زبانی تاریخ کے محقق کو انتقادی نگاہ رکھنی چاہئیے

واقعات کی منظر کشی کے بارے میں مختلف نظریات

محمد مہدی عبد اللہ زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-5


جب ہم زبانی تاریخ، زبانی یادوں اور یاد داشتوں نامی جیسی کتابوں کے واقعات کی منظر کشی اور منظر کشی میں استعمال ہونے والی عبارتوں  کے حجم اور ان کی طرف رجوع کرنے کے میعار کے رُخ سے تحقیق کرتے ہیں تو اِن میں سے ہر رُخ میں بہت فرق نظر آتا ہے جو کہ بالکل صفر سے شروع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات حوالہ جات اور کتاب کے آخری حصے میں آنے والی چیزیں کتاب کے اصلی متن کے مقابلے میں حجم کے اعتبار سے  زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر یہ چیز کسی علمی نظرئیے کی بناء پر انجام پا رہی ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو ثابت کرنے کی دلیلیں مل سکیں ۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ اختلافات اور کمی و زیادتی  ان نظریات کی بناء پر ہونے کے بجائے کہ جن پر لکھاری عمل پیرا ہوتے ہیں، اس بارے میں ہر شخص کی مختلف رائے ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ "زبانی واقعات" میں "منظر کشی" کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ واقعات کی منظر کشی ایک ایسی سند ہے کہ اس کو تدوین کرنے والا لوگوں، جگہوں، مفہوموں ، اصطلاحوں، سیاسی و ثقافتی اور مختلف نظریات کے بارے میں معتبر ذرائع استعمال کرتا ہے اور انہیں حوالوں میں یا اور دیگر واقعات میں ضمیمہ کرکے اضافہ کرتا ہے تاکہ متن زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ میں آئے اور وہ متن واقعہ کی بہتر عکاسی کرے۔

وہ پا ورقیاں جو بہتر عکاسی کیلئے لکھی جاتی ہیں، ان کے مندرجہ ذیل مقاسد ہوسکتے ہیں:

۱۔ ابہامات کو برطرف کرنا، جگہوں، افراد اورمفہوموں کی وضاحت کرنا اور تدوین کرنے والے کی نظر میں ہر وہ چیز جو مبہم ہو، اس کی وضاحت کرنا۔

۲۔ نقل کرنے والے نے جو بتایا ہے اس کی مزید توضیح دینا۔

۳۔ تدوین کرنے والے کی طرف سے نقل شدہ باتوں کی تائید میں مطالب اور سندیں لانا۔

۴۔ تدوین کرنے والے کی طرف سے نقل کرنے والے کی باتوں کی ردّ میں مطالب اور سندیں لانا۔

۵۔ تدوین کرنے والے کی نظر میں راوی نے جو چیزیں صحیح سے یا مکمل بیان نہیں کی ہوں، ان کی تکمیل کرنا۔

۶۔ ایسی اصطلاحوں کی وضاحت کہ جنہیں نقل کرنے والا مخاطبین کی نظر میں واضح اور آشکار سمجھ رہا ہو لیکن تدوین کرنے والے کی نظر میں وہ مخاطبین کیلئے مبہم ہوں۔

۷۔ متن کی بعض باتوں کی وضاحت اور تحقیق۔

۸۔ متن کے مواد میں نواقص کو برطرف کرنا۔

۹۔ واقعہ نقل کرنے والے کی طرف سے ایسے الفاظ کا استعمال کہ تدوین کرنے والا ان کے استعمال کو  مناسب نہ سمجھتا ہو، ان الفاظ کی جگہ مناسب الفاظ کو لانا۔

منظر کشی کے آشکار اور مخفی، مثبت و منفی کام اور فائدے مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں:

۱۔ جب مطالعہ کرنے والا مطالعے یا تحقیق کی غرض سے کوئی کتاب اٹھاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کتاب کا اچھا خاصہ حصہ واضح چیزوں کی وضاحت پر مشتمل ہے یا زیادہ تر حصہ کتاب ہی کے مواد کی شرح اور توضیح  پر مشتمل ہے تو خود بخود اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس نے ایک ایسی کتاب اٹھائی ہے کہ جس کے مؤلف نے کتاب کے مخاطبین کی سطح کا خیال نہیں رکھا۔

۲۔ اتنی وضاحت اور تشریح جو کہ خود ایک مقالے کے برابر ہو، مطالعہ کرنے والے کو تھکادیتی ہے اور ممکن ہے کہ اسے یہ  خیال آئے کہ آخر کتاب کے مؤلف کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی کتاب کے ساتھ ایک لغت بھی ضمیمہ کرے۔

۳۔ پاورقی میں زیادہ توضیح دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انٹرویو لینے والا شخص انٹرویو لینے کی تا حدّ کافی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور اچھے طریقے سے انٹرویو لینے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے اسے تدوین کے وقت پاورقی میں بہت زیادہ توضیح دینے کی ضرورت پڑی۔

۴۔ جب مطالعہ کرنے والا ایسی پُر حجم کتاب کہ جس کی پاورقیوں میں وضاحت بہت زیادہ ہو، کتاب کے ایک حصے کے آخر میں یا کتاب  کے آخر میں پہنچتا ہے تو ا س کی توجہ مطالعہ سے ہٹ جاتی ہے اور اس کتاب کو پڑھنا اس کے لئے تھکان کا باعث ہوتا ہے۔

۵۔ واقعات کی منظر کشی کرنے والی ایسی تحریریں جو کہ علمی حیثیت پیدا کرلیتی ہیں، مطالعہ کرنے والے کے ذہن میں یہ بات پہنچاتی ہیں کہ کاش تدوین کرنے والا اپنی تحقیقوں کو ایک علیحدہ کتاب یا مقالے میں پیش کرتا اور واقعات نقل کرنے والی کتاب کو اپنے کام بیان کرنے کا ذریعہ قرار نہیں دیتا۔

۶۔ حدّ سے زیادہ وضاحت سبب بنتی ہے کہ واقعہ کا اصلی متن اور عبارت حاشیے میں قرار پائے اور جو عبارت وضاحت کے عنوان سے اضافہ ہوئی ہے ، توجہ کا مرکز بن جائے۔

۱۔ دوسری طرف سے اگر تدوین کرنے والے کی طرف سے یہ چیزیں مختصراً، مفید اور لازم حدّ تک بیان کی جائیں تو مطالعہ کرنے والا اسے نقل قول میں احتیاط کرنے والا، زیرک، باریک بین اور دانشمند تصور کرے گا۔

۲۔ واقعات کی مناسب اوربجا منظر کشی سبب بنتی ہے کہ مطالعہ کرنے والے کیلئے کتاب دوسروں کو حوالہ دینے کی حیثیت اختیار کر جائے۔

۳۔ حقیقی وا قعات کی کتاب میں مطالب پاورقی میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا، چاہے ان کے بارے میں ضروری وضاحت متن میں کردی گئی ہو کیونکہ یہ پڑھنے والے کے ذہن کو اس واقع کے غیر حقیقی ہونے کا تصور ایجاد کرتا ہے۔

منظر کشی کے بارے میں اہم نکات

زبانی تاریخ کے سب سے اہم رکن ؛ انٹرویو دینے والا اور انٹرویو کرنے والا ہوتے ہیں۔ لیکن اس پورے عمل میں انٹرویو لینے والے کا نقش انٹرویو دینے والے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ انٹرویو لینے والا ہی اپنے سوالات کے ذریعے انٹرویو کو ایک خاص سمت میں لے جاسکتا ہے تاکہ تدوین کرتے وقت باتوں کو نقل کرنے کے مرحلے میں نسبتاً کم مشکلات کا شکار ہو۔

انٹرویو دو لوگوں کے درمیان خالصتاً ایک زبانی عمل ہے ، چاہے انٹرویو لینے والا موضوع اور اس سے مربوط مسائل کے بارے میں معلومات رکھتا ہو اور ایک لائحہ عمل اور تفکر کے مطابق ہی اس عمل کو آگے بڑھانا چاہے لیکن ہر انٹرویو دینے والے کیلئے ہی بعض ایسے موضوعات ہوتے ہیں کہ جن پر وہ بات کرنا نہیں چاہتا اور شاید دوسروں کا ان موضوعات پر بولنا بھی پسند نہ کرتا ہو۔ لہذا ہر فرد کے لحاظ سے، کئی ایسی باتیں ہوں گی جو وہ نہیں کرنا چاہتا ہو۔ پس تمام ہی لوگ بعض باتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ وہ باتیں تاریخ میں ثبت ہوں۔

لیکن انٹرویو لینے والے ایسے افراد جو کہ احساسات سے استفادہ کرنے اور مخاطب شناسی کا فن رکھتے ہیں، ایک خاص سمت میں سوالات کرکے انٹرویو دینے والے سے کافی حدّ تک درخواست کرسکتے ہیں کہ انٹرویو میں بیان ہونے والی مبہم باتوں کے بارے میں وضاحت دیں، خاص طور پہ اس وقت جب ان کے بارے میں کسی اور جگہ سے اطلاعات ملنا ممکن نہ ہو۔

اس طرح سے ایک ماہر انٹرویو لینے والا، انٹرویو دینے والے سے کافی معلومات حاصل کرسکتا ہے تاکہ اسے تدوین کے مرحلے میں اپنی طرف سے و ضاحت دینے کی کم سے کم ضرورت پڑے کیونکہ حقیقی واقعے میں موجود افراد کے انٹرویو  کے دوران ان سے اطلاعات و معلومات حاصل کرنے کی فرصت گنوا دینا باعث ملال ہوتا ہے۔

تاریخ کی معتبر چیزوں کے بارے میں مطالعہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے، جس کی طرف زبانی تاریخ  تدوین کرنے والے کی خاص توجہ ہونی چاہئیے۔ کیونکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ واقعہ نقل کرنے والے کے ذہن میں جزئیات کے آگے پیچھے ہونے یا واقعے کی دوبارہ یاد آوری میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ممکن ہے کہ واقعہ نقل کرنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر واقعات کی بعض چیزوں میں کمی یا اضافہ کردے۔ نقل شدہ باتوں کے صحیح ہونے کے بارے میں گرچہ کہ نقل کرنے والے کے سچے ہونے کی شہرت اور غیر جانبدار شخصیت رکھنے کا معیار اہمیت رکھتا ہے لیکن تدوین کرنے والے کا فریضہ ہے کہ انٹرویو میں بیان ہونے والی باتوں کو منطقی اور  غیر محسوس طریقے سے منظر کشی کے ذریعے سے بھی تشخیص دے۔

واقعہ تدوین کرنے والا ہوشیاری کے ساتھ واقعہ نقل کرنے والے کے آشکار اور پنہان نظریات کی طرف توجہ رکھے کیونکہ ان جگہوں پر کہ جہاں واقعہ نقل کرنے والا اپنے کردار کو اگر منفی پائے یا یہ کہ اپنے کردار کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا چاہے، ممکن ہے کہ حقائق اور واقعات کو واقعیت سے ہٹ کر بیان کرے۔ اس طرح کے مورد میں ہی واقعہ تدوین کرنے والا واقعہ نقل کرنے والے کے نظریات کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے اس کے سامنے نقل شدہ باتوں سے  مختلف چیزوں کی معتبر سندیں ذکر کرتے ہوئے پورے احترام کے ساتھ نقل شدہ باتوں کے صحیح ہونے میں شک ایجاد کرے۔

واضح ہے کہ انٹرویو لینے والا انٹرویو کے موضوع میں انٹرویو دینے والے کے تجربوں میں شریک نہیں ہے اور اپنے مشاہدے کی بناء پر غیر واقعی امور کو بیان نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حوالہ جات جو اس کے پاس موجود ہیں ان کے تجزیہ و تحلیل کے ذریعے سے حقیقی باتوں اور واقعات کو غیر واقعی معاملات سے جدا کرے تاکہ نا مربوط اور غلط باتیں واقعیت سے جدا ہوجائیں۔

زبانی تاریخ کے اس نکتہ کے سبب ممکن ہے کہ زبانی تاریخ گزرے ہوئے واقعات کی نسبت عین مطابق نہ ہو اور یہ چیز ہر زبانی نقل میں ہوتی ہے اور ہر زبانی نقل، نقل کرنے والوں کے نظریات، فکر اور جذبات سے متأثر ہوتا ہے اور اگر تدوین کرنے والا زبانی تاریخ کے متون کی منظر کشی میں کامیاب نہ ہو تو نتیجہ میں زبانی تاریخ کے بجائے، گڑھی ہوئی تاریخ ملے گی۔ اسی لئے ضروری ہے کہ زبانی  تاریخ کے میدان کا محقق اس کام کے تمام مرحلوں میں منتقدانہ نگاہ رکھے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3536


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔