یادوں بھری رات کا ۲۷۴ واں پروگرام

پہلی بار بیان ہونے والی داستان

نازنین ساسانیان
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-9


ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق "یادوں بھری رات " کے سلسلے کا ۲۷۴ واں پروگرام ۲۴ نومبر، ۲۰۱۶ء کو جمعرات کی شام  آرٹ گیلری میں منعقد ہوا۔  اس پروگرام میں محمد مجیدی، محمد ابراہیم بہزاد پور اور امیر حسین حجت نے دفاع مقدس کے دوران کی اپنی یادوں  کے دریچوں کو وا کیا۔

قید کی یادیں

شہر ملایر کے محمد مجیدی سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے اپنی یادوں کو بیان کیا۔ انھوں نے اپنے دفاع مقدس پر جانے کے ماجرے کو اس جملہ کے ساتھ شروع کیا: "میں کل ہی کربلا سے واپس پلٹا ہوں اور سب کی نیابت میں زیارت کی ہے" اور بتایا کہ "میرے جنگ پہ جانے سے تین چار دن پہلے میری والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ عراق نے ایران پر حملہ کردیا ہے اور ہمارے گاؤں سے صرف مجھے لے گئے ہیں۔ ہم نے ایک رات پہلے مسجد میں، جنگ پہ جانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ماں کا دل تو پھر ماں کا دل ہے، انہیں پتہ چل  ہی جاتا  ہے، دو مرتبہ کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں اپنے شناختی کارڈ میں تبدیلی کرکے جنگ پر جانے میں کامیاب ہوگیا۔ ہمیں لے جانے والی بس پر لکھا ہوا تھا: "یہ سفر وہ نہیں ہے، جس میں تم مصر سے بغداد جاؤ/ بلکہ مردوں کا سفر تو اپنی جاں سے گزر جانا ہے"۔ صرف ایک مرتبہ پڑھنے سے ہی یہ شعر میرے ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش ہوگیا۔ ہمدان سےاہواز تک کے تمام سفر میں، میں  اس شعر اور والدہ کے خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔"

صدام کی فوج سے ایران پر جنگی حملے کے اس آزاد شدہ قیدی نے اپنے قید ہونے کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا: "آپریشن کربلائے ۵ کے دوسرے مرحلے میں میری عمر ۱۴ برس تھی، جب میرا سر، پیر اور سینہ زخمی ہوا اور مجھے قیدی بنالیا گیا۔ میں زخموں کی وجہ سے بیہوش ہوگیا تھا۔ جب مجھے ہوش یا تو میں نے دو عراقیوں کو اپنے پاس پایا۔ مجھے گاڑی کے پیچھے بٹھا کر ہارون الرشید ہسپتال لے گئے۔ میں جس بھی وارڈ میں دیکھ رہا تھا، مجھے ایک بسیجی اپنی آخری سانسیں لیتا دکھائی دے رہا تھا اور ہر کوئی کسی ایک معصوم (ع) کو خدا کی بارگاہ میں واسطہ قرار دے رہا تھا ۔ تمام آہیں ایک ایک کرکے ختم ہوتی جا رہی تھیں اور میں تنہا رہ گیا۔ تین دن بعد مجھے آپریشن کے لئے کمرے میں لے گئے۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے ہاتھوں کو بستر سے بندھا ہوا پایا۔"

انھوں نے مزید کہا: "مجھے نرس نے نہیں بتایا کہ میرا آپرین ہوا ہے، اس نے مجھ سے کہا: کیونکہ تم سو نہیں پا رہے تھے، اس لئے تمہیں باندھ دیا تھا۔ مجھے جب ہسپتال سے چھٹی ملنے والی تھی تو میرے ہی شہر کے ایک شخص کو ہسپتال لیکر آئے جو بہت زیادہ زخمی تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم بصرہ میں ہیں اور قیدی بنا لئے گئے ہیں۔ اس وقت تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں جب دروازے  سے باہر نکلا تو صحافی انٹرویو لینے کیلئے  تیار کھڑے تھے۔ میں کیونکہ جُبّہ پہنا ہوا تھا، اس لئے کیمرے کی طرف پیٹھ کرلی۔ جن لوگوں کے انٹرویو لئے گئے، ایران میں ان لوگوں کے بارے میں پتہ چل گیا لیکن میرے بارے ایران میں کچھ خبر نہ ہوئی۔"

جناب مجیدی نے مزید بتایا: "بصرہ سے روانہ ہونے کے کچھ دیر بعد ایک عراقی افسر نے میرا پلاک ضبط کرلیا اور وہ مجھے اور لشکر کربلائے ۲۵ کے ایک گروپ کمانڈر، جناب انصاری کو بغداد پہنچنے تک مسلسل مارتا رہا ۔ بس میں بیٹھے بقیہ افراد کو کچھ نہیں کہا گیا لیکن میرے آہ و نالے سن کر ان لوگوں کو بھی تکلیف ہو رہی تھی۔ میں چاہ رہا تھا کہ برداشت کروں اور میری آواز بلند نہ ہو لیکن کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے میرا آپریشن ہوا تھا، مجھ سے برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ جب ہم عراق کے خفیہ اداروں کے پاس تفتیش کیلئے جانے لگے تو میں چل نہیں پا رہا تھا اور دو قیدیوں نے مجھے سہارا دیا ہوا تھا لیکن دشمن کے ایک افسر نے مجھے دھکا دیا اور بندوق کے بٹ سے مارا۔ وہ افسر چوڑے ہیکل کا مالک تھا اور اس کا ہاتھ سیسے کی طرح سرخ تھا۔ اس کا ایک طمانچہ میرے چہرے پہ لگا، جس کی وجہ سے نہ مجھے کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا تھا۔ مارچ کے اوائل کی سردی میں (انھوں نے) ہمیں گوشت کو منتقل کرنے والی گاڑی میں سوار کیا۔ ہمارا بدن گاڑی کی دیوارں سے چپک رہا تھا۔ اس سردی کے عالم میں انھوں نے ہمیں ایک جگہ اتنا مارا کہ ہم میں سے کچھ لوگ وہیں پر شہید ہوگئے۔

اس آزاد ہونے والے قیدی نے یہ کہتے ہوئے بات آگے بڑھائی کہ "بیرک نمبر ۱۱، گمشدہ لوگوں کی سب سے پہلی بیرک تھی۔ ہماری ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ ہم کہیں  کہ ہم مریض ہیں۔ اگر ہم کہتے کہ ہمارے دانت میں درد ہو رہا ہے تو ہمارے صحیح دانت کھینچ کر نکال لیتے اور جس دانت میں درد ہو رہا ہوتا تھا، اسے ویسے ہی چھوڑ دیتے تھے۔ اکثر قیدی، بیمار تھے؛ میں خود بری طرح سے مختلف امراض میں مبتلا تھا۔ میں اس حد تک مریض تھا کہ تین دن بعد جب مجھے ہسپتال سے بیرک لیکر آئے تو سب سمجھے کہ ایک نیا قیدی آیا ہے۔ البتہ خود میرا یہ مرض سبب بنا کہ میں ہسپتال جانے کے ذریعے ایک ذمے داری ادا کرسکوں۔"

انھوں نے مزید کہا: "بیرک کے قیدیوں میں سے چار قیدی سب قیدیوں کے نام ایک کمبل کے کنارے لکھ کر ، سرحد تک فرار کر گئے لیکن عین سرحد پر گرفتار کرلئے گئے۔ ان لوگوں کے فرار ہونے سے لیکر واپس آنے تک چار دن لگے اور ان دنوں ہمیں مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس بیرک میں تمام ہی قیدی، بسیجی تھے۔ دوسروں کا غصہ اتارنے کیلئے ہمیں بری طرح مار رہے تھے۔ شام کے آخری پہر جب تشدد کا نشانہ بننے والے قیدیوں کی حالت غیر ہو رہی تھی، میں نے کہا: میں ایک کھیل کھیلنا چاہتا ہوں۔  سب نے کہ: ان چار قیدیوں کے مفرور ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بہت غصے میں ہیں اور اسی لئے بہت  بری طرح تشدد کر رہے ہیں، ہم تمہیں اس کام کا مشورہ نہیں دیں گے۔ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی، اسی وقت ٹیلی ویژن پر "رودبار" میں آنے والا زلزلہ دکھایا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کہیں کہ میں شمالی علاقہ جات کا رہنے والا ہوں (رودبار کا علاقہ ایران کے شمالی علاقوں میں ہے) اور میں نے ٹیلی ویژن پہ اپنا گھر بھی دیکھا ہے۔ میں اپنی جیل میں چیخ چیخ کر چکر لگانے لگا۔ عراقی افسر نے تین قیدیوں کو انفرادی جیلوں میں اور مجھے الگ احاطے میں منتقل کردیا، وہ میری حالت دیکھ کر رونے لگا، اس نے اپنے کارندوں سے میرے لئے دوائی کی کچھ گولیاں منگوائیں۔"

جناب مجیدی نے اپنی گفتگو کے آخر میں بعث پارٹی کے ایک افسر کا ایک واقعہ بیان کیا۔ بعث پارٹی کے اس افسر نے بتایا کہ اس نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے: "میں اپنے دفتر میں تھا کہ پارٹی والوں نے فون کرکے مجھے بلایا۔ مرکزی دفتر میں انھوں نے ایک فائل میرے حوالے کی جس میں ایک پلاک اور کارڈ تھا۔ وہ کارڈ اور پلاک میرے بیٹے کا تھا جو کہ امریکا میں پڑھتا تھا لیکن عراق آیا ہوا تھا۔ میں نے راستے میں خدا سے دعا کی کہ اس کی ماں پر رحم کرے۔ میں نے جنازہ دیکھا، سمجھ گیا کہ یہ میرے بیٹے کا جنازہ نہیں ہے، لیکن میں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں شہر سے باہر چلا گیا تاکہ جنازے کے پیچھے نہ جاؤں لیکن مجھ سے نہیں ہوسکا۔ میں نے جنازے سے آگے نکلنا چاہا تو بھی کوئی نہ کوئی میرے آگے آجاتا۔ میں اسی طرح آگے آگے چلتا رہا یہاں تک کہ کربلا کے داخلی راستے پر پہنچ گئے۔ بین الحرمین کے داخلی راستے میں ایک نئی قبر کھودی گئی تھی۔ میں نے اس میت کو اس قبر میں دفنایا اور پہلی مرتبہ فاتحہ پڑھی، میں نے اپنے ماں، باپ کیلئے بھی کبھی فاتحہ نہیں پڑھی تھی۔ جس زمانے میں قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوا، میرا بیٹا واپس آگیا، اس نے بتایاکہ اُسے ایک رات شلمچہ  کے علاقے میں قید کرلیا گیا تھا۔ ایک بسیجی نے مجھے پانی اور کپڑے دیئے اور نہایت احترام سے مجھ سے میرا کارڈ اور پلاک لے لیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہ مجھے بتائے کہ اس نے میرے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا تاکہ میں اسے اپنا کارڈ دیدوں۔ اس بسیجی نے کہا: ہم کل رات جب جنگی آپریشن سے واپس آر ہے تھے تو تھکن کے باعث اسی مقام پر میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بی بی آئیں اور کہنے لگیں: میں تمہیں یہ خوشخبری دینے آئی ہوں کہ تم ایک کارڈ اور ایک پلاک کہ جس پر فلاں شخص کے مشخصات  ہونگے، کے ساتھ ہمیشہ کیلئے کربلا میں مقیم ہوجاؤ گے اور میرے بیٹے حسین (ع) کے پاس رہو گے۔"

آخری لمحہ تک ...

"یادوں بھری رات" کے سلسلے کے ۲۷۴ ویں پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے، محمد ابراہیم بہزاد پور نے اپنی گفتگو میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ "آٹھ سالہ دفاع مقدس میں شرکت کرنے والے مجاہدوں میں، میں سب سے ادنیٰ مجاہد ہوں"، کہا: "جتنے بھی لوگ میدان جنگ پر گئے اور لڑے، ان کی تعداد کے برابر یادگار واقعات ہوئے ہیں۔  اس زمانے کا ہر لحظہ ایک یادگار واقعہ لئے ہوئے ہے اور ہم میں سے ہر ایک صرف چند نمونے ذکر کر رہا ہے تاکہ آپ ہماری طرف سے ایک یادگار لیتے جائیں۔ ہمارا ایک دوست تھا جس کا نام محمد تقی زادہ تھا۔ انھوں نے مجھ سے "والفجر ابتدائی" آپریشن سے پہلے کچھ باتیں کیں جو بعد میں رونما ہوئیں اور ہم نے دیکھیں۔ انھوں نے کہا: میں نے ایک خواب دیکھا جس میں، میں فرشتوں کے پروں پر بیٹھا ہوا ہوں اور آسمان کی بلندیوں کی طرف جا رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ اے خدا! تو نے خود ہی کہا ہے: "فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی" پھر ہم نے دیکھا کہ "کمیل" لشکر کے مجاہدین "و الفجر ابتدائی" آپریشن میں تشنہ لب شہید ہوئے اور حضرت امام خمینی (رح) نے ان کے بارے میں کہا یہ لوگ ملائکۃ اللہ میں سے تھے۔ حقیقتا وہ تمام افراد جو شہید ہوگئے، آسمانی لوگ تھے اور جیسے جیسے وقت گزرتا رہے گا ان لوگوں کے اسرار آنے والے وقتوں میں سامنے آتے رہیں گے۔  محسن کا ایک بھائی تھا، جس کا نام مسعود تھا۔ مسعود  "والفجر ۴" آپریشن میں شہید ہوگیا تھا۔ دونوں کا کوئی نشان نہ مل سکا اور ایک طویل مدت کے بعد ان دونوں کے جنازے ملے، ایک "فکہ" سے اور دوسرا "کانی مانگا" کے مقام سے ملا۔ دونوں ساتھ ہی لائے گئے۔" انھوں نے مزید بتایا: "مسعود نے مجھے آواز دی اور کہا: مجھے معلوم ہے اس آپریشن میں کون کون شہید ہوگا۔ آپریشن سے پہلے مسعود دعائے کمیل میں بہت رو رہا تھا۔ ہم نے دعا کے درمیان چاہا کہ اسے سنبھالیں تو کہنے لگا، تم لوگ مجھے چھوڑ دو اور اپنے مولا سے باتیں کرنے دو۔ اس نے بعد میں مجھے بتایا: میں نے اس رات امام حسین (ع) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان سے کہا: میری صرف ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میں آپ کے لئے اپنی جان دیدوں۔ وہ ان شہیدوں میں سے تھا کہ جن کے جنازے ۱۰ سے ۱۲ سال تک واپس نہیں آسکے تھے۔ ہماری کئی شہداء، قیدی اور زخمی وغیرہ ایسے ہی ہیں۔

جناب بہزاد پور  نے "فاو" کے مقام کی اہمیت اور وہاں ہونے والی جنگ کے بارے میں کہا: "میں آپریشن و الفجر ۸ میں سید الشہداء حمزہ بٹالین کے ۲۷ ویں لشکر  میں تھا۔ تقریباً ۷۰ دن تک یہ آپریشن جاری رہا۔ جب "فاو" صدام کے ہاتھ سے نکل گیا، اس کی عمدہ ترین فوج کی اچھی خاصی تعداد ختم ہوگئی۔ اس نے اپنی بقیہ فوج کی بڑی تعداد کو جمع کیا اور انہیں "فاو کے فاتح" کا نام دیکر جنگی تربیت دی تاکہ "فاو" کے علاقے کو واپس لینے کیلئے آپریشن کرسکے۔ فاو میں تقریباً ۷۰ دن تک ہماری زمین اور عراق کے درمیان ایک سرنگ موجود تھی جو تقریباً ۴۰۰ میٹر لمبی تھی جو دشمن کے خلاف گھات لگا کر بیٹھنے کے کام آتی تھی۔ دن کے وقت ۳۰ افراد اس کی حفاظت کرتے اور رات میں ۶۰ سے ۷۰ افراد  پر مشتمل دو دستے یہ ڈیوٹی انجام دیتے۔ ہمیں پتہ چلا کہ عراق جوابی کاروائی کرنا چاہتا ہے۔ آپریشن والی رات ۱۲ بجے تک ہم نے آگ کے گولے برسائے یہاں تک کہ اطمینان ہوگیا کہ اب حملہ نہیں ہوگا لیکن رات ۱۲ بجے سناٹے کے عالم میں ہمیں عراقیوں کے ہماری طرف بڑھنے کا احساس ہوا۔ اصلی جنگ اگلے دن ہوئی۔ عراقی چاہ رہے تھے کہ "فاو" کو اروند نہر تک اپنے قبضے میں لے لیں۔ ہمارا ایک سپاہی اس ۴۰۰ میٹر لمبی سرنگ سے جیسے ہی باہر نکلا، ایک گولی اس کے دل کی طرف آئی لیکن دل پہ لگی نہیں۔ اس کی آنکھیں ا وپر کی طرف ہوگئیں اور بہت خون بہنے لگا؛ اتنا کہ مجھے لگا کہ شاید یہ شہید ہوجائے گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی ساری طاقت جمع کرکے  دشمن سے لڑنے کیلئے کھڑا ہوگیا۔ بٹالین افسر نے کہا: جب تک تمہاری حالت بہتر ہے، واپس آجاؤ۔ لیکن اس سپاہی نے کہا: کیا میں تمہارے کہنے سے  جنگ پہ آیا ہوں جو تم مجھے واپس بلا رہے ہو؟ امام خمینی (رح) نے مجھ سے کہا ہے کہ میں جنگ پہ جاؤں، میں بھی جب تک زندہ ہوں ڈٹا رہوں گا۔ ابھی بھی عراق اور شام میں جوان اسی جذبے کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔"

وہ ایسا کیا دیکھ رہے تھے جو ہم نہیں دیکھ پا رہے تھے؟

جناب امیر حسین حجت، جو دستاویزی فلمیں بناتے ہیں، اس "یادوں بھری رات" کے آخری مہمان تھے۔ انھوں نے کہا: "میرا میدان جنگ کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ایسی جگہ جا رہا ہوں کہ جہاں گولے، بم اور شور شرابا اور جنگ ہوگی لیکن جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ جنگی علاقوں میں خاموشی اور سکون ہے۔ ہماری بس جب میدان جنگ کی طرف پہنچی تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ابھی جنگی علاقے نہیں آئے ہیں۔ ہمیں بعد میں اس جگہ کے بارے میں تفصیلی معلومات ملی۔ ہم جس جگہ گئے تھے اس علاقے میں ۲۰ ویں رمضان بریگیڈ  تعینات تھی۔"

دفاع مقدس کے اس جوان نے بتایا: "میرا اہم یادگار واقعہ ایک ضعیف آدمی کے بارے میں ہے۔ جب میں میدان جنگ پہ گیا تو ۱۶ سال کا تھا۔ میں چوکی میں سو رہا تھا۔ جب بیدار ہو تو ایک عجیب سی شکل کے انسان کو اپنے پاس دیکھا۔ میں نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں "نوری" ہوں۔ ان کا کمزور چہرہ، جنگ پر موجود ضعیف لوگوں سے مختلف تھا کہ جن کی سفید داڑھیاں تھیں، ان کا سر اور چہرہ مونڈا ہوا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس ضعیف نوری بابا کا تعلق ۲۰ ویں رمضان بریگیڈ سے ہے۔ نوری بابا کا حال و حلیہ عجیب سا تھا اور ان کی ظاہری حالت سب سے مختلف تھی۔ شاید یہ انسان بعض لوگوں کو عجیب سا لگتا ہوگا۔ ان کے پاس ہمیشہ بال بنانے والی مشین ہوا کرتی تھی اور وہ چہرے اور سر کو ہمیشہ مونڈ کر رکھتے تھے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ میدان جنگ میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بہت اہم ہے۔"

انھوں نے مزید بتایا: "جب بھی بریگیڈ میں نئی نفری آتی تھی، نوری بابا بریگیڈ کے بزرگ ہونے کے ناطے ان سے کہا کرتھے تھے: آیت الکرسی پڑھو، تمہاری جان محفوظ رہے گی، تم میں سے کئی لوگوں کے گھر والے تمہاری واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ساتھ کے لوگ قسم کھا کھا کر بتایا کرتے تھے کہ انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ نوری بابا کے آس پاس سے گولیاں گزر جاتی ہیں اور مشکل ترین حالت میں بھی وہ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوتے۔ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا اور میں نے کئی مرتبہ نوری بابا سے آیت الکرسی کا ماجرا دریافت کیا، انھوں نے ہمیشہ جواب دینے سے گریز کیا۔ میں کافی عرصے تک ان سے پوچھتا رہا۔ ہماری ایک طرح سے دوستی سی ہوگئی تھی۔ انھوں نے ایک دن میرے خیال میں تنگ آکر کہا: "دیکھو بیٹا! میں نے خدا سے ایک  عہد کیا ہے، اس سے ایک دعا کی ہے، کسی کو نہیں بتایا ہے ،صرف تمہیں بتا رہا ہوں اور میں ا س بات سے راضی نہیں ہونگا کہ تم کسی کو بتاؤ۔" میں نے نوری بابا کی یہ بات ابھی تک کہیں بھی نقل نہیں کی ہے۔ نوری بابا نے کہا: "میں شروع ہی سے جنگ پر موجود ہوں اور میں نے خدا سے چاہا ہے کہ آخر تک میری جان کو کچھ نہ ہو لیکن جنگ کے بعد بھی واپس نہ جاؤں۔" میں نے ان سے پوچھا: "کیا مطلب؟" کہنے لگے: "تم نہیں سمجھو گے۔" شہادت کی دعا کرنا ایک باعظمت دعا ہے لیکن ان حالات میں زندگی کی دعا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کہنے لگے: "میں بوڑھا ہوں اور اپنی زندگی گزار چکا ہوں، تمہیں نہیں معلوم کہ  اس جگہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے!" جب انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی تو ان کا لہجہ بدل گیا اور مجھے آج تک وہ یاد ہے۔ میں ان تمام سالوں میں اس جملے کے بارے میں سوچتا رہا ہوں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہاں پر زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے؟ وہ اس جگہ پر ایسا کیا دیکھ رہے تھے جو ہم نہیں دیکھ پا رہے تھے؟"

جناب حجت نے نوری بابا کی شہادت کے بارے میں بتایا: "ہوا بہت گرم تھی اور مشکلات سے بھرپور اذیت ناک آپریشن تھا۔ تین دن اور راتوں کے بعد تمام سپاہی بے حال پڑے تھے۔ ایک دن صبح کو جناب شریفی نے پوچھا: "نوری بابا نے ہمیں نماز کیلئے کیوں نہیں اٹھایا؟ جاؤ جاکر ڈھونڈو انھیں۔" ایک سپاہی نے ہمیں آواز دی، ہم نے جاکر دیکھا تو ایک ناہموار پہاڑی پر، نوری بابا قبلہ رُخ سجدے کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور پیشانی پر گولی لگنے سے شہید ہوچکے تھے۔ کسی کی ہمت نہیں ہو پارہی تھی کہ ان کے پاس جائے، ہم سب ان کے گرد کھڑے صرف انہیں دیکھ رہے تھے۔ بریگیڈ کے تقریباً اچھے خاصے سپاہی ان کے جنازے کے ساتھ ہی تہران آگئے تھے۔ ان کی تدفین  میں ان کی بیٹی کہہ رہی تھی: "وہ تم لوگوں کے بابا ہیں، میرے بابا نہیں ہیں!"

جناب حجت نے یہ بتاتے ہوئے مزید کہا کہ"میں تدفین کے بعد واپس گھر آگیا، دوستوں نے مجھ سے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا: "جنگ ختم ہوگئی ہے اور یہی ہوا۔ میں جب بھی زندہ رہنے کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے نوری بابا کی یاد آجاتی ہے۔جن دنوں میں نے دستاویزی فلمیں بنانے شروع کی تو میں ہمیشہ اس بارے میں سوچا کرتا تھا کہ خدا سے کون سی چیز طلب کرنی چاہئیے؟ اور زندگی کس طرح سے گزارنی چاہیئے۔ نوری بابا نے کہا تھا کہ میں یہ سب کسی کو نہ بتاؤں۔ اتنے سالوں بعد پہلی دفعہ میں نے یہ باتیں بیان کی ہیں۔"

"یادوں بھری رات" کے سلسلے کا ۲۷۴ واں پروگرام، مزاحمتی ادب اور ثقافتی تحقیقات و مطالعات  کے مرکز اور دفتر ادبیات اور مزاحمتی آرٹس کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۴ نومبر ۲۰۱۶ء کو آرٹ گیلری میں منعقد ہوا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4092


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔