نوروز ۱۹۶۱ء؛ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی سے جدائی

فاطمہ دفتری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-4-19


آیت اللہ العظمیٰ سید حسین طباطبائی بروجردی سن ۱۲۹۲ ہجری قمری میں ماہِ صفر کے آخری دن بروجرد میں پیدا ہوئے۔ وہ سات سال کی عمر میں مدرسہ میں داخل ہوئے اور بروجرد کے نوربخش مدرسہ میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ سن ۱۳۱۰ ہجری قمری میں وہ اصفہان ہجرت کرگئے۔ انھوں نے وہاں کے مدرسے میں وہاں کے اساتید سے استفادہ کیا  اور چار سال بعد بروجرد واپس چلے گئے۔

۲۷ سال کی عمر میں وہ راہی نجف ہوئے اور اُس زمانے میں حوزہ علمیہ نجف کے بزرگ اساتید کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کیا۔ سن ۱۳۲۸ ہجری قمری کے آخر میں اپنے والد کے اصرار پر نجف سے وطن واپس آگئے، لیکن سن ۱۳۴۵ ہجری قمری میں دوبارہ نجف چلے گئے۔ کئی سالوں بعد اور اس دفعہ اُن علماء کی حمایت میں جنہوں نے رضا خان کے کاموں پر اعتراض کرنے کیلئے قم ہجرت کی تھی، علمائے نجف کی نمائندگی میں قم کے علماء اور تہران میں حکومتی عہدیداروں سے ملنے کیلئے ایران واپس آئے۔ لیکن پہلوی حکومت کے کارندوں نے انھوں قم جانے کی اجازت نہیں دی اسی وجہ سے وہ تہران سے مشہد کی طرف روانہ ہوگئے۔ آٹھ مہینے تک وہاں رہے اور اُس کے بعد بروجرد واپس چلے گئے۔

یہ زمانہ مطابقت رکھتا ہے ۱۹۳۱ ء سے ۱۹۴۱ ء  کے سالوں سے، جب رضا خان کی حکومت اس کوشش میں تھی کہ سروں سے عمامہ اتر جائے، حوزھای علمیہ بند ہوجائیں، حجاب پر پابندی لگ جائے، دینی ومذہبی مجالس نہ ہوں  اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے بقول یہ اُن کی زندگی کے مصیبت بھرے ایام تھے۔ سن ۱۹۴۵ ء میں جب وہ علاج کیلئے بروجرد سے تہران آئے، قم اور تہران کے نامی گرامی علماء کرام منجملہ امام خمینی (رہ) اُن کی عیادت کیلئے گئے اور اُن سے قم میں رہنے ، جہان تشیع کی مرجعیت سنبھالنے اور حوزہ علمیہ قم کو چلانے کی درخواست کی۔ اس طرح وہ مراجع عظام ، علماء کرام اور قم کے لوگوں  کے عظیم الشان استقبال  میں شہر قم میں داخل ہوئے۔

انھوں نے قم  کے اندر حوزہ ، روحانیت  اور لوگوں کے مختلف طبقات میں وحدت اور یک جہتی کو قائم کیا۔ اسی طرح اُن کی ہمت اور کوشش سے ایران اور دنیا میں بڑی بڑی مذہبی عمارتیں اور لائبریریاں  قائم ہوئیں۔ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی نے بالآخر ۱۳ شوال ۱۳۸۰ ہجری قمری بمطابق ۲۹ مارچ ۱۹۶۱ء کو  اس دنیا سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی وفات کی خبر پھیلتے ہی پورے ایران میں سوگ اور ماتم کی فضا قائم ہوگئی۔ ان کی تشییع جنازہ کے وقت، تہران – قم کے راستے میں گاڑیوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی (۱) اور ان کی مجلس ترحیم ایران کے مختلف شہروں اور دوسرے ممالک میں منعقد ہوئی۔ (۲) یہ واقعہ مذہبی پہلو سے ہٹ کر سیاسی پہلو کا بھی حامل تھا  اور مسلمانوں کے علاوہ، یہودیوں، ارمنیوں، آسوریوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں (۳) اور مختلف پارٹیوں (۴) نے بھی ان کیلئے مجلس ترحیم کا انعقاد کیا یا مجلس ترحیم میں شرکت کی۔ ان بعض مجالس اور مساجد میں مجلس میں آنے والوں کی تعداد کبھی آٹھ یا دس ہزار سے زیادہ تھی اور مختلف طبقات جیسے مولویوں، بازاریوں، طالب علموں، فوجیوں وغیرہ نے اُس میں شرکت کی۔ (۵)

آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے دسویں  اور چہلم کی تقریب بھی بہت شاندار طریقے  سے منعقد ہوئی جو اُن کے شایان شان تھی۔ ایران کے مختلف شہروں سے مذہبی  انجمنیں قم کی طرف روانہ ہوئیں (۶) اور ان کے چہلم کے پروگرام میں بھی ایران کے مختلف شہروں سے  ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ (۷)

آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی وفات کے بعد اُن کی جانشینی کا مسئلہ بہت زیادہ مذہبی اور سیاسی اہمیت کا حامل تھا۔جانشینی کیلئے  بہت سے لوگوں کے نام سامنے تھے (۸) اور محمد رضا پہلوی چاہتا تھا کہ اس موقع  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روحانیت کے مرکز کو ایران سے باہر منتقل کردے  اور دینی علماء کی رہبری میں ہونے والے اعتراضات اور بغاوتوں سے محفوظ رہے؛ دراصل دین کو سیاست سے جدا کردے۔ لیکن اس معاملے میں اسے شدید مخالفت کا سامنا ہوا۔ مجاہد علماء نے شاہ کے اس اقدام کو  قم کے مراجعین سے بے اعتنائی اور روحانیت کو کمزور کرنے میں پہلے قدم کے طور پر سمجھا اس وجہ سے آیت اللہ بھبھانی نے مرجعیت کے لائق تمام علماء کو دعوت دی تاکہ ایک اضطراری جلسے میں حوزہ علمیہ قم کی تقدیر کے بارے میں کوئی مشترکہ فیصلہ کیا جائے۔ اس جلسے کے بعد سے امام خمینی (رہ) نے تدریجاً آیت اللہ گلپایگانی اور آیت اللہ مرعشی نجفی جیسے آیات عظام  کے ساتھ تقلید کی مرجعیت کی ذمہ داری کا عہدہ سنبھالا۔ (۹)

پہلوی حکومت کے باقی رہ جانے والی بے ثمر ارادے –  جیسا کہ  وہ لوگ  آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی زندگی میں اُن  کے غیر معمولی نفوذ کی وجہ  لوگوں کے مختلف طبقات سے دین ختم کرنے میں بالکل کامیاب  نہیں ہو پائے – انھوں نے ان کی وفات کو اپنے لئے مناسب موقع سمجھا تاکہ اپنے دین سے ٹکرانے والے اہداف اور مقاصد  تک دسترسی حاصل کریں اور  سیاسی، اجتماعی اور معاشی نظام میں امریکہ کی مرضی کے مطابق تبدیلی لائیں۔

انہی منصوبوں میں سے ایک زرعی اصلاحات کا منصوبہ تھا (۱۰) اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی وفات سے، پہلوی حکومت کے عہدیداروں نے سمجھا کہ اُن کے راستے سے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہٹ گئی ہے۔ اسی وجہ سے شاہ نے اپریل ۱۹۶۱ء میں علی امینی کو وزیر اعظم بنا دیا (۱۱) تاکہ اُس کی مدد سے امریکی مرضی کے مطابق اصلاحات کی جاسکیں۔ اس سلسلے میں علی امینی نے شاہ کے مورد نظر منصوبوں کی تکمیل کے لئے خود کو مراجع اور روحانیت کے نزدیک کیا اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی۔ (۱۲) لیکن اس بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور علماء نے امام خمینی (رہ) کی سربراہی میں دینی رنگ کم کرنے کے خلاف اپنے مخالفت کے پرچم کو سر بلند  رکھا۔

 

 

حوالہ جات:

۱۔ کرمی پور، حمید، جامعہ تعلیمات اسلامی، تہران: انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز،  ۲۰۰۱ء، ص ۴۶

۲۔ساواک کی اسناد کے مطابق ۵ جون کا قیام، تہران: تاریخی اسناد کی تحقیق کا مرکز، ج۱، ۱۹۹۹ء، ص ۲۹۸

۳۔ ایضاً، ص ۲۷۷

۴۔ ایضاً، ص ۲۷۸ و ۲۸۰

۵۔ ایضاً، ص ۲۸۸

۶۔ ایضاً، ص ۲۷۳ و ۲۷۶

۷۔  ایضاً، ص ۳۰۹

۸۔ ایضاً، صفحات ۲۷۴، ۲۷۵ ، ۲۹۴

۹۔ ۵ جون ۱۹۶۳ء  کے حماسہ کی تحقیق پر دوسرے سیمینار کے مقالات، ص ۱۲۷؛ ساواک کی اسناد کے مطابق ۵ جون کے قیام کی داستان، ج۱، ص ۲۹۴

۱۰۔ ساواک کی اسناد کے مطابق امام خمینی (رہ) کی مجاہدانہ سیر اسناد کے آئینے میں، تہران: موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، ج۲،  ۲۰۰۷ء، ص ۵۳

۱۱۔ انقلاب اسلامی ایران میں انقلابی مضامین (مضامین کا مجموعہ)، محققین کا گروہ: ازغندی، حشمت زادہ، حاتم قادری وغیرہ، تہران: الہدیٰ، ۱۹۹۸ء، ج۱، ص ۲۲۲

۱۲۔ جون ۱۹۶۳ء  کے حماسہ کی تحقیق پر دوسرے سیمینار کے مقالات، ص ۱۲۷



 
صارفین کی تعداد: 4002


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔