عباس جہانگیری اور دفاع مقدس کی یادیں ۔ پہلا حصہ

جہادی کیمپ سے لیکر حاج عمران کی بلندیوں تک

مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-2-15


جب میں نے رابطے کیلئے فون کیا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی اُن سے ملاقات ہوجائے گی۔ لیکن جب میں نے اپنے کام کے بارے میں بتایا تو  بہت ہی جلدی مجھے ملنے کا وقت دیدیا۔ موسم خزاں کی ایک شام میں اُن کے دفتر گیا۔ ہم نے تقریباً ۴ بجے اپنی گفتگو کا آغاز کیا  اور جب میں اُن کے پاس سے اٹھا تو  رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ میں وقت گزرنے کی طرف بالکل متوجہ ہی نہیں تھا۔ ہم نے صرف مغرب کی نماز کیلئے وقفہ کیا تھا۔ ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کے خبرنگار کی انجینئر جناب عباس جہانگیری سے ہونے والی گفتگو کو ملاحظہ کیجئے۔

 

برائے مہربانی قارئین کو اپنا تعارف کروائیے.

میرا نام عباس جہانگیری ہے۔ میں ۷ مارچ ۱۹۶۵ء والے دن پیدا ہوا۔ ہمارا گھر تہران کے قصر الدشت نامی علاقے میں تھا۔ جب میں دو تین سال کا تھا تو ہم لوگ قنبر آباد نامی محلے میں چلے گئے تھے۔ ہم نے کئی سال وہاں گزارے اور ہمارے والد کا گھر ابھی تک وہاں  ہے۔

 

تعلیمی سالوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، آپ نے کہاں تعلیم حاصل کی؟

میں نے پرائمری کی تعلیم شریف یونیورسٹی کے بالکل سامنے والے عاصمی اسکول میں حاصل کی۔ اُس کے بعد عاصمی اسکول کے پیچھے  مازیار اسکول میں سیکنڈری کی تعلیم حاصل کی۔ میں ساتویں کلاس میں تھا کہ انقلاب آگیا۔ میں نے آٹھویں کلاس بھی مازیار اسکول میں پڑھی ۔ پھر شاہراہ قدس پر موجود خوارزمی اسکول میں چلا گیا۔ شہید رجائی کے پلان کے تحت طے پایا کہ ہر کوئی اپنے گھر کے نزدیک  والے اسکول میں تعلیم حاصل کرے۔میں اپنے گھر کے نزدیک ایک اسکول ڈھونڈنے پر مجبور ہوگیا۔ میں مفید اسکول  میں گیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مذہبی اسکول ہے۔ جناب دانش (فخر الدین احمدی دانش آشتیانی، حالیہ وزیر تعلیمی امور ) نے میرا انٹرویو لیا۔پہلے تو مجھے پریکٹیکل گروپ میں بھیج دیا۔ میں نے کہا مجھے ریاضی کا شوق ہے۔ دو ہفتے بعد مجھے ریاضی کی کلاس میں ڈال دیا۔  میں نے سن ۱۹۸۳ء میں   میٹرک پاس کیا اوراُسی سال علم و صنعت یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے شعبہ میں قبول ہوا اور پھر سن  ۱۹۹۰ء تک میری تعلیم جاری رہی۔ اُس سال میں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اُسی سال تربیت مدرس یونیورسٹی میں ایم اے کیلئے قبول ہوا اور سن ۱۹۹۴ء میں میری پڑھائی ختم ہوگئی۔ سن ۱۹۹۶ء سے پگاہ کمپنی میں کام کرنے لگا اور اب بیس سال ہونے کو ہیں کہ پگاہ ملک انڈسٹری میں کام کر رہا ہوں۔

 

میں دوبارہ آپ کے تعلیمی سالوں کی طرف پلٹنا چاہتا ہوں؛ جس سال آپ پہلی دفعہ محاذ پر گئے، آپ کون سی کلاس میں تھے اور کتنے سال کے تھے؟

جب میں پہلی بار محاذ پر گیا تو وہ گرمیوں کی چھٹیوں کا زمانہ تھا۔ ہمیں غربی اسلام آباد  کے جہادی کیمپ لے گئے تھے۔

 

پس آپ کا جہادی کیمپوں کا سابقہ دفاع مقدس کے سالوں سے مربوط ہے

جی ہاں،  مجھے یاد ہے ہمیں سرو آباد نامی گاؤں میں لے گئے تھے۔  ہم لوگ قروہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور وہاں سے ہمیں گاؤں میں واش روم اور حمام بنانے کیلئے لے جاتے۔ اس گاؤں میں کردی رہتے تھے اور میرے لئے بہت دلچسپ تھا۔ میرے خیال سے ۱۹۸۲ء  کی گرمیوں کا زمانہ تھا۔ ہمدان سے ایک  لڑکا آیا تھا جو مستری تھا۔ کچھ لوگ قم سے تھے اور تہران کے مفید اسکول  سے ہم لوگ گئے ہوئے تھے۔

 

اس سفر میں آپ کے کون سے دوست آپ کے ساتھ تھے؟

میں تھا، جناب ڈاکٹر مرادی تھے، اگر غلطی نہ کروں، خاوہ ای تھا، سعید زاغری جو ہم سب سے چھوٹا تھا، ایک اور دوست جو بعد میں شہید آوینی کا ساتھی بن گیا۔ وہ ہم سے بہت زیادہ جوان تھا، مجھے اس کا فیملی نام یاد نہیں۔ بہت اچھا لڑکا تھا۔ مفید اسکول کے ساتھیوں میں سے تھا اور پھر جناب آوینی کا ساتھی بن گیا۔ ہم لوگ اس گاؤں میں گئے اور کام کیا۔ کیمپ کے دوران ہمیں ایک دفعہ لے جاکر علاقے کی نشاندہی کروائی گئی۔ اتفاق سے وہاں کے ہیڈ کوارٹر پر گولہ لگ گیاتھا اور کچھ لوگ شہید ہوگئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں فرنٹ لائن پر گیا تھا۔

میرے گھر والے راضی نہیں تھے کہ میں محاذ پر جاؤں اور ۴۰- ۴۵ دنوں تک ٹریننگ حاصل کروں۔ میں فرہنگی کشتی کیا کرتا تھا اور میرے بدن کی حالت بری نہیں تھی  اور بدن قوی ہوچکا تھا۔ میں ایک دن صبح سویرے مقداد چھاؤنی گیا، چونکہ مجھے وہیں سے آگے جانا تھا۔ میں نے کہا: بھائی ! ذرا میری فائل نکالنا،  میں دوبارہ  ڈیوٹی لگوانا چاہتا ہوں!

اُس نے کہا: نام؟

میں نے کہا: عباس جہانگیری فرزند اسماعیل۔

یہ خدا کا بندہ جاکر فائلوں میں گم ہوگیا، پانچ منٹ بعد واپس پلٹا۔ شرمندگی کی حالت میں آکر کہنے لگا: میں معذرت چاہتا ہوں آپ کی فائل یہاں نہیں ہے۔

میں بولا: کیا مطلب یہاں نہیں ہے؟

اُس نے کہا: میں ابھی بنا دیتا ہوں۔

میں نے پوچھا: کیا کرو گے؟

وہ ایک فولڈر اور ایک کوائف کا فارم لے آیا،  میں نے اُسے بھرا۔ لکھا ہوا تھا کہ کہاں ٹریننگ کی ہے؟ میں نے بھی لکھ دیا اپنے محلے کی مسجد میں۔ اس خدا کے بندے نے ان چیزوں کو اصلاً دیکھا ہی نہیں اور وہ بہت ہی معذرت کر رہا تھا اور اُس نے مجھے محاذ پر جانے کیلئے ایک کارڈ دیا۔ اُس نے میرے فارم کو فولڈر کے اندر رکھ دیا۔ میں اُس وقت نہیں جاسکا لیکن وہ کارڈ اور فائل نمبر  میرا ہوگیا۔ میں ایک ہفتہ یا دس دن بعد   آیا اور پھر چلا گیا۔

کچھ دنوں پہلے کچھ لوگوں نے  سوشل میڈیا پر ہمارے وقتوں کی ایک تصویر لگائی تھی کہ میں، شہید صالِحی، ڈاکٹر کرمی، ڈاکٹر آسائی اور انجینئر تقدیدی ایک ساتھ محاذ پر گئے تھے۔  ان سب لوگوں نے ٹریننگ کی ہوئی تھی۔ شہید صالِحی اور ڈاکٹر آسائی کو محاذ کا تجربہ تھا اور ڈاکٹر کرمی اور جناب تقدیری کو آپریشن کا تجربہ تھا۔لیکن میں نے مسجد میں صرف اسلحے کو کھولا اور بند کیا تھا۔  

و الفجر ۲ آپریشن کے بعد ہمیں دفاعی پوزیشن پر لے گئے۔ آپریشن ختم ہوگیا تھا اور ہم نے حاج عمران کی چوٹیوں پر جاکر کچھ لوگوں سے پوسٹیں بدل لی تھیں۔ ہم لوگوں کے درمیان کچھ دلچسپ واقعات بھی رونما ہوئے کہ جو آگے چل کر سناؤں گا۔

 

پس آپ بغیر ٹریننگ کے گئے؟ گھر والوں کو کیسے  راضی کیا؟

البتہ میں نے جھوٹ بھی نہیں بولا تھا۔ میں نے کہا میں نے محلے کی مسجد میں ٹریننگ کی ہے۔ گھر والوں کو بھی پتہ نہیں چلا تھا۔ جب میں نے بیگ تیار کیا تو ماں نے پوچھا: کہاں؟

میں نے کہا: ہم لوگ مشہد جا رہے ہیں۔

ہر کسی نے دعا کیلئے کہا۔ البتہ میرے ذہن میں مشہد سے مراد شہادت کی جگہ تھی تاکہ جھوٹ نہ ہوجائے۔ البتہ وہ لوگ بعد میں سجھ گئے۔ جب ہم وہاں پہنچ گئے تو میں نے پندرہ دن بعد ایک خط بھیجا کہ میں یہاں (محاذ) پر ہوں۔ میں نے محاذ پر گزارے ۲۳ مہینوں میں صرف ایک دفعہ خدا حافظی کی۔ میں پڑھائی بھی کرتا اور جنگی علاقوں میں بھی جاتا تھا۔

 

آپ اُسی سال یعنی  ۱۹۸۳ء میں یونیورسٹی میں قبول ہوگئے؟

دوبارہ یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد پہلا سال تھا؛ ثقافتی انقلاب کے بعد۔ کچھ لوگوں نے  پہلے امتحان دے لیا تھا اور قبول ہوچکے تھے،  وہ اکتوبر کے مہینے میں یونیورسٹی چلے گئے، ہم نے سن ۸۳ء میں انٹری ٹیسٹ دیا تھا، ہم اُس سال دسمبر میں یونیورسٹی گئے۔

 

پہلی دفعہ محاذ پر جانے کے بارے میں بتائیے؟

پہلی دفعہ ہمیں  پیرانشھر  میں  پسوہ نامی ایک چھاؤنی میں لے گئے۔ ہم پسوہ چھاؤنی سے تمرچین بارڈر تک گئے وہاں عراقیوں کا ایک اسکول تھا۔ رات کو وہاں تیاری کرکے سرحدی لائن پر تعینات ہوگئے؛ تقریباً ۲۸۰۰ میٹر کی بلندی پر،  گڑھے کی مانند۔ بہت اونچائی تھی۔ پہاڑ کو کاٹ کر اوپر جانے کا راستہ بنایا ہوا تھا۔

اس اسکول میں ہمارے لئے دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ہمارا گھر آزادی اسکوائر کے قریب تھا۔ جب ہوائی جہاز رن وے پر اُترنے کیلئے آتا ہے تو آپ دور سے ایک روشنی دیکھتے ہیں جو روشن اور بے حرکت ہوتی ہے یہاں تک کہ رن وے پر اتر جاتا ہے۔ میں نے یہ منظر بچپن سے دیکھا ہوا  تھا۔ عراقیوں نے فلیش لائٹیں جلائی ہوئی تھیں۔  میں نے شہیدصالِحی سے کہا: "دیکھو حمید، یہ ہوائی جہاز بھی کتنا مغرور ہے، جلتی لائٹ کے ساتھ یہاں آیا ہے!"حمید نے ہنسنا شروع کردیا اور پھر اس بات کا مذاق اڑایا کرتا۔ حمید صالِحی ایسے افراد میں سے تھا جس نے غیر منظم جنگوں میں شہید چمران کے ہمراہ جنگ کی تھی۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی کلاس کے بعد محاذ  پر چلا گیا تھا۔ اُس نے ہنستے ہوئے کہا: "کیا کیا ہوا یہ فلیش لائٹیں ہیں، ہوائی جہاز کہاں ہے، اگر یہاں آیا تو اُسے اُڑا دیں گے۔" یہاں سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

ڈاکٹر آسائی، ڈاکٹر مجید مرادی، ڈاکٹر کرمی اور جناب تقدیری سب کے سب محاذ پر چلے گئے تھے۔ ہم نے اس طرح گروپ بنائے تھے کہ میں اور شہید صالِحی ایک ہی گروپ  میں آگئے تھے اور باقی دوست دو دو کر کے ایک ساتھ تھے۔ ڈیوٹی لگانے والا افسر جب ڈیوٹی لگاتا، ہم ساتھ ہوتے۔ میں اور شہید صالِحی ایک دوسرے سے اپنی پوسٹیں تبدیل کرلیتے۔ مثلاً طے تھا کہ حمید میرا دھیان رکھے۔ وہ کسی خونی مرض میں مبتلا تھااور خاص حالات میں بری طرح سوتا تھا۔ جب سب دوست اکٹھا ہوتے تو حمید کا سونا بھی ایک ماجرا  ہوتا۔ خلاصہ یہ کہ ہم دونوں کو ایک باریک جگہ کی حفاظت کیلئے بھیجا اور ہم پوسٹیں تبدیل کرتے۔ سات آٹھ دن پہلے وہاں سے ایک حملہ ہوا تھا اور عراقی صدرکی مخصوص فورسز اوپر تک آئی تھیں ، تاکہ باریک راستے سے گزر کر سب کو دور ہٹا دیں۔ بعد والی شفٹ میں ڈاکٹر آسائی اور جناب تقدیری تھے۔ حمید کو نیند آگئی تھی اور اُس کا سر ایک طرف ڈھلک چکا تھا۔ میں جاگ رہا تھا، لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں مسلسل   حمید کو اٹھا رہا تھا  اور حمید کچھ کہتا  اور میں بھی جواب میں کچھ کہہ دیتا تاکہ اُسے نیند نہ آئے۔ البتہ حمید تجربہ کار تھا اور میری غلطیوں کو پکڑ لیتا۔ خدا مغفرت کرے وہ ایک دن سویا ہوا تھا۔ مجھے بھی پتہ نہیں چلا۔ میں دیکھ رہا تھا۔ اچانک واپس آکر اُس نے مجھ سے کہا: "وہ بوری اٹھا کر اُس طرف ڈال دو!" میں سمجھا خواب دیکھ رہا ہے۔

اُن راتوں میں بہت ہی یادگار واقعات پیش آئے۔ ایک رات تو خدا نے ہم پر بہت رحم کیا۔ اتنا رحم کیا کہ جب بھی مجھے یاد آتا ہے تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی  سی دوڑ جاتی ہے۔ میں جاگ رہا تھا اور ڈیوٹی دے رہا تھا۔ مجھے لگا کہ کوئی آواز آئی ہے۔ پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا۔ پھر مجھے لگا کہ نہیں واقعاً کوئی آواز آرہی ہے۔ میں نے جاکر حمید کو اٹھایا۔ میں نے کہا: "یہاں کچھ شور و غوغا ہے، جیسے کوئی آرہا ہو۔" حمید مورچے پر گیا۔ شہید صالِحی بہت ماہر تھا۔ مورچے کے سامنے ایک نشیب تھا۔ میں نے کہا: "میں مورچے کے سامنے تھوڑا آگے جاؤں؟ وہاں سے آواز آ رہی ہے۔" حمید نے کہا: "تم جاؤ، اپنا اسلحہ اور گرنیڈ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ اور دیکھو کیا ہے؟" حمید سے دس بیس قدم دور ہوا تو مجھے لگا آواز آ رہی ہے۔ اب میں اُس سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ مجھے اُس وقت تک گرنیڈ پھینکنا نہیں آتا تھا۔ فقط فلموں میں دیکھا ہوا تھا کہ کیا کرتے ہیں۔ میں نے حتی گرنیڈ کی پن  کو بھی سیدھا نہیں کیا۔ میں نے حلقے میں انگلی ڈالی، مجھے لگا کہ میں نہیں کھینچ سکتا۔ میں نے خیالوں میں کہا یعنی تم میں اتنی جان نہیں ہے! مجھے نہیں پتہ تھا کہ پن کو سیدھا ہونا چاہیے۔ بہرحال جس طرح بھی ہوا، میں نے پن کو سیدھا کئے بغیر، جتنا زور تھا لگادیا کہ پن سیدھی ہوگئی اور حلقہ باہر نکل آیا۔ میں نے گرنیڈ کو وہاں پھینکا جہاں سے آواز آ رہی تھی اور بیٹھ کر گننے لگا: ایک، دو، تین، چار، پانچ ... نو، دس ... میں حمید کے پاس آیا اور کہا: "ایک اور دو، ابھی تک آواز آ رہی ہے۔" وہ بولا: "اُس پہلے والے کا کیا کیا؟" میں بولا: "پھینک دیا" اُس نے کہا: "مجھے کیوں نہیں بتایا؟" میں نے کہا: "مگر کیا ہوا؟  کیا ربط ہے؟ تم اس طرف ہو میں اُس طرف۔"

حمید نے ایک اور گرنیڈ آمادہ کرکے پھینکا۔ گرنیڈ تقریباً وہیں جاکر گرا جہاں میں نے پھینکا تھا۔ آپ یقین کریں گرنیڈ کے ٹکڑوں نے مورچے کی سطح کو صاف کردیا تھا۔ یعنی اگر پہلے والا گرنیڈ پھٹ جاتا تو حمید صالِحی کا کام تمام ہوجاتا، چونکہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ جب پھٹتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔ جب میں نے ان ٹکڑوں کو دیکھا جو سیٹی کی طرح گزر رہے تھے، میں سکتے میں آگیا۔ میں اُس رات بالکل گم سم رہا۔

 

عراقی آگئے تھے؟

بالکل صاف آواز آرہی تھی، حمید بھی مطمئن ہوگیا تھا کہ آواز آرہی ہے۔ جب ہم صبح اٹھے تو کوئی نہیں تھا۔ اب یا تو کوئی حیوان تھا یا عراقیوں کی گشتی ٹیم تھی جو دھماکے کے بعد واپس چلی گئی تھی یا اُنہیں لگا کہ ہم حساس ہوگئے ہیں اس لئے واپس چلے گئے تھے۔  انہیں راتوں میں کہ میرے خیال سے سترہویں یا اٹھارہویں رات تھی، سٹرک کو چوڑا کرنے کیلئے ایک لوڈر آیا تاکہ گاڑیاں آرام سے گزر سکیں۔ پہاڑ کا تھوڑا حصہ کاٹ چکے تھے؛ ایک طرف مورچہ تھا اور دوسری طرف پہاڑ۔ایک سڑک سی بنی ہوئی تھی اور اب اُسے چوڑا کرنا چاہ رہے تھے۔ ہمارا پڑاؤ بھی وہیں تھا جہاں مورچے بنے ہوئے تھے۔ انجینئر جناب تقدیری کے بارے میں بتاؤں کہ واقعاً اُس سرد موسم میں، انھوں نے چار بوریوں اور کچھ تھیلیوں سے ایک مورچہ بنایا تھا۔ ایسا کہ اتنی سردی میں بھی آپ مورچے میں بغیر کمبل کے آرام سے سو سکتے تھے۔ بعض اوقات  مرکزی انچارج، جب اُن کے پاس سونے کا وقت ہوتا، وہ ہمارے مورچے میں آرم کرتے۔ چونکہ سب سے آخری مورچہ بھی تھا، جب وہ چکر لگانے آتے تو مورچے کے اندر آکر سو جاتے۔

ایک رات میں اور شہید صالِحی مورچے کے اندر سو رہے تھے۔ میرے خیال سے اُس رات ڈیوٹی پر ڈاکٹر آسائی اور جناب تقدیری  تھے۔ اس مورچے میں ایک طرف مٹی کی دیوار تھی جو لوگوں نے کھود کر بنائی تھی۔ اُس کے دوسری طرف بھی مٹی کی بوریاں تھیں۔ ہم دو افراد جب سوتے تو کندھے سے کندھا لگا کے سوتے تھے؛ حمید کا کندھا مورچے کی مٹی والی دیوار کی طرف تھا اور میرا کندھا بوریوں سے لگا ہوا تھا۔ ایک ڈراؤنی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ مٹی کی بوریاں میرے کندھے پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔ میں جلدی سے اُٹھ کر مورچے کے دروازہ پر آیا۔ میں نے حمید کا ہاتھ بھی پکڑ کر کھینچا۔ حمید سو رہا تھا اور اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ چونکہ رات تھی، اس لئے لوڈر کے ڈرائیور کو مورچہ نظر نہیں آیا اور لوڈر کا پہیہ بوریوں پر چڑھ گیا تھا۔ جناب تقدیری نے بھی جتنی آوازیں لگائیں "اوہ ہو، یہاں ہمارا مورچہ ہے اور اندر لوگ ہیں" لوڈر کے ڈرائیور کو آواز ہی نہیں آرہی تھی۔ اُس کے بعد جب بھی لوڈر آتا تو ہم جاکر پہاڑ کی ہموار سطح پر سو جاتے تاکہ وہ اپنا کام کرکے چلا جائے۔ یہاں پر دس پندرہ دن رہنے کے بعد ہم سرپل ذھاب کی ابوذر چھاؤنی چلے گئے۔

 

اس مدت میں آپ کسی آپریشن کیلئے نہیں گئے؟

وہاں پر ہم صرف دفاعی پوزیشن پر تھے اور تین مہینے کے بعد واپس بھی آگئے۔ جب یونیورسٹی شروع ہوئی تو خیبر آپریشن بھی شروع ہوگیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو بتایا اور ۲۸ اور ۲۹ جنوری کو خیبر آپریشن کیلئے چلے گئے۔ اس آپریشن میں جناب ڈاکٹر مرادی، حمید صالِحی، جناب مینا پرور اور مرتضی ابراہیمی تھے۔

 

آپ کی دوسری تعیناتی اور یہ کہ آپ آپریشن میں زخمی ہوئے ...

جی۔ ہمیں دو تین دن تک دو کوھہ چھاؤنی میں ٹھہرایا گیا۔ اگر غلطی نہیں کر رہا تو ہمیں بلال بٹالین  میں لے جایا گیا۔ وہاں پر شہید ہمت نے آکر تقریر کی۔ خیبر آپریشن کا ایک مرحلہ گزار چکےتھے اور حاجی واپس آگیا تھا اور دوسری بٹالینز کو تیار کر رہا تھا۔

 

جاری ہے



 
صارفین کی تعداد: 3887


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔