تنہائی والے سال – چودھواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-6-9


رضا احمدی الٰہی انسان اور بہت ہی مومن شخص تھا اُس نے اپنے بچپن میں دینی مدرسہ میں  داخلہ  لے لیا تھا اور وہاں تعلیم حاصل کی تھی۔ اُس نے اپنی کمال ہوشیاری سے ہمیں قرآن مجید کی چند سورتیں یاد کروا دیں اور پھر نماز کو باجماعت کروانے لگا۔ اس کے باوجود کہ وہ اور سلمان بہت اچھی طرح سے نماز پڑھتے تھے، لیکن اُن لوگوں نے نماز پڑھانے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور ہم چار لوگ باری باری جماعت کرانے پر مجبور تھے۔

ایک دن ایک ساتھی نے پوچھا:

- یہ تو بتائیں، یہ اذان، بارش اور مینڈک وغیرہ کی جو دھیمی آواز رات میں آتی ہے کیا آپ لوگوں کو بھی سنائی دیتی ہے؟

سب نے مثبت جواب دیا۔ اُس وقت تک سب یہی سوچتے تھے کہ شاید وہ اکیلے ہی کسی وہم کا شکار ہوگئے ہیں، لیکن جب یہ مسئلہ اٹھا تو  سب کی ہمت ہوگئی، ہم سب نے اس بارے میں گفتگو کی۔ میں نے سچائی کے ساتھ کہا:

- سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے الزام سے بچنے کیلئے اس بات کو نہیں چھیڑا  تھا اور میں ڈر رہا تھا کہ کہیں آپ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ صرف ایک فکر اور خیال ہے اور تمہیں مالی خولیا ہوگیا ہے۔

سب ہنس پڑے اور کہنے لگے:

- ہمارے احساسات بھی تقریباً کچھ اسی طرح کے تھے!

دن ایک ایک کرکے گزر رہے تھے اور ہمارے پاس ایران کے حالات اور مسلط کردہ جنگ کی  دقیق معلومات نہیں تھی۔ احمدی جسے تھوڑی بہت عربی آتی تھی، وہ کبھی کبھار نگہبان سے بات کرتا۔ وہ بتاتے کہ جنگ ابھی جاری ہے اور دونوں ملکوں کے وفود  کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔ محاذ اور اسیروں کے بارے میں خبریں، وہاں پر موجود ایک شیعہ نگہبان سے دریافت کرلیتے تھے۔

ہر نگہبان کا ہمارے ساتھ مختلف  رویہ ہوتا تھا، بعض غصے کی حالت میں رہتے،  بعض لوگوں کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا اور کچھ ایسے افراد تھے جو ہم سے اور بالخصوص حضرت امام سے دلچسپی کا اظہار کرتے تھے، لیکن وہ ہمارےلیے  کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے۔

میں وہاں سے فرار کرنے کے بارے میں بہت سوچا کرتا تھا اور مختلف طریقوں کا جائزہ لیتا تھا۔ سب سے بڑی رکاوٹ، صحیح اور کافی معلومات کا نہ ہونا تھا کہ  ہماری حفاظت کے اُس ماحول میں اُن تک رسائی  حاصل کرنا ناممکن ہی لگ رہا تھا اور بالآخر  میں اُس جگہ ضروری معلومات کو حاصل نہیں کرسکا۔

صفائی ستھرائی کے حوالے سے ہماری وضعیت بالکل بھی اچھی نہیں تھی۔ چونکہ ہمیں تقریباً دو مہینے ہوجاتے تھے ہم کمرے سے صرف تفتیش کیلئے باہر نکلتے تھے اور ہمیں کھلی فضا اور سورج کی دھوپ میسر نہیں تھی۔

ایک دن کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور کہنے لگے:

- باہر نکلو!

ہم نے ایک نگہبان کے ساتھ تعجب کی حالت میں راہداری کے آخر تک کا فاصلہ طے کیا اور راہداری کے آخر میں موجود سیڑھیوں کے ذریعے اوپر گئے  اور پھر اوپر والی راہداری میں داخل ہوگئے۔ اس راہداری میں پتہ چل رہا تھا کہ اُس کی ایک طرف زندان کی کوٹھڑیاں بنی ہوئی ہیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ نیچے والی کوٹھڑیوں سے بڑی ہیں۔ راہداری کے آخر میں، ایک دروازہ تھا جس سے ہم خارج ہوکر ایک ایوان میں داخل ہوئے جس کی دیواریں بہت بلند تھیں۔ دیوار کے اوپر یعنی چھت کو، لوہے کی جالیوں سے اس طرح سے ڈھانپا ہوا تھا کہ حتی ایک کبوتر بھی بڑی مشکل سے وہاں سے گزر پاتا۔ ہم سے پہلے کچھ پائلٹ وہاں پہنچ چکے تھے  اور کچھ لوگوں کو ہمارے بعد وہاں لایا گیا کہ سب مل کر ہم ۲۵ لوگ ہوگئے۔ سب سے احوال پرسی کے بعد، میں نے اُن سے کہا: آپ لوگ ایک دوسرے سے باخبر ہونے کیلئے حروف تہجی کے طریقہ کار کو استعمال کیوں نہیں کرتے؟ فی الحال یہ کام ہے جسے ہم انجام دے سکتے ہیں۔

ایک شخص نے بغیر کسی جھجک کے سچائی سے کہا:

- ہمیں حروف تہجی صحیح سے یاد نہیں ہیں اور ہم جب بھی گنتے ہیں تو کچھ نہ کچھ کم ہوجاتا ہے۔

میں نے اُن لوگوں کو ایک دفعہ حروف تہجی سنائی۔

ہمیں تقریباً دس منٹ تک اُس ایوان میں ہوا خوری کے عنوان سے رکھا گیا اور دوبارہ اپنے کمروں میں واپس بھیج دیا گیا۔

واپس آنےکے بعد، تفتیش کرنے والے سے جو میں نے پہلے کاغذ قلم لیا تھا اُن سے حروف تہجی لکھی تاکہ اگر میں کسی صورت میں دوبارہ اُن سے ملنے میں کامیاب ہوجاؤں تو اُن لوگوں کو دیدوں۔ تقریباً دو دن بعد، دس منٹ تک ہوا کھانے کیلئے ہم ایوان گئے اور میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور جن لوگوں کو حروف تہجی کی ضرورت تھی، اُنہیں وہ دیدیا۔

اس بار مجھے احساس ہوا کہ کچھ لوگ نئے قیدی بن کر آئے ہیں، ضمناٍ وہ ایرانی خواتین جن کے وجود کے بارے میں مجھے پہلے سے پتہ تھا، وہ کسی ایک پائلٹ کے پڑوس میں تھیں اور اُس نے اُن خواتین کی نگہبان سے گفتگو کرتے ہوئے آواز سنی ہے۔

بعض عراقی بعثی، قیدیوں کے ساتھ بہت زیادہ غیر قانونی اور غیر انسانی کام کرتے تھے، جیسے رضا احمدی نقل کرتے ہیں:

جب میں تفتیش کرنے والے میجر – محمد رضا –  کے پاس تھا، اُس نے میرا نام پوچھا ، میں نے کہا: "محمد رضا احمدی " میجر نے کہا: "جیسے محمد رضا شاہ! " میں نے کہا: "میں اُس کی طرح  نہیں ہوں۔ شاہ امریکا کا نوکر تھا اور اُس نے ان ناموں  کی حامل ہستیوں یعنی حضرت رسول اکرم (ص) اور امام رضا (ع) کی صفات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔"  تفتیش کرنے والے میجر نے کہا: "پس آج کے بعد سے میں تمہیں محمد رضا شاہ کہہ کر بلایا کروں گا۔" اور وہ احمدی کو اس نام سے پکارا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے، وہ تفتیش کرنے والا افسر، ہم قیدیوں کے درمیان "میجر محمد رضا" کے نام سے مشہور تھا۔

یا، اس کے بعد ایک دفعہ احمدی کو بغداد کے امنیتی ادارے کے ایک کمرے میں لائے تھے، کمرے میں موجود تفتیش کرنے والے نے اُس سے پوچھا: "کیا شراب پیو گے؟" احمدی نے کہا: "نہیں" وہ پوچھتا ہے: "اس وقت نہیں پیو گے یا بالکل بھی نہیں پیو گے؟" احمدی جواب دیتا ہے: "نہیں، بالکل بھی نہیں پیوں گا اور میں نے اب تک اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے۔" تفتیش کرنے والے کو جب یہ پتہ چلتا ہے، اُس نے بہت ہی بے شرمی کے ساتھ احمدی کے حلق میں شراب انڈیل دی اور اس شرمناک عمل سے احمد کی حالت خراب ہوجاتی ہے  اور اُسے ابکائیاں آنے لگتی ہیں، اس طرح سےکہ وہ دو دن تک بیماری اور بے حالی کی حالت میں رہا۔

ہمیں اس ادارے میں آئے ہوئے تقریباًٍ دو مہینے یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہوگا کہ ایک دن دوازہ کھلا اور نگہبان نے اعلان کیا:

- … اپنا تمام سامان جمع کرو اور فوراً باہر آجاؤ۔

ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہم مطمئن ہوگئے  کہ وہ ہماری جگہ بدلنا چاہ رہے ہیں، چونکہ زندان کے دورے پر آنے والے مسئولین سے ہمارا ایک مطالبہ یہ تھا کہ جنیوا قانون کے مطابق، قیدیوں کو چھاؤنی میں رکھنا چاہیے اور  اُنہیں ورزش، ماہانہ خرچہاور خط لکھنے جیسی سہولیات  فراہم ہوں۔

نگہبان نے سب کی آنکھوں پر پٹی باندھی، ایک آدمی آگے اور باقی سب اُس کے پیچھے، ہم لفٹ کے ذریعے نیچے گئے۔

مجھے ایسا لگا کہ ہم بغیر کرسیوں والی منی بس میں سوار ہوئے ہیں جس کی کھڑکیوں کو لوہے کی چادروں سے ڈھانپا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد، ہم تقریباً ۱۵ افراد ہوگئے۔ چلنے کے بعد ہمیں راستے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا اُس کے بعد منی بس رک گئی۔ سب کو نیچے اُتار لیا گیا۔ ہم لوگ ایک صحن میں داخل ہوئے۔ آنکھوں پر سے پٹی کھول دی گئی، ہر چند قدم کے فاصلے پر ایک نگہبان ہاتھ میں اسلحہ پکڑے فائرنگ کیلئے تیار کھڑا تھا۔ ہم صحن سے گزرے، اُس کے بعد دو دروازے والے کمرے سے گزر کر ایک نسبتاً بڑے سے ہال میں داخل ہوئے کہ جہاں تقریباً چالیس لوگ  ہم سے پہلے سے موجود تھے۔

اس ہال میں ۴ ستون اور اس کی چوڑائی ۷ میٹر اور لمبائی ۱۵ میٹر کی تھی اور جس دروازے سے ہم داخل ہوئے تھے اُس سے متصل ایک کمرا تھا۔ اُس کی نچلی سطح دھات کی بنی ہوئی تھی اور بالائی حصے پر شیشہ لگا ہوا تھا کہ جس کے مکمل حصے پر رنگ کیا ہوا تھا، فقط کاپی کے صفحے کے اندازہ کے مطابق معمولی سے جگہ چھوٹی ہوئی تھی اور وہاں رنگ نہیں تھا۔ دوسری طرف، ایک پٹ کا دروازہ تھا جو راہداری میں کھلتا تھا ، راہداری کے بھی دو حصے تھے؛ ایک حصے میں، بغیر دروازے کے تین ٹوائلٹ تھے جس کے سامنے ایک میٹر لمبی باریک سی دیوار تھی جس پر سفید ٹائلز لگے ہوئے تھے۔ دوسرے حصے میں، دو چھوٹے چھوٹے حمام تھے۔ حمام کے سامنے ایک پائپ میں چار نل لگے ہوئے تھے جن کے نیچے سیمنٹ کا ایک بڑا سا سنک موجود تھا۔ تیسرا دروازہ ایک کچے صحن میں کھلتا تھا کہ جس کی بلند دیواروں نے اُسے اپنے محاصرے میں لیا ہوا تھا۔

ہال نما کمرے کی دیوار پر، ہر دو میٹر کے فاصلے پر کھڑکیوں پر ایک بڑا سا بورڈ چپکایا ہوا تھا، چھت پر لگے چھ عدد بلب پورے ہال میں روشنی پہنچانے کا  کام کر رہے تھے اور ہوا  کیلئے کوئی روشندان نہیں تھا۔

کچھ گھنٹوں بعد، دوسرے افراد کو بھی لے آئے کہ ہم سب ملا کر ۸۱ افراد ہوگئے۔ سب نے ایک دوسرے کے گرد حلقہ بنالیا، سب کو اپنا اپنا تعارف کروایا اور اپنے قید ہونے کی داستان کے بارے میں بات کی۔ سب افراد ، بری، فضائی، بحری، پلیس اور سیکیورٹی ادروں کے  افسران تھے۔

ہم نے فیصلہ کیا کسی بڑے افسر کو گروپ کا مانیٹر بنایا جائے اور اُنہیں کیمپ میں موجود لوگوں کا کمانڈر بنا دیا جائے۔ پتہ چلا "دانشور" جو رینجرز کے میجر اور خاص فوجیوں میں سے تھے، وہ سب سے سینئر ہیں۔

ہال کے فرش پر کمبل بچھا دیئے تھے اور ہر کسی نے ایک جگہ لے لی۔ اس بات پر کہ سب ایرانی، ہم وطن اور ہم زبان ہیں، ہم سب بہت خوش تھے، ہم ایک دوسرے کو سگریٹ پیش کر رہے تھے اور جو لوگ بعد میں قیدی بنے تھے وہ دوسروں کو جنگ اور ملک کے حالات کے بارے میں بتا رہے تھے۔ حقیقت میں ہمیں ایران جیسی ایک جگہ میسر آگئی تھی اور نگہبانوں سے بہت کم واسطہ پڑتا تھا۔

جاری ہے …



 
صارفین کی تعداد: 2986


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔