مزدورں کی زبانی تاریخ

ڈاکٹر مرتضی نورائی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-4-29


ساٹھ کی دہائی میں، جب زبانی تاریخ نے کام شروع کرنے کیلئے قدم بڑھایا، گذشتہ ماضی اور گمشدہ جہانوں کو ٹٹولنے میں خواتین، مزدور  اور اَن پڑھ لوگ  اس کے محور اصلی کے طور پر سامنے آئے۔ تین دہائیوں کے قریب اور اُس کے بعد سے لیکر آج تک زبانی تاریخ کے میدان میں اہمیت کے حامل دوسرے مدارج میں صنعتی معاشرے کے مورخین کی زبانی تاریخ کا ایک بہترین حصہ رہا  اور ہے۔

مزدور طبقہ چاہے وہ صنعتی، زراعتی اور نوکری کسی بھی صورت میں ہو، ایک خاموش اور پرسکون رہنا والا طبقہ ہے کہ معاشرے کی معیشت اور پیداوار کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے۔ بغیر کسی شک وشبہ کے اُن کا معاشرے کے وجود میں نظر آنا بہت فائد مند اور عین عدالت ہے۔ کسی بھی قسم کی اقتصادی منصوبہ بندی  جو  منطقی طور پر صحیح و سالم ہو لا محالہ اُسے اس طبقہ سے تعلق جوڑنا پڑتا ہے۔ لہذا ورکشاپوں، کارخانوں ، کھیتوں اور بازاروں کی گذشتہ اونچ نیچ  کو پانے اور دہرانے سے کام اور پیداوار کے طریقہ کی اصلاح  میں مؤثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس طبقہ کو کبھی بھی اپنے ہاتھوں میں قلم پکڑنے کا موقع نہیں ملا  اور نہ ہی ان میں اس کی دلچسپی اور سکت رہی ہے۔ اُن کے اطراف میں موجود مؤرخین کا وجودایک گذشتہ بولتی زبان کے عنوان سےرہا، بہرحال مؤرخین کی رسالت اور اُن وجاہت سے اجتماعی تاریخی  میں اس کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ماضی اور حال کی مدت میں ملک میں زبانی تاریخ کی توسیع میں اس طبقہ کے سلسلے میں  کوئی حتمی اور مستقل کام کم ہی دیکھا گیا ہے۔ نظر انداز کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کام نہیں ہے۔ کیونکہ اس معاشرے کے اس طبقہ کے پاس تحقیق پر خرچ کرنے کیلئے سرمایہ ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد جو چیز رہ جاتی ہے وہ ادارے اور تنظیموں کے متولی ہیں۔ زبانی تاریخ کے سلسلے میں کام کرنے والوں میں اس بارے میں کوئی اثر یا جستجو دکھائی نہیں دے رہا۔ کیا کرنا چاہیے؟ یہ کام اُن کاموں میں سے ہے  کہ کوشش کرنے والا اور تحقیق کرنے والا خود بھی پیچھے رہ جائے گا، یعنی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں اُ س کا خلاق بیٹھے اور اُس کی قدر دانی کی جائے، اتنا  پیسہ نہیں ہے کہ کم از کم کام کا خرچہ نکل آئے۔ پھر وہی سوال کیا کرنا چاہیے؟

اس کام کی منفعت، بے شک سرمایہ کاری کے تینوں درجوں یعنی کم مدت کی سرمایہ کاری، درمیانی مدت کی سرمایہ کاری اور طویل مدت کی سرمایہ کاری، صنعتوں کے مالکان، منصوبہ بندی کرنے والے ادارے، قانون بنانے والوں وغیرہ کیلئے قابل ملاحظہ ہے۔ ہوسکتا ہے اجتماعی تحقیقات کے دائرے سے ہٹ کر تالیفات کے منصوبے میں کوئی بنیاد ڈالی گئی ہو، لیکن ایرانی شہری اور دیہاتی زندگی میں کام اور مزدور کی حقیقت، بیرونی معیار کے مطابق نہیں جیسا کہ فوائد و تاثیر  کے لائق ہے ۔ کام اور مزدوری ایک قومی تجویز ہے اور اس کیلئے ایک قومی اقدام خاص طور سے زبانی تاریخ کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ آج کنسولگری ہے، حتی شہروں کی میونسلپٹی کے پاس اس سلسلے میں سہمیہ ہونا چاہیے۔ اس گفتگو کو بیان کرنے کی اہمیت کے بارے میں بھی علمی اداروں کی طرف سے ایک شائستہ کاوش ہونی چاہیے۔ حتی تجویز دی جاتی ہے زبانی تاریخ کی انجمن اتنی اہمیت کے حامل اس موضوع کے سلسلے میں ایک سالانہ نشست کا انعقاد کرے۔

زبانی تاریخ میں اتنے سارے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ تذکر دینا چاہیے کہ مزدورں کی زبانی تاریخ دل کا کام ہے اور اس میں بہت ہی متنوع اور دلچسپ مباحث موجود ہیں۔ حالانکہ انٹرویو میں ایک مختلف طریقہ پیروی کرتا ہے۔ اس طبقہ کے ساتھ انٹرویو کی حالت دوسرے تمام طبقات کے ساتھ ایک بنیادی فرق رکھتی ہے۔ مسلسل ایک جیسے کام اور معاشی تنگی، اُن کے ذہن میں کوئی خوشی  کا باب نہیں چھوڑتی۔ لہذا سارے زمانے ایک جیسے ہوتے ہیں اور اپنی حالت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے تاریخوں کو گنا جا رہا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے پہلے مرحلے میں اجتماعی انٹرویو کو ترجیح  دی جاتی ہےکہ اس سلسلے میں سب کے ساتھ ہونے والی انٹرویو کی نشستوں میں مزدور ایک دوسرے کی اصلاح کرتے ہیں  اور زمانہ  اور حوادث پر دقت اور غور کرتے ہیں۔ اس صورت میں ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو لینے والوں کو  بھی ایک ساتھ –  دو یا تین افراد- ہونا چاہیےتاکہ کوئی پہلو مخفی نہ رہ جائے اور کام کی رفتار بھی مناسب ہو۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ انٹرویو لینے والے کو کام اور مزدور کی اصطلاحوں سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس بات کی بھی تاکید کی جاتی ہے کہ زیادہ تر سوالات موضوع سے متعلق ہوں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3783


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔