ہمارے پاس صرف ایک راستہ تھا، ہمیں گولڈ میڈل لینا تھا

سب سے بڑی فضائی جنگ کے پائلٹس

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-5


سیکنڈ لیفٹینٹ پائلٹ محمود ضرابی کی ایرانی زبانی تاریخ کی وی سائیٹ کے اراکین سے ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں سامنے آنے والی باتیں وہ ہیں جو اُنھوں  نے اپنے واقعات سناتے ہوئے بیان کی۔ ایک ایسا آدمی جس نے اپنی زندگی کے سنہرے سال  بغیر کسی خوف و ہراس کے لڑاکا طیاروں کے کیبن میں گزار دیئے اور  وہ ہمیشہ سے ا س بات کے قائل ہیں  کہ ایمان اور وحدت دو ایسے عامل ہیں جو ہماری قوم کی کامیابی کا باعث بنے اور ہماری حالیہ نسل  کو چاہیے  وہ اپنے ملک کے حقیقی ہیروز کو پہچانے۔ اس دفعہ آٹھ سالہ مقدس جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ایئر فورس کے بہادروں کے کردار پر نظر ڈالیں گے۔

 

آپ اپنا تعارف کروائیں۔

عام طور سے خلا باز حضرات اس طرح سے بات شروع کرتے ہیں: آسمانوں کے خالق کے نام سے، میرا مقام آسمان کی بلندی ہے۔

میں خلاباز محمود ضرابی ہوں اور میں نے ایران کے محروم ترین علاقے کرمان کے ایک وسیع گھرانے میں ۱۴ مارچ ۱۹۴۷ء کو آنکھ کھولی۔

 

آپ خلا بازی کے شعبے میں کیسے آئے؟

میرے اندر جستجو کی عادت بچپن سے ہی تھی اور میرے ایک اُستاد تھے جو مجھ سے کہا کرتے: "تم ایسا کام کرو گے جو اس کلاس کا کوئی بچہ نہیں کرسکتا۔" اُس زمانے میں ہم جب بھی کچی گلیوں میں فوٹبال کھیلنا چاہتے، جیسا کہ ہمارے پاس فوٹبال تو ہوتی نہیں تھی اور پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کہ پلاسٹک والی فوٹبال خریدسکیں،  ہم اپنی ماؤں سے کہتے ہمارے پرانے کپڑوں سے ایک گول سی چیز سی دیں تاکہ ہم اُس سے کھیل سکیں۔ اُدھر سے ہم سال میں ایک سے زیادہ جوتے نہیں خریدتے اور ہمیں اُنہی جوتوں سے اسکول بھی جانا ہوتا اور کھیلنا بھی ہوتا، لہذا اُسے کھیل کیلئے مسلسل استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے ننگے پاؤں کھیلتے جس کی وجہ سے  ہمارا پیر زمین یا کسی پتھر سے ٹکراتا اور ہمارا ناخن ٹوٹ جاتا۔ جیسا کہ میرے سیدھے پیر کی دوسری انگلی کا ناخن نہیں ہے  اور اگر میں شہید ہوجاتا تو سب مجھے اس نشانی سے پہچانتے۔

اُس زمانے میں ہفتہ میں ایک دفعہ ہوائی جہاز ہمارے سروں پر  سے گزرکر زاہدان کی طرف جاتا  اور اگر وہ کرمان میں اُتر جاتا تو ہم  اُسے دیکھ نہیں پاتے تھے، اصل میں اتنے مسافر ہوتے ہی نہیں تھے۔ میں جب بھی آسمان اور ہوائی جہاز کو دیکھتا  تو خود سے کہتا: کیا واقعاً ایک دن ایسا آئے گا  کہ میں اس ہوائی جہاز کے پاس کھڑے ہوکر ایک تصویر کھنچواؤں گا؟ یعنی  یہ میرے لئے ایک خواب سا تھا،  اس میں سوار ہونے والی بات تو غیر قابل تصور تھی اور یہ کہ میں خود پائلٹ بن کر پائلٹ سیٹ پر بیٹھوں یہ تو میرے لئے بالکل ناممکن تھا،  لیکن غیر شعوری طور پر میرے ضمیر میں یہ بات تھی کہ اگر انسان اشرف المخلوقات ہے  تو پھر اُس کیلئے ہر چیز ممکن ہے۔ یہ وقت گزر گیا اور میں نے بہارستان کے خوارزمی اسکول سے میتھ میں میٹرک کرلیا۔ پڑھائی کے بعد میں کوئی کام شروع کرنا چاہتا تھا جو نہ ہوسکا؛ میں  ایئر فورس میں چلا گیا اور خودسے کہنے لگا میں جس کی تلاش میں تھا یہ وہی جگہ ہے،  لہذا سن ۱۹۶۸ء میں میرا ایئر فورس کالج میں داخلہ ہوگیا۔ اُس کے بعد میں نے امریکا جاکر گریجویٹ کرلیا اور سیکنڈ لیفٹینٹ کا درجہ حاصل کرکے لوٹ آیا۔ اُنہی سالوں میں میری اپنے اُسی استاد سے ملاقات ہوئی جو کہا کرتے تھے تم بقیہ افراد سے مختلف ہو، انھوں نے مجھ سے پوچھا کیا بن گئے، میں نے کہا سر آپ کے خیال سے میں، میں  کیا بنا ہوں گا؟ اُنھوں نے کہا پیراشوٹر بنے ہو یا پائلٹ۔ میں نے کہا: میں پائلٹ ہوں، کہنے لگے میں جانتا تھا تم ماجرا جو  ہو اور تم یقیناً اس پیشے کو اختیار کرو گے۔

 

امریکا میں ٹریننگ کا عرصہ کیسا گزرا؟

امریکی پائلٹ کالج میں ہم ۴۳ لوگ تھے،  ۴۰ افراد امریکی اور ۳ ایرانی۔ وہ تمام چالیس افراد امریکی ڈپلوما ہولڈر تھے،  اُسی ملک کی  یونیورسٹی سے گریجویٹ پاس کرکے  سیکنڈ لیفٹینٹ بن چکے تھے؛  حقیقت میں وہ لوگ پائلٹ  یا ایروسپیس فیلڈ میں ماسٹرز کرنے آئے تھے، ہم نے بھی بیس سال کی عمر میں گریجویٹ کرلیا اور وہاں چلے گئے تاکہ اُن کے ساتھ ملکر انگلش میں کلاسز اٹینڈ کریں۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ ایک شخص نے تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، لیکن امتحان کے وقت ہلکی سی نقل مارنے سے بھی کامیاب ہوجائے،  لیکن ہم لوگوں کا امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ  ہم نے جس کتاب کا مطالعہ کیا ہوتا تھا اُسے بند کرتے اور  ہوائی جہاز یا آسمان میں ٹیچرز کے سامنے ان تھیوریز کا پریکٹیکل انجام دیتےاور بالکل بھی چکر دینے یا نقل کرنے کا امکان نہیں ہوتا، حقیقت میں ہمارا سبق نظریاتی بھی ہوتا تھا اور عملی بھی۔ یہ حسِ ضرورت ہے جو انسان کو اختراع پر مجبور کرتی ہے، جو لوگ اس طرح کا پیشہ اختیار کرتے ہیں، وہ خلّاق ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ایسے انسان جو یکساں  اور روٹین لائف سے بیزار ہوتے ہیں، جو رسک  اور خطروں سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ۶ امریکی فیل ہوگئے اور  دورہ پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، لیکن خوش قسمتی سے ہم  تینوں ایرانی پاس ہوگئے۔

 

آپ نے گریجویٹ کرنے کے بعد کیا کیا؟

سن ۱۹۷۱ء میں جب ہم امریکا سے پلٹے تو ایئر فورس کالج گئے اور ہمیں وہاں سے F-4 کورسز کیلئے بھیجا گیا، ہم F-4 بٹالین میں مصروف ہوگئے تھے۔ قابل احترام مرحوم شہید رضا رضوی، F-4 بٹالین کے سب سے پہلے کمانڈر تھے۔ کورس پورا کرنے کے بعد طے پایا گیا کہ ہم تقریباً  ہزار گھنٹے  تک پچھلے کیبن میں پرواز کریں ، اُس کے بعد فرنٹ کیبن کے قابل ہوں گے ۔ ہماری ٹریننگ ختم ہونے کے بعد ہمیں شیراز بھیج دیا گیا اور اُس کے بعد ہمیں فرنٹ کیبن کی اجازت دیدی گئی۔ کچھ عرصہ بعد میں پچھلے کیبن کا استاد بنا، پھر زمینی کلاسز کا استاد بنا اور اُس کے بعد فرنٹ کیبن کا پائلٹ۔ فرنٹ کیبن پائلٹ کے مختلف درجہ ہوتے ہیں، اس طرح سے کہ جب آپ لڑاکا طیارے میں فرنٹ کیبن پائلٹ ہوتے ہیں، پہلے Non Leader (ایسا پائلٹ جو ابھی پرواز کے مراحل میں ہدایات اور رہنمائی تک نہ پہنچا ہو) پھر ترتیب سے لیڈر ۴، ۳، ۲ اور آخر میں  لیڈر ۱ ہوجاتا ہے۔ یہ تمام درجات سالوں اور گھنٹوں پرواز سے وابستہ ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میں اتنا آگے بڑھا کہ سن ۱۹۷۹ء آ گیا۔

میں ۳۳ سالہ میجر تھا جب انقلاب کی وجہ سے اس عظیم اور وسیع تبدیلی نے  حقیقت کا روپ دھارا اور سب جانتے ہیں  کہ ہماری قوم کی کامیابی میں دو مؤثر عامل کارفرما ہیں، ایک ایمان اور دوسرا وحدت۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے فرمایا اگر آپ کلمہ وحدت کی حفاظت کریں تو آپ ہر میدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہسپتال والوں کو زخمیوں کیلئے پٹی  کی ضرورت تھی، عوام نے ٹرک بھر بھر کے اپنی  بیڈ شیٹ بھیجنا شروع کردیں۔ آج حالات کچھ بدل گئے ہیں، ہمیں کچھ چیزوں سے صرف نظر کرنا پڑے گا، لیکن میں مطمئن ہوں کہ ہم ہمیشہ کامیاب رہیں گے چونکہ ہم یہ کام انجام دینا "چاہتے ہیں"۔ جب ہم نے امریکا میں پرواز کرنا شروع کیا، سب پہلا اسٹیکر جو ہمیں اپنی ورک ٹیبل، آفس یا گاڑی میں لگانے کیلئے دیا گیا، اُس پر لکھا ہوا تھا: "لڑاکا پائلٹ بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔" مطلب یہ کہ تمام پائلٹ انجام دے سکتے ہیں لیکن لڑاکا پائلٹ بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ حقیقت میں ہماری قوم کے ہر فرد نے تبدیلی اور  ترقی کی ضرورت کو  محسوس کرلیا تھا جس کے سبب یہ انقلاب کامیاب ہوا۔

 

کیا آپ کو وہ دو ایرانی یاد ہیں جو امریکا میں چند سالوں تک آپ کے ساتھ پڑھتے  رہے؟

جی ہاں، جناب ید اللہ جواد پور  جو ہماری ایکروجیٹ ٹیم میں تھے  اور جنگ کے بعد اُن کا ستارہ بہت جگمگایا اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا یا کینیڈا ہجرت کرگئے۔ دوسرا شخص جہانگیر ابن یمین تھا جو کمان آپریشن میں جنگ کے پہلےدن ، شام ۴ بجے، سب سے پہلے گروپ میں بوشہر چھاؤنی سے بغداد کی طرف گیا اور  وہاں بمباری کرکے واپس پلٹا۔

 

کیا آپ ان دو لوگوں سے رابطے میں ہیں؟

جی ہاں، جناب ید اللہ جواد پور سے چند دنوں بعد بات چیت کرکے احوال پرسی کرتا ہوں، لیکن جہانگیر ابن یمین  سے دوستی زیادہ ہے اور ہم مسلسل رابطے میں ہیں،  چونکہ وہ زاگرس طیارہ آپریشن کا رئیس ہے اور وہاں اپنی ملازمت میں مصروف ہے، وہ ایک موثر اور فائدہ مند انسان ہے۔

 

۲۲ ستمبر، سن ۱۹۸۰ء کو دوپہر  دو بج کر ۵ منٹ پر آپ کو خبر ملتی ہے عراق نے ایرانی سرحدوں پر حملہ کردیا ہے، آپ کہاں تھے  اور کیسے تھے؟

اُس زمانے میں ہم بوشہر میں تھے  اور وہاں لڑاکا ۶۲ اور لڑاکا ۶۳ نامی دو بٹالین تھیں جس کے کمانڈر  مہدی دادپی تھے، ڈپٹی کمانڈر جناب فریدون صمدی تھے جو بعد میں آئے تھے اور وہ میرے اُستاد بھی تھے۔  ہم نے ان دو بٹالین کو ایک ہی بنا لیا تھا اور مرحوم ابراہیم کاکاوند کے ساتھ چھٹی لڑاکا چھاؤنی میں آپریشن امور  کے مسئول تھے۔  ہمارے ہر ہیڈ کوارٹر میں ایک  کنٹرول روم ہوتا جہاں ہم  آپریشن  اور حربوں کی صورتحال کو مشخص کرتے۔ ہم اُس کنٹرول روم میں جو ہیڈ کوارٹر تھا، ایسی جگہ جو مستقبل میں ہمارے لئے  خطرہ ثابت ہوسکتی تھی، کئی گھنٹوں تک نقشوں کو مشخص کرتے رہتے۔ پڑوسی ممالک میں سے ایک جو زیادہ دُم ہلاتا تھا، وہ عراق تھا۔ ہم اس بات کا پتہ لگا چکے تھے کہ ہمارے ساتھ عراقی کی کتنی سرحدیں مشترک ہیں، اس کے اسٹریٹجک مقامات کہاں ہیں؛ فضائی چھاؤنیاں، زمینی افواج، پل، ریفائنریز و۔۔۔  اُن پروازوں کی نسبت جو ہم اس علاقے میں کرتے، اند ر بیٹھ کر پروازوں کے راستوں کو طے کرلیتے تھے اور ہمیشہ جتنے وسائل کا قصد کرتے اپنے ساتھ لے جاتے، ہر کام انجام دینے سے پہلے اُس کی پریکٹس کرتے تھے۔ امن کے زمانے میں جتنی زیادہ ٹریننگ ہوگی، جنگ کے زمانے میں اتنا ہی کم خون بہے گا۔

۲۲ ستمبر، سن ۱۹۸۰ء کو دوپہر  دو بج کر ۵ منٹ پر میں کنٹرول روم میں تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف سے کسی نے کہا: "محمود؟" میں نے کہا: "جی؟" اُس نے کہا: "مہر آباد پر حملہ ہوا ہے۔" جیسے ہی یہ کہا، میں نے بھی کہا: "یہاں بھی حملہ ہوا ہے اور ٹیلفیون کاٹ دیا۔" زوردار آواز کے ساتھ بمباری ہوئی۔ انھوں نے بقول خود Surprise Attack(غافلگیرانہ حملہ) کیا تھا۔  اُنھوں نے تہران، تبریز، ہمدان، بوشہر اور دزفول کی ۵ چھاؤنیوں پر ۲۲ ستمبر والے دن دوپہر ۲ بجے حملہ کیا، دوپہر ۲ بجے حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی  کہ ڈیڑھ بجے تمام افراد کی چھٹی ہوجاتی اور ہمارے تمام افراد بس میں بیٹھے  اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے تھے اور حقیقت میں وہ ابھی نہ تو گھر پہنچے ہوتے تھے کہ اُن سے واپس آنے کا کہا جاتا  اور نہ ہی چھاؤنی میں ہوتے تھے کہ اُنہیں روکا جاتا، یہ سارا کام طے شدہ پروگرام کے تحت ہوا تھا۔ ہماری ایئر بیس کا کچھ حصہ تباہ ہوگیا تھا، اس کے علاوہ ایک جیب  بھی، جس میں بیٹھے دو افراد زخمی اور بالآخر شہید ہوگئے  تھے۔ ہمارے یہاں میجر جنرل غفور جدی نامی ایک بہت ہی معزز  انسان تھے جو بعد میں شہید  ہوگئے، یہ فلائٹ سیفٹی آفیسر تھے، انھوں نے اس وقت مدد کی اور تباہ شدہ  رن وے کے اطراف کی مرمت کا کام انجام دیا۔ اُسی دن شام چار بجے ایئر فورس سربراہ کے حکم پر  تہران سے چار عدد  F-4 طیارے شعیبیہ ایئر بیس پر بمباری کرنے گئے اور وہ چاروں طیارے اور ۸ پائلٹ صحیح و سالم واپس آگئے۔

 

بالکل اُسی دن ۲۲ ستمبر کو حملہ کیا؟ اُن کے حملے کے دو گھنٹے بعد؟

جی ہاں، بالکل اُسی دن شام ۴ بجے اور اُن کے حملے کے دو گھنٹے بعد۔ ہر ایئر بیس سے یہ کام انجام دیا گیا اور یہ کام حقیقت میں ایک وقتی منھ توڑ جواب تھا۔  لیکن وہ سمجھ رہے تھے کہ ہماری تمام تر قوت بس یہی تھی۔ اُس سے اگلے دن جو ۲۳ ستمبر کا دن تھا، طے شدہ پروگرام کے مقابلے میں  ایئر فورس کے سربراہ میجر جنرل پائلٹ شہید جواد فکوری کی سربراہی میں، کمان ۹۹ پلان کے تحت جو اسلامی جمہوریہ ایران کی آرمی کا ابدی کارنامہ تھا ،  تمام ایئربیسز حرکت میں آئیں اور  ہم نے ۱۴۰ طیاروں  پر پرواز کرکے عراق کی پوری سرزمین، ایئر بیسز، فوجی بیرکوں، اسٹرٹیجک مقامات، ریفائنریز اور بجلی گھروں پر حملہ کیا اور اُس دن ہمیں محمد صالحِی اور خالد حیدری  کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ جب اُنھوں نے دیکھا کہ وہ بے بس ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے تو انھوں نے قریبی علاقوں اندیمشک اور دزفول  پر میزائل سے حملہ کیا، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے آرمی اور مسلح افواج کو حکم دیا ہوا تھا کہ شہروں اور انسانی بستیوں پر بالکل بھی حملہ نہ کریں اور ہم بالکل اُن کے دستور کے مطابق عمل کرتے  اور صرف فوجی مراکز کو ہدف قرار دیتے تھے۔ ہماری ۳۵۰ مختلف پروازیں تھیں جس میں ۱۴۰ طیاروں نے وہاں جاکر بمب گرائے اور واپس لوٹ آئے۔

 

جب سب سے پہلا بم  بوشہر ریفائنری پر گرا تو آپ نے کیا کیا؟

اُس دن بڑے بڑے لوگ تیار تھے کہ آخری دم اور آخری لحظہ تک  اس دفاع میں شرکت کریں۔ میں نے یہ بات کئی دفعہ اپنے انٹرویوز میں کہی ہے کہ  جب بوشہر ریفائنری پر پہلا بمب گرا،  میرے اندر ایک ایسے باکسر کا احساس جاگا  جو رنگ کے اندر  ہے لیکن اُس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ایک آدمی مسلسل اُسے مار رہا ہو، اُس لمحے ایک لڑاکا پائلٹ کے عنوان سے میرا دل چاہ رہا تھا کہ اگر مجھ سے کوئی کام نہیں بن پا رہا تو زمین پھٹ جائے اور میں اُس میں دھنس جاؤں۔ لیکن میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں اُس دن سے آج تک ۳۶ سال گزر نے کو ہیں،  میں نے جنگ اور دفاع مقدس کے معاملے میں کسی کے سامنے اپنی بڑائی بیان نہیں کی۔ لیکن میری زندگی کے بہترین اور سالم ترین لمحات کا زمانہ وہ تھا جب میں لڑاکا طیارے کے کیبن میں ہوتا اور میرے سامنے جو بھی آئے میں اُس سے مردانگی کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار رہتا۔  البتہ میں خوف کا انکار نہیں کرسکتا کیونکہ یہ انسان کے وجود کا حصہ ہے  جسے خدا نے ہمارے بدن میں رکھا ہے، اُسے ابھارنے کیلئے کچھ عوامل کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی طیارے کے کیبن میں جنگی حالت میں خوف کا احساس کیا ہو، خاص طور سے ہم نے کیبن میں جو اسٹیکر لگایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا: "و جعلنا من بین ایدیھم سدا"  اور ہمارا ایمان تھا کہ جب ہم اُن کے سروں پر پہنچتے ہیں تو وہ اندھے، بہرے اور گونگے ہوجاتے ہیں  اور ہم اُن کی دفاعی پوزیشنوں سے بھی گزر جاتے اور وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے، اسی وجہ سے تو ہم سوچا کرتے تھے کہ جنگ ایک ہی ہفتہ میں ختم ہوجائے گی، ایک ہفتہ جو آٹھ سال طولانی ہوگیا۔ اس کا نام " سب سے بڑی فضائی جنگ "پڑا، یعنی کوئی بھی فضائی جنگ آٹھ سال تک نہیں چلی۔

 

صدامی افواج کی تو مسلسل حمایت ہورہی تھی، تو ایسے میں آپ اُن کے مقابلے میں کیا کرتے؟

ہم نے  مفلسی میں جنگ لڑی ہے۔ اگر ہم دشمن کے طیاروں، فوجی سامان یا انجیئر کو مارتے، تو دوسرے  دن کوئی اور اس کی جگہ آجاتا۔ لیکن ہم نے بہت ہی کم وسائل کے ساتھ جنگ لڑی۔ انقلاب آئے ہوئے ابھی ۲۰ مہینے ہی گزرے تھے اور سپاہ ابھی تشکیل کے مراحل سے گزر رہی تھی اور صر ف ایک آرمی مشینری ، مسلح، تعلیم یافتہ، ٹریننگ یافتہ، ماہر اور انقلاب اور ملک کے عاشق آمادہ تھے کہ درحقیقت  جنہیں ملک کے اندر بھی ٹریننگ دینی تھی اور محاذ پہ لڑنا بھی تھا۔

ہم اکثر اوقات ایک ٹینک اُڑانے کیلئے فانٹوم طیارے پر جاتے،  جسے ایک آر پی جی  گن سے بھی اُڑا جاسکتا تھا،ایسا اس لئے کرتے کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ اگر ایران نہیں رہا تو ہمارے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے معزز شہید حسین خلعتبری کہا کرتے تھے: "جب تک ان گندے بعثیوں کے پاؤں خاک پر ہیں ، ہمارا خاک پر سجدہ کرنا ظلم ہے۔" ہمارے  لوگوں نے ایسے ہی اعتقادات  کی وجہ سے مردانگی کے ساتھ جنگ لڑی۔ ہم عاشقانہ انداز میں جنگ لڑتے، مثلاً غفور جدی کو فرض کریں جب  قبضہ چھڑانا چاہتے تھے تو اُسے بھی چلنے کو کہا گیا۔ وہ اپنے گھر والوں اور سامان سے لدھے ٹرک کے ساتھ دروازے پر تھا اور آسانی سے امریکا یا کسی اور ملک  جاکر اپنی زندگی کے مزے اڑا سکتا تھا، لیکن اُس نے اپنی گاڑی اور گھر والوں کو بھیج دیا اور اُن سے درخواست کی کہ اُسے بغیر کسی تنخواہ اور عہدے کے معمولی لباس میں رہنے دیاجائے تاکہ وہ جنگ کے ختم ہونے تک صرف رن وےکی مرمت کا کام انجام  دے سکے۔ بالآخر کمانڈر سے خط و کتابت ہوئی اور اُس کے ڈیوٹی پر جانے کا حکم آگیا ۔ یہی شخص ۸ نومبر کو اُسی سال  (۱۹۸۰ء) جام شہادت نوش کرتا ہے۔ ہمیں دنیا میں  اس طرح کے شجاع ترین مرد کہاں ملیں گے؟

ابو الفضل مہدیار کو نوژہ بغاوت میں مخبری کی وجہ سے سزائے موت کا حکم سنایا گیا، جو میری نظر میں خالی شک تھا۔ اس نے خود مجھے بتایا ہے  کہ مجھ سے تین دفعہ وصیت لکھنے کیلئے کہا گیا اور میں نے تینوں دفعہ تختہ دار پر جانے سے پہلے وصیت لکھی اور میری سزا تینوں دفعہ ہی  ملتوی ہوگئی۔ پھر ایک زمانے میں رضاکارانہ طورپر پرواز میں حصہ لینا کا اعلان ہوا تو وہ بوشہر آگیا اور اُس کے وہاں چند دن رہنے سے ہم متوجہ ہوئے کہ پہلے اُس کا وزن ۷۵ کلو تھا اور اب ۶۰ کلو رہ گیا ہے۔ ہم نے اُس کی کچھ دیکھ بھال کی اور وہ تین نمبر کی ایک پرواز میں، جو میری پرواز تھی اور محمود شادمان بخت اُس کے پچھلے کیبن میں تھا، واپس آتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوجاتا ہے  اور بہت  ہی بزدلانہ انداز میں اُس پر برسٹ مارا جاتا ہے اور وہ جام شہادت نوش کرلیتا ہے۔ یہ لوگ عاشق تھے اور انہیں یقین تھا کہ  ایران میں اگر کوئی فیلڈ نہ ہو تو ہم اسے باہر سے وارد کرسکتے ہیں،  جیسے ڈاکٹر، انجینئر، مزدور وغیرہ؛ لیکن جو طیاروں میں لڑنا چاہتا ہے اُس کی رگوں میں حتماً ایرانی خون ہونا چاہیے؛ اسے وارد (import) نہیں کیا جاسکتا۔

میں نے کئی بار کہا ہے کہ فلموں کے کٹ پتھلی ہیروز ہماری اولاد کے واقعی ہیروز نہیں ہیں، اُن کی زندگی کے  ہیروز سفید بالوں والا اصغر، عباس دوران، علی رضا یاسینی، علی بختیاری اور علی رضا نمکی جیسے افراد ہیں۔ امریکا میں ابراہیم امید بخش، جہاں امریکائی گریجویٹ کرنے کے بعد ماسٹر کرنے آتے ہیں اور پائلٹ بنتے ہیں، وہ اُن کے درمیان ٹاپ کرتا ہے ؛ منوچہر متقی ہمارا ہیرو ہے، جوایران کی فضائی جنگوں کا ایک مرد دلاور ہے؛  ہم نے تاریخ میں کبھی ان کا نام نہیں دیکھا، کیونکہ اُنھوں نے کبھی یہ کام اپنا نام کمانے کیلئے نہیں کیا، بلکہ انھوں نے دلی لگاؤ اور قلبی اعتقاد کے ساتھ یہ کام انجام دیا۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم نے ایک پائلٹ کو بحری افواج سے رابطے  کے عنوان سے منتخب کیا، وہ امیدیہ ایئر بیس گیا ہوا تھا  اور وہاں سے بحری افواج کے ساتھ پرواز کی۔ وہ لوگ پانی کے اوپر ہیلی کوپٹر میں بیٹھے پرواز کر رہے تھے۔ ہمارے پائلٹ جس کا نام شریفی تھا اُسے پکار کر اُس سے پوچھتے ہیں کیا اب تک ہیلی کوپٹر یا کسی اور  جہاز کے ذریعے پانی پر اتنی نیچی پرواز کی ہے؟ اچانک وہ ہیلی کوپٹر کو بہت تیزی سے اوپر کی طرف لے جاتا ہے، پائلٹ شریفی سے اس کام کی وجہ دریافت کرتے ہیں، وہ بتاتا ہے: "دو فانٹوم طیارے ہمارے نیچے سے گزرے ہیں!" اُس پائلٹ نے اپنے اخباری انٹرویو میں بتایا کہ وہ دو طیارے پانی سے اتنے نزدیک تھے  کہ اُن کے اگزاز فین سے نکلنے والی گرمائش کے سبب خلیج فارس کی مچھلیاں کباب بن رہی تھیں!

وہ اپنی جان سے گزر جاتے، چونکہ اُن کا ہدف مقدس تھا۔ ابو الفضل مہدیار، محمو دشادمان بخت، ناصر دژپسند اور محمد میر جیسے لوگوں نے واقعاً بڑا کام کیا ہے۔ ناصر دژپسند کی والدہ کہتی ہیں میں نے ناصر کو باپ کے بغیر پروان چڑھایا۔ ناصر ایئر فورس میں چلا جاتا ہے۔ جب وہ پائلٹ بنتا  ہے تو  اکتوبر کے مہینے میں پرواز پر چلا جاتا ہے اور پھر کبھی لوٹ کے نہ آیا ۔ اُس کی ماں نے ناصر کی قمیض سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اور کہتی ہیں: "ایک دن ناصر واپس آئے گا۔"

 

آپ کے بہترین دوست اور ساتھی کون لوگ تھے؟

سید علی رضا یاسینی میرے  بہترین دوستوں میں سے ایک  تھا اور ہم اکٹھے پرواز کرتے تھے۔  اگر میں ایئر فورس کے بہترین افراد کا نام بھی لینا چاھوں تو بے شک اُن میں سے ایک عباس دوران ہے ، ایک یاسینی۔ سفید بالوں والا آذر، منوچہر محققی، علی رضا نمکی اور یداللہ جواد پور، صمد بالا زادہ اور مرحوم حسن بنی آدم جیسے افراد نے اپنی جان کی بازی لگائی  تو پھر ہم اس قابل ہوئے کہ اہم کاموں کو انجام دے سکیں۔

 

اس بورڈ پر (آپ کے پیچھے) جو چند پائلٹس ہیں  ان کا تعارف کروائیے۔

شہید علی رضا یاسینی، ہر دلعزیز شہید عباس دوران (فضائی  افواج کی تاریخ میں ایسا شخص پھر نہیں آسکتا)، امیرفریدون صمدی (اُس زمانے میں ڈپٹی ایئربیس کمانڈر)، فریدون ذوالفقاری (جو F-4طیارے پر بیٹھ کر صدام کے محل، عراق اسمبلی اور دوسرے مقامات کے اوپر سے گزرتا اورہمارے لئے  بہت ہی نیچے سے لی گئی تصویریں کھینچ کر لاتا)، اصغر ایمانیان (انقلاب کے بعد ایئر فورس کا پہلا کمانڈر)، شہید فکوری، مرحوم ماشاء اللہ عمرانی، مرحوم قربان زادہ (ایئر فورس آپریشنز ٹریننگ کا اسٹاف) و غیرہ ۔ یہ معزز افراد بھی مجموعی طور پر اپنا وظیفہ انجام دے رے ہیں: امیر درہ باغی (ایئر فورس کے سابقہ ڈپٹی کمانڈر) و امیر سید رضا پردیس (جو آجکل ایئر فورس میں اعلی افسروں کی مشاورتی ٹیم میں ہیں)۔ اور ان قابل احترام لوگوں نے بھی پائلٹ یونٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے:کیپٹن سید جلال شیخانی اور وہ دوسرے میرے استاد نصرت اللہ عبد اللھی فرد ہیں جو سن ۱۹۶۱ء میں ایکروجیٹ اُڑاتے تھے  اور  سرزمین ایران کی ایوی ایشن کے معززین میں سے ہیں۔ ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے اختتام یعنی اگست سن ۱۹۸۸ سے لیکر آج تک ۱۴۰ پائلٹ انتقال کرچکے ہیں۔

 

آپ کے خیال میں ایئر فورس میں آپریشن کے وقت کس شخص یا کس یونٹ پر زیادہ سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

ایئر فورس میں سب کے تعاون سے کام ہوتا ہے، یعنی ایک آپریشن کیلئے گیٹ کیپر سے لیکر ایئر فورس کمانڈر تک  ملوث ہوتے ہیں۔ ایک آپریشن میں  تعمیراتی بٹالین، موٹرز، ٹرانسپورٹ، ہیلی کوپٹر اور ایندھن لے جانے والے طیارے سب ملوث ہوتے۔ ایچ تھری آپریشن میں ہماری پرواز ۴ ہزار کلو میٹر بلندی سے نیچے کی طرف تھی اور ایندھن پہنچانے والے بھاری بھر کم ۷۴۷ طیارے سے ہم نے ۴ بار پٹرول بھرا۔ دشمن نے کہا یہ تو گرج چمک ہے! اردن کے بارڈر پر ہمیں کوئی نہیں مارے گا! ہمارے پرائیوٹ روم کو کوئی نہیں اُڑائے گا! لیکن ہمارے بہادر جاتے اور بمباری کرکے لوٹتے۔

 

کیا آپریشن کے وقت آپ کے پاس  بہبود (Recovery)کے امکانات ہوتے؟

ہمارے پاس ایک آلہ تھا جسے ہم اپنے طیاروں کے پروں کے نیچے نصب کردیتے  اور جب ہم دشمن کی حدود میں داخل ہوتے، ہم کہتے کہ تمام پیڈ روشن ہوجائیں۔ حقیقت میں اس آلہ کا کام یہ تھا  کہ دشمن کے ریڈارپر ایک ہرے رنگ کا صفحہ ہوتا تھا، اور یہ ایک سفید دانے کے بجائے سینکڑوں دانے  دکھائے اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان سفید دانوں میں سے کون سا رنگ اصلی ٹارگٹ ہے۔ ہم اس آلہ کے ساتھ دشمن کی سرزمین میں داخل ہوتے، ٹارگٹ پر مارتے اور واپس آجاتے، البتہ کبھی کبھار حادثہ بھی پیش آجاتا۔

شہید دوران کی ڈائری میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک رات آپ کو ایک جگہ پرواز کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، شہید دوران کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دوسرا نہیں تھا اور وہ اس کے باوجود کہ دن میں دو دفعہ پرواز کرچکے تھے، پرواز کو قبول کرتے ہیں  اور آپ کی پریشانی کو دور کردیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ تہران سے ایک Frag (کامل طریقے سے ماموریت انجام دینے کا حکم)آیا  ہماری فوجوں کو شادگان اور امیدیہ (آغاجاری سے آگے) میں مشکل پیش آگئی ہے اور وہ دشمن کے خلاف جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ رات ہے اور اندھیرا ہورہا ہے اس لئے نہیں کرسکتے، اگر ہمارے پاس فلیش ہوں اور وہ آن ہوجائیں تو  ہمارے زمینی توپخانے بہتر طور سے یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ طے پایا کہ ہم طیارے کے ساتھ اُن کیلئے فلیشز بھیجیں تاکہ جب اُس علاقے میں پہنچے  تو فلیشز اُتار لئے جائیں۔ میں اور مرحوم ابراہیم کاکاوند اس فکر میں تھے کہ اب کیا کریں اور رات کے اس وقت کس سے کہیں۔ ایک شخص اندھیرے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ وہ خوبصورت شیرازی لہجہ میں بولا: "کاکوتمہیں کیا پریشانی ہے؟ میں جاؤں گا۔" میں نے کہا: "نہیں، تم صبح سے اب تک دو پرواز کرچکے ہو۔ میں ابھی ہاسٹل کی طرف مینی بس بھیجتا ہوں۔" میں جب بھی مینی بس بھیجتا، پائلٹ کہتے کہ ضرابی نے موت کی مینی بس بھیجی ہے اور اگر جاگ بھی رہے ہوتے تو سونے کی اداکاری کرنے لگتے تاکہ جس کا پیر بھی ہلتا ہوا دیکھیں اُسے پرواز کیلئے بھیج دیں۔ دوران نےکہا: "نہیں اُنہیں مت جگاؤ، میں خود جاتا ہوں۔" ہم نے ایک آدمی کو ڈھونڈا اور اُسے عباس کے ساتھ بٹھادیا اور فلیشز کو طیارے میں رکھ دیا۔ ہم جب بھی رن وے پر آنا چاہتے، پھر کسی سے کوئی رابطہ برقرار نہیں کرتےتھے، چونکہ ہماری فریکوینسیاں ہوا میں منتشر ہوجاتیں جس کے نتیجے میں وہ ہمارا کھوج لگا لیتے اور سمجھ جاتے کہ کون، کہاں سے کیا کام انجام دے رہا ہے۔ طے تھا کہ ہم بغیر بات چیت کئے کھڑے ہوا کریں، وہ طیارہ اُڑا کر چلا گیا اور آدھے گھنٹے یا ۴۰ منٹ بعد اطلاع دی گئی کہ طیارہ واپس آرہا ہے۔ ایسا کم ہی یا شاید ہوا ہی نہیں تھا، لیکن F-4 طیارے کا پورا الیکٹرک سسٹم خراب ہوچکا تھا اور وہ بغیر الیکٹرک کے کوئی انجام نہیں دے سکتے تھے، لہذا اُنہیں مجبوراً واپس آنا پڑا۔ ہم نے اُن پیڈز اور فلیشز کو کسی دوسرے طیارے پر لوڈ کیا اور طے کیا کہ دوسرے دو پائلٹ بھیجے جائیں کہ عباس نے کہا: "کاکو کام وہی انجام دیتا ہے جو اُسے تمام کرتا ہے۔" میں مان گیا۔ یہ بہادر، یہ ایئر فورس کی تاریخ میں فراموش نہ ہونے والا مرد، طیارے پر بیٹھا اور وہاں فلیشز اُتار  کر واپس آیا۔ دوسرے دن ہمیں خبر دی گئی کہ ہماری فوجیں بہترین طریقے سے وارد عمل ہوئی ہے اور مطمئن  طریقے سے کام انجام پاگیا ہے۔ یعنی اس شخص نے ملک کی بقاء کیلئے کسی چیز سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جب اُسے یقین ہوتا کہ وہ انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ، پس وہ انجام دیتا۔ اُس کی ڈکشنری میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

 

پائلٹ داریوش عبد العظیمی جب حادثے کا شکار ہوئے اور آپ اُن کی عیادت کرنے ہسپتال گئے، وہاں انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ضرابی میں ڈرپوک ہوں یا تمہارے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے؟ میں جب عراقی سرزمین میں داخل ہوتا ہوں تو میرا منھ کڑوا ہوجاتا ہے تو آپ جواب میں کہتے ہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے؛ یہ کیا ماجرا ہے؟

داریوش عبد العظیمی F-4 طیارے کا پائلٹ اور بہت مخلص اور صاف آدمی تھا وہ ایک پرواز میں حادثہ کا شکار ہوجاتا ہے اور اُس کے بدن کے بہت سے جوڑ ٹوٹ جاتے ہیں جس کے سبب اُسے ایئرفورس ہاسپٹل میں ایڈمٹ کردیا جاتا ہے۔ میں بھی اپنا وظیفہ ادا کرنے کی غرض سے اُس کی عیادت کیلئے گیا، میں نے دیکھا کہ گردن سے لیکر پیر تک اُس کے پورے بدن پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے اور کمرہ بھی اُس کے چاہنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب کمرا خالی ہوا تو اُس نے مجھ سے کہا: "کیا میں ایک چیز پوچھ سکتا ہوں؟" وہ اُس کیپٹن تھا اور میں میجر، وہ یاسینی اور دوران کی طرح  میرا بہت احترام کرتا تھا؛ حقیقت میں وہ لوگ بہت ہی مؤدب تھے۔ اُس نے کہا: "میں جب بھی عراقی سرزمین میں داخل ہوتا ہوں، ایک چیز کا احساس کرتا ہوں۔" میں نے پوچھا: "وہ کیسے؟" اُس نے کہا: "فوراً ہی میرا منھ کڑوا ہوجاتا ہے۔ یہ بات میں نے سعید فریدونی سے پوچھی، اُس کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔" میں نے کہا: "داریوش میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔" میں نے بعد میں ایک ڈاکٹر سے اس مسئلہ کو دریافت کیا، اُس نے کہا یہ مسئلہ کاملاً قدرتی ہے، جب  آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے،  آپ کے بدن میں کچھ فعل و انفعالات رونما ہوتے ہیں جو حقیقت میں آپ کو وارننگ دے رہے ہوتے ہیں کہ آپ اجنبی علاقے میں ہیں۔

جو افراد المپیک کیلئے جاتے ہیں وہ لوگ گولڈ، سلور یا کانسی کا میڈل لیتے اور ساتھ میں اُنہیں کچھ پیسے بھی دیئے جاتے ہیں جو اُن کے اپنے لئے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم جب پرواز  پرجانا چاہتے تو ہمیں کچھ عراقی کرنسی اور ایک ریوالور دیا جاتا اگر ہم کامیاب لوٹتے تو ہم سے یہ پیسے اور ریوالوار واپس لے لیا جاتا اور اگر ہم وہاں زمین پر گر جاتے تو وہ ہمارے اپنے لئے ہوتے۔ درحقیقت فضائی جنگ میں ہمارے لئے سلور یا کانسی کا تمغہ وجود نہیں رکھتا، ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہوتا  ہے اور ہمیں حتما گولڈ مڈل لینا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی دوسرے لڑاکا طیارے سے لڑتے ہیں، تو طریقہ یہ ہوتا کہ وہ طیارہ آپ کا مارنا چاہتا ہے اور آپ نے اُسے گرانا ہوتا ہے اور اگر آپ اُسے گرادیتے ہیں تو  پیسے اور ریوالوار واپس دے دیتے ہیں لیکن گولڈ مڈل حاصل کرلیتے ہیں اور اگر نہیں مار پائے تو پھر  بہشت زہرا میں پھول کی ایک ڈنڈی کے ساتھ سوجائیں۔ یہاں صرف تمغہ طلاء دیتے ہیں اور آپ میرے پیچھے اس تصویر میں جن افراد کو دیکھ  رہے ہیں، یہ سب آٹھ سالہ مقدس جنگ کے گولڈ مڈلسٹ ہیں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4108


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔