانا محمود شیخ  زادہ جو میرے دوست تھے، انھوں نے مجھ سے کہا: "فلاں شخص تم ہمیشہ سفر کیلئے تیار رہو اور اپنی جیب میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ پیسے رکھو، کہیں ایسا نہ ہو تمہاری غفلت سے فائدہ اٹھاہ کر اچانک تمہیں پکڑلیں اور کسی اجنبی جگہ بھیج دیں۔ اگر تم اس کیلئے تیار نہیں ہوئے تو تمہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا"۔ بالآخر میں ہمیشہ اور ہر لمحہ تیار رہتا تھا، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ میں ۲۲ اپریل سن ۱۹۷۸ والے دن صبح سویرے اپنے گھر سے باہر نکلا۔ اچانک کوئی پیکان گاڑی لیکر پہنچا اور کہنے لگا: "اے فلانی میں آپ کو پولیس تھانے تک لے جانے کیلئے آیا ہوں، میں حکومتی گاڑی اس لئے نہیں لایا تاکہ لوگوں کی نظروں میں نہ آئے۔ اپنی ذاتی گاڑی لیکر آیا ہوں۔ برائے مہربانی آپ گاڑی میں تشریف رکھیں!" ہم پیکان گاڑی میں بیٹھے اور پولیس تھانے پہنچ گئے۔ پولیس تھانے کا انچارج بہائی فرقے کا ایک خبیث شخص تھا جس کا نام "ایمانی" تھا۔ اُس نے میری ذرا بھی پروا نہیں کی، نہ کوئی سلام، نہ کوئی بات چیت۔ مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا اور مجھ  سے کچھ نہیں کہا۔ لیکن مجھے مشکوک رفت و آمد ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی اور مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرلیا گیا ہے یا فیصلہ ہو رہا ہے؛ لہذا میں نے خود کو ہر طرح کے واقعہ کیلئے تیار کرلیا۔ جس دن مجھے لے گئے تھے اُس سے ایک دن پہلے حضرت زہرا (س) کی وفات کا دن تھا اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے ادارے میں کام کرنے والا ایک دیندار سپاہی مجھے کچھ خمس کی رقم دے گیا تھا، اُس کا نام، فیملی نام، گھر اور آفس کا مکمل پتہ اُس لفافے پر لکھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا اگر انھوں نے میری تلاشی لی تو انھیں یہ لفافہ مل جائے گا اور یہ لوگ اس بندہ خدا کے پیچھے پڑ جائیں گے؛ لہذا میں نے اُس کمرے میں جہاں میں تنہا تھا، میں نے پینسل سے جتنا ہوسکا اُس لفافے پر لائنیں لگادیں اور اُس شخص کے ایڈریس کو محو کردیا۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد، ایک سپاہی آیا اور میرے سامنے پڑی میز پر ایک کاغذ رکھ کر کہا: "آپ کو ایک سال کیلئے کرمان کے انڈسٹریل علاقے میں جلا وطن کیا جا رہا ہے، آپ اس کاغذ پر دستخط کردیں"۔ میں نے کہا: "مجھے اس فیصلے پر اعتراض ہے"۔ اُس نے کہا: "ٹھیک ہے لکھ دو مجھے اعتراض ہے اور دستخط کردو"۔

میں نے قلم اٹھا کر لکھ دیا کہ مجھے جلا وطنی کے فیصلے پر اعتراض ہے اور دستخط کردیئے۔ وہ شخص کاغذ اٹھا کر لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگے: "چلئیے جناب!" میں کھڑا ہوگیا اور تھانے کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے نیچے آگیا۔ دروازے پر ایک جیپ کھڑی کی ہوئی تھی، کہنے لگے: "گاڑی میں بیٹھ جائیں"۔

میں فوجی جیپ میں آگے والی سیٹ پر بیٹھ گیا، میری دائیں طرف سیکیورٹی ادارے کا ایک اہلکار بیٹھا، ایک دوسرا اہلکار پیچھے والی سیٹ پر اور میری بائیں طرف بھی ڈرائیور تھا۔ گاڑی نے شہر سے باہر نکلنے کیلئے ارومیہ سے مہاباد کی طرف جانے والی سڑک کی طرف حرکت کی۔ میں نے کہا: "مجھے کم سے کم اپنے گھر والوں سے تو مل لینے دیں اور میں اپنے لئے ایک اضافی لباس اٹھالوں!" انھوں نے کہا: "اب ممکن نہیں ہے۔ اب آپ صرف چیک پوسٹ کے ٹیلی فون سے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرسکتے ہیں۔" میں نے ٹیلی فون کیا، میرے بڑے بیٹے حجت الاسلام سید مہدی جو اُس زمانے میں نوجوان تھا، اُس نے فون اٹھایا۔ میں نے اُسے تمام باتوں سے آگاہ کیا۔ اُس نے مجھ سے کہا: "بابا جان! آپ خدا کی امان میں ۔۔۔ ہماری طرف سے پریشان نہیں ہوئے گا، آپ انشاء اللہ صحیح و سالم واپس آئیں گے، اپنا خیال رکھئیے گا۔"

ان باتوں سے مجھے بہت زیادہ تسلی ملی۔ مجھے ارومیہ کے اطراف میں "بالانج" نامی گاؤں کی چیک پوسٹ تک پہنچایا گیا۔ چیک پوسٹ کے انچارج نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور ایک نگاہ سپاہیوں پر ڈالی اور کہا: "ارے بابا تم لوگ کیوں ان لوگوں کو مستقل ادھر سے اُدھر کھینچ رہے ہو، ایک دفعہ کھینچ لو اور معاملہ ختم کرو تاکہ ہم لوگ بھی سکون میں آجائیں، یہ  لوگ بھی ! آخر کب تک؟ ہر روز ادھر لے جاؤ، اُدھر لے جاؤ اور ۔۔۔"  خلاصہ یہ کہ مجھے وہاں سے مہاباد کی طرف بھیج دیا گیا۔ ہم ظہر کے وقت مہاباد پہنچ گئے۔ اُس زمانے میں آیت اللہ مکارم شیرازی بھی مہاباد میں اور مرحوم ربانی شیرازی سردشت میں جلاوطن تھے اور اصفہان کے سابق امام جمعہ جناب طاہری اصفہانی کو بھی حال ہی میں مہاباد لایا گیا تھا۔ میں پہلے آیت اللہ مکارم شیرازی سےملنے کیلئے مہاباد گیا تھا، لیکن اس دفعہ مجھے ملنے نہیں دیا گیا۔ حتی ہم لوگ جس مسافر خانہ میں آرام کررہے تھے، بتایا گیا: طاہری صاحب بالائی منزل پر ہیں، لیکن انھوں نے مجھے اُن سے ملنے نہیں دیا۔ ہم نے مہا باد سے بوکان، سقز اور سنندج کی طرف حرکت کی۔ رات کو سنندج میں ٹھہرے، اگلے دن کرمانشاہ اور وہاں سے اصفہان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے مغربین کی نماز اصفہان میں پڑھی۔ اب یہاں پر ہمیں استراحت کرنے کی مہلت نہیں دی، یہاں سے فوراً روانہ ہوئے اور میں نے  صبح کی نماز کرمان کی جامع مسجد میں پڑھی؛ وہی مسجد جسے کچھ عرصے بعد، حکومتی کارندوں نے آگ لگا دی تھی اور لوگوں نے نعرے لگائے تھے: "کرمان کی مسجد کو، قرآن کو، مسلمانوں کو،  شاہ نے آگ لگادی!"ایک شخص میرے نزدیک آیا اور آہستہ سے پوچھا: "تمہیں جلا وطن کیا گیا ہے؟" میں نے کہا: "ہاں، جلاوطن ہوا ہوں!" پھر اُس نے کچھ نہیں کہا اور واپس چلا گیا۔

ہم نے فوراً کرمان انڈسٹریل علاقے کی طرف حرکت کی۔ کرمان اور انڈسٹریل علاقے کے درمیان، ایک خطرناک موڑ موجود ہے جس کا نام کفنو ہے۔ رات کے تقریباً نو یا دس بجے مجھے کرمان انڈسٹریل علاقے کے گورنر ہاؤس کی تحویل میں دیا گیا اورخود واپس  چلے گئے۔ اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سپاہیوں نے راستے بھر کھانے اور مسافر خانے کے اخراجات میرے گردن پر ڈال دیئے تھے! بعد میں وہاں پر ایک آدمی نے مجھ سے کہا: جب کسی کو جلا وطن کیا جاتا ہے، تو سپاہیوں کے راستے کے تمام اخراجات خود حکومت کے ذمے ہوتے ہیں۔ سپاہیوں نے چالاکی دکھاتے ہوئے تمہارے جلا وطنی کے اخراجات ہڑپ کرلئے !



 
صارفین کی تعداد: 2700


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔