زبانی تاریخ کے انٹرویو پر وقت کے حالات کی تاثیر

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-1-22


واقعات لکھنے اور زبانی تاریخ کے نقائص میں سے ایک، مختلف افراد اور موضوعات کے بارے میں راوی کی رائے اور قضاوت پر وقت گزرنے کے ساتھ سیاست اورثقافت کی غیر اصلی اور فرعی باتوں کی تاثیر ہے۔ یہ صورتحال، کبھی اتنی واضح ہوجاتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں چند سالوں پہلے والی روایت تازہ ریکارڈ ہونے والی روایت سے  بہت زیادہ   فرق رکھتی ہے۔ یہ صورتحال، انقلاب اسلامی، دفاع مقدس اور مختلف شخصیات سے مربوط انٹرویوز میں کئی بار دیکھی گئی ہے۔

 

تبدیلی، قوی نقطہ کے طور پر

البتہ ممکن ہے نگاہ کی اس تبدیلی کا کچھ حصہ، ایک واقعہ سے متعلق  نئی اور مکمل کرنے والی  معلومات  سے لیا گیا ہو جو ایک پسندیدہ اور قابل احترام امر ہے۔ مثلاً ایک فرد پہلے یہ سمجھتا تھا کہ فلاں دہشت گردانہ حملہ  میں  صرف وہی زخمی ہوا تھا  اور اب اُسے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔ یا کوئی سپاہی یہ تصور کرتا تھا کہ صرف اُن کا یونٹ  فرنٹ لائن پر دشمن کی فوجوں کو روکے ہوئے تھا اور اب پتہ چلتا ہے کہ اُن کے ساتھ دوسرے یونٹ بھی وہاں پر موجود تھے۔  طبیعی ہے کہ اس طرح کی تبدیلی نہ صرف نقائص میں سے نہیں حتی ایک انٹرویو کا قوی نقطہ  شمار ہوتی ہے۔

 

تبدیلی، ایک نقص کے طور پر

اگر راوی کی نگاہ  زمانے کے حوادث  سے متاثر ہونے کی وجہ سے  تشکیل پائے اور وہ اُن کی بنیاد پر واقعات کو بیان کرے، اُس کی روایت کا اعتبار کم ہوجائے گا۔ظاہر سی بات ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور  مختلف حادثات کے دوران، سیاسی ، معاشرتی رجحانات اور حتی  ذاتی اختلافات کی بنا پر  افراد کو  نشیب و فراز کا سامنا ہوتا ہے کہ ہر کسی کے طرفدار ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے ایک بھی امر تاریخی روایت میں تبدیلی کی دلیل نہیں بنے گا۔ زبانی تاریخ گزرے ہوئے حادثات کے بارے میں افراد کی خالص روایت ہے اور اسے سیاسی اور معاشرتی حالات کے تحت تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

 

تجاویز

نقائص کو کم کرنے کیلئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں:

1۔ انٹرویو کے شروع میں، غیر معمولی طریقے سے تاریخی سچائی کی قدر و اہمیت اور تاریخ پر منصفانہ نگاہ کی ضرورت  کو یاد دلایا جائے۔

2۔ انٹرویو لینے والے کو مورد بحث موضوع پر کافی حد تک تسلط ہونا چاہیے۔

3۔  اگر ممکن ہو، محقق، راوی کے پہلے والے انٹرویوز سے آگاہ ہو اور اُنہیں دیکھ لے۔

4۔  شروع سے راوی کی اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ حادثہ رونما ہونے کے وقت اُس کی نگاہ اور یقین  مطلوبہ چیز ہے۔

5۔ اگر راوی اپنی نئی رائے بیان  کرنے کی طرف مائل  ہو تو ایسی صورت میں وہ اُنہیں مشخص اور الگ الگ کرکے بیان کرے۔ مثلاً صراحت کے ساتھ بیان ہو کہ ماضی میں میرا عقیدہ یہ تھا، لیکن اب میرا نظریہ یہ ہے۔

6۔ راوی کو اس بات کا اطمینان دلایا جائے کہ اُس کی یادداشت اُس کی اجازت کے بغیر شائع نہیں ہوگی اور وہ اس میں دوسری باتیں شامل ہونے کی طرف سے پریشان نہ ہو۔

7۔ چھوٹے سوالات اور جزئیات میں داخل ہونا، اجمالی طور پر بیان کرنا، حقائق کو چھپانا یا اُن میں تبدیلی کرنا ممنوع قرار دیا جائے۔

8۔  انٹرویو کے بیچ میں راوی سے سوال پوچھا جائے کہ کیا آپ ماضی میں بھی یہی نظریہ رکھتے تھے یا  اب اس بات کے قائل ہوئے ہیں؟

9۔ راوی سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ صرف اپنے واقعات اور مشاہدات کو بیان کرے اور مطالب کے تجزئیہ و تحلیل سے پرہیز کرے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3861


آپ کا پیغام


2018-02-24   13:11:03

مزاحمتی ادب کا کیا مطلب ہے؟

مزاحمتی ادب کی اصطلاح غیر مانوس اور اپنے معنی و مفاہیم کے اعتبار سے بالکل غلط ہے اس کی جگہ انقلابی ادب یا رزمیہ ادب کی اصطلاح متعارف کرائی جائے تو مناسب اور اپنے اندر پنہاں مفہوم سے قریب ہے اور اردو کے مزاج کے ساتھ بھی میل کھاتی ہے اور اگر ترجمہ ہی کرنا ہے تو مزاحمت کی جگہ استقامت کی ترجمہ کیا جائے " استقامتی ادب"

زبانی تاریخ سے کیا مراد ہے؟
زبانی تاریخ کی جگہ اگر شفاہی تاریخ ہی لکھا جاتا تو یہ کوئی مضائقہ نہیں تھا، لیکن " زبانی تاریخ" کسی طور بھی مناسب نہیں ہے اور گرائمر کے اعتبار سے بھی بالکل غلط ہے۔ اس کے لئے "سینہ بسینہ تاریخ" یا " غیر مکتوب تاریخ " مناسب بھی ہے اور اردو سے مانوس بھی ہے۔

2018-02-25   14:46:30

یہ اصطلاح بھی رائج ہے اور بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
انقلاب، رزم اور مزاحمت و استقامت میں بہت فرق ہے۔
 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔