انٹرویو پر اندرونی کیفیت کا اثر

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-2-13


گذشتہ واقعات کے بارے میں با مقصد گفتگو اور راوی کے ذہن کو کھنگالنا اُس کے اندرونی اور نفسیاتی دباؤ کو کم کرسکتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا گیا تھا اور یہ چیز اُس کیلئے مناسب شرائط ایجاد کرسکتی ہے۔ حتی بعض موارد میں ایسا لگتا ہے کہ راوی کچھ مطالب کہنے سے، کسی خاص فرد سے اپنا حساب بے باک کرنا چاہتا ہے اور اس طرح وہ ایک ذہنی اور وجدانی دباؤ سے نکلنا چاہتا ہے تاکہ ایک طرح کا سکون حاصل کر پائے۔

یہ کیفیت، واقعات بیان کرنے میں ایک مثبت نقطہ سمجھی جاتی ہے۔ واقعاً یہی چیز دلیل  بنتی ہے کہ بعض ماہرین نفسیات اُن سے رجوع کرنے والوں سے گفتگو کرتے ہیں اور اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سالوں سے مختلف موضوعات سے مربوط تلخ و شیرین واقعات  جو اُن کے ذہن میں باقی ہیں،  اُنہیں بیان کریں۔

بہت سے ایسے افراد ہیں جو زبانی تاریخ کے انٹرویو کے دوران، پرجوش ہوجاتے ہیں یا رونے لگتے ہیں یا مختلف ہیجانات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ انٹرویو کے دوران، وہ اپنی یادوں کی گہرائی میں اُتر جاتا ہے اور غموں اور خوشیوں، ناکامیابیوں اور کامیابیوں، نا اُمیدی اور اُمید کو دہراتے ہیں جن کی لپیٹ میں وہ سالوں سے ہوتے ہیں اور شاید ایسا ہو کہ انھوں نے ماضی میں کسی سے بھی اس بارے میں بات نہ کی ہو اور یہ پہلا موقع ہے کہ جنہیں وہ بیان کر رہے ہوں۔

ہم نے انٹرویو کے دوران کئی مرتبہ اس جملے کو سنا ہے کہ راوی کہتا ہے: "میں ان باتوں کو پہلی مرتبہ بیان کررہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میں نے آپ کو یہ باتیں کیوں بتائیں۔ ماضی میں بہت سے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی یادوں کے دریچوں کو وا کروں، لیکن میں نے کسی کی بات نہیں سنی۔" حقیقت میں راوی انٹرویو لینے والے پر جو اعتماد حاصل کرلیتا ہے اور اُسے اس چیز کا اطمینان ہوجاتا ہے کہ بیان ہونے والے مطالب سے سوء استفادہ نہیں کیا جائے گا، وہ اپنی یادوں پر پڑے پردے کو ہٹا دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ بعض راوی حضرات انٹرویو لینے والوں سے مانوس ہوکر اُن سے اس دوستانہ رابطے کو برقرار رکھنے کی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایسے حالات میں، چند سوالات پیش آتے ہیں:

کیا تمام انٹرویو دینے والے حضرات اپنے ذہن کو خالی کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں؟ کیا اُن سب کی ذہنی اور نفسیاتی حالت ایک جیسی ہوتی ہے؟ کیا وہ شخص جو انٹرویو کیلئے راضی ہوا ہے، وہ اپنے تمام واقعات بیان کرنے کیلئے تیار ہے؟

ان تمام سوالوں کا جواب منفی ہے اور سب کے بارے میں ایک جیسا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ زبانی تاریخ کے انٹرویو لینے والے کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ لوگوں اور اُن کے حالات کا مختلف ہونا، اُن کی فکری اور ثقافتی تبدیلی کی علامت ہے اور ہر راوی کی اپنی منفرد ذہنی اور نفسیاتی حالت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انٹرویر کے  دوران یہ توقع نہیں رکھنی چاہیےکہ تمام راوی حضرات بہت آسانی سے اپنے ذہن میں موجود باتوں کو آپ کے سامنے پیش کر دیں  یا اُن کے اندر مورد بحث موضوعات کے بارے میں مشترکہ احساس پایا جاتا ہو۔

حتی بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ افرادسوالات کا جواب دینے میں ڈٹ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنی معلومات اور مشاہدات کو چھپالیں۔ اس طرح کا رویہ، اگر سیاسی، سیکیورٹی پابندیوں یا شرعی اور اخلاقی خیالات کی وجہ سے نہیں، تو ممکن ہے کہ بعض ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کے اثر کی وجہ سے یہ رویہ اختیار کیا گیا ہو کہ راوی اتنی آسانی سے اس سے باہر نہیں نکال سکتا۔ لہذا ایسے لوگوں سے روبرو ہونے کی صورت میں  گستاخانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

بہرحال راوی نے کئی سالوں تک اپنے یادوں اور مشاہدوں کے ساتھ زندگی گزاری اور یہ مطالب اُس کی شناخت اور اُس کے وجود کا حصہ بن چکے ہیں ، ایسے میں توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ کچھ سادہ دلائل بیان کرنے سے وہ انٹرویو کے شروع میں ہی اُنہیں بیان کردے اور اپنے ذہن سے باہر نکال دے۔

زبانی تاریخ کے انٹرویو لینے والوں کو راوی کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر توجہ کرنی چاہیے اور اُسے پرسکون اور تدریجی عمل کے ساتھ اُس کے ذہن کو خالی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فطری سی بات ہے ہر طرح کی جلد بازی سے نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے بلکہ شاید ممکن ہے  راوی نئی ذہنی اور عصبی مشکلات کا شکار ہوجائے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3824


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔