زبانی تاریخ کی تدوین میں قلم اور مصلحت

غلام رضا آذری خاکستر
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-5-29


زبانی تاریخ تھیوری سے لیکر عمل اور تدوین تک ایسے دلچسپی رکھنے والے افراد کی کوشش کا ماحصل ہے جو اس سلسلے میں قابل قدر تجربہ رکھتے ہیں۔ آخری دو دہائیوں کے دوران، ایسی شرائط اور اسباب فراہم ہوئے کہ  ہم نے ملک  کے اندر زبانی تاریخ کے مختلف  مجموعوں کو تدوین اور نشر ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس موضوع کی اہمیت کی وجہ سے اس سال ۹ فروری کوزبانی تاریخ کے ہونے والے سیمینار کا موضوع "تدوین" سے مختص تھا۔

وسیع مباحث، ماہرین اور معاشرے کے دوسرے  لوگوں کے نظریات کی وجہ سے زبانی تاریخ نےحادث و واقعات کو ثبت و ضبط کرنے  اور لوگوں کی شرکت کے طریقہ کار میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبانی تاریخ کے عمومی ہونے اور اُس کی ماہیت کی وجہ سے بھی زبانی تاریخ میں تحقیق کی حدود  مختلف مضامین  کے ساتھ پیش ہونے میں کامیاب ہوئی اور یونیورسٹی کی فضا میں مورد نظر واقع ہوئی۔ ہم جس سبب سے بھی زبانی تاریخ کو ایک اہم عنوان سے دیکھیں، اس میں تاریخ کے پوشیدہ حصوں کو عینی شاہدین اور واقعات میں شرکت کرنے والوں کی زبانی بیان کیا جاتا ہے۔

سیاسی، ثقافتی اور معاشی مسائل میں حساسیت کی وجہ سے راویوں کے تجزیے اور اُن کی باتیں، اُن کے دیکھنے کے انداز اور سماجی مفادات پر  منعکس ہوتی ہیں۔ یہ موضوع، تدوین کی مرحلے میں ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔  تدوین کرنے والوں کی ایک مشکل  بعض انٹرویو دینے والے افراد کی باتوں کی تحریف کرنا ہے۔ ایک طرف سے انٹرویو دینے والا وقت کا لحاظ اور اپنی مصلحت کی بنا پر  روز مرہ مسائل کی تحلیل اور علتوں کا بیان شروع کرتا ہے اور دوسری طرف سے، تدوین کرنے والا روایت لکھتے وقت، ادارے کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے یا عقیدے کا لحاظ کرتے ہوئے  تدوین کا آغاز کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں نہ انٹرویو دینے والے کو  آزادی ہوتی ہے اور نہ ہی تدوین کرنے والا مکمل آزادی کے ساتھ زبانی تاریخ کو صفحات پر منتقل کرتا ہے۔ اس دو طرفہ رابطے میں، انٹرویو کا ماحول اور وقت، زبانی تاریخ کے بعض اہم مسائل کو ثبت یا  بیان کرنے میں اہم عنصر کا حامل ہے۔ لہذا دو طرفہ ناخواستہ مصلحت، برتر رہتی ہے جو قلم کو  زیر اثر قرار دیتی ہے۔

قلم اور تدوین کرنے والے کا ذہنی ڈھانچہ، سامع کو جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کبھی ایک حادثے کے بارے میں بتانا اور لوگوں کی جھیلی گئی رنجشوں اور ملالتوں کو زبان پر لانا ، قابل توجہ آثار کے خلق کا باعث ہوتا ہے۔ بعض موارد میں بھی زبانی تاریخ کے مذاکرات اور بعض دعوے، بغیر کسی دلیل کے تنقیدی سوال، قارئین کے لئے ابہام چھوڑ جاتے ہیں۔

کس طرح تدوین کرنا چاہیئے اور کونسا طریقہ کار زبانی تاریخ کو بند  گلی سے نجات دلا سکتا ہے؟ کیا زبانی تاریخ کی تدوین میں نظریہ سازی، مناسب طریقہ کار ہے؟ وہ مراکز جو ملک سے باہر ہیں وہ کس طرح تدوین کرتے ہیں؟ اور زبانی تاریخ کی تدوین کے لئے کون سے عالمی معیارات کو نظر میں رکھا گیا ہے؟ زبانی تاریخ کا محقق تدوین کیلئے،  کونسے پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہے؟ کیا وہ اس بات کے درپے ہے کہ ایک تجربے کو ثبت و ضبط کرے اور علم منتقل کرنے کیلئے اُس کی تدوین کی کوشش میں ہے یا کسی واقعہ کو بغیر کسی کمی و بیشی کے اُسی طرح قارئیں کے لئے نقل  کردے؟

ایسا لگتا ہے زبانی تاریخ کے عنوان سے تدوین ہوئی اور منتشرہ شدہ کتابیں ، زیادہ تر انقلاب اسلامی، عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس سے متعلق ہیں، مراکز کی سیاست کی وجہ سے زبانی تاریخ کے دوسرے پہلو غربت کا احساس کرنے لگے ہیں اور  علم کو بڑھانے اور تجربہ منتقل کرنے نے زیادہ کام نہیں دکھایا اور اجتماعی اور ثقافتی موضوعات حاشیے میں چلے گئے۔ حالانکہ دنیا میں زیادہ تر  زبانی تاریخ کی ابحاث کے محور اجتماعی پہلو ہیں۔

حتی تدوین کے نمونے پیش کرنے میں، کوئی خاص  کام موجود نہیں۔ ملک میں کونسا ایسا کام ہے جو زبانی تاریخ میں تمام تدوین کرنے والوں کے لئے ایک نمونے کی حیثیت سے قابل معیار ہو؟ کبھی زبانی تاریخ کی روایت اور خام باتیں، تنہا اور تدوین کرنے والے کے قلم کی توجہ کے بغیر کتاب میں منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتیں، بلکہ  مؤرخین کیلئے دستاویزکے عنوان سے  محفوظ شدہ دستاویزات میں ثبت کی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے؛ ریکارڈ شدہ انٹرویوز پہلے مرحلے میں، بغیر تصحیح کے مستند سازی کیلئے ناقص ہیں اور جن کا بہت بڑا حجم ہے۔ تدوین کرنے والا پہلے مرحلے میں مختلف سوالات کے ذریعے انٹرویو کے محتوا اور روبرو مبہم نکات کہ جن سے ابہام دور کرنے کیلئے مکمل انٹرویو انجام دیا ہے یا تمام دستاویزات جیسے اسناد، تصاویر اور محفوظ مجلات کو کام میں لاتے ہوئے اُن سے ابہام کے پردے کو چاک کرتا ہے۔ اسی طرح سمی و بصری مصنوعات، ریڈیوئی پیداوار، ٹیلیویژن کی دستاویزات اور نشر ہونے والے مقالہ جات، ان کے ذریعےزبانی تاریخ کی رواتیوں کے کچھ حصے کو بغیر کسی کم بیشی کے پیش کیا جاسکتا ہے۔  

زبانی تاریخ کی کتابوں کو سب سے زیادہ پرکشش کتابیں ہونا چاہئیے، ایسی کہ تاریخ کے رموز کو آشکار کرنے والی ہوں اور اسناد کی نشرو اشاعت سے پہلے، راویوں کو تاریخ کی محرمانہ تحریروں اور جزئیات کو بیان کرنا چاہیے۔ دلچسپ موضوع، مکمل اور تازہ ہونا، اسناد کی بنیاد پر رازوں کا برملا کرنے اور تحریر میں نہ آنے والی باتوں کے بیان جیسی خصوصیات  کی وجہ سے زبانی تاریخ کی کتاب کی اہمیت بڑھ جائے گی اور لوگوں کی توجہ  کا مرکز قرار پائے گی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3532


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔