زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – گیارہواں حصہ

انٹرویو سے پہلے وضاحتیں



حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-7-15


گذشتہ باتوں میں اس بات کی تاکید ہوچکی ہے کہ انٹرویو لینے والے دونوں افراد  ایک دوسرے کی  پہچان حاصل کرکے مورد نظر موضوع کو واضح طور پر درک کرلیں۔ جب تک یہ آگاہی حاصل نہیں ہوگی انٹرویو شروع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے موضوع کے اہداف اور  اس کی حدود اور سوالات کو مشخص کرکے انٹرویو سے پہلے  اُن کے بارے میں راوی سے موافقت کرلے۔ حقیقت میں انٹرویو لینے والے کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انٹرویو  کے معیار پر احتمالی طور پر اثر انداز ہونے والی راوی کی پریشانیوں  اور فکروں کو بھی برطرف کرے ۔ بہت سے ایسے افراد ہیں جنہیں قانونی، سیاسی، حفاظتی، معاشرتی اور ثقافتی  مشکلات کی وجہ سے رکاوٹوں  اور سازشوں کا سامنا ہوتا ہے  اور انٹرویو شروع ہونے سے پہلے اس حوالے سے مشکل پیش آنے کیلئے چارہ جوئی کرلینی چاہئیے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ راوی کو مکمل طور پر پتا ہو کہ یہ موضوع ایک تحقیقی اور اشاعتی ادارے سے مربوط ہے یا  کسی شخص سے۔

دوسری بات یہ کہ ، راوی انٹرویو کے موضوع سے اختلاف نہ رکھتا ہو۔ کبھی براہ راست مشاہدات اور مختلف معلومات کے حامل ہونے کی وجہ سے، ایسا ممکن ہے کچھ مشکلات کی بنا پر جو حادثے کے وقت یا بہت بعد میں رونما ہوئی ہوں، راوی موضوع سے اختلاف رکھتا ہو اور اس کا نظریہ اُس کے خلاف ہو  اور وہ ایک مکمل اور حقیقت پسندانہ  انٹرویو دینے کیلئے  ضروری آمادگی نہ رکھتا ہو۔ اسی وجہ سے اُس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہئیے اور جب تک انٹرویو کی ضرورت کے مطابق مکمل وضاحت نہ ہوجائے انٹرویو سے اجتناب کرنا چاہئیے۔

موضوعات میں سے ایک اور بات جس کے بارے میں راوی کو وضاحت پیش کرنی چاہئیے، سوالات کرنے  اور اُس کے جواب دینے کا طریقہ کار ہے۔ یعنی راوی کو پتہ ہونا چاہئیے کہ کس طرح سے سوال کئے جائیں گے اور جوابات کس طرح  دینے ہیں؟ اُس سے چاہنا چاہئیے کہ وہ ایسے مطالب بیان کرے جس کو ہر سطح کا آدمی سمجھ سکے۔ اسی طرح بعض موارد میں ممکن ہے کہ لوگ جوابات کو خلاصہ کے طور پر بیان کریں  اور ایک لفظ استعمال کرتے ہوئے جیسے ہاں، نہیں یا جسمانی حرکت (ہاتھ اور سر کو ہلانا)سے جواب دیں جو فطری طور پر مقصد کیلئے کافی نہیں ہے۔ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے اُسے سمجھا دینا چاہئیے کہ اس بارے میں اُسے کس طرح عمل کرنا ہے۔ اسی طرح ممکن ہے راوی سننے ، دیکھنے اور گفتگو میں لکنت کا شکار ہو۔ اس بارے میں بھی پہلے سے وضاحتیں پیش کردینی چاہیئے اور انٹرویو انجام پانے کے طریقے کے بارے میں انٹرویو کے طرفین باہمی اتفاق  تک پہنچ جائیں۔

واضح سی بات ہے اس طرح کے حالات میں ممکن ہے راوی بھی کچھ وضاحتیں پیش کرنا چاہے کہ جنہیں بہت ہی دقت سے سننا اور لکھنا چاہئیے تاکہ انٹرویو کے دوران اُس کی تمام باتوں کا خیال رکھا جائے۔ راوی کی مدد کرنی چاہئیے تاکہ وہ انٹرویو سے پہلے صاف اور شفاف صورت میں اپنی آراء اور ضرورتوں کو بیان کردے۔ یعنی اُس کی نظر میں موضوع، سوالات اور جوابات کے بارے میں کچھ پابندیاں ہو، یا وہ اُس کے منتشر ہونے کے بارے میں کوئی خاص سوچ رکھتا ہو۔ اُسے پتہ ہونا چاہیے کہ اُس کے ساتھ ہونے والی بات چیت کوئی پرائیوٹ گفتگو یا دوستانہ گپ شپ نہیں ہے اور اُنہیں بالآخر منظر عام پر آنا ہے۔ لہذا اُسے انٹرویو کی اشاعت کے طریقہ کار اور فریم کے بارے میں احتمالی طور پر آگاہ ہونا چاہیے۔ واضح سی بات ہے راوی تحریر فائل اور آڈیو وڈیو فائل کی کیفیت سے بھی آگاہ ہو جائے اور ان کی امانت داری کے بارے میں محقق اور اُس کے ساتھیوں کو اطمینان حاصل کرلینا چاہیے۔

اہمیت کا حامل ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ کی وضاحت اور روای کو سمجھاتے وقت اُس کی ذاتی خصوصیات اور معاشرتی معیار کو بھی مدنظر رکھا جائے  اور تمام انٹرویو لینے والے افراد سے ایک نمونے کے طور پر استفادہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھار وضاحتیں پیش کرتے وقت، راوی کے ذہن میں خلل ایجاد ہوجاتا ہے جو سوء تفاہم ایجاد کردیتا ہے۔ جبکہ اُسے اس کام  اور اس کی ضرورت کے بارے میں  متوجہ کرنا چاہیے تاکہ اُسے احساس ہو کہ اس کی یادیں اور واقعات بہت قیمتی سرمایہ ہیں  جن کا تاریخ کی تدوین اور بیان میں اہم کردار ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3471


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔