دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

تنہائی والے سال – ۳۶واں حصّہ

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2019-2-25


عام طور پر نشستوں میں، پروگرام کے مطابق، ہر کوئی اپنے ذوق اور سلیقہ کے اعتبار سے  کسی موضوع پر بات کرتا تھا۔ زیادہ تر وہ باتیں بیان کرتے تھے جو تقریروں، تفسیروں اور خدا بخش (ریڈیو )سے حاصل کردہ مطالب سے دریافت کردہ ہوتی تھیں۔ جیسا کہ اُس احاطہ میں خصوصی جلسوں کیلئے  کوئی اضافی  اور مناسب جگہ نہیں تھی تو ہم مجبوراً جلسوں کو ترتیب کے ساتھ دو بڑے کمروں میں سے کسی ایک میں رکھ لیتے تھے؛ لیکن مذہبی نشستیں جیسے قرآنی نشست یا نماز جماعت ہم ایسے ساتھی کے کمرے میں رکھتے تھے جو خود سے پیشکش کرتا تھا۔

افراد راتوں کو زیادہ تر دعا، عبادت اور نماز میں گزارتے تھے  اور وہاں کا ماحول بہت ہی معنوی تھا۔ ہمارا ایک بھائی جو سن ۱۹۸۵ میں اسیر ہوا تھا اور ہمارے ساتھ ملحق ہوگیا تھا، اُس نے مذاق میں کہا: یہاں کا ماحول کسی مدرسے کے ماحول کی طرح ہے؛ حتی وہاں سے بھی اچھا۔ چونکہ آپ لوگ دن اور رات عبادت خدا میں گزار  رہے ہیں؛ لیکن کوئی حوزہ ہوتا تو وہ اپنی روٹی روزی کی فکر میں بھی ہوتا!

متاسفانہ کبھی کبھار اتنی دوستی اور فداکارویوں کے باجود،  جھگڑے اور رائے میں اختلافات بھی پیش آجاتے جس کی وجہ سے گفتگو میں تندی  یا ایک آدھ دفعہ ہاتھا پائی بھی ہوجاتی کہ "ہاد" (مشکلات حل کرنے والی کمیٹی) اُس کے حل کیلئے مداخلت کرکے، لوگوں کی شکایت پر توجہ دیتا۔ قصور ثابت ہوجانے کے بعد، قصور وار پر پہلے سے مقرر کردہ تنبیہ لاگو کر دیتے۔ جیسا کہ سب نے امور کو منظم کرنے کے اس طریقہ کی حمایت کی تھی  اور وہ خود بھی ماضی میں یا مستقبل میں "ہاد" کے رکن رہے تھے یا بنیں گے، اسی وجہ سے وہ اُس کی فرماں برداری کرتے اور دی جانے والی تنبیہوں کو قبول کرتے تھے۔ حقیقت میں یہ آخری اور سب سے اچھی روش سمجھی جاتی جسے مشکلات اور مسائل حل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا؛ کیونکہ اسیری کی مدت اتنی طولانی ہوچکی تھی کہ بہت سے موارد میں، حساسیت ایجاد ہوجاتی تھی۔ اس مسئلہ کو درک کرتے ہوئے سب کی کسی نہ کسی طرح سے کوشش ہوتی تھی  کہ اُن کے پاس کوئی فارغ وقت نہ ہو؛ چونکہ نفسیاتی اعتبار سے ہمیں کوئی نہ کوئی چوٹ ضرور لگتی تھی۔ ماضی کی فکر اور مستقبل  کی نا معلوم وضعیت، خداوند متعال کے لطف و کرم پر توکل اور امید  کے علاوہ کسی بھی طرح سے قابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی۔

ایک کے بعد ایک سال گزرتے چلے گئے۔ جب ہم اسیری کے اختتام کے بارے میں سوچتے تھے یا اُس کے بارے میں باتیں کرتے تھے، ہم ہفتوں اور مہینوں کا نہیں سوچتے تھے؛ بلکہ ہم کہا کرتے: "کم سے کم ایک سال بعد!" یعنی ہمارے لئے زمانے کا معیار صرف سال تھا؛ یہاں تک کہ ایک جھٹکا لگانے اور الجھن میں مبتلا کرنے والی خبر نے ہمیں تعجب میں ڈال کر رکھ دیا؛ امام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ۵۹۸ ویں قرار داد کو قبول کرلیا! ۔۔۔ امام نے زہر کا پیالہ پی لیا اور خدا سے معاملہ کرلیا!

عراقی  خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور انہیں مستی میں  کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ قرارداد قبول کرنا اگرچہ ہماری آزادی کو معین کرسکتا تھا، لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوا۔ خدایا! میں امام  کی قلبی کیفیت پر مر جاؤں!

جب ایران نے ۵۹۸ ویں قرار داد کو قبول کیا، ہم خیال کر رہے تھے کہ آزادی قریب ہے؛ لیکن صدام اور اُس کے آقا ہماری سوچ سے زیادہ وحشی تھے؛ کیونکہ اُس وقت جب ایران کی طرف سے قرار داد قبول کی گئی، وہ صدام جو خرم شہر میں شکست کھانے کے بعد، سالوں تک صلح کرنے کا نعرہ لگا رہا تھا، اُس نے ایک دفعہ پھر اپنی تجاوز گری اور ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا  منافقین کے ساتھ مل کر ایک بہت ہی وسیع حملے کا آغاز کیا اور الحمد للہ ایران کی فداکار قوم کی ہمتوں کی وجہ سے اُس  کے گھٹیا مقاصد جنگ کی آخری سانسوں سے عملی جامہ نہیں پہن سکے۔

قرارداد قبول کئے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور رسمی طور پر جنگ ختم ہوچکی تھی؛ لیکن ہم لوگ اسی طرح اسیری کا زمانہ گزار رہے تھے  اور تقریباً ہر چیز اپنے معمول  کے مطابق گزر رہی تھی۔ ایک دن صبح – ہمیشہ کے پروگرام کے مطابق – بابا جانی اور اُس کا گروپ داستان (خبریں اور ریڈیو کے مطالب) حاصل کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک جیسے پوری دنیا ، تمام انسان اور تمام موجودات برف کی طرح جم گئے ہوں، بابا جانی اوپر اٹھے اور پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اُن کے پیر کپکپا رہے تھے، اُن کے ہاتھ اور پورا بدن۔ خدایا! خدایا؟! کیا ہوا ہے؟ ہم نے ان ۹ سالوں میں کتنی تلخ اور مصیبت بھری خبریں سنی تھیں  اور ہم لرزے نہیں تھے خدایا، کیا ہوا ہے؟!

کسی  میں بھی پوچھنے کی ہمت نہیں تھی؛ اصل میں کوئی نہیں چاہ رہا تھا کہ اُس نے جو اندازہ لگایا ہے وہ صحیح ہو!

خبر، ہر رونما ہونے والے حادثہ سے زیادہ تلخ اور سلگتی ہوئی تھی ۔ کاش ہمیں موت آجاتی اور ہم ایرانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور آزادی خواہوں  کے غم کی خبر نہ سنتے۔ کا ش ایسا ہوجاتا ہمیں موت آجاتی اور یہ حادثہ پیش نہ آتا ۔

- اے پست و حقیر دنیا! اے حق کو لبیک کہنے والوں عاشقوں،  عظیم خمینی ملکوت اعلیٰ کی طرف چلے گئے!

ہم نے اپنے گریبانوں میں منہ چھپا لیے اور اپنی یتیمی پر خون کے آنسو بہانے لگے۔ دشمن کو اس چیز کی توجہ دلائے بغیر۔ اتنا بڑا درد اس داغ کے صدمے  میں اضافہ کر رہا تھا ؛ کیونکہ ہمارے لیے بہانہ ڈھونڈے والے دشمن کے سامنے اظہار اور ردّ عمل کرنے کا  امکان  موجود نہیں تھا۔ اس بات کا یقین کرنا بہت دشوار تھا کہ امام ہم سے بچھڑ گئے ہیں، وہی کے جن کے دیدار کے شوق  کی اُمید میں ہم اسیری کی سختیوں کو  جھیل رہے تھے؛ لیکن یہ حقیقت تھی اور ہم حتی اس مجسم عشق و  ایمان کیلئے سوگ کا اظہار کرنے سے بھی محروم تھے! محروم اور گھٹے ہوئے ، بدنصیب اور ویران ۔۔۔

خدایا!

ہماری ناتوانی پر

ہمیں ملامت نہ کر؛

خاک کے ان پریشان ذروں کو

لامتناہی آسمان سے

کیا کام؟

خدایا!

ہمارا عاشق امام چلا گیا؛

بغیر اس کے کہ ہم اس کے ہمیشہ رہنے پر

خوش ہوں!

اُس کے ہاتھوں کا بوسہ لیے بغیر،

فیض اٹھاتے ۔۔۔

ایک اور مہینہ گزر گیا اور کٹھن اسیری کا زمانہ جاری رہا۔ کھانے کی صورتحال خراب ہوگئی؛ لیکن ہم ہر چیز سے زیادہ اس بات کا احساس کرتے تھے کہ ہمیں ہوا کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسیری کے آخری مہینوں تک ہوا خوری کی صورت حال تقریباً دن میں تین سے چار گھنٹہ تھی  کہ ہر عمارت والے اُس سے دو مرتبہ استفادہ کرسکتا تھا۔

ایک دن اسیروں کا ایک اعلی درجہ کا افسر دورہ پر آیا۔ ہم نے اُس سے کہا اب تو جنگ ختم ہوچکی ہے اور خود آپ لوگوں کے بقول بہت جلد ہی اسیروں کا  تبادلہ شروع ہوجائے گا، دوسری دو عمارتوں میں موجود ہمارے ساتھیوں کو جیسا کہ پہلے بھی ہم ابو غریب جیل میں ساتھ تھے، ایک ساتھ ملا دیا جائے ۔ اُس نے دلائل پیش کرنے اور مفصل گفتگو کرنے کے بعد تقریباً مان لیا کہ ہم کچھ عرصے تک ہوا خوری کے اوقات میں ایک ساتھ ہوں۔

یہ بات اس قدر ہماری خوشحال اور دلی سکون کا باعث بنی کہ جیسے خدا نے ہمیں آزادی عطا کردی ہو؛  کیونکہ برادران ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور دس سالہ اسیری کے دوران ایک ساتھ تلخ و شیرین واقعات  گزارے تھے اور ہم کافی دنوں تک ایک ساتھ ہوا خوری میں ہونے کی خوشی میں مشغول رہے اور ان سالوں میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔

بہت سی اَن کہی باتوں کو ایک دوسرے سے کہا تاکہ اگر ہماری تقدیر میں آزاد ہونا نہ لکھا ہو تو ہم ایک  دوسروں کے دلی رازوں سے واقف ہوں اور ۔۔۔

ذہنوں میں موجود نقشے ، اپنی زندگی کی خطائیں، پچھلی غلطیاں، خدا کی نعمات کی قدر دانی اور توبہ کرنا، اپنے گھر والوں اور جو زندگی بچی ہے اُس میں اپنے وظیفے، صدام کو شرمندہ دیکھنے کی آرزو، اپنوں کو دیکھنے کی آرزو وغیرہ کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ماحول بالکل  بدل گیا تھا؛ ہم ایک ساتھ نشستیں منعقد کرتے، اپنے ہاتھوں سے بنی مٹھائیوں سے پذیرائی کرتے، ایک دوسرے کو تحائف دیتے تھے ۔۔۔

سب لوگوں، اپنے رشتہ داروں کو دیکھنے کی آرزو رکھتے تھے؛ لیکن کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کوئی ہے جو اُس کے انتظار میں آنکھیں لگائے بیٹھا ہو؟

گھر والوں اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچنا اور تلخ و شیریں واقعات کو یاد کرنا، یہ سب آئندہ کیلئے عبرت تھا؛ اگرچہ ہمیں اپنے مستقبل پر اطمینان نہیں تھا! شاید جس قدر ہمارے دل میں کل کی اُمید کی کلی چٹکتی تھی ، ہم اُسی اندازے کے مطابق  اپنے اور اپنے گھر والوں کے کل کے بارے میں نامطمئن تھے؛ کیونکہ جنگ محاذوں پر ہونے والی جھڑپوں کی حالت سے نکل چکی تھی۔ رہائشی علاقوں  پر بمباری، بے دفاع لوگوں پر میزائلوں کی بارش، خواتین اور بچوں کی شہادت  کی خبریں اور ۔۔۔ خدایا!

ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کیا ابھی تک کسی کا دل اُس کیلئے دھڑکتا ہے؟ کیا کوئی آواز ہے جو اُسے شوق اور محبت سے بلائے؟ کیا وہ اپنی آزاد میٹھی زندگی کے ذائقے کو اپنے گھر والوں کی آغوش میں چکھ سکے گا؟ اور ۔۔۔ یہ بغیر جوابوں سے بھرپور سوالات ایسی فکریں تھی جوغمگین کردیتی تھیں جسے صرف خداوند متعال پر توکل کرکے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ ان فکروں کا تسلسل، روح کو نا اُمید اور اذیت دیتا تھا۔

تاہم ہم سب کی کوشش یہی ہوتی تھی کے ہم فارغ وقت نہ گزاریں، لیکن کبھی کبھار ہم دیکھتے تھے کہ کوئی دوست بغیر پلکیں جھپکائے کسی خاص جگہ  پر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے اور اپنی فکروں میں غرق ہے؛ اس طرح سے کہ جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ہے، اس طرح سے کہ جیسے یہاں صرف جسم رہ گیا ہے اور روح کہیں اور ہے  جہاں کی اُسے آرزو  ہے اور وہ سوچ رہا ہے۔

جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا اُس وقت تک ہماری صورت حال تقریباً ماضی کی طرح تھی؛ لیکن عراق کا ۱۹۷۵ الجزیرہ قرارداد کو باقاعدہ طور سے قبول  کرنے اور ۵۹۸ ویں قرار داد  کے مادے پر عمل درآمد ہونے سے، حالات میں کچھ حد تک تبدیلی آئی۔ صحن میں کھلنے والی تمام کھڑکیوں کو – کئی سالوں بعد – کھول دیا گیا اور ہوا خوری کا وقت طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک ہوگیا۔ تینوں عمارتوں والے ایک ساتھ احاطے میں آتے تھے اور راتوں کے علاوہ باقی تمام اوقات میں ہم ایک ساتھ  ہوتے تھے۔

ان تبدیلیوں، خاص طور سے ریڈیو دینا اور اس سے کھلم کھلا استفادہ کرنے نے زندگی کی صورتحال کو تبدیل کردیا۔ توصیف سے باہر خوشی اور دلچسپی نے پورے ماحول اور ہمارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی اور ایک دوسرے سے مہربانی کے ساتھ آئندہ کے بارے میں باتیں کرتے۔ اپنے ملک اور رشتے داروں کی ملاقات کے شوق اور جذبہ نے  ہمارے دلوں کو گرما دیا تھا۔ وقت کچوے کی چال چل رہا تھا اور ان خوشیوں کے پس پردہ ایک نا معلوم سا احساس بھی موجود تھا؛ بغیر اس کے کوئی اس بارے میں بات کرے، اُسے اپنے وجود کے اندر محسوس کرتا تھا اور وہ، دس سالوں سے اپنے رشتہ داروں کے حالات سے بے خبری تھی۔ بغیر کسی نام و نشان اور نمبر کے زندان میں رہنا، دس سالہ گمشدگی، دس سال بغیر کسی جنگی مشخصات کے، دس ممنوعہ سال! کیا واقعاً اتنا گزرنے جانے کے بعد بھی کوئی ہمارا انتظار کر رہا ہے؟

عمومی اور واضح خوشی، تمام چیزوں اور ہر کسی کو تسخیر کرلیتی ہے۔ اگر پوری دنیا ہم سے منہ موڑ لے، پھر بھی اس دنیا میں ایک  روشن دریچہ ہمارے لئے  قلبی قوت ہے؛ یہ کہ ہم ان دس سالوں – تمام سختیوں کے باوجود - میں اسلامی اہداف و عقائد  اور اپنے ملک کے پابند  رہے تھے اور سرد اور تاریک راتوں میں، بھیڑیوں کے غرانے سے ڈرے نہیں تھے۔ خدایا! خدایا صرف تو گواہ ہے اور ہمارے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا افتخار ہوگا؟ خدایا!ہمارے لئے یہی افتخار بہت ہے۔

پر جوش لمحات اور حقیقت میں اضطراب سے بھرپور کہ جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا، یہ بھی گزر گئے۔ ایک دن ایک مسئول ہوا خوری والے احاطے میں آیا اور بلند اور مطمئن آواز کے ساتھ ، ہم سب کی طرف رُخ کرکے کہا:

-  آپ لوگ آج آزاد ہوجائیں گے!

نہ صرف میں، ہم میں سے کوئی بھی یقین نہیں کر رہا تھا؛ اصل میں یقین کرنے والی بات نہیں تھی! ہمیں ایسا لگ رہا تھا ہم خوابوں و خیالوں میں ہیں؛ ہمیں اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

اکثر اوقات جب کوئی سیاسی حرکت یا کوئی دوسری واقعہ رونما ہوتا تھا، افراد آزادی کے خواب دیکھنے لگتے تھے۔ یہ بھی اُن مواردمیں سے ایک تھا جو ہمارے یقین نہ کرنے کا باعث تھا کہ ہم اُسے خواب  سمجھیں۔ دس سال بہت ساری چیزوں کو تبدیل کرسکتے ہیں؛ خاص طور سے کلمات کے معنی اور اُن کے درک کو۔

بہرحال ہمیں ایک فوجی لباس اور ایک اندر پہننے والا لباس دیا گیا اور کہا:

-  دوپہر دو بجے چلنے کیلئے تیار رہیں!

ہر کوئی کسی کام  اور کوشش میں لگا ہوا تھا اور ہم نا قابل بیان خوشی اور سرور کے ساتھ مختلف کاموں میں مشغول تھے۔ ہمیں تیار ہونے کے علاوہ کچھ اور کام بھی کرنے تھے تاکہ ہم نے جو کام انجام دیئے تھے بعث پارٹی کو ہمارے جانے کے بعد بھی اُن کا پتہ نہ چلے۔ اسی وجہ سے ہم نے ہاتھ سے لکھی اپنی تمام قیمتی کتابوں کو  جنہیں ہم نے خدا بخش (ریڈیو) سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا تھا جو تقریباً ۷۰ جلدوں کے قریب تھیں، ہم نے اُنہیں چوما اور ایک بڑی سے بالٹی میں گیلا کرنے کے بعد، اُسے خمیر کی صورت میں لے آئے ، اُس کے بعد چند بوریوں میں بھر لیا تاکہ زندان سے باہر لیکر جانے کیلئے تیار ہوجائے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 3114


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔