زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – چوتھا حصہ

راوی کی پہچان اور اُس کا انتخاب

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-11


جس طرح کے پہلے وضاحت پیش کی گئی، زبانی تاریخ میں تاریخ کی تدوین کے مراحل میں مشارکت طلب کرنے کا امکان ہے تاکہ ایک بامقصد انٹرویو میں سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی واقعات کی مختلف معلومات ثبت اور شائع ہوں۔ اس موضوع کی اُس لحاظ سے اہمیت ہے کہ تاریخی واقعات کے بیان کرنے  میں زیادہ لوگوں کی رائے اور باتیں وصول ہوں گی۔

اس طرح کے حالات میں تکراری انٹرویوز سے پرہیز کرنے اور نئے مطالب دریافت کرنے کیلئے ضروری ہے  کہ زبانی تاریخ کا محقق موضوع معین کرنے کے بعد، راوی کی پہچان اور انتخاب میں دقت اور عالمانہ جستجو کرے۔ یہ کام کبھی دوسرے کے مشورے سے بھی انجام پاتا ہے۔ یعنی بعض باخبر افراد راویوں کی معرفی کرتے ہیں اور نئے راوی تک پہنچنے کیلئے محقق کی مدد کرتے ہیں۔

واضح سی بات ہےکہ اس کام کیلئے محقق مندرجہ ذیل پہلوؤں کا لحاظ رکھے:

۱۔ زبانی تاریخ کے محقق کیلئے موضوع کی آگاہی اور اُس پر کافی حد تک تسلط ہونا ضروری ہے اور وہ موضوع کے مختلف پہلوؤں کی روشن شناخت کے ساتھ راویوں کی پہچان اور انتخاب کا اقدام کرے۔

۲۔ انٹرویو کیلئے ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہئیے جس کا معلومات اور مشاہدوں سے براہ راست رابطہ ہو اور ایسے افراد جو سنی سنائی باتوں، شخصی تجزیوں کا سہارا لیتے ہیں، اُن کے انٹرویو سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ بدقسمتی سے کبھی معتبر راویوں تک دسترستی نہ ہونے کی وجہ ، یا زبانی تاریخ کی  پروجیکٹس کی تکمیل کے منظور نظر، ایسے افراد سے انٹرویو لیا جاتا ہے جن کے پاس یادداشتیں براہ راست نہیں ہوتیں اور ناقابل اعتماد معلومات کو پیش کرتے ہوئے اُن کے پاس نہ صرف محقق کو دینے کیلئے کوئی مناسب جواب ہوتا بلکہ ابہامات میں بھی مزید اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

۳۔ حتی الامکان ایسے لوگوں سے انٹرویو لیا جائے یا تو اُن کا حافظہ صحیح ہو یا ان کی حالت ایسی ہے کہ اگر وہ بعض باتیں یاد کریں تو یہ چیز اُن کے حافظہ کو تشویق دلانے میں مدد کرے۔ بے شک حافظہ ضعیف ہونے کی وجہ سے غلط اور ناخالص مطالب بیان ہوں گے۔

۴۔ ایسے افراد کا انٹرویو لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے جو جھوٹ بولنے، حقیقت کو بدلنے یا اُسے چھپانے میں مشہور ہوں۔

۵۔ راوی کی یاد داشتوں اور معلومات کا تحقیق کے موضوع سے مربوط  ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ غیر مربوط موضوعات کے انٹرویو کی انجام دہی، نہ صرف تحقیقی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد نہیں کرتی بلکہ دوسرے موضوعات کو بھی خراب کرنے کا سبب بنتی ہے۔

۶۔ انٹرویو کیلئے راوی کی بدنی، معنوی اور نفسیاتی آمادگی کو مورد توجہ قرار دینا چاہئیے۔ کیونکہ اگر راوی مناسب صحیح و سلامتی نہ رکھتا ہو تو انٹرویو کیلئے اصرار کرنا ، راوی ، اُس کے گھر والوں اور اُس کے ساتھیوں کیلئے زحمت ایجاد کرنے اور رنجش کا باعث ہوگا۔

۷۔ راوی کو انٹرویو دینے کیلئے قانونی ، سیاسی، حفاظتی اور عدالتی پابندیوں کا سامنا نہیں ہونا چاہئیے۔ اس طرح کی رکاوٹیں، انٹرویو پر کاری ضرب لگاتی ہیں اور اُس کے اثر کو کم کرتی ہیں اور حتی یہ بھی ممکن ہے محقق کیلئے بھی مشکلات کھڑی کردیں۔

۸۔ راوی انٹرویو کے موضوع  کی نسبت  دوری کا شکار نہ ہو۔ کبھی  براہ راست مشاہدوں اور مختلف معلومات رکھنے کے باوجود، ایسا ممکن ہے  بعض مسائل کی وجہ سے جو واقعہ کے وقت یا  بعد میں واقع ہوئیں، وہ دوری کا شکار ہوجائے اور موضوع کی نسبت  اُس کی رائے بدل جائے اور اُس میں ایک دقیق اور حقیقی انٹرویو دینے کی صلاحیت نہ ہو۔

۹۔ حتی الامکان ایسے افراد کی تلاش میں جانا چاہئیے جو انٹرویو  اور سوالات کے جواب دینے کے معاملے میں مثبت نقطہ نظر رکھتے ہوں اور اُسے ایک تاریخی ضرورت سمجھتے ہوں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3354


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔