ادھوری پرواز

الہام صالح

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-5-20


پانچ افراد تھے؛دفاع مقدس کے کمانڈروں میں سے پانچ کمانڈر۔ ۲۸ ستمبر ۱۹۸۱ کا دن تھا۔ ثامن الائمہ (ع) آپریشن دو دن پہلے کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ وہ لوگ ہوائی جہاز کے ذریعے تہران واپس آنا چاہتے تھے، لیکن اُن کی پرواز ادھوری رہ گئی اور وہ لوگ شہید ہوگئے۔

پانچ افراد تھے:

جواد فکوری؛ جنوری ۱۹۳۸ میں تبریز میں پیدا ہوئے۔ فضائی افواج کے پائلٹ کالج میں داخل ہونے کیلئے میڈیکل کی پڑھائی چھوڑ دی۔ سن ۱۹۶۳ اور سن ۱۹۷۷ میں پڑھائی اور ایف – ۴ لڑاکا طیارے کی ٹریننگ حاصل کرنے کیلئے امریکا گئے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوری ایران کی فضائی آرمی  اور دفاع مقدس کے دوران فضائی افواج کے آپریشن میں منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے ایک اور فضائی آرمی کے کمانڈر اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع تھے۔

ولی اللہ فلاحی؛ سن ۱۹۳۱ میں طالقان میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران کی بری افواج  کے کمانڈر اور ۱۹ اگست ۱۹۷۹  کو فوج کے مشترکہ اسٹاف کے سربراہ بنے۔

سید محمد علی جہان آرا؛ ستمبر ۱۹۵۴ میں خرم شہر میں پیدا ہوئے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، خرم شہر میں سپاہ پاسداران کے بنانے والے اور اس سپاہ کے کمانڈر اور اہواز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ تھے۔

سید موسی نامجوی؛۱۹۳۸ میں بندر انزلی میں پیدا ہوئے، کیڈٹ کالج سے پڑھائی مکمل کی اور اس کالج میں تعلیمی انجمن کے ممبر رہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، کیڈٹ کالج کی ذمہ داریوں  کو سنبھالا۔ شہید ڈاکٹر مصطفی چمران کی شہادت کے بعد، کمانڈر انچیف کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع بھی تھے۔

یوسف کلاھدوز؛ جنوری ۱۹۴۷ میں قوچان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فوج کے کیڈٹ کالج میں داخلہ لیا اور اپنے اندر موجود ہوش اور صلاحیت کی وجہ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچے، لیکن اس صورت حال میں بھی انھوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کیلئے جدوجہد کی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی کے بانیوں میں سے اور پوری سپاہ کے کمانڈر کے ڈپٹی سیکریٹری تھے۔

ہر سال ۲۹ ستمبر کو ان افراد کی یاد منائی جاتی ہے، جیسا کہ یہ تمام سربراہ ، برجستہ افراد تھے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے واقعات میں آیا ہے: "شہید کلاھدوز، غیر معمولی اور نایاب لوگوں میں سے تھے۔ میں نے سپاہ کے افراد سے کئی بار کہا ہے اور اب بھی کہہ رہا ہوں [وہ] ایسے انسان تھے کہ اگر وہ زندہ رہتے، اس بات کی اُمید  تھی کہ سپاہ اپنی کوششوں اور امید بخش حرکتوں کی رفتار کو دو گنا کردے۔ وہ ایک ایسے مرد تھے جو فوج کی مہارت اور تجربے کو سپاہ میں لائے تھے  اور وہ خود بھی ایک حقیقی سپاہی بن چکے تھے۔ اس طرح سے کہ جو لوگ سپاہ میں تھے، اُنھیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ جوان فوجی تھا۔"

انھوں نے سید محمد علی جہان آرا کے بارے میں بھی کہا ہے: "محمد جہان آرا اور ہمارے دوسرے جوانوں نے عراق کی تجاوز کرنے والی افواج – خاص فوجیوں پر مشتمل بریگیڈ ایک عراقی بکتر بند ڈویژن  اور نوے ٹینکوں کے ساتھ کہ جنھوں نے خرم شہر پر شب و روز بمباری  کی – سے ۳۵ دن تک ڈٹ کر مقابلہ کیا۔"

انقلاب اسلامی کے رہبر نے اپنے واقعات میں دوسرے سربراہوں کا ذکر بھی کیا ہے؛ سید محمد موسی نامجوی؛ "میں نے خلوص، ہمدلی، پاکیزگی اور مسائل کو حل کرنے کیلئے مسلسل بھاگ دوڑ کرنے میں سنجیدگی کو اس شخص کے اندر دیکھا جو فوجی لباس میں تھا اور واقعاً یہ اُن کی خواہش تھی کہ فوج، ایک اسلامی فوج اور امام زمانہ (ع) کی سپاہی ہو۔"

ان واقعات میں، کیڈٹ کالج میں شہید نامجوی کے کردار  کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے: "انصاف کی بات ہے کہ شہید نامجوی کے کیڈٹ کالج میں جانے سے پہلے کیڈٹ کالج کچھ بھی نہیں تھا۔ جب وہ وہاں گئے تو انھوں نے حقیقت میں  اُسے آباد کردیا۔"

آیت اللہ خامنہ ای کے واقعات میں ولی اللہ فلاحی کا نام بھی دکھائی دیتا ہے: "انقلاب کے اوائل میں ہم ایک دن مرحوم شہید فلاحی کے ساتھ بلوچستان جا رہے تھے۔ آپ لوگ اس بات سے مطلع ہیں کہ امام نے فوج میں میری ڈیوٹی لگائی تھی۔ کسی پروگرام کے تحت ہم تہران سے چابہار کی طرف جا رہے تھے۔ ایک کوپے کے اندر فوج کے ۷- ۸ افراد اور مرحوم فلاحی ہمارے ساتھ تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور صرف مرحوم فلاحی کا روزہ تھا۔ ہم سب لوگ، جیسا کہ ہم لوگ سفر میں تھے، ہم نے روزہ کھول لیا تھا۔ میں نے فلاحی سے کہا آپ کیوں روزہ نہیں کھول لیتے؟ انھوں نے کہا: میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں اور سفر میں بھی روزہ رکھتا ہوں۔ پھر انھوں نے کہا میں ۸- ۹ سال کی عمر سے روزہ رکھ رہا ہوں۔"

یہ پانچ کمانڈرز، ۲۹ ستمبر والے دن جب سی – ۱۳۰ طیارہ ان افراد کو لیکر مہرآباد ایئرپورٹ سے ۱۷ میل کے فاصلے پر تھا، حادثہ کا شکار ہوگئے۔ طیارے کی چاروں موٹریں ایک ساتھ بند ہونے کا حادثہ پیش آیا تھا۔ پائلٹ  کی طیارے کو زمین پر اتارنے  کی کوشش کامیاب نہیں رہی۔ طیارے کے پروں کو دستی ہینڈل سے کھولا گیااور ہوائی جہاز ۲۷۰ میٹر کا فاصلے طے کرنے کے بعد ناہموار زمین پر اترا، لیکن طیارے کا بایاں پر زمین پر  لگنے کی وجہ سے، طیارے میں آگ لگ گئی۔

طیارہ کھریزک کے اطراف میں "دوتویہ بالا" اور "دو تویہ پایین" کے علاقے میں گرا تھا۔ بعض ایسے دیہاتی جنھوں نے اس حادثہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، انھوں نے روزنامہ کیہان کے خبرنگاروں کو اپنے مشاہدات کے بارے میں بتایا: "ہوائی جہاز کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور اُس کا ایک ٹکڑا آگ کے شعلوں میں جل رہا تھا اور زخمیوں کی آواز جو مدد کیلئے پکار رہے تھے صحرا کی تاریکی میں سنائی دے رہی تھی، لیکن زخمیوں کی جگہ کو تلاش کرنا ممکن نہیں تھا اور یہ کام اُس وقت انجام پایا جب ہیلی کاپٹر آسمان پر نمودار ہوئے اور انھوں نے تیز اور قوی لائٹوں سے سب جگہ کو روشن کردیا۔"

فائر بریگیڈ کے ۹، ۴، ۱۸، ۱۳، اور ۱۴ ویں اسٹیشن ہوائی جہازے کے سقوط کرنے کی خبر دریافت کرنے کے بعد رات کو ۸ بج کر ۳۱ منٹ پر حادثہ رونما ہونے والی جگہ روانہ ہوئے۔ امدادی کارکنان، ایمرجنسی گروپس، پاسداروں اور لوگوں کے بہت سے گروپس حادثہ کی جگہ پر گئے  اور جلے ہوئے جسموں کو طیارے سے باہر نکالا گیا۔



 
صارفین کی تعداد: 3325


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔