عزیز اللہ فرخی کی جنگ اور اسیری کے واقعات۔ دوسرا اور آخری حصہ

عراقیوں نے کہا: ہم تمہارے اسیر تھے!

انٹرویو:مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-15


عزیز اللہ فرخی، دفاع مقدس اور ایران پر تھونپی گئی عراقی  جنگ کے ایک دلاور اور آزادشدہ قیدی ہیں۔ وہ سن  ۱۹۶۳ء میں تہران میں پیدا ہوئے، انھوں نے ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے اپنے محاذ کے واقعات اور اس طرح عراقی افواج کے کیمپ میں گزرے اسیری کے واقعات کے بارے میں  گفتگو کی۔ اس انٹرویو کا پہلا حصہ، جناب فرخی کا پہلی دفعہ محاذ پر جانے اور خرم شہر کی آزادی کےواقعات  اور وہ لمحات جب  عزیز اللہ زخمی ہوئے، یہ سب آپ پڑھ چکے ہیں۔

 

تھوڑا آگے بڑھتے ہیں ، آپ نے زخم ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ محاذ پر جانے کا ارادہ کیا ؟ کس سن میں اسیر ہوئے ؟

نومبر ۱۹۸۳ء؛  البتہ میں مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا تھا ، چونکہ میرے دونوں پیرزخمی تھے، صحیح ہونے میں ٹائم لگا ، بہت زیادہ چوٹیں آئی تھیں۔  جیسے جوتے پہننے کے قابل ہوا میں نے محاذ کا رُخ کیا۔ جوتوں کو ابھی بھی کس کے نہیں باندھ سکتا، مجھے کپڑے والے اسپورٹ شوز پہننے پڑے۔ اُس وقت میں نے زور زبردستی فوجی جوتے پہنے اور کہا کے مجھے جانا ہے۔ سن ۱۹۸۳ء نومبر کا مہینہ تھا کہ میں والفجر 4 آپریشن میں زخمی ہوا  جس کے سبب اسیر کر لیا گیا۔

 

آپ کس سن میں آزاد ہوئے ؟

دوسرے قیدیوں کے ساتھ سن  ۱۹۹۰ء میں۔

 

یعنی سات سال۔  آپ نے 6 یا 7 رمضان وہاں گزارے ؟

کیونکہ وہاں کھانا کم ہوا کرتا تھا ، ہم ماہ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتے تھے ، زیادہ تر افراد ماہ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتے تھے ، جو افراد زخمی نہیں ہوتے اور روزہ رکھ سکتے وہ روزے رکھتے ، کیونکہ کھانا اس قدر نہیں ہوتا تھا کہ پیٹ بھر کر کھا سکیں ، میں بھی چونکہ زخمی تھا اور ضرورت تھی کہ میرے زخم بھریں میرے لئے کافی مشکل تھا ، لیکن اس کے علاوہ کوئی راہ حل بھی نہیں  تھا ، کھانا کم ہونے کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنا معنویت کے حوالے سے بھی بہت زیادہ فائدہ مند تھا ، روزہ رکھنے سے بہت زیادہ معنوی لذت کا احساس کرتے تھے ، کلی طور پر ایسی جگہوں پر عبادات میں زیادہ لذت کا احساس ہوتا ہے  جب ہر جگہ سے امید ٹوٹ جائے اور آپ کی امید صرف اس خدا سے بندھی ہو یہ امید بہت کام کرتی ہے اور یہ عبادت ہے یعنی خدا سے اُمید ۔  ماہ رمضان کے علاوہ بھی لوگ روزے رکھتے اور لذت معنوی سے بھرہ مند ہوتے اور خاص طور پر چند ہم سن اور ہم فکر افراد ایک ساتھ ہوتے اور افطار  کے وقت جس کے پاس جو کچھ ہوتا وہ لے آتا ۔

 ماہ رمضان میں یہ رونق چند برابر ہوجاتی اور کھانے کا وقت بھی یکسر تبدیل ہوجاتا ، ایک اور خاص کام یہ ہوتا کہ ہم رات کا کھانا باہر لے جاسکتے تھے اور اس طرح ہمیں آسمان دیکھنے کا موقع مل جاتا ، ہم باری باری جاتے اس طرح رمضان میں سب کو تین چار بار موقع مل جاتا کہ باہر جائیں اور کھلی فضا میں تھوڑا وقت گزار کر آجائیں، برتن زیادہ ہونے کی وجہ سے صبح، دوپہر  اور رات کا کھانا ایک ساتھ ہی دیتے تھے ، ناشہ کیلئے چند چمچے سوپ دیتے، دوپہر کیلئے تھوڑے سے چاول اور سوپ کی طرح کی کوئی چیز رات کے کھانے کیلئے۔ ہم انہیں لینے کیلئے جاتے جو آسمان اور ستارے دیکھنے کیلئے ایک اچھا موقع ہوتا۔

اکثر کیمپوں میں ایسا ہوتا تھا کہ اگر وہاں کوئی سن رسیدہ شخص ہوتا تو وہ سب افراد کو جگانے کے لئے صبح آواز لگاتا۔ ان میں سے ایک جناب خلیل تھے۔ اُس وقت بوڑھے تھے۔ بسیجی بھی بوڑھے تھے یا فوج  یا ملٹری کے وہ افراد جو سن رسیدہ تھے۔ اکثر بسیجی کم عمر ہوتے تھے یا پاسدار کے لوگ جو جوان ہوتے، ان کے علاوہ ہم میں بوڑھا شخص کم ہی ہوتا۔ سحر سے ایک گھنٹہ پہلے آواز لگانا شروع کردیتے ۔ جناب خلیل ہمیشہ پرانے اور معنوی اشعار پڑھتے ، تاکہ لوگ آہستہ آہستہ سحری اور عبادت کے لئے اٹھ جائیں، بہت سے افراد نماز شب اور قرآن پڑھنے میں مشغول ہوتے۔ اور وہ افراد جو اس وقت تک عبادت سے محروم رہ جاتے آواز لگانے سے اٹھ جاتے تھے۔ ایک گلاس پانی سے وضو کرتے ، بیت الخلا کے لئے بھی جگہ بہت غیر مناسب تھی کہ کیمپ کے ایک کونے میں  ایک پردہ لگایا ہوا تھا اور ایک بالٹی تھی۔ بہت ہی برے حالات تھے۔  دشمن ہمیں سب کے سامنے ذلیل کرنا چاہتا تھا، مثلاً آپ قضائے حاجت کیلئے اپنے دوستوں کے سامنے  پردے کے پیچھے جائیں یہ تو بہت ہی برا ہے۔لیکن معنویت کی قدرت بہت زیادہ ہے جو ان تمام مسائل کو حل اور دشمن کی جانب سے روحانی شکنجہ کو ایک مذاق بنا دیتی تھی۔ اس طرح سے کہ آخری ایام  میں عراقی ہم سے کہتے ہیں ہم تمہارے قیدی ہیں، تم ہمارے قیدی نہیں ہوں۔  ان میں سے ایک جس کا نام غانم تھا میرے پاس آکر کہنے لگا:  "عزیز ! خدا کی قسم عزیز، ہم تمہارے قیدی ہیں۔" میرے لئے بہت دلچسپ بات تھی ۔میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنا گھٹیا انسان، اس طرح کا اعتراف کرے گا۔  رات کے ایک بج رہے تھے۔ میں کیمپ کا انچارج تھا اور جاگ رہا تھا۔ کھڑکی کے آگے لگی جالی کے پاس آیا اور کھٹکھٹا کے یہ بات کہی۔ پھر میں ہنسا اور اُس سے کہا:" جب تمہارا دل چاہا تم نے مارا، بھوکا اور پیاسا رکھا،  انفرادی زندان میں بھیجا! پھر اب کہہ رہے ہو ہم تمہارے اسیر تھے؟ یہ تم کس طرح کے اسیر ہوئے؟ تم ابھی باہر ہو، ہم اندر ہیں۔" کہنے لگا: "صحیح کہہ رہے ہو، لیکن تم لوگ جو کام انجام دینا چاہتے تھے ہم  تمہیں اُس کام سے  روک نہیں سکے۔ ہم جس کام کو بھی ممنوع قرار دیتے، تم لوگ انجام دیتے۔ ہم کہتے دعا نہیں پڑھو، پڑھتے تھے، ہم کہتے ماتم نہیں کرو،  کرتے تھے، ہم کہتے با جماعت نماز ادا نہ کرو، نماز باجماعت پڑھتے تھے۔ ہے ناں، یہ ہم کیسے امیر تھے؟ امیر تو تم لوگ تھے، جس کام کا تمہارا دل چاہا تم نے کیا، لہذا ہم تمہارے قیدی تھے۔" اُس نے کچھ عجیب جملات بھی کہے: "بھائی میں جب اپنے محلے میں جاتا ہوں، میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں غانم بہت حزب اللھی ہوگئے ہو۔" میں نے کہا: "اوہ، اوہ، وہ کتنے خبیث ہیں جو تم جیسے خبیث کی تعریف کر رہے ہیں۔" (ہنستے ہوئے)۔ وہ ہمارے افراد کے رویوں کو دیکھ کر اس طرح سے ہوگئے تھے؛ جب بھی کیمپ کے سامنے سے گزرتے تو دیکھتے کچھ لوگ قرآن پڑھنے میں مشغول ہیں، کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ بھاگ رہے ہیں اور ورزش کر رہے ہیں، کچھ لوگ فوٹبال کھیل رہے ہیں۔یہ لوگ عجیب و غریب توقعات رکھتے تھے کہ ہم لوگ جوان ہیں اور روزانہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔  لیکن یہ ۵۰- ۶۰ جو کیمپ کے کٹھن ماحول میں رہتے ہیں اور ان کے پاس کم کھانا، کم پانی اور کم وسائل ہوتے ہیں،کبھی بھی کوئی کسی دوسرے  پر چلاتا نہیں ہے، کیوں؟ چونکہ ان لوگوں کے ذہن میں اچھائی کے علاوہ کوئی چیز نہیں، اچھا رویہ، عبادت اور ایک دوسروں سے بھائیوں کی طرح ملتے ہیں۔ یہ شخص ہماری نظر میں بہت ہی برا انسان تھا لیکن اس نے اعتراف کیا کہ تم لوگوں کی معنویت مجھ پر اثر اندازی ہوئی ہے۔

ماہ رمضان کے علاوہ کھانے کے گروپس بنے ہوئےتھے۔ مثلاً اگر ایک کیمپ میں ۶۰ افراد ہیں تو ۶ گروپس ہوتے، ایک دستر خوان پر ۱۰ افراد بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھاتے۔ رمضان کے مہینے میں یہ گروپس ختم ہوجاتے، اور افطاری اور سحری کیلئے ایک ہی لمبا دستر خوان بچھتا تھا۔ خدا بھی برکت دیتا تھا۔ یعنی اضافی کھانا بھی آتا۔ پورے سال میں ایسا ہوتا تھا کہ عبادت اور معنویت کیلئے زیادہ وقت میسر ہوتا تھا؛ قرآن پڑھنا، قرآنی کلاسز، نہج البلاغہ کی کلاسز، اور رمضان کے مہینے میں ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ مجھے یاد ہے اسیری کے شروع میں پورے کیمپ میں ہمارے پاس ایک ہی قرآن تھا۔ مرحوم الہی قمشہ ای کے ترجمہ والا۔ بہت ہی اچھا ترجمہ تھا۔ دیوار میں ایک تختہ لگایا تھا جہاں قرآن رکھا جاتا ۔ ہم ۵۷- ۵۸ لوگ تھے، قرآن کبھی بھی اپنی مخصوص جگہ نہیں رہتا۔ ہمیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ سب کی باریاں لگائی ہوئی تھیں اور ۲۴ گھنٹے میں ۲۰ منٹ ہر کسی کو ملتے تھے۔ ہوسکتا ہے یہ ۲۰ منٹ رات کے تین بجے ملیں۔ جس کے قرآن پڑھنے کی باری ہوتی وہ آپ کو جگا کے کہتا : "تمہارے قرآن پڑھنے کی باری ہے، پڑھو گے؟" آپ بیدار ہوکر قرآن پڑھتے یا منع کردیتے نہیں میں آرام کر رہا ہوں، بعد والے کو دیدو۔ محدودیت کی وجہ سے لوگ فرصت سے بہترین فائدہ اٹھاتے اور ایسا رمضان میں زیادہ ہوتا۔ مجھے یاد ہے ایک سال میں دن میں پانچ پارے پڑھتا تھا، یعنی ہر پانچ چھ دن بعد  پورا قرآن ختم ہوجاتا۔  سب ہی ایسے حالات کا شکار تھے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایک افسانوی دور تھا جس میں ہم نے کچھ مراتب کو طے کیا۔ رمضان کے مہینے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے نزدیک ہوتا  تھا اور کھل کر عبادات انجام دیتے تھے۔

 

آپ کون کون سے کیمپ میں رہے؟

سب سے پہلے جس کیمپ میں لے گئے وہ عنبر تھا، صوبہ رمادی میں۔ اس کے بعد صوبہ رمادی میں ہی کسی دوسرے کیمپ لے گئے۔ میں دو مہینے تک وہاں رہا اور پھر  ہمیں دوبارہ عنبر لے آئے۔  دو تین سال بعد مجھے موصل بھیج دیا گیا۔ ۱۳ مہینے موصل میں رہا۔ موصل سے ہی ہمیں ایران کیلئے روانہ کیا گیا۔ میرا نام  ۴۰۰ افراد کی اُس لسٹ میں تھا جن کا زخمیوں کے ساتھ تبادلہ ہونا تھا۔

 

جنگ کے دوران؟

نہیں، جنگ کے بعد۔ البتہ میرے زخموں کی وجہ سے میرا نام اسیروں کی لسٹ میں کئی دفعہ آیا تھا، اُسی سن ۱۹۸۳ء سے جب میں اسیر ہوا تھا؛ ریڈ کراس  کے زیر تحت ہونے والی میٹنگ میں میرے تبادلے کی منظوری ہوگئی تھی، لیکن عراقی کمانڈروں کی میٹنگ میں مجھے ردّ کر دیا گیا، بقول اُن کہ:"یہ صحیح آدمی نہیں ہے، اسے قید میں رہنا چاہیے۔"میجر جنرل نظر، تمام اسیروں کا مسئول تھا۔ ایک دفعہ جب مجھے کمرے میں لے گئے، سن ۱۹۸۵ میں، ریڈ کراس والے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے  اور ایک طرف عراقی۔ میجر جنرل نظر بھی اوپر والے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جیسا کہ میں کیمپ میں بہت سرگرم تھا، میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا،  ایک سپاہی جو ہمارے کیمپ کا انچارج تھا، اُس نے میجر جنرل کے کان میں کچھ کہا۔ میں ابھی میز تک  نہیں پہنچا تھا کہ وہ چلایا: "باہر نکل جاؤ!" میں پلٹا اور معمولی اور پرسکون انداز میں کمرے سے باہر آگیا۔  میرے پیچھے بھی شور و غوغا کرتا رہا، میں پیچھے پلٹا ہی نہیں۔ میں تقریباً تمام میٹنگز اور  ۱۹۸۳ء، ۱۹۸۵ء اور ۱۹۸۶ء میں ہونے والے تبادلوں میں تھا یہاں تک کہ سن ۱۹۸۸ء میں  ۴۰۰ افراد کا آنا حتمی ہوگیا تھا۔ تین سو کچھ افراد ایران آئے ، ۸۰ لوگ رہ گئے۔  بغداد کی جیل سے دوبارہ رمادی کیمپ آگئے اور جو لوگ ذہنی، نفسیاتی اور قلبی بیماری میں مبتلا تھے اُن کی اس بیماری میں اضافہ ہوگیا۔ حالات بہت خراب تھے۔ ڈیڑھ مہینے یہاں رہے پھر تبادلے میں ۴۰ افراد ایران آگئے۔ ہم ۴۰ لوگ اسیری کے آخر تک رُکے اور ۲۰ مہینے بعد آئے۔

مجھے اُس دوران بھی مجبوراً کیمپ کا مسئول بننا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ ایسے حالات میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، شاید خدا بھی مجھ سے پوچھے۔ واقعاً مشکل ذمہ داری تھی؛ ایسے بیماروں کی دیکھ بھال جن میں بعض کو دن میں چار محافظوں کی ضرورت ہوتی۔  ہمیں دو رمضانوں میں ایسے حالات کا سامنا تھا کہ جو بہت سخت حالات تھے۔

 

انہیں کس لحاظ سے محافظ کی ضرورت تھی ؟

وہاں ایک شخص تھا جو ذہنی بیماری میں مبتلا تھا۔ ایک آدمی اُس کے کپڑے دھوئے، ایک آدمی اُسے دوائیاں کھلائے اور ایک شخص کو ہر وقت اُس کے ساتھ ساتھ رہنا پڑتا کہ کوئی دوسرا اُسے تنگ نہ کرے۔

 

مثلاً تشنج میں مبتلاہوگئے تھے؟

جی ہاں، تشنج میں مبتلا تھے یا اُن  میں وراثتی طور پر تھا جو وہاں ظاہر ہوا ، جو شدید دباؤ کی وجہ سے زیادہ ہوجاتا  یا وہ اس حالت میں مبتلا ہوجاتے۔ ان سخت حالات کی وجہ سے مثلاً بارہ سو افراد کے کیمپ میں  ۵ اس طرح کے افراد ہوتے۔ اگر ایک کیمپ میں ایسے ایک یا دو لوگ ہوں تو اُن کیلئے چار محافظ رکھے جاسکتے ہیں جو انھیں دوائیں کھلائیں، اُن کے ساتھ ساتھ رہیں اور اُنہیں حمام لے جائیں۔ لیکن جب ان سب کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تاکہ موقع ملتے ہی انہیں اپنے ملک لایا جائے، ایسے میں جب وہ کیمپ پلٹتے ہیں تو حالات پہلے جیسے نہیں رہتے۔ ان میں سے 16 افراد میرے ساتھ تھے اور بقیہ جو میرے کیمپ میں تھے، سب دل کے امراض اور مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے تھے۔ اب آپ حساب لگائیں مجھ اکیلے کو سو افراد کو کام کرنا پڑتا تھا۔ یعنی میں خود کو سو حصوں میں تقسیم کروں تاکہ ان افراد کے کام انجام دے سکوں۔  اور میں وہاں پر لوگوں کو کنگ فو بھی سکھاتا تھا، تو مجھے اپنے اوقات کو اس طرح منظم کرنا تھا کہ جب یہ لوگ ہمارے کیمپ میں آئیں تو  مجھ سے کنگ فو سیکھ کر جائیں  اور جب رات کو کیمپوں  کا دروازہ بند ہوجائے تو وہ خود دوسروں کو سکھائیں۔  یعنی ایک دن میں ۳۵۰ لوگ کنگ فو کی پریکٹس کرتے تھے۔

جب ہم اس کیمپ میں آئے تو یہاں حالات کچھ خاص قسم کے تھے۔ یہاں زیادہ تر کم سن افراد تھے۔ ان کو الگ کرکے اس کیمپ لایا گیا تھا تاکہ اُن پر مسلط رہیں۔ ہمارا یہاں آنا ایک طرح سے خدا کا کام تھا۔ ہمیں نہیں آنا تھا اور وہیں رہنا تھا تاکہ ان دو سالوں میں ان کی ہمراہی کریں۔ یعنی ہم نے ان ۲۰مہینوں  میں ان کے لئے ٹریکٹر کا کام انجام دیا، اگر ایسا نہ ہوتا اور خدا کا لطف و کرم نہ ہوتا کہ ہم اس کیمپ میں آئیں تو نجانے ان چھوٹے بچوں پر  کیا گزرتی؟ ہم روزانہ آتے اور ان سے باتیں کرتے، اُنہیں سمجھاتے اور اُنہیں ورزش میں مصروف رکھتے۔ ایک دن مجھے بہت ہنسی آئی،  ایران آنے سے ایک دن پہلے؛ ۱۹۹۰ ء کا سال تھا۔ ان میں سے میرا ایک شاگرد میرے پاس آیا؛ میں نے ہر کیمپ سے بہترین اور تیارہ شدہ  افراد سے کہا ہوا تھا کہ وہ آئیں اور مربی کے عنوان سے ٹریننگ حاصل کریں تاکہ اپنے کیمپوں میں جاکر لوگوں کو ٹریننگ دیں اور یہ کام بہت مؤثر ثابت ہوا۔ وہ شاگرد بہت جلدی میں اور مضطرب حالت میں کیمپ کے سامنے آیا اور کہنے لگا: "خدا کیلئے، کم از کم ان آخری لمحات میں کنگ فو کی چوتھی بیلٹ کی ٹیکنکس  مجھے سکھا دیں، ہم کل ایران جا رہے ہیں… " مجھے بہت ہنسی آئی۔ میں نے کہا: "خدا کے بندے یہ تو ایک مصروفیت تھی، دو سال تم لوگوں کو مصروف رکھا،  اب ایران جا رہے ہو جو چاہو کرلینا، ہم کل جا رہے ہیں، کتنے حوصلے والے ہو؟" آپ دیکھیں فکریں کہاں مشغول تھیں؛  خدا چاہتا تھا ان کے ذہنوں کو ٹریننگ لینے اور ورزش کرنے میں مشغول کردے۔  آپ یقین کریں یہ رات سے صبح تک اسی فکر میں رہتے کہ کل کون سا طریقہ سیکھنا ہے،  کونسی ضرب لگانا سکھائیں گے، کس طرح کی فائٹنگ ہوگی۔ دلچسپ بات ہے کہ خود میں نے اسیری کے دوران یہ ورزشیں انجام دیں اور سیکھیں۔ سارے اتفاقات زنجیر کی مانند ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے ، وہ ہونا ہوتا ہے؛  یہ کہ میں کسی ایک سالہ کام کو دو مہینے میں سیکھوں اور اُس پر تسلط حاصل کروں اور پھر دو سال کے عرصے میں  دوسرے افراد کو سکھاؤں۔

اُن دو سالوں میں بھی رمضان کا مہینہ آیا۔ حالات بہت ہی سخت ہوجاتے اور رمضان کا مہینہ سخت تھا؛ حتی بعض موقعوں پر کھانا خراب ہوجاتا۔ کیونکہ ہم کھانے کو ۲۴ گھنٹوں تک کمبل میں لپیٹ کر رکھنے پر مجبور تھے تاکہ وہ گرم رہ سکے، اگر کھانا ٹھنڈا ہوجاتا تو اُسے گرم نہیں کرسکتے تھے، گرم کرنے کا امکان ہی نہیں تھا، اس پکے ہوئے کھانے کو گرم رکھنے کی وجہ سے اکثر کھانا خراب ہوجاتا اور سب مریض ہوجاتے۔  اس کے علاوہ سال کے دوسرے دنوں میں بھی کھانے میں ایسا کچھ ملادیتے جس کی وجہ سے لوگ مریض ہوجاتے تھے ۔لوگوں کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے سب کے ساتھ ایسا ہی کرتے اور جیسا کہ تمام امور کی باگ ڈور خداوند متعال کے ہاتھ میں ہے، لہذا وہ  کامیاب نہیں ہوپاتے۔

بہت شکریہ، آپ نے بہت زحمت اُٹھائی …

کوئی بات نہیں، خدا آپ کو کامیاب کرے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3522


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔