جلاوطنی میں ابوذر لائبریری کا قیام

راوی: حجت الاسلام شیخ حسین عمادی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-20


میں گیارہ جنوری ۱۹۷۸ء والے دن اپنے گھر آیا، میری زوجہ (مریم) نے کہا: "محلے کے تھانے سے کوئی آیا تھا اور اُسے آپ سے کام تھا۔" مجھے تعجب ہوا، چونکہ ہمارا  تھانے سے کبھی کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ میں نے پہلے دن تو توجہ نہیں دی۔ دوسرے دن بھی توجہ نہیں کی لیکن تیسرے دن شام کے وقت  میں عشرت آباد چوراہے پر موجود تھانے میں گیا۔ سپاہی نے کہا: "آپ اوپر چلے جائیں" میں گیا، میں ایک کمرے میں داخل ہوا اور اپنا تعارف کروایا۔ مجھے ایک ایسی فہرست دکھائی جس میں بہت سے علماء کا نام لکھا ہوا تھا، ایسے بہت سے علماء جنہیں مختلف جگہوں پر جلا وطن کردیا گیا تھا۔ صوبہ خراسان سے تین لوگ، [آیت اللہ] سید علی خامنہ ای کو ایرانشہر، علی تہرانی ، ناصر مکارم اور حسین عمادی کو چابہار۔ مجھے تعجب ہوا، میں نے کہا: چابہار کہاں ہے، اس نے کہا: "ایران کا آخری حصہ، دریائے عمان کے کنارے۔" میں نے کہا: کیا میں گھر جاکر بتا سکتا ہوں۔ اس نے کہا: "نہیں ہوسکتا۔"

گاڑی لیکر آئے۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر سیکیورٹی ادارے میں گئے، مجھے کوہ سنگی کے پیچھے کسی کی تحویل میں دیا گیا اور  مجھے ایک سیل  کے اندر بند کر دیا۔ میرے برابر والے سیل میں ایک بدکردار عورت کو قید کیا ہوا تھا، آفیسرز بار بار آتے اور اُس کے ساتھ مذاق کرتے اور گندی گندی باتیں کرتے۔ میں چار دن تک جیل میں رہا۔ بالآخر سیکیورٹی ادارے کے دو سپاہیوں کے ساتھ، ۱۵ جنوری ۱۹۷۸ء  والے دن ہم  ایک بس پر بیٹھ کر زاہدان کی طرف روانہ ہوئے، زاہدان میں  داخل ہوئے۔ قوانین کے مطابق جلاوطنی کے ملزم کو مسافر خانے لے جانا چاہیے، لیکن وہ دو سپاہی نہیں لیکر گئے، سردی ہو رہی تھی، انھوں نے سڑک کے کنارے کچھ کارٹن جمع کرکے آگ جلائی، اُنہیں خود بھی سردی لگ رہی تھی، بالآخر مجھے جیل لے گئے اور عمومی وارڈ میں ڈال دیا۔ لائٹ کھل جانے سے سب بیدار ہوگئے، انھوں نے دیکھا کہ ایک جوان مولانا اندر آیا ہے،  سب میرے گرد جمع ہوگئے اور کہا: "یہاں پر کیوں، یہاں تو سب قاتل اور اسمگلر ہیں"۔ میں نے کہا ہم شاہ کی مخالفت کرتے ہیں اور میں نے شاہ کے ظلم کے بارے میں بات کرنا شروع کردی، انھوں نے جتنا کہا کہ سو جاؤ، کسی نے کان نہیں دھرا، ابھی ایک دو گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ وہ آکر مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے، میں سو گیا، صبح ہوئی۔ ایک سپاہی آیا اور کہا: "میں ٹیلی فون آپریٹر ہوں اگر تم کہیں فون کرنا چاہتے ہو تو آؤ کرلو۔" میں نے جاکر مشہد میں اپنی گلی کے نکڑ پر موجود دوکان والے کو فون کیا اور اُس سے کہا کہ میرے گھر والوں کو بتادو کہ میں زاہدان چلا گیا ہوں اور آج ہی چابہار چلا جاؤں گا۔

بس آگئی۔ میں سپاہیوں کے ساتھ بس میں سوار ہوگیا اور خشک بیابان  اور طولانی راستے سے گزر کر  ہم لوگ تقریباً شام کے پانچ بجے چابہار میں داخل ہوئے اور مجھے ۱۸ جنوری ۱۹۷۸ والے دن وہاں کی پولیس کی تحویل میں دیدیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ ہر دن یہاں آنا اور اس رجسٹر میں دستخط کرنا،  یہاں پر دو لوگ اور بھی ہیں جن کے نام ناصر مکارم شیرازی اور علی تہرانی ہیں۔ میں علی تہرانی کے گھر گیا اور ایک ہفتہ تک  ہم ساتھ رہے، لیکن وہ کیا گھر  تھا ۔۔۔ ہر طرح کی غذا،پھل اور ضروریات زندگی کی ہر چیز تھی یا تو زاہدان کے رستے سے  آنا پڑتا ہے یا اُس طرف سے کشتی کے ذریعے، واحد چیز جو وہاں پر تھی وہ روٹی کی دوکان تھی۔۔۔ دوسری چیز جو وہاں تھی، گلی کے اندر بغیر دوکان کے قصائی تھے، وہیں پر بھیڑ ذبح کرکے لٹکا دیتے اور بیچتے۔ ۔۔ کبھی ہمارے پاس پیسے ہوتے تو ہم خرید لیتے اور کبھی نہیں بھی ہوتے تھے۔ پٹرول کے بیس لیٹر والے ٹین کے گیلن میں بارہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پینے کا پانی خرید کر لایا جاتا تھا ۔اگر کوئی مہمان آبھی جاتاتو اُسے جاکر پانی لانا پڑتا اور اگر کوئی نہیں آتا، وہی بچا ہوا پانی جو گیلن میں پڑے پڑے ہرے رنگ کا ہوچکا ہوتا تھا، ہم اُسی کو استعمال کرتے۔ چالیس دن بعد میری زوجہ اپنی بہن (اشرف فرجی) ، میرے دوست جناب علی اصغر فرزانہ اور میرے بچوں (محمد سعید، مہدی و حکیمہ) کے ساتھ آئیں ، وہ لوگ اپنے ساتھ کچھ گوشت بھی لیکر آئے تھے، وہ لوگ چند دن رک کر واپس چلے گئے۔ پھر عید نوروز کے دنوں میں دوبارہ گوشت لیکر آئے ۔۔۔ آیت اللہ صدوقی بھی مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور اپنے ساتھ یزد کی مٹھائی اور خشک روٹی لیکر آئے۔ آیت اللہ سبحانی، جناب ناطق نوری، جناب شجونی اور مشہد کے کچھ دوکانداروں، گنبد، مینو دشت، شاہرود، تہران اور قم کے دوکانداروں ، جناب علی تہرانی اور آیت اللہ مکارم کو منتقل کردیا گیا۔ میں اکیلا رہ گیا۔ اس زمانے میں ، میں یہ سوچنے لگا کہ ایک لائبریری قائم کرنی چاہیے اور اس طرح بچوں سے رابطہ برقرار کرنا چاہیے؛ لہذا میں نے مسجد جامع میں جو کمرہ تھا وہ لے لیا اور وہاں پر کچھ کتابوں کی الماری بنائیں؛ مہمانوں میں سے جو بھی آتا، میں اُس سے درخواست کرتا کہ وہ میرے لیے پرائمری اور سیکنڈری کے معیار کی کتابیں   بھیجیں۔تھوڑے سے عرصے میں کتابیں جمع ہوگئیں اور ۲۸۱ افراد ممبر بن گئے اور لائبریری میں بھی ۲۳۵۸ کتابیں جمع ہوگئیں۔ میں بھی شام کے وقت لائبریری جایا کرتا اور بچوں سے گفتگو کیا کرتا اور انہیں کتاب دیتا۔ جو کتاب بھی پڑھ لیتا اور اُس کاخلاصہ بھی بیان کرلیتا میں اُسے انعام دیتا۔ میں نے لائبریری کا نام "ابوذر" رکھا۔

جناب تہرانی اور جناب مکارم کے منتقل ہوجانے کے بعد نماز جماعت کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی گئی۔ میں ظہر کے وقت اور رات کو با جماعت نماز پڑھاتا۔ میں سبق آموز کتابیں بھی مہیا کرتا تھا، جیسے ماہی سیاہ کوچولو، مصعب بن زبیر، قہرمان کیست اور از کجا شروع کنیم۔ جیسا کہ اگر کسی بچے کو کتاب پڑھنے کے بعد کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو میں اُس کی وضاحت کرتا۔ ایک دن ساواک کا سپاہی  آیا اور کہا: "تم نے ابوذر لائبریری بنالی ہے، تمہارے خیال میں تم ابوذر ہو اور یہ ربذہ ہے۔" جیسے ہی لائبریری کا قیام عمل میں آیا، جناب ڈاکٹر غفوری فرد ، دو بسوں میں بہت سارے اسٹوڈنٹس کے ساتھ لائبریری کا دورہ کرنے آئے، انھوں نے کہا: "اگر ضروری ہے تو لائبریری کیلئے دیواروں پر چاکنگ کرتے ہیں، بچے تیار ہیں۔" اُسی رات دیواروں  پر چاکنگ کردی گئی، صبح ساواک آئی اور ڈاکٹر کو لے گئی اور بچوں سے کہا: "آپ لوگ واپس چلے جائیں۔" لیکن انھوں نے کہا: "جب تک ڈاکٹر صاحب آزاد نہیں ہوں گے ہم یہیں پر رہیں گے۔" جناب ناطق نوری اُسی وقت پہنچ گئے۔ جتنی مدت میں چابہار میں رہا، خداوند متعال نے مجھ  پر عنایت کی اور جناب حسین محمدی جو ٹیلی فون ایکسچینج میں کام کرتے ہیں، اُن کو میری مدد کیلئے بھیج دیا۔ ایک دن انھوں نے مجھ سےکہا: "اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آکر آپ کی مدد کردیا کروں ۔۔۔" میں مان گیا۔ یہ جوان جتنے عرصے تک میرے ساتھ رہا، اس نے میری تنہائی کو ختم کردیا اور جب کبھی کوئی مہمان آتا تو یہ میری بہت مدد کرتا تھا۔ البتہ میں بھی گھر کے کاموں کو کرتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ اُس زمانے میں ان سے جو کام بھی ہوسکتا تھا وہ اسے انجام دیتے۔ خداوند متعال اُنہیں جزائے خیر عطا کرے۔ میں اس عرصے میں بیمار بھی ہوا، ڈاکٹر کو لیکر آئے ، انھوں نے کہا اسے یہاں سے منتقل ہونا چاہیے؛ لہذا مجھے کرمان اور پھر اصفہان لے گئے۔



 
صارفین کی تعداد: 2650


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔