ایک شام شہر "دیباج" کے نام

محمد مہدی عبد اللہ زادہ

مترجم: سید نعیم الحسن شاہ

2019-3-26


دیباج نامی شہر دامغان شہر کے شمال میں ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر "گلوگاہ" کے راستے میں واقع ہے۔ اس شہر کا پرانا نام "چہاردہ" تھا۔ یہ شہر تین  محلوں، قلعہ، ورزن اور زردوان پر مشتمل ہے اور یہ تینوں جڑواں محلے ہیں۔ یہ تو فروری سن ۲۰۰۰ کی بات ہے جب ہمیں "تا بہشت" (جنت تک نامی کتاب کی رونمائی اور اس کے بارے میں ہونے والے پروگرام میں "دیباج" جانا پڑا۔  ہمیں یاد ہے کہ اس وقت اس پہاڑی  شہر کی گلیاں اور سڑکیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ یہ پروگرام دیباج شہر کے محلہ ورزن کی مسجد میں سمنان شہر کے ثقافتی مرکز اور دیباج بلدیہ  کی کاوشوں کے نتیجے میں منعقد ہوا۔

"یادوں کی ایک شب" کے اس پروگرام میں سٹیج سیکریٹری کے فرائض،  تمام صوبوں میں مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز اور ملک میں آرٹ شعبے کی انجمن  کے مینجرمحمد  قاسمی پور نے انجام دیئے۔  سب سےپہلے تو ان احباب کو کرسیوں پر بٹھایا گیا جنھوں نے "راوی" کے عنوان سے شرکت کرنی تھی۔ سٹیج سیکریٹری بھی ان کے ساتھ ایک کرسی پر تشریف فرما ہوگئے۔ جناب قاسمی صاحب کی مختصر وضاحت اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنے سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ انھوں نے اس پروگرام کے پہلے راوی عبد اللہ جلالی صاحب سے درخواست کی تاکہ وہ سٹیج پر آکر اپنا تعارف کروائیں اور پھر انقلاب کے زمانے کے حوالے سے اپنے اہم  یادگار واقعات میں سے کچھ واقعات سنائیں۔

جلالی صاحب یوں گویا ہوئے: ۷ جنوری سن ۱۹۷۹ کو ہم "چہاردہ" گاؤں (جو آج دیباج کے نام سے ہے) میں مظاہروں میں شرکت کے لیے تیار ہوکر گھر سے نکلنے لگے۔ میرے بھائی قدرت اللہ نے مجھے کہا کہ میں نے تو غسل شہادت کرلیا ، کیا تم نے بھی کیا؟ میں نے جواب میں کہا کہ میں نے صرف مظاہرے میں شرکت کرنی ہے اور اس کے لئے صرف وضو ہی کیا ہے۔ اتنے میں ہم گلی میں پہنچ گئے اور ہمارے ایک اور بھائی نے مذاق میں اپنے دونوں ہاتھ پڑوسی کی مٹی والی دیوار پر مارے اور کہا: "لیجئے میں نے بھی تیمم کرلیا" قدرت اللہ جھٹ سے بولے اور کہا: پڑوسی کی دیوار پر؟"

جلالی نے مزید بتایا: گاؤں "قلعہ" سے پر جوش نعروں کے ساتھ یہ مظاہرہ شروع ہوا اور زردوان پہنچا۔ زردوان گاؤں کے لوگوں نے بھی اشعار پڑھ کر ہمارا استقبال کیا اور ہم سے ملحق ہوگئے تاکہ اکٹھے ہوکر گاؤں ورزن جائیں (یہ تینوں گاؤں آپس میں ملے ہوئے تھے) ہمیں پتہ تھا کہ "ورزن" کے لوگوں نے ایک جوان بچھڑا قربانی کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ورزن گاؤں کے آغاز میں کچھ لوگوں نے سرخ رنگ کی نسان ڈاٹسن کو آگ لگا دی تھی۔ درحقیقت یہ لوگ اس گاڑی کے مالک سے تنگ تھے کیونکہ وہ انقلاب مخالف تھا۔ تھوڑا آگے چلے تو ایک گھر کی چھت سے مظاہرین پر فائرنگ شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں کچھ افراد زخمی ہوگئے۔ میرے بھائی قدرت اللہ کے کندھے پر گولی لگی تھی۔ ہم چند افراد مل کر انھیں قریبی ڈسپنسری میں لے گئے لیکن وہاں سے بھی ان کو دامغان شہر منتقل کر دیا گیا۔ ہم چہاردہ گاؤں سے نکلے  ہی ہوں گے کہ میرے بھائی شہید ہوگئے۔ ہم گاؤں واپس آگئے۔ ہمارے والد نے بھائی کو غسل دیا اور یوں ہم نے بہت بھرپور انداز میں ان کی نماز جنازہ میں شرکت اور ان کو سپرد خاک کیا۔ کچھ ماہ کے بعد اسی سانحے  میں زخمی ہونے والے ایک اور ساتھی شہادت پا گئے۔ قدرت اللہ بیس سال کی عمر سے نماز شب کے پابند تھے اور شرعی احکامات کی پابندی کرتے تھے۔

ان جذبات کا اظہار کرتے ہوئے جلالی صاحب اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے، وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور احساسات بدلنے کی خاطر قاسمی پور صاحب نے پوچھا : کیا شہید شادی شدہ تھے؟ جلالی صاحب نے جواب دیا: جی ہاں اور قدرت اللہ کی شہادت کے بعد ان کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔

اس کے بعد سٹیج سیکریٹری نے نعمت اللہ جمال باشی صاحب کو گفتگو کی دعوت دی۔ جمال باشی صاحب نے اپنا تعارف کروانے کے بعد بتایا کہ وہ سن ۱۹۷۷ میں یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور اس وقت کئی ہزار افراد کی آبادی پر مشتمل دامغان کے پورے علاقے سے صرف ایک اور جوان  یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس علاقے کے لوگ پانی کی پائپ فٹنگ، بجلی، گیس اور ٹیلیفون جیسی ابتدائی سہولیات زندگی سے بھی محروم تھے اگرچہ چہاردہ گاؤں  کے لگوں کی اقتصادی حالت قدرے بہتر تھی لیکن پھر بھی بحرانی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا: ایک دفعہ دسمبر سن ۱۹۷۹ میں مجھے اور چند دیگر انقلابی جوانوں کو مظاہروں کی مینجمنٹ اور کنٹرول کرنے کے کیس میں گرفتار کرکے دامغان لے گئے۔ پوچھ گچھ اور مارپیٹ کے بعد مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ وہاں پولیس  والوں نے مجھے بجلی کی تاروں سے اتنا مارا کہ میں بیہوش ہوگیا اور مجھے اگلے دن صبح دس بجے ہوش آیا۔ انقلاب اسلامی کے رونما ہونے سے چند سال قبل ہی لوگ اسلامی انقلاب سے اس طرح آشنا ہوچکے تھے کہ جب ۱۴ جنوری سن ۱۹۷۹ کو چودہ پولیس اسٹیشنوں سے پولیس اہلکار ڈر کے مارے بھاگ نکلے اور وہاں کے لوگوں نے گاؤں کے انتظامات سنبھال لئے تو اس وقت وہاں سے کافی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا جو لوگوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔

اس دوران چند جوان  اپنے ہاتھوں میں کھیر، کیک اور چائے کی ٹرے اٹھائے ہال میں داخل ہوئے اور انھوں نے خاموشی سے مہمانوں کی پذیرائی شروع کردی۔ اسٹیج سیکریٹری نے مذاق مذاق میں  دل سے دعا مانگی کہ اے خدا! ان باادب اور فعال جوانوں کو امتحانوں میں زیادہ سے زیادہ نمبروں سے کامیابی عطا کر۔ اور خاص بات یہ کہ جب سے پروگرام شروع ہوا تھا نہ صرف کوئی مہمان اٹھ کر باہر گیا تھا بلکہ مزید کچھ مہمانان گرامی اندر آکر براجمان ہوگئے تھے۔

اس کے بعد قاسمی پور صاحب نے سید محمد شانی صاحب سے درخواست کی وہ آکر انقلاب کے بارے میں کچھ بتائیں۔ شانی صاحب نے پھر یوں بتایا کہ: سن ۱۹۷۵ کے بعد، جب لوگوں نے محرم اور رمضان المبارک  میں تبلیغ کی خاطر آیت اللہ سید جلیل قدمی اور دیگر انقلابی علماء کو دعوت دی تو اس کے بعد چہاردہ کے لوگ انقلاب اسلامی کی طرف زیادہ راغب اور مائل ہوگئے۔ میں سن ۱۹۷۹ میں سیکنڈری اسکول کا طالب علم تھا۔ ہم نے ۳۰ دسمبر سن ۱۹۷۹ کو قلعہ کے سیکنڈری اسکول میں چھٹی کردی اور مظاہرے کرتے ہوئے دوسرے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کو بھی بند کروانے کیلئے آگے بڑھے اور یوں وہاں کے اسٹوڈنٹس بھی ہم سے آملے۔ آخر میں ہم نے یہ طے کیا کہ شاہ کی سرنگونی تک ہم اسکولوں میں نہیں جائیں گے اور پھر ہم نہیں گئے اور یوں ہم ہر روز مظاہرے کرتے تھے۔

پروگرام کے اس حصے میں کتاب "تا بہشت" کی رونمائی کا اعلان بھی ہوا اور قاسمی پور نے اس کتاب کے بارے میں، جو سورہ پبلشر کی طرف سے شائع ہوئی تھی، تفصیل بیان کی۔ انھوں نے  بتایا: یہ کتاب بذات خو د ایک نیا کام ہے  اور اللہ نے چاہا تو آگے چل کر ارادہ یہ ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں پیش آنے والے تجربات کی مدد سے، ایران میں انقلاب کے حوالے سے یادگار زبانی واقعات کو ضبط و ثبت اور محفوط کیا جائے۔

اور آخر میں مجھ حقیر کی باری آئی تاکہ میں اس کتاب کی تیاری اور تدوین کے مراحل پر کچھ بات چیت کروں۔ میں نے بتایا کہ: اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ انقلاب کے بارے میں رودبار اور دامغان کے علاقوں سے یادگار تاریخی و زبانی واقعات کو محفوظ کیا جائے۔  اور ہمارا ہدف کوئی ایک خاص موضوع نہیں تھا کیونکہ کسی ایک کاص موضوع کے لیے ضروری تھا کہ لکھاری نے وہاں کئی سال سکونت اختیار کی ہو اور وہاں کے لوگوں سے میل جول رکھتا  اور اٹھتا بیٹھتا رہا ہو تاکہ وہ وہاں کے رسم و رواج، عادت و اطوار اور عقائد کو قلم کی زبان سے بیان کرسکے۔ درحقیقت یہ کتاب ان انٹرویوز پر مشتمل ہے جو اس علاقے کے موثر ترین افراد میں سے ۲۸ انقلابی افراد سے لئے گئے ہیں اور یہ تمام انٹرویوز  میں نے خود لئے ہیں۔ اسی طرح اس کتاب کے لکھنے میں ساواکی ایجنسی کی رپورٹس سے بھی مدد لی گئی اور ساتھ ساتھ وہاں کے ایک مقامی فرد کی روز مردہ کی داستانوں سے بھی کہ جو اس نے  ۷ جنوری ۱۹۷۹ء  سے لیکر اپریل ۱۹۷۹ ء تک لکھ رکھی تھیں، سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

اس پروگرام کے آخر میں انقلاب کے دو شہیدوں کے گھرانوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔



 
صارفین کی تعداد: 2951


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔