شاہ انقلاب سفید نافذ کرنے پر مامور تھا

فاطمہ دفتری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-5-21


سن ۶۰ ء کی دہائی میں پہلوی حکومت کے فیصلوںمیں سے ایک انقلاب سفید کو پیش کرنا تھا جسے عوام اور مذہبی افراد کی شدید مخالفت کا سامنا ہوا۔ اس بارے میں قانون چھ شقوں اور بلوں پر مشتمل تھا جو کہ یہ تھیں: زرعی اصلاھات کے ساتھ جاگیردارنہ نظام کا خاتمہ، ملک کے تمام جنگلوں کو نیشنلائز کرنا، حکومتی کارخانوں کے حصص کی زرعی اصلاحات کے عنوان سے فروخت، تولیدی اور صنعتی کارخانوں کے ڈائریکٹروں کو منافع میں شریک بنانا، انتخابات کے قانون میں اصلاحات، عمومی اور لازمی تعلیمات کے قانون کے نفاذ میں آسانی کیلئے خواندگی نصاب تشکیل دینا۔

ان چھ شقوں کو محمد رضا پہلوی نے ۹ جنوری سن ۱۹۶۳ء کو تقریباً ۴۵۰۰ کسانوں اور دیہاتی لوگوں کے مجمع میں سابقہ محمد رضا پہلوی اسٹیڈیم (موجودہ شہید کشوری اسپورٹس کمپلیکس) میں پیش کیا۔ یہ اجتماعی دیہی کوآپریٹیو کارپوریشنز کے عنوان سے اسد اللہ علم، اس وقت کے وزیر اعظم کی کوششوں سے اور حسن ارسنجانی، اس وقت کے وزیر زراعت کی مینجمنٹ میں انجام  پایا۔

اس کسانوں اور دیہات کے لوگوں کے اجتماع کیلئے بہت زیادہ نشرو اشاعت کی گئی، پہلوی حکومت نے اس اجتماع کو "کسانوں کے عظیم فیسٹیول: کا نام دیا۔ اس میں شاہ، حکومتی کابینہ کے اران اور حکومت سے وابستہ کمیونٹی رہنماؤں نے شرکت کی۔ گرچہ کہ اس فیسٹیول کا جو مقصد بیان کیا گیا تھا وہ دیہی کو آپریٹیو کارپوریشنز کی بنیاد رکھنا تھا لیکن درحقیقت اس کا سیاسی مقصد تھا۔

اس فیسٹیول کی سربراہی دراصل شاہ کر رہا تھا لیکن دکھانے کیلئے ایک ۹۲ سالہ کسان، جس کا نام "منانلو" تھا، کو "بزرگ سربراہ" کے عنوان سے انتخاب کیا گیا۔ اس پروگرام میں محمد رضا پہلوی نے سفید انقلاب کے چھ اصولوں کو اجراء کرنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا: "میں (عوام، عدالت اور فوج) تینوں کا سربراہ ہونے کے ناطے سے اپنا فرض سمجھتا ہوں، قانون اساسی کی ستائیسویں اور اٹھائیسویں شقوں کی بنا پر کہ جن کے مطابق ان تینوں طاقتوں کا سرمنشاء، ملت ہے؛ براہ راست ایرانی عوام سے رجوع کروں اور دنوں قانون ساز اداروں کے انتخاب سے پہلے ایرانی عوام جو کہ دونوں قانون ساز اسمبلیوں پر حاکم ہے اور قومی اقتدار کا سر منشاء ہے، سے لوگوں کی عمومی رائے کے ذریعے ان  اصطلاحی اصولوں کے منظور ہونے کا تقاضا کروں۔

اس پروگرام کے انعقاد کے بعد اسد اللہ علم نے دیہاتی لوگوں سے شاہ کی ہمدردی ظاہر کرنے کی غرض سے حکم دیا کہ کسانوں میں سو افراد منتخب کیئے جائیں، جنہیں شاہ کے محل کے احاطے میں رہائش دی جائے اس موقع پر جبکہ حسن ارسنجانی اور اسد اللہ علم اس کے ساتھ تھے، ایسا ظاہر کرتے ہوئے کہ اتفاق ہے، شاہ ان منتخب کسانوں کے درمیان گیا اور ان سے باتیں کیں اور ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ محمد رضا پہلوی نے اس ملاقات میں کہا: "اگلے پانچ سالوں میں ہمارے ملک پہ دنیا کے ۹۵ فیصد ممالک رشک کریں گے ۔۔۔ ایک ہزار الٹے سیدھے خاندان ختم ہوچکے ہیں ۔۔۔" اس ظاہری اور دکھاوے کے پروگرام کے منقد ہونے کے بعد، حکومت کی ٹیم نے ایک میٹنگ بلائی اور ۲۵ ملیون ریال ریفرنڈم کے انعقاد کیلئے مختص کیئے اور ۲۶ جنوری سن ۱۹۶۳ء کو ریفرنڈم کا دن معین کیا۔

اس وقت صوبائی انجمنوں کے پروگرام کو معطل ہوئے تقریباً ۴۰ دن گزر رہے تھے۔ اور امام خمینی (رح) نے سفید انقلاب کے چھ اصولوں کے ردّ عمل میں مراجع تقلید کو ایک ملاقات میں اس مسئلہ کے مختلف رُخوں کی طرف اور شاہ اور امریکہ کے اس کے پیچھے موجود مقاصد کی طرف اشارہ کیا اور علماء سے ردّ عمل ظاہر کرنے ا مطالبہ بالآخر چند ملاقاتوں کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ اس کا ایک نمائندہ قم آکر ان چھ اصولوں کے پیچھے شاہ کے مقاصد کی وضاحت کرے اور قم کے علماء کی نظر شاہ تک پہنچائے۔ اس فیصلے کے بعد بہبودی نامی ایک حکومتی عہدیدار قم کی طرف روانہ ہوا اور اس نے علماء کے ساتھ گفتگو کی۔ وہ ابہامات دور کرن میں ناکام رہا اور اس کے باوجود کہ اس نے کئی بار قم اور تہران رفت و آمد کی اور علمائے قم اور شاہ کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچائیں لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔ اور ان چھ اصولوں کے بارے  میں ابھام اپنی جگہ باقی رہا۔ شاہ کے دربار کی طرف سے دوسرا نمائندہ بھی بھیجا گیا؛ جس کا خاندانی نام پاکروان تھا اور وہ پوری ساواک کا رئیس و سربراہ تھا۔ مہدی عراقی، جو کہ انقلاب کی تحریک میں امام خمینی کے نزدیکی ساتھیوں میں سے تھے؛ امام (رح) کا اس ملاقات میں یہ کہنا تھا کہ وہ زمینی اصلاحات اور جنگلوں کے قومی کرنے اور کاریگروں کے کارخانوں کے منافع میں حصہ دار ہونے کے عناوین کے مخالف نہیں ہیں لیکن انہوں نے اس کے اجراء ہونے کے طریقے پر اعتراضات کئیے۔ فی الجملہ ان چھ میں سے پہلی اصل کے بارے میں ان کا بیان تھا کہ: "میں شرعی حاکم کے عنوان سے، دیہاتوں کے مالکوں میں سے اکثر کو مالک نہیں سمجھتا، ان سے ان کا مال لیکر ہم عوام کو دینگے۔ لیکن اسے اجراء کرنے کا طریقہ اس چیز کا سبب بنے گا کہ ہمارا ملک غلہ جات کی درآمد کرنے والا بن جائے گا اور زراعت کا کام ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ عوام جو کہ ابھی ابھی خود مالک بنے گی وہ خود زمین کی قسطوں کو حکومت کی طرف سے حمایت اور پشت پناہی کے بغیر ادا نہیں کرسکے گی اور زراعت کے کام کو جاری نہیں رکھ سکے گی، (اسی لئے) زمین کو فروخت کرکے شہروں کی طرف چلی جائے گی اور زراعیت کا کام کمزورپڑ جائے گا۔" مہدی عراقی مزید کہتے ہیں کہ امام (رح) دوسری اصل یعنی جنگلوں کو قومی کرنے کے بارے میں قائل تھے کہ جنگل انفال کا حصہ ہیں اور عوام کی ملکیت ہیں اور معتقد تھے کہ اگر ابھی تک حکومت نے جنگلوں کو دیگر لوگوں کے حوالے کیا ہوا تھا تو اس کا یہ فعل شریعت کے خلاف تھا۔ جنگل انفال کا حصہ ہیں اور انفال قومی ہیں یعنی عوام کی ملکیت ہیں اور تمام لوگ اس کے مالک ہیں اور اسلامی حاکم ہی انہیں استعمال میں لائے۔ کاریگروں کے کارخانوں کے منافع میں حصہ دار ہونے کے بارے میں ان کا م ماننا تھا کہ اس کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کا میڈیکل پینل ہو۔ اسی طرح سے امام (رح) انتخابات کے قانون میں ہونے والی ترمیم کو بھی مبہم جانتے تھے اور اس بارے میں انہوں نے حکومت سے مزید وضاحت کا مطالہ کیا۔

مبہم نکات کے باقی رہ جانے کی وجہ سے بالآخر امام (رح) اور بقیہ علماء نے فیصلہ کیا کہ خرم آباد کے عالم دین آیت اللہ روح اللہ کمال وَند نامی کو شاہ سے گفتگو کیلئے دربار بھیجیں۔ انہوں نے شاہ کے ساتھ ملاقات میں علماء کی نظر پیش کی اور شاہ سے مزید وضاحت چاہی اور اسے شخصی مفادات کی بنا پر کیئے جانے والے فیصلوں، قانون کی خلاف ورزی اور اس کی اسلام کی مخالفت کے نتائج سے خبردار کیا۔ اس ملاقات میں آیت اللہ کمال وَند نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ایران کے اساسی قانون میں ریفرنڈم کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اس سے پہلے خود شاہ نے مصدّق کی حکومت کو ریفرندم کروانے کی وجہ سے ہی معزول کیا تھا۔ اب وہ کس طرح خود ریفرندم کروا رہا ہے؟ شاہ نے جواب میں کہا: "ہم ریفرنڈم نہیں کر رہے بلکہ چاہتے ہیں کہ عوام تصویب کریں۔"

آیت اللہ کمال وَند کے واپس آنے کے بعد۔ قم کے علماء اور مراجع تقلید نے ایک اجلاس بلایا تاکہ ان کی شاہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے نتیجے کو سنیں۔ ان کی باتیں کے بعد، امام (رح) نے اس وقت کی موجودہ حکومت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے، سفید انقلاب کو شاہ کو ملنے والا دستور کہا اور فرمایا کہ: "اسلام اور ملت اسلامی اور ایران کے استقلال کے خلاف سازش رچائی گئی ہے۔ یہاں ہمارے مقابلے میں جو شخص ہے وہ خود شاہ ہے جو زندگی اور موت کے درمیان کھڑا ہے اور جیسا کہ اس نے خود بھی کہا ہے اس معاملے میں اس کی عقب نشینی کا نتیجہ اس کی بادشاہت کا سقوط و نابودی ہوگی۔ اس لئے وہ موظف ہے کہ اس لائحہ کو کسی بھی قیمت پر اجراء کرنے اور نہ صرف یہ کہ اس معاملے میں وہ عقب نشینی نہیں کرے گا اور نرمی نہیں دکھائے گا بلکہ پوری طاقت اور انتہائی درندگی کے ساتھ ہر طرح کی مخالفت کا مقابلہ کرے گا۔ اس لئے اس کے گذشتہ نفرت آمیز اقدام (صوبائی انجمنوں کے پروگرام) کی طرف حکومت کے پیچھے ہٹنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس کی مخالفت اور اس کے خلاف قیام ہمارا یقینی فریضہ ہے؛ کیونکہ ابھی عوام کو جو خطرہ ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اس سے چشم پوشی کی جاسکے اور اس سے مقابلے کیلئے کچھ نہ کیا۔"

اپنے بات کو مزید بڑھاتے ہوئے امام (رح) نے ان اقدامات کے مقاصد کو ملک کو استعمار کے جال میں پھنسانے سے تعبیر کیا اور فرمایا: "حکومت نے عوام کو پھنسانے کیلئے ایک وسیع جال پھیلایا ہے اور دھوکہ دہی پر مبنی کام شروع کیئے ہوئے ہیں اور اگر ہم نے اس کے مقابلے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا اور عوام کو متوجہ کرنے کیلئے اقدام نہیں کیا اور اگر انہیں استعمار کے اس جال میں پھنسنے سے نہ بچایا تو (یہ) مسلمان ملت تباہی کے دہانے پہ پہنچ جائے گی اور اس دھوکہ میں مبتلا ہوکے منحرف ہوجائے گی۔"

ان جلسوں کے بعد، امام خمینی (رہ) نے ۲۲ جنوری ۱۹۶۳ء کی صبح سے پہلے ایک اعلامیے میں سفید انقلاب کے اصول کی تصویب کیلئے ہونے والے ریفرنڈم کے ناقابل اعتماد ہونے کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس اعلامیہ میں ریفرنڈم کی قانونی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا: "پہلی بات تو یہ کہ ایران کے قانون میں ریفرندم کا کہیں کو ئی ذکر نہیں ہے اور ریفرنڈم کے انعقاد کا معیار تعیین کرنا قانون کا کام ہے۔ دوسرا یہ کہ جن ملکوں میں ریفرندم ہوتا ہے وہاں عوام کو اتنا وقت دیا جاتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں ریفرنڈم ہو رہا ہے، اس کی تمام جزئیات مورد بحث قرار پائیں اور عمومی مطبوعات اور اشتہاری وسائل آزادی کے ساتھ اس کے حق میں اور اس کے خلاف نظریات شائع کریں اور عوام سوچ سمجھ کر ان نظریات کے بارے میں رائے دیں۔ اس کے علاوہ ریفرنڈم میں شرکت کرنے والے افراد اپنی اظہار  نظر کیلئے تا حدّ لازم معلومات رکھتے ہوں، جبکہ ایران میں ان میں سے اِن میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور معاشرے کا دانشمد طبقہ بھی ریفرندم کا مخالف ہے۔" اس کے بعد امام (رح) نے عوام میں موجود خوف، دباؤ اور حکومت کے رعب و دبدبے کی قائم فضا پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: "اگر دھونس، دھمکی اور زبردسی سے کام نہ لیا جائے اور عوام ہو کہ وہ کیا فیصلہ کر رہی ہے تو اس ریفرنڈم سے عوام اور علماء کی رائے بخوبی معلوم ہوسکتی ہے۔" اسی طرح امام (رح) نے اس موقع پر ریفرنڈم کے منعقدہونے کو، جب قانون ساز اسمبلی نہیں تھی اور آزادی کی فضا قائم نہیں تھی اور خوف کا ماحول تھا، اسے مذہبی مواد کو نابود کرنے کا مقدمہ کہا اور اسے خطرہ جانا۔

تہران میں امام (رح) کے اس اعلامیہ کو نشر ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ تہران کے مرکزی اور جنوبی علاقوں میں لوگوں نے دوکانیں اور بازار بند کر دیئے اور "جعلی ریفرندم اسلام کے مخالف ہے" کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر عظیم احتجاجی مظاہر کیا۔ ان مظاہروں کا نقطہ آغاز پھلوں کا باازار تھا۔ یہ احتجاجی مظاہرہ بغیر کسی حکومتی مزاحمت کے ظہر کے نزدیک ختم ہوگیا اور طے پایا کہ اگلا احتجاجی مظاہرہ اسی دن شام میں مراجع تقلید کی موجودگی میں بازار میں واقع "حاج عزیز اللہ مسجد" میں منعقد کیا جائے۔ شام کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد مسجد کے اطراف میں جمع ہوگئی لیکن آرمی اور پولیس جو کہ پہلے سے اس طرح کے مظاہرے سے نمٹنے کیلئے تیار تھے، نے حملہ کر دیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کرکے لوگوں کو متفرق کردیا۔ قم میں بھی اسی طرح کے احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ قم کے میئر نے ایک نشست میں علماء کو تجویز دی کہ مراجع تقلید خود شاہ سے ملاقات کریں تاکہ اس طرح سے موجودہ اختلافات ختم ہوں۔ لیکن امام خمینی (رح) اور دیگر علماء کی طرف سے یہ تجویز ردّ کردی گئی۔ اس تجویز کے ردّ ہونے کے بعد تہران میں اعلان ہوا کہ شاہ علماء سے ملاقات اور مذاکرات کیلئے ۲۴ جنوری کو قم جائے گا لیکن اُس فیصلے کی بناء پر قم کے علماء اور عوام سفید انقلاب کے چھ اصولوں کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے اس دن اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے۔

قومی اتحاد اور تحریک آزادی نے بھی مختلف اجلاس معقد کرکے اور بیانیہ صادر کرکے ریفرندم کیلئے اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔ اسی وجہ سے بازرگانی کے مطابق "شاہ کے حکم سے قومی اتحاد اور تحریک آزادی کے تمام افراد اور یہاں تک کہ علماء اور بازاروں میں کام کرنے والے بعض لوگوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا تاکہ یہ لوگ ہوں ہی نہیں کہ ریفرندم کی مخالفت کریں۔"

البتہ علماء میں سے ہی بعض ایسے تھے جو سفید انقلاب کے چھ اصولوں کا دفاع کر رہے تھے۔ انہی میں سے ایک عالم نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس موضوع کی تعریف اور تحسین میں ایک کتاب لکھی جو کہ ذمے دار علماء میں غم و غصے کا باعث بنا اور در نہایت خود اس عالم کی گوشہ نشینی کا سبب بنا۔ لیکن اس طرح کے افراد کی تعداد مخالف لوگوں کی عظیم تعداد کے مقابلے میں بہت کم تھی۔

بالآخر تمام مخالفتوں کے باوجود شاہ نے ریفرندم ۲۶ جنوری کو کروایا اور اس وقت کی حکومت نے عوام میں ریفرنڈم کی مقبولیت نہ ہونے کے باوجود اعلان کیا کہ پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حمایت میں رائے دی ہے اور ان چھ ترمیمی اصولوں کی حمایت کی ہے۔ ریفرنڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد ٹیلی گرافوں، مختلف ممالک کے عہدیداروں کے ٹیلی فون، اخباروں کے تجزیوں اور امریکہ، انگلستان اور روس ریڈیو اسٹیشنوں نے تہران کا رُخ کیا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3644


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔