کتاب "کس نے میرا لباس پہنا" میں زبانی تاریخ کی روش سے استفادہ

اکرم دشتبان
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-7-19


۲۰۱۷ میں انجمن شعبہ ہنر اور تمام صوبوں میں مطالعاتی مراکز کے سربراہ ادارے"پائیداری ثقافت و مطالعات" کی فرمائش پر  سورہ مہر پبلشرز کی طرف سے ۵۷۳ صفحات پر مشتمل کتاب "کس نے میرا لباس پہن لیا" زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی۔جس میں رہائی پانے والے محسن فلاح صاحب کے مختلف یادگار واقعات کو شمشیر گرھا نے انٹرویو کے بعد تدوین و تحریر کیا ہے۔

زبانی تاریخ کے طرز پر لکھی گئی یہ کتاب ایک ایسے سپاہی کے بیان کردہ واقعات پر مشتمل ہے جو ایران – عراق جنگ کے آغاز میں ایران کی مغربی سرحدوں اور  متاثرہ علاقوں کی طرف جاتا ہے البتہ اُس وقت صرف معمولی سی جھڑپیں تھی اور یہ عراق کےایران پر بڑا حملہ کرنے سے پہلے کی بات ہے۔ اور پھر وہاں "فتح المبین" آپریشن کے دوران ۲۴ مارچ ۱۹۸۲ میں یہ گرفتار ہوجاتا  ہے اور پھر اس کی وطن واپسی ۸ سال، ۴ ماہ اور انتیس دن کے بعد ، ۲۳ اگست ۱۹۹۰ میں ہوتی ہے۔

یہ کتاب محسن فلاح صاحب کے بیانات کا تحریری مجموعہ ہے اور کتاب کے مقد مے میں  کاتب نے جناب محسن صاحب سے آشنائی کے آغاز کی طرف اشارہ کیا اور لکھا ہے کہ: "جنگی علاقوں کی طرف "راہیان نور" نامی سفر کے دوران مجھے ان کی مختصر ر وداد سننے کا موقع ملا جس کے بعد میرے شوق میں شدت آگئی اور میں نے ایران – عراق جنگ کے آغاز سے لیکر ان کی رہائی تک کے  دورانیے کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے ان کے تمام تر واقعات کو باقاعدہ تحریر کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر  میری امید بہت بڑھ گئی کہ جس میں ، میں نے ایک گمنام شہید کی شناخت حاصل کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شہید کو محسن فلاح کے مغالطے اور شباہت میں دفن کردیا گیا تھا۔ اگر یہ شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو شہید کے ورثاء کا تکلیف دہ انتظار ختم ہوجائے گا۔ اور اس کتاب کو "میرا لباس کس نے پہن لیا" کا عنوان دینے کی وجہ بھی یہی تھا۔"

شمشیر گرھا نے اسی کتاب میں محسن فلاح کی زندگی کے دلچسپ موضوعات میں ایک موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس بارے میں کتاب میں یوں ذکر ہے کہ: "میں نے اپنے جسم میں بچی کچی توانائی جمع کرکے بہت زحمت سے اپنی قمیض اتار کر ایک طرف پھینک دی لیکن اس چیز کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوں قمیض اتار  پھینکنے کا نتیجہ اس قدر بھیانک بھی ہوسکتا ہے اوریہ نتیجہ نہ صرف میرے اور میرے خاندان کے لئے بلکہ ایک اور سپاہی اور اس کے خاندان کے لیے بھی بڑی آزمائش بن جائے گا! شاید اگر اس وقت میرا ذہن ان نتائج کی ذرا سی بھی پیشن گوئی کرلیتا تو میں قمیض اتارنا تو دور کی بات ایک بٹن تک نہ کھولتا۔ لیکن اس وقت کی حالت نے مجھ  سے یہ سب کچھ بے ساختہ کروالیا اور یوں میں نے اپنی  قمیض دشتِ عباس کی تپتی زمین کے سپرد کردی۔"

کتاب کا انٹرویو ۲۰۱۳ میں شروع ہوا جس کا ماحصل گزرتے وقت کے واقعات کے بیان اور ۹۰ گھنٹے کی گفت و شنید پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مقدمے میں کاتب کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے کام کے سلیقے کو کچھ اس انداز میں پیش کرے کہ جس سے زبانی تاریخ کی روش پر لکھی گئی کتاب اچھے سے اچھے تحریری معیارات کی حامل دکھائی دے۔

کتاب کے متن سے ابہام کو نکالنا اور اس کا تکراری مطالعہ کرنا ان معیاروں میں سے ایک معیار ہے۔  شمشیر گرھا کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے اس تکرار ی مطالعہ کی روش سے راوی کو تمام مطالب کی تدوین و تحریر کی روش سے آگاہ کرے۔ اور ان مطالب کی صحت یا عدم صحت کو راوی تک پہنچائے اور یوں ان مطالب تک پہنچے  جو راوی کے ذہن کے کسی کونے گوشے میں رہ گئے ہیں۔ کاتب نے یہ اہم بات بھی بتائی کہ ان کی اس روش کا ایک اورنتیجہ یہ بھی نکلا کہ تکراری مطالعہ کے بعد ہمیں ان جزئیات تک بھی دسترسی حاصل ہوئی جن تک عام حالات میں ایک انٹرویو میں رسائی ممکن نہیں ہوتی بلکہ صرف کلی باتیں ہی ہاتھ آتی ہیں اور اسی طرح کچھ خاص نام بھی جو فراموشی کے سپرد ہوچکے تھے۔ اس تکراری مطالعہ کی بدولت ذکر ہوئے اور یہ  تکراری مطالعہ کے قیمتی نتائج میں سے ایک تھا۔"

کاتب نے اپنی اس کتاب کو راوی سمیت دیگر چند افراد کے سامنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان دیگر افراد سے مختصر انٹرویو بھی لیا تاکہ ان واقعات کی تصدیق ہوجائے اور حوالہ جات پر بھی صداقت کی مہر لگ جائے۔

اس کتاب میں واقعات کے کلی اور جزئی بیان میں محسن فلاح کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں جو انقلاب سے پہلے تھی ، کو بھی بیان کیا گیا ہے اور راوی نے اس بات  کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اس سپاہی کی فوجی زندگی کے آغاز اور خصوصاً قید کے زمانے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر نکتہ نہ رہ جائے اور تمام تر جزئیات دقیق انداز میں بیان ہوں۔

یہ آزاد روایتی متن اورقصہ کہانی جیسا اسلوب واقعات میں سے نہیں۔ بہ عبارت دیگر ایسا نہیں ہے کہ کاتب نے محسن فلاح کے واقعات کو اپنے قلم کی زینت بنالیا ہو اور پھر اس پر اپنے خیالات بھی پیش کر دیئے ہوں اور پھر یوں یہ اُن کی زندگی پر کوئی بنی بنائی داستان لگے، نہیں ایسا نہیں۔ بلکہ کاتب نے بیان شدہ روایات و مطلب کے متن اور معنی میں کسی بھی قسم کی ذاتی مداخلت سے سختی سے پرہیز کیا ہے اور بعینہ وہی مفہوم قاری تک پہنچایا ہے جو اس نے سنا ہے اور تو اور خو د راوی کی تعبیرات من و عن ذکر کی ہیں۔

ان واقعات کا آغاز محسن فلاح کی نوجوانی کے زمانے سے ہے جب ان کی تعلیم اور شادی کے معاملات چل رہے تھے۔ شادی سے قبل بیوی کی وفات نے محسن فلاح کو مذہبی – اجتماعی فعالیت کی طرف مائل کردیا۔ کردستان کے علاقے میں جھڑپیں شروع ہوتے ہی یہ جوان جہادی تربیت اور عوامی مدد کے ذریعےکردستان میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر خرم شہر کا سقوط، تہران واپسی اور سپاہ ، بسیج میں بھرتی ہوکر سرحد کی طرف روانگی کی داستان ہے۔

 کتاب کے صفحہ ۱۰۹ سے فتح المبین آپریشن کی روداد بیان کرتا ہے۔ اس آپریشن میں اسلحہ خانہ کی ذمہ داری اس کو سپرد کی جاتی ہے جس کے بعد یہ شخص ایک باقاعدہ فوجی  کی حیثیت سے عملی طور پر میدان جنگ میں داخل ہوجاتا ہے۔ محسن فلاح، حاج احمد متوسلیان، حاج ابراہیم ہمت اور حسن باقری جیسے کمانڈروں کی نمایاں خدمات کو بیان کرتا ہے اور پھر آخر میں دشت عباس میں ہی اپنے زخمی ہونے اور قید ہوجانے کو بیان کرتا ہے۔

قیدیوں کی رہائی اور وطن واپسی کی تفصیل کے بعد جو بات کتاب میں نمایاں ہوتی ہے وہ اس شہید کی داستان ہے جسے غلطی سے محسن فلاح سمجھ کر دفنا دیاجاتا ہے۔ کاتب سنجیدگی سے تحقیق کرتے ہوئے محسن فلاح کے گھر جا پہنچتا ہے تاکہ حقائق سے پردہ اٹھائے۔  کتاب کے صفحہ ۴۰۳ میں محمود قوامی کے واقعے کو یوسف آباد گاؤں کے رہائشیوں سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: "ہم لوگ جنازہ لینے کے لیے کرج میں ہلال احمر  کے ادارے پہنچے۔  میں ان چند افراد میں سے ایک تھا جنہیں میت کی  شناخت کے لئے چنا گیاتھا۔ ہم سالہا سال پڑوسی رہ چکے تھے بلکہ ایک ساتھ ہی محلے میں بڑے ہوئے تھے۔ جب میں سرد خانے پہنچا ، کفن ہٹا کر دیکھا تو محسن کو پایا! اس کا چہرہ، ابرو، گھنٹی داڑھی، سر کے بال، ناک منہ، سب خدو خال وہی تھے، یعنی یہ میت محسن فلاح ہی کی تھی۔ میرے بعد اس کے چچا بھی اندر گئے اور انھوں نے بھی میت کو دیکھ کر تصدیق کردی۔"تو اس اتفاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اور شخص جو ہو بہو محسن فلاح ہی جیسا تھا،محسن فلاح کے نام پر دفن کر دیا گیا۔  کاتب نے کتاب کے مقدمے میں قارئین سے یہ گزارش کی  ہے کہ محسن فلاح کی قید، قید ہونے کی جگہ، وقت اور کیفیت اور نیز اس کے اُس شہید سے شبہات، کہ جسے محسن فلاح سمجھ کر دفنایا گیا تھا (لیکن حقیقت میں گمنام تھا) اور اس کا مفصل ذکر کتاب میں موجود ہے، سے آگاہی ہونے کے بعد اپنے اردگرد کسی ایسے خاندان کو تلاش کریں جو اپنے عزیز جوان کا منتظر ہو اورورثا کے مل جانے پر کاتب کو اطلاع دیں۔

اور اسی طرح کتاب کے آخر میں تصاویر اور جنگ و قید کے زمانے میں لکھے جانے والے خطوط بھی لائے گئے ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 3266


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔