دفاع مقدس کے دوران فداکار خاتون زہرا الماسیان کی باتیں

خرم شہر اور آبادان میں امدادی سرگرمیاں

فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-5-7


زہرا الماسیان کی جوانی کے ابتدائی سال، انقلاب اسلامی کی کامیابی اور عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے آغاز کےہمراہ تھے۔ وہ ایران پر عراقی بعثی پارٹی کے حملے کے ابتدائی دنوں میں ہی آبادان میں مختلف فیلڈز میں کام کرنا شروع کردیتی ہیں۔ لیکن خرم شہر کے حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے جو آبادان سے زیادہ خطرے میں تھا امدادی کاموں کیلئے خرم شہر چلی جاتی ہیں اور چند دنوں تک دن رات کام کرنے کے بعد دشمن کی شدید جنگ کی وجہ سے زخمی ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے ان دنوں میں جو مختلف طرح کے کام انجام دیئے اُس کے سبب ایرانی اورل ہسٹری کے خبرنگار اُن تک پہنچے  اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُس زمانے کی ورق گردانی کی۔

 

جب عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی اُس وقت آپ کہاں تھیں؟

جب جنگ شروع ہوئی، میں اپنی ایک بہت ہی اچھی سہیلی کی شادی کی تقریب میں تھی۔ شادی کی تقریب آبادان کی مسجد مہدی موعود (عج) میں منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کے آخر میں اعلان ہوا کہ عراق نے خرم شہر پر حملہ کردیا ہے۔میں اور میری دو سہلیاں دلہن کی رخصتی کے ساتھ ساتھ دلہن کے گھر تک نہیں گئے۔ ہم نے مسائل سے آگاہ ہونے اورجو کام بھی ہم سے ہوسکے اُسے انجام دینے کیلئے فوراً خرم شہر اور الزہرا (س) میٹرنٹی ہوم کی طرف قدم بڑھائے۔ کچھ زخمیوں کو وہاں پر لایا گیا تھا۔ ہم سے جو کام بھی ہوسکا ہم نے انجام دیا اور رات کو آبادان واپس آگئے۔ البتہ اس زمانے میں جنگ سے میری مراد باقاعدہ جنگ نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ  جانتے ہیں مسلط کردہ جنگ شروع ہونے سے چند مہینے پہلے، صدام نے کچھ شاطرانہ کاروائیاں انجام دی اور سرحدوں پر حملہ کیاتھا۔

 

جی، صحیح ہے۔ جب مسلط کردہ جنگ باقاعدہ طور سے شروع ہوئی اُس وقت آپ نے کیا کیا کام انجام دیئے؟

جیسے ہی جنگ شروع ہوئی ہم نے اُسی وقت سے کام کرنا شروع کردیا۔ ہم ایک ایسی انجمن میں تھے جو گورنر ہاؤس سے وابستہ تھی اور ہماری ذمہ داری تھی کہ گھروں، عمارتوں اور وہ افراد جو شہید یا زخمی ہوگئے ہیں اُن کے بارے میں جانچ پڑتال کرکے گھروں کو تعمیر کرنے والی ٹیم یا دوکانوں کو اطلاع دیں۔ اس کے علاوہ میں نے طالقانی ہسپتال اور شہید بہشتی ہسپتال میں بھی ڈیوٹی انجام دی اور میں زخمیوں  کو زیادہ تر ان دو ہسپتالوں کے سپرد کرتی تھی۔ شہید بہشتی ہسپتال قبرستان اور چوئبدہ گاؤں سے نزدیک اور طالقانی ہسپتال خرم شہر سے نزدیک تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں مسجد مہدی موعود (عج) میں سپلائی اور ہاتھ بٹانے کا کام بھی کرتی تھی۔ میں وہاں باورچی خانے والے حصہ میں کام کرتی تھی۔ ہم کھانے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ہمیں اس بات کی پریشانی تھیں کہ منافقین، سپاہیوں کے کھانے میں کچھ ملا نہ دیں۔ وہ شہر میں اپنا کام کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے ہم نے ہر کسی کو کھانا بنانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ایسی خواتین جن پر ہمیں سو فیصد اطمینان ہوتا اور جنہیں ہم انقلاب سے پہلے سے جانتے تھے کہ وہ انقلابی تھیں اور اُن کے شوہر اور بیٹے سرحدی محاذ پر  دشمن  سے برسر پیکار تھے، جیسے شہید محمد دشتی کی زوجہ یا امیر شفیعی شہیدوں کی والدہ، جن کے تین بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا، یہ لوگ کھانا بناتی تھیں۔ہم نے اُنہیں تاکید کردی تھی کہ سب ایک ساتھ وضو کرنے یا نماز پڑھنے کیلئے نہ جائیں ۔

 

آپ آبادان کے تعلیمی بورڈ پر بمباری ہونے والے حادثہ کے بعد وہاں گئی تھیں …

جی،عراقی طیاروں نے  جنگ کے ابتدائی دنوں اور دفاتر کے اوقات میں، تعلیمی بورڈ اور عجائب خانہ پر بمباری کردی۔ میں بمباری کے بعد وہاں پہنچی۔ کارکنان گرد و خاک کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ جنازوں کو ایک ایک کرکے ملبے کے نیچے سے باہر نکالا گیا اور زخمیوں کو شہید بہشتی ہسپتال پہنچایا گیا۔ اُس کے بعد ہم امدادی کاموں کی انجام دہی کیلئے شہید بہشتی ہسپتال کی طرف گئے جو وہاں سے قریب ترین ہسپتال تھا۔ اُس طرف سے چوئبدہ نامی سرحدی علاقے سے بھی زخمیوں کو لایا جارہا تھا اور ہسپتال میں بہت رش تھا۔ اِس وقت لوگوں نے شہر کو خالی نہیں کیا تھا اور زخمی ہونے والوں  میں بچے اور خواتین بھی تھے۔

 

آپ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے امدادی سرگرمیوں کا کورس کیا ہوا تھا یا جنگ شروع ہونے کے بعد تجربہ سے سیکھا ہے؟

میں نے امدادی کاروائی کا کورس نہیں کیا تھا۔  میں نے نرسنگ کا مکمل کورس کیا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آبادان میں چند گروپ بنائے گئے۔ ایک گروپ کو جناب سید محمد کیاوش صاحب نے خود اپنے پیسوں سے بنایا تھا۔ یہ قرآن اور تفسیر کے استاد تھے اور یہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ وہ انقلاب کے بعد صوبہ خوزستان میں تعلیمی بورڈ کے انچارچ بن گئے۔ انھوں نے اُن لوگوں کیلئے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے ان کے ساتھ سیاسی مسائل میں تعاون کیا تھا، ایسی شرائط مہیا کیں کہ وہ لوگ ثقافتی اور نرسنگ کورس کرلیں۔ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اُس وقت سے سیاست میں داخل ہوگئی تھی جب میں سیکنڈری میں پڑھتی تھی۔ میں سن ۱۹۷۴ و ۷۵ میں آبادان میں موجود اصفہانیوں کے امام بارگاہ کی طرف سے ۴۸ خواتین کے ساتھ  اصفہان کے سفر پر گئی جہاں ہم نے بانو امین اصفہانی کے مدرسے میں چار مہینوں تک تفسیر قرآن، نہج البلاغہ، عربی گرامر، حدیث اور دوسرے دروس کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد ہم نے سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کردیا، کیونکہ وہاں پر موجود ایسی لڑکیوں سے دوستی ہوئی جو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ میرے والد صاحب بھی سیاسی مجاہد تھے اور جناب کیاوش کو بھی جانتے تھے۔ وہ امام خمینی کے بیانات لیکر آتے اور ہم اس کی مزید کاپیاں تیار کرتے۔ میری بہن ٹائپ کرتے اور میں نے بھی ٹائپ رائٹنگ میں ڈپلومہ کیا ہوا تھا۔ ہم یہ بیانات ایسے مذہبی افراد  میں تقسیم کرتے جن پر ہمیں اعتماد ہوتا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد سپاہ کی طرف سے اور جناب کیاوش کے تعاون سے ہم نرسنگ کورس اور فوجی ٹریننگ کورس کا دورہ کیا۔ اصل میں انقلابی اور مذہبی لوگ، لوگوں کی تربیت کر رہے تھے۔ ہم سے کہا گیا نرسنگ لباس یعنی ایک بڑا سفید مقعنہ اور ایک سفید پینٹ کوٹ لے لیں  تاکہ اگر ضرورت پڑے تو ہسپتالوں میں ہماری ڈیوٹی لگائی جائے۔ اسی وجہ سے ہم نے تھیوری اور پریکٹیکل کا مکمل کورس ہسپتال میں کرلیا تھا۔

 

جنگ شروع ہوتے ہی اکثر گھرانے آبادان سے چلے گئے تھے۔ آپ کے والد نے آپ کے شہر میں رہ جانے پر کوئی مخالفت  نہیں کی؟

نہیں۔ میرے والد اُس وقت آبادان میں نہیں تھے۔ وہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سیاسی مجاہد تھے۔ انھوں نے پنی دوکان میں اشتہارات چھپائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آبادان کی ساواک اُن کا پیچھا کر رہی تھی۔ اسی وجہ سے وہ اصفہان چلے گئے اور وہیں رہ گئے اور وہاں پر جوتوں اور بیگوں کی دوکان کھول لی۔ البتہ ہم اُن کے ساتھ نہیں گئے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے فوراً فون کرکے کہا: "گھر کو خالی کردیں اور وہاں پر موجود جان پہچان کے فوجیوں کے حوالے کردیں تاکہ وہ استعمال کریں۔" چونکہ ہمارا گھر بہت بڑا تھا اور تقریباًٍ ہزار میٹر سے زیادہ تھا۔ وہ خود بھی آبادان واپس آگئے اور انھوں نے ہماری سیاسی سرگرمیوں کی مخالف نہیں کی۔ ہم نے سارا سامان اکٹھا کرکے ایک کمرے میں رکھ دیا تاکہ وہ لوگ گھر کو ٹریننگ اور جنگ کیلئے چھاؤنی بنالیں۔ ہمارا پورا گھرانہ شہر میں ہی ٹھہرا ہوا تھا اور جس سے جو کام بن پڑتا وہ اُسے انجام دیتا۔  میری والدہ ہسپتال میں تھیں، میری بہن میرے ساتھ کام کرتی تھی، میرے بھائی بھی کام کر رہے تھے۔ حتی میرے بھائی کی زوجہ جو اُمید سے تھی، وہ بھی شہر میں ہی تھی، ہم نے اپنے بھائی پر زور ڈالا کہ وہ اپنی زوجہ کو شہر سے لے جائے؛ میری کوشش ہوتی تھی کہ دن میں جہاں کہیں بھی ہوں رات کو گھر واپس آجاؤں، تاکہ میرے گھر والے اکیلے نہ ہوں؛ اگرچہ کہ گھر میں بھی امن نہیں تھا۔

 

آپ کا امدادی کاموں کیلئے خرم شہر جانا کس طرح ممکن ہوا؟

سپاہ پاسداران نے خرم شہر کو مردوں اور خواتین فوجیوں سے خالی کروالیا تھا۔ جو فوجی شہر میں رہ گئے تھے وہ بعثیوں سے تن بہ تن لڑ رہے تھے۔ ظاہری طور پر خواتین میں سے بھی کوئی باقی نہیں بچا تھا۔ میں اور ایک دوسری خاتون جن کا نام فاطمہ غلامی – البتہ اُن کا نام پریوش تھا جس کو انھوں نے بدل لیا تھا – امدادی کاموں کیلئے خرم شہر گئے۔ہم لوگ  ریلوے اسٹیشن اور کسٹم کے درمیان جامع مسجد کے بعد ایک گھر میں جاکر ٹھہرگئے۔

 

خرم شہر کے حالات کیسے تھے؟

لوگ شہر سے جاچکے تھے۔گھر اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں۔ بعثی شہر کے اندر داخل ہوچکے تھے، لیکن ابھی تک شہر کو پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا تھا۔  حقیقت میں بعثی افراد مختلف جگہوں پر پھیل گئے تھے۔ بعثیوں کے علاوہ منافقین بھی شہر میں اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ طرفدار غائلہ خلق عرب یا منافقین نامی انجمنوں کے بچے کچے افراد تھے، وہ دشمنوں کے ساتھ تعاون کرتے اور جہاں  ہمارے فوجی ہوتے تھے اُنہیں اس سے آگاہ کر دیتے اور وہ لوگ وہاں جاکر حملہ کردیتے۔

 

آپ وہاں پر کیا کام انجام دیتی تھیں ؟

انھوں نے ہمیں پابند کیا ہوا تھا کہ آپ کو ڈاکٹر کے کام میں دخل اندازی نہیں کرنی! ہم تہران سے آئے ہوئے ڈاکٹر سیامک صادقی  کی مدد کرتے تھے جنہوں نے اُسی سال  اکتوبر کے مہینے میں  جام شہادت نوش کرلیا۔ زخمی ہوجانے والے فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد کیلئے وہاں لایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کام میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ وہ بہت ہی مومن، انقلابی اور اُنہیں تہران سے بھیجا گیا تھا۔ گویا ہم سے پہلے کچھ لوگ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب اُن کے کام سے راضی نہیں تھے  اور انہیں نوکری سے نکال دیا تھا۔ اُنھوں نے تاکید کی تھی کہ ایسے افراد کو لایا جائے  کہ جو میں کہوں  اُسے انجام دیں نہ کہ جس کام کو اُن کا دل چاہے اُسے انجام دیں۔ انھوں نے ہمیں پابند کیا ہوا تھا کہ کام کے وقت باتیں نہیں کرنی اور اپنی رائے بیان نہیں کرنی چونکہ کام کا بوجھ زیادہ تھا اور ہم نے بھی مکمل نرسنگ کورس کیا ہوا تھا  اگر ہم بھی اپنی مرضی سے کچھ کہنا چاہتے کہ کیا کرو اور کیا نہیں کرو تو ان کے کام میں خلل ایجاد ہوتا۔ ہم روئی، پٹی اور دوسرے وسائل کے  ذریعے زخمی کے زخموں سے مٹی کو صاف کرتے  تاکہ اُس کے بدن کا وہ حصہ خراب نہ ہوجائے اور انفیکشن نہ پھیل جائے۔ اُن کے زخموں پر پٹی باندھتے اور ہاتھ اور پاؤں یا بدن کے دوسرے اعضاء قطع ہونے کے احتمال کو روکتے تھے۔ اگر گاڑی ہوتی تو ہم اُنہیں آبادان کے ہسپتال منتقل کر دیتے تھے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب زخمیوں کے تمام کام اکیلے انجام نہیں دے سکتے تھے  اور ضرورت کے تمام وسائل اُن کے اختیار میں نہیں تھے۔ شروع میں تو خرم شہر کا دفاع کرنے والے فوجی، زخمیوں کو وہاں لاتے تھے، لیکن بعد میں جب فوجیوں کی تعداد کم ہوگئی میں خود زخمیوں کو لانے کیلئے وہاں جاتی جہاں جھڑپیں ہو رہی ہوتی تھیں۔ یہ کام بہت سخت حالات میں انجام پاتا تھا۔

 

آپ زخمیوں کو کن حالات میں منتقل کرتی تھیں؟

ہم سرحدی لائن پر تھے، لیکن دفاع کرنے والی فوجیں ہم سے آگے تھیں۔ وہ زخمیوں کو پیچھے کی طرف لاتے اور ہم اُن کا معالجہ کرتے تھے۔ لیکن جب بعثی شہر پر شدید حملہ کرتے اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی اُس وقت ہمارے فوجیوں میں اُنہیں پیچھے لانے کی قدرت کم ہوجاتی۔ چونکہ وہ فرنٹ لائن پر رہ کر جنگ کرنا چاہتے تھے۔ زخمیوں میں بھی جنگ کرنے کی سکت نہیں ہوتی تھی۔ وہ ہمیں اطلاع دیتے کہ ہمیں کسی ایسے کی ضرورت ہے جو زخمیوں کو پیچھے کی طرف لے جائے۔ میں ایک دفعہ ڈاکٹر صادقی سے اجازت لیکر خرم شہر کے رہنے والے عرب زبان لڑکے کے ساتھ گئی اور میری سہیلی ڈاکٹر صادقی کے پاس ٹھہر گئی۔ بعثی چاروں طرف سے مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔ ناہموار زمین پر چلنا اور اُس پر بھاگنا بہت دشوار تھا۔ بجلی کی تاریں، عمارتوں کی اینٹیں، روم کولر اور دوسرے سامان زمین پر  پڑے ہوئے تھے۔ آسمان سے پانچ پانچ گولے ایک ساتھ برس رہے تھ، مختلف اسلحوں سے اتنی زیادہ فائرنگ ہوئی کہ نیلا آسمان کالا پڑ گیا  اور زمین سے لیکر آسمان تک دھواں ہی دھواں پھیل گیا۔ہم اپنے ساتھ آئے ہوئے فوجی کی مدد سے زخمیوں کو جمع کرتے، اُنہیں ٹھیلے نما گاڑی پر ڈال کر پیچھے کی طرف لے آتے۔

 

آپ لوگ ایک ٹھیلے نما گاڑی میں کتنے زخمیوں کو سوار کرلیتے تھے؟

ہم شہداء کے جنازوں کو نہیں لاتے  تھے، زخمیوں کو لاتے تھے۔ انہیں ایک کے اوپر ایک لٹا دیتےتھے۔ میں ٹھیلے کو آگے سے پکڑ لیتی اور میرے ساتھ موجود شخص  اُسے چلاتا تھا۔ ٹھیلے نما گاڑی نا ہموار زمین پر بہت مشکل سے چلتی تھی۔ زخمیوں کو پیچھے لانے کے بعد اگر گاڑی ہوتی تو اُن لوگوں کو جو معمولی علاج معالجہ سے ٹھیک نہیں ہوئے ہوتے تھے آبادان منتقل کر دیتے تھے۔ ایک دن بہت سخت حالات تھے اور بعثیوں نے بہت آگے تک پیش قدمی کرلی تھی۔ زخمیوں کو لے جانے کیلئے کوئی گاڑی نہیں تھی۔ ہم نے اہل بیت (ع) سے توسل اور خداوند متعال سے دعا کی کہ کوئی گاڑی پہنچ جائے تاکہ ہم زخمیوں کو آبادان کے ہسپتالوں تک پہنچا سکیں۔ میں نے حضرت عباس (ع) کی والدہ ماجدہ جناب حضرت ام البنین سے توسل کیا تھا۔ ایک گاڑی آئی اور ہم زخمیوں سوار کرکے آبادان لے گئے اور ہم نے تاکید کی ان لوگوں کا ایمرجنسی میں آپریشن ہونا  چاہیے۔

 

مرد حضرات آپ سے نہیں کہتے تھے  کہ شہر سے جائیں اب یہاں آپ لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے؟

نہیں،چونکہ ہمارا یہاں رہنا ضروری تھا۔ لیکن جب ہم اُن سے نزدیک ہوتے تو وہ کہتے: "ایک طرف ہوجائیں، عراقی آپ لوگوں  کو دیکھتے ہیں تو زیادہ فائرنگ کرتے ہیں۔"

 

زیادہ تر زخمی کس عمر کے ہوتے تھے؟

اُن میں سے زیادہ تر جوان تھے۔  

 

ان زخمیوں میں سے آپ کو کسی کا کوئی واقعہ یاد ہے؟

ایسے زخمی جن کے بدن کا کچھ حصہ جدا ہوگیا تھا وہ بہت تکلیف اٹھاتے تھے۔  اُن میں سے بعض لوگ مجھے وصیت کرتے یا کہتے میرا وصیت نامہ میری جیب میں ہے اُسے میرے گھر والوں تک پہنچا دینا یا میرے گھر والوں کو بتا دینا کہ میرا ہدف کیا تھا؛ ہم یہاں پر اسلامی جمہوریہ کی حفاظت اور امام خمینی کی حمایت کیلئے آئے ہیں۔ بعض لوگوں کی حالت تو بہت ہی خراب تھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھے اور اُن میں زیادہ بولنے کی سکت نہیں تھی۔

 

جب آپ زخمیوں کو بدترین حالت میں دیکھتیں تو آپ کی حالت خراب نہیں ہوتی تھی؟

نہیں۔ چونکہ جب ہم شہید بہشتی ہسپتال میں تھے تعلیمی بورڈ اور عجائب گھر پر بمباری  کی وجہ سے زخمیوں کی بدترین قسم کو وہاں دیکھ چکے تھے۔ اس کے علاوہ احساسات کے اظہار کیلئے وقت بھی نہیں تھا۔ کام بہت زیادہ تھا اور کام کرنے والے افراد کم تھے، بے ہوش ہونے کیلئے یا جذباتی احساسات دکھانے کیلئے وقت نہیں تھا کہ کہیں موقع ضائع نہ ہوجائے۔

 

خرم شہر کے اُن بحرانی دنوں میں آپ وہاں پر کب تک رہیں؟

میں اُس دن تک وہاں رہی جس دن میں زخمی ہوئی تھی۔ کچھ دنوں بعد خرم شہر پر قبضہ ہوگیا اور ڈاکٹر صادقی بھی شہید ہوگئے اور میری سہیلی واپس آبادان آگئی۔

 

آپ ہمیں اپنے زخمی ہونے کے بارے میں بتائیں۔

ایک دن خرم شہر کا رہنے والا ایک آدمی ظہر کے بعد ہماری چھاؤنی میں آیا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک کلاشنکوف تھی۔ اُس نے ہم سے کہا کہ ہم شہر میں موجود زخمیوں کی مدد کیلئے اُس کے ساتھ جائیں۔ ڈاکٹر صادقی نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا: "میں جاؤں؟" انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے جانے کا کہہ دیا۔ میں نے ابتدائی طبی  امداد کیلئے درکار کچھ وسائل اٹھائے اور چل پڑی۔ بعثی ہم سے بہت نزدیک ہوچکے تھے۔ پانچ پانچ گولے ایک ساتھ برسا رہے تھے اور زمین سے آسمان تک مختلف قسم کے اسلحوں کے ذریعے فائرنگ ہو رہی تھی۔ زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے ہم وہاں زیادہ دیر تک نہیں رک سکتے تھے۔ ہماری زیادہ تر کوشش یہ ہوتی کہ زخمیوں کو جمع کرلیں اور اپنے چھاؤنی میں لے آئیں۔ ہم اُنہیں ٹھیلے پر ڈال کر پیچھے کی طرف لے آئے۔ واپس آتے ہوئے راستے میں  ہم نے  ستر ، اسی سالہ ایک بوڑھے مرد اور ایک بوڑھی خاتون کو دیکھا کہ جن کے ہاتھ میں ایک گٹھڑی تھی اور وہ ابھی تک شہر میں ہی تھے!

 

آپ نے اُن سے پوچھا نہیں کہ وہ ایسے حالات میں  کیوں شہر سے خارج نہیں ہوئے؟

ہمارے پاس باتیں کرنے کا وقت نہیں تھاہمیں ہر صورت میں زخمیوں کو پیچھے واپس لانا تھا۔ ہمارے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی تھا ۔ جب ہم اپنے ہیڈکوارٹر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہاں کا دالان زخمیوں سے بھرا ہوا ہے؛ وہاں پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کمرا بھی زخمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور میری سہیلی، بالکل اکیلے تھے۔ میں نےکہا: "ڈاکٹر صاحب میں کچھ زخمیوں کو لائی ہوں۔" ہم اُن زخمیوں کو اپنے ساتھ موجود آدمی کی مدد سے عمارت کے اندر لے آئے۔ عمارت کے اندر جگہ نہیں تھی، ہم اُنہیں صحن میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ ٹھیلے کے ذریعے بقیہ زخمیوں کو لے آئیں۔ ڈاکٹر بہت پریشان تھے اور کہہ رہے تھے: "اگر یہ لوگ آبادان نہیں  گئے تو شہید ہوجائیں گے۔" انھوں نے مجھ سے کہا: "کوئی گاڑی ڈھونڈو اور اُنہیں پیچھے کی طرف لے جاؤ۔"میں نے کہا: "ڈاکٹر صاحب اس بات کا امکان نہیں ہے۔ شہر کی حالت بہت خراب ہے۔ گاڑی نہیں ملے گی۔" ڈاکٹر نے اصرار کیا۔ میں اس وجہ سے کہ ان کی ہمت پست نہ پڑ جائے دروازے کے سامنے آئی۔ مجھے معلوم تھا کہ شہر میں کوئی گاڑی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو مطمئن کرنے کیلئے میں کچھ دیر تک دروازے کے سامنے کھڑی رہی۔ میں نے دروازے پر ٹیک لگائی اور بے اختیار حضرت ام البنین سے توسل کیا۔ جیسے مجھے الہام ہوا ہو کہ تم ان سے توسل کرو۔ میں نے اُنہیں اُن کے چار بیٹوں کا واسطہ دیا کہ کوئی ایسی چیز فراہم ہوجائے کہ جس کے ذریعے ہم زخمیوں کو آبادان منتقل کردیں۔ میں نے اُسی لمحے  ایک کالی گاڑی کو دیکھا۔ میں بہت تیزی سے اُس کے سامنے آگئی۔ ہم نے زخمیوں کو گاڑی میں سوار کیا۔ طے پایا کہ میں بھی زخمیوں کے ساتھ جاؤں۔ ڈاکٹر نے تاکید کی: "ہسپتال کے ڈاکٹروں سے کہنا  ان زخمیوں کا اسی وقت آپریشن ہونا چاہیے۔" میں بہت مشکل سے اُن لوگوں کو آبادان لے گئی۔ شہر محاصرے میں تھا۔ بعثی ہر طرف سے شہر پر حملہ کر رہے تھے۔ بہت ہی خطرناک آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ایرانیوں اور بعثیوں کے درمیان تن بہ تن جنگ ہو رہی تھی۔ گاڑی برستی گولیوں کے نیچے سے گزری۔ سڑک پر پھینکی گئی چیزوں کی وجہ سے گاڑی بہت ہچکولے  لے رہی تھی۔ مجھے زیادہ ورزش کرنی چاہیے تھی۔ میں زخمیوں کے کٹ جانے والے اعضاء کو پکڑتی۔ میرا پورا دھیان اُن کی طرف تھا تاکہ اُنہیں اور زیادہ تکلیف نہ ہو۔ ہسپتال کا اسٹاف  مجھے پہچانتا تھا، میں جیسے ہی زخمیوں کو لیکر طالقانی ہسپتال پہنچتی وہ لوگ فوراً مجھے راستہ دیتے تھے۔ میں زخمیوں کو آپریشن تھیڑ کے دروازے کے پیچھے تک لے گئی، میں نے ڈاکٹر کو بلایا اور ڈاکٹر صادقی نے جو تاکید کی تھی اُنہیں بتا دی۔

 

ہسپتال کا اسٹاف آپ کو کیوں پہچانتا تھا؟

میری  دو وجوہات کی بنا پر ہسپتال کے اسٹاف سے جان پہچان ہوئی تھی۔ ایک یہ کہ اسلامی انقلاب کے بعد، میں صحت و تندرستی کیلئے کام کرنے والے ادارے جہاد سازندگی کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتی تھی  اور چوئبدہ جیسے گاؤں وغیرہ میں چکر لگاتی تھی، ہم مختلف حوالوں سے لوگوں کی مدد کرتے اور بیمار دیہاتیوں کو طالقانی ہسپتال لے آتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ہلال احمر میں گورنر کے ساتھ لوگوں کا تعاون، نام سے ایک حصہ کھولا گیا تھا کہ جس کے انچارج ڈاکٹر کریم سلحشور تھے جس کے  مختلف حصے جیسے  ثقافتی، تعلیمی، علاج معالجہ وغیرہ تھے اور ہم بھی علاج معالجہ والی فیلڈ میں کام کرتے تھے۔ درحقیقت آبادان میں علاج معالجہ اور صفائی ستھرائی والا حصہ ہمارے ہاتھ میں تھا۔ ہم ہسپتال  کی مشکلات کے بارے میں گورنر کو بتاتے اور وہ ان مشکلات کا حل نکالتے۔

 

زخمیوں کو ہسپتال کی تحویل میں دینے کے بعد کیا ماجرا پیش آیا؟

میں نے ڈرائیور سے کہا مجھے دوبارہ خرم شہر لے جانے کیلئے تھوڑا صبر کرو۔ پھر ہم خرم شہر کی طرف چل پڑے۔ خرم شہر میں داخل ہوتے وقت ہم نے آرمی کے کچھ فوجیوں کو گاڑی میں بٹھالیا۔ ہم جیسے ہی گورنر ہاؤس کے سامنے سے گزرے درختوں کی اوٹ میں چھپے بعثیوں نے ہمارے اوپر گولیوں کی شدید بوچھاڑ کردی۔ پہلے گاڑی کی پچھلی طرف فائر کئے جس سے آرمی کے فوجی زخمی ہوگئے۔ گاڑی کے پیچھے سے خون کی ندی بہہ نکلی۔ پھر گاڑی پر سائیڈ سےحملہ کیا اورڈرائیور اور میری طرف فائر کرنے لگے۔ گاڑی کے سامنے سے حملہ کیا ، سامنے والا شیشہ ٹوٹ گیا۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے ڈرائیور سے کہا: "چلو چلو۔ اگر رک گئے تو ہم اسیر ہوجائیں گے!" ڈرائیور کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے اور وہ اپنا توازن کھو بیٹھا تھا، جب بعثی فائرنگ کرتے، وہ بے اختیار رک جاتا۔ گاڑی میں موجود فوجی بھی ڈرائیور سے کہہ رہے تھے: "آگے بڑھو۔"

 

آپ کو کہاں پر چوٹیں لگیں؟

کندھے سے لیکر پیٹ تک، مجھے دو گولیاں لگی تھیں۔ میں ۱۷ اکتوبر  ۱۹۸۰ء کی شام کو زخمی ہوئی اور ۱۸ اکتوبر کو طالقانی ہسپتال میں میرا آپریشن ہوا۔

 

جہاں پر دشمن نے حملہ کیا تھا آپ نے وہاں سے کیسے نجات حاصل کی؟

وہ فوجی جو بعثیوں سے تن بہ تن لڑ رہے تھے ہماری مدد کیلئے پہنچ گئے اور اُن کی طرف فائرنگ کرکے ہمارے لئے راستہ کھول دیا۔  ہم اپنے فوجیوں کی طرف گئے۔ میں گاڑی سے اُتری تاکہ گاڑی میں موجود زخمیوں کی طرف جاؤں کہ مجھے چکر آگئے۔ مجھے چکر آنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ میرا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اور میں وہیں پر بیہوش ہوگئی۔ رات  کو ہمیں آبادان کی طرف واپس لے آیا گیا۔ گاڑی بہت بری طرح سے حرکت کر رہی تھی۔ مجھ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور بہت زیادہ درد ہو رہا تھا۔ مجھے آواز آرہی تھی کہ گاڑی میں موجود افراد ڈرائیور سے کہہ رہے تھے: "گاڑی محاصرے میں ہے، عراقی آرہے ہیں!" کسی نے ڈرائیور سے کہا: "اگر تم نے گاڑی روکی تو بعثیوں کی جگہ ہم تمہارے سر میں گولی ما دیں گے!"ہمیں طالقانی ہسپتال لے جاکر ایڈمٹ کردیا گیا۔

 

تندرست ہونے کے بعد آپ نے دوبارہ سے کام شروع کردیا تھا؟

جی۔میں نے طالقانی اور شہید بہشتی ہسپتالوں میں مدد کرنا اور امدادی کام کرنے  کو جاری رکھا۔ البتہ میں زیادہ تر طالقانی ہسپتال میں رہی۔ جنگ کے آخری سالوں تک میرا ہسپتال میں  آنا جانا لگا رہا اور میں ان کاموں کے ساتھ ساتھ ثقافتی کام بھی انجام دیتی۔

 

ہم اس بات پر آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ایران کی زبانی سائٹ کو دیا۔



 
صارفین کی تعداد: 3703


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔