عزیز اللہ فرخی کی جنگ اور اسیری کی داستان۔ پہلا حصہ

وائرلیس سے آواز آرہی تھی: چاند کی طرف چلو!

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-15


عزیز اللہ فرخی ایران عراق جنگ کے سپاہیوں میں سے ایک ہے ان کی پیدائش ۱۹۶۲ء میں تہران میں ہوئی اورل ہسٹری سائٹ کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے جنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات اور صدام کی قید میں پیش آنے والے حادثات کا تذکرہ کیا۔ اس انٹرویو میں آپ اس مجاہد کے محاذ پر جانے سے لیکر صدام کی قید سے آزادی تک کے واقعات ملاحظہ کریں گے۔

 

جناب فرخی آپ کس سال محاذ پر گئے؟

پہلی دفعہ ۱۹۸۱ء میں کہ جب میں 12 ویں جماعت کا طالبعلم تھا اپنے ماموں جو ۱۹۷۷ء سے محاذ پر تھے کے ساتھ محاذ پر گیا البتہ میرا وہاں جانا سپاہی کی حیثیت سے نہیں تھا جنوب کے اکثر محاذوں پر جانے کا موقع ملا پہلی بار بارود کی بو میرے ناک تک پہنچی اور توپوں کو چلتے دیکھا ابھی میری پڑھائی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میں بھی سپاہی بننے کے لئے اقدام کرتا دوسری بار بھی اسی سال محاذ پر جانے کا موقع ملا۔

 

آپ کتنے سال کے تھے؟

اس وقت میری عمر 18 برس تھی۔

 

کیا اجازت ملنے کے معاملے میں کوئی مشکل ہوئی؟

میرے گھر والے میرے جانے پر راضی تھے اور انھیں میرے جانے سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔

 

آپ کے ذہن میں جنگ کا کیا تصور تھا ؟ وہ واقعات جو آپ نے وہاں دیکھے تھے آپ کو محاذ کی طرف جذب کررہے تھے یا نہیں ، آپ کے خیالات کس طرح کے تھے ؟

میں اپنی ذاتی نظر بیاں کروں یا اس وقت کے کلی حالات کیونکہ میں آپ کے اس سوال پر ایک الگ عقیدہ کا قائل ہوں

 

نہیں، اپنی ذاتی نظر بیان فرمائیں

میرے لئے مجھ سے بڑوں کا وہاں ہونا بہت عجیب تھا ، وہ سب مجھ سے زیادہ دنیا کی رنگینیوں کو دیکھ چکے تھے شاید ان کے لئے دنیا سے تعلق توڑنا مجھ سے مشکل تھا ایک شوق بھی میرے اندر پیدا ہورہا تھا جو تمام جوانوں میں انقلاب کے دفاع کی نسبت اور امام خمینی کی حرکت کی نسبت تھا یہ جذبہ بہت گہرا تھا یہ حادثہ ہمارے جوانوں کے لئے پیش آیا ہمارے جوان نے اس سے اثر قبول کیا  اور اب تک یہ جذبہ باقی ہے الحمد للہ

 

جب آپ دوسری دفعہ گئے تو بیان فرمائیں کونسے آپریشن چل رہے تھے ؟

میں ۱۹۸۰ء میں خزاں کے موسم میں سپاہ میں ٹریننگ کی غرض سے گیا پہلے چاہتا تھا کہ اپنا پڑھائی تمام کرکے دانشگاہ افسری جاؤں بعد میں ارادہ کیا کہ نہیں سپاہ میں جاؤں گا میرے والد نے کہا کہ تم تو دانشگاہ افسری جانا چاہتے تھے کیا ہوا ؟ میں نے کہا کہ جنگ ہوگئی ہے اور اب دانشگاہ افسری نہیں جاؤں گا۔ دو مہینے تک عمومی اور خصوصی ٹریننگ حاصل کی جس میں اسکاؤٹنگ نمایاں تھی بعد تہران کی عملیات میں شامل ہوا جس میں 9 گروہ تھے میں 9ویں گروہ میں تھا۔ ان دنوں ہمارا گروہ، آیت اللہ خامنہ ای جو اس وقت ملک کے صدر تھے ان کی سیکیورٹی پر مامور تھا جس جگہ آج امام بارگاہ امام خمینی ہے اسی جگہ مجلس شوری اسلامی یعنی پارلیمنٹ تھی یہ بھی ان دنوں سپاہ کی سکیورٹی میں تھا سپاہ کے گروہوں میں سے کچھ جماران ، ایرپورٹ اور حساس مقامات کی سیکیورٹی پر مامور ہوتے تھے چند دنوں بعد ہم آپس میں تقسیم ہوجاتے تھے اور چند لوگوں کو مخصوص کاموں کے لئے لے جاتے تھے ۔ ۱۹۸۱ء کا آخر تھا ہم نے کہا ہم جائیں گے کمانڈر نے بھی میری بات کی تائید کی کہ فرخی جائے گا پورے گروہ میں سے 5 لوگوں کا انتخاب ہوا ہم 5 لوگ اسکاؤٹنگ کے لئے کرمانشاہ ، غربی اسلام آباد اور ابوذر چھاؤنی گئے ۔ مجھے فوج کے ایک گروہ میں اسکاؤٹنگ کی ٹرینگ کے لئے بھیجا اور ہم فوج میں شامل ہوگئے۔

 

بالآخر آپ فوج میں آگئے؟

جی اس گروہ میں جس کے لیڈر آقای ہدایتی تھے وہ ایک حزب الٰہی اور اچھے انسان تھے شہید صیاد شیرازی کے دوستوں میں سے تھے اور انہیں کے ہمسن تھے ان کی قیادت اور ان کا محاذ پر رہنا بہت مفید ہوتا تھا پورے ملک میں ایک نام جس اسکاؤٹ گروپ نے بنالیا تھا وہ گروہ نمبر 47 تھا اور ہم اسی گروہ میں تھے اس طرح کی نظر پورے ملک میں کسی اور کے بارے میں نہیں پائی جاتی تھی وہ لوگ جو اس گروہ کا حصہ رہے تھے ایک خود حضرت آقا تھے اور وہ خود جنگی نگاہ سے اس گروہ کا مشاہدہ کرچکے تھے شہید صیاد شیرازی، شہید شیرودی اور بہت سو نے اس گروہ میں وقت گذارا تھا بہت سے کمانڈرز بھی اسی گروہ میں اسکاؤٹنگ کر چکے تھے جیسے ہمارے عزیز اور روحانی حاج غفاری ، شھید علی طاھری جو کہ سپاہ کے شروع کے اسکاؤٹس میں سے تھے یا کمانڈر مداح یا خود جناب ہدایتی ۔ دو ماہ اور کچھ یہاں ہم نے ٹرینگ کی اور وہاں موجود کمانڈرز سے بہت کچھ سیکھا۔

 

ایسا تجربہ جو بہت کارآمد ثابت ہوا

ایک افسر جو ہمارے ساتھ کام کرتا تھا ، خدا اس پر رحمت کرے دو سال پہلے انتقال ہوگیا مرحوم محمود اللہ وردی ان کے بھائی قاسم اللہ وردی سپاہ کے بہت اچھے آدمی تھے ، ہم وہاں ان کے ساتھ دوست ہوگئے تھے اس کے بعد وہ سپاہ میں چلے گئے اور بعد میں اطلاع ملی کہ ۲۷ ویں گروہ رسول اللہ (ص) کے انٹیلی جنس کے مسئول ہوگئے تھے اور اسی آپریشن میں شہادت پائی ۔ان دنوں جو تجربہ حاصل ہوا وہ بہت ہی کارآمد ثابت ہوا اور اس کے بعد کسی جگہ ایسا تجربہ حاصل نہیں ہوا اور سالوں کے سفر کو چند ماہ میں طے کرلیا ، محاذ سے ، اسلحہ سے ، فوجی چیزوں سے اور بہت سے کاموں سے آشنا ہوئےاور کئی بار دشمن کے درمیان گئے ۔ ہم وہیں تھے کہ فتح المبین آپریشن شروع ہوگیا ، آپریشن جیسے ہی شروع ہوا ہمیں پیش قدمی کا کہا گیا۔ایک بہت ہی سنگین جنگ کے ساتھ، تقریباً چار پانچ گھنٹے، ہم عراقی پوزیشنوں کو شدید جھڑپوں کی ضد میں لے آئے تاکہ اُن کا دھیان ادھر ہی رہے۔وہ یہ سمجھیں کہ یہ جھڑپ ہی آخر عملیات ہے۔ چونکہ ایک وقت آپریشن کے راز برملا ہوہی جاتے ہیں اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ متاسفانہ منافقین عراق کیلئے بہت فعال اور مؤثر انداز میں کام کرتے تھے محاذ پہ اپنا کام دکھاتے، نفوذ کرے معلومات لے جاتے۔ ، یہ لڑائی بھی در اصل سپاہیوں کی ایک مدد تھی۔ چونکہ دشمن سمجھ رہا تھا کہ آپریشن اُس طرف ہے، اب اگر وہ دشت سے نیچے کا سوچ لیتا، یہ شبھہ بھی اٹھا تھا کہ وہاں بھی آپریشن جاری ہے۔ وہ چار پانچ گھنٹوں کی جنگ بہت ہی موثر تھی۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ تین فائر لوڈر تھیں، ایک ۱۳۰ فائر لوڈر اور تین کاٹوشا اضافی تھیں۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو آرٹلری بٹالین نے، یہاں سے عراقیوں پر گولے برسا رہی تھیں۔ بہت زیادہ حجم تھا۔ خدا جناب ہدایتی کو سلامت رکھے، انھوں نے تمام گروہوں کو بالخصوص ہمارے گروہ کو تاکید کی گئی تھی کہ سپاہ کے جوانوں کو جتنے گولے چاہیئے ہوں فراہم کریں۔ ان دنوں گولہ کم ہوا کرتے تھے یعنی ہم اتنی مشکل میں تھے کہ ہم ایک دن میں پانچ گولوں سے عراقیوں کو جواب دے سکتے تھے لیکن اگر عراقی چاہتے تو ایک ملین گولے ہمارے اوپر برساتے  اور ان کے پاس کوئی محدودیت نہیں تھی ۔ اُن کی محدودیت یہ تھی کہ تھک جائیں، یا کم پڑ جائیں یا توپ کی نالی پھٹ جائے، لیکن اگر وہ ارادہ کرتے اور چاہتے تو وہ دن میں توپ ایک ملین گولے  ہم پر برساتے۔لیکن ہمیں ۲۴ گھنٹوں میں صرف پانچ گولے مارنے کا حق تھا، خاص طور توپ  ۱۵۵ کے گولے کہ اُس وقت ہم نے بنانے شروع نہیں کئے تھے۔ توپ ۱۰۵ کے گولے ہم خود بانتے تھے اور تقریباً بہت کم محدودیت میں مارتے تھے، لیکن توپ ۱۵۵ کے گولے پانچ سے زیادہ نہیں مار سکتے تھے۔ ایک نا انصاف جنگ تھی، یعنی اُن کا جتنا دل چاہے ماریں، تم اُس کے جواب میں صرف پانچ مارو۔ اب دقت بھی کرنی پڑتی تھی کہ انہیں بہت ہی اچھے انداز میں اور صحیح جگہ مارنا ہے، اور وہ بھی اُس وقت جب آپ پر دباؤ زیادہ ہو  ایک دن میں پانچ گولے پھینکے کی بہت سی کہانیاں۔ حکم دیا گیا کہ ان افراد کو جتنا چاہیے ہو دیدیا جائے۔ یعنی بہت سخت آرڈر تھے۔ ہمیں  اس قاعدے سے ہٹ کر توپ ۱۵۵ کے ۱۰- ۱۵ سے زیادہ گولے چاہیے ہوتے، ہمیں دیتے تھے۔جب ہم وائرلیس کرتے، توپوں کو تیار کرلیا جاتا۔ ہم سے کہتے: "آپ مختصات بتائیں، ہم آپ کے لئے ماریں گے" ، یہ اس وقت کے حالات ہیں جب پہلی دفعہ محاذ پر گیا۔

 

وہ تین دن

فتح مبین آپریشن کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم بھی آپریشن پر جائیں گے ، اس کے بعد والا آپریشن فوراً شروع ہوا اور ہم نے بھی کہا کہ ہم ضرور جائیں گے تہران سے بھی فون کیا کہ یہ جوان آرہے ہیں پس ہم آپریشن بیت المقدس کے لئے چلے گئے وہاں بھی ہمارے گروہ نے سارے کام اپنے سر لئے ، ہمارا سارا گروہ ساتھ گیا تھا اور صدر کی سکیورٹی نئے آنے والے لڑکوں کے حوالے کر دی تھی ، مجھے یاد ہے کہ آقای خامنہ ای کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ آقا ہم محاذ جانا چاہتے ہیں آقا کہتے یہ بھی محاذ کی طرح ہے آپ یہاں رک جائیں ۔ ایک دن ہمارے گروہ کے لیڈر شہید احسان قاسمیہ چند دوسرے لڑکوں کے ساتھ جو کہ ہمارے گروہ کے ہی تھے آقا کے گرد گھیرا بنائے ہوئے تھے اور آقا فرما رہے تھے "میں کچھ نہیں کہوں گا نہیں چاہتا آپ لوگوں کو روکوں لیکن یہاں بھی محاذ کی طرح ہے آپ فکرمند نہ ہوں" احسان نے آقا سے کہا "آقا لڑکے بہت اصرار کررہے ہیں ، لڑکے قابو نہیں ہورہے سب کہہ رہے ہیں ہم جائیں گے ہم جائیں گے" آقا نے کہا "اچھا جائیے" ، ہم گئے اور ہمارا جانا اچھا بھی تھا کیونکہ جہاں بھی ہم کام کرتے کامیابی نصیب ہوتی ، آپریشن کا تیسرا مرحلہ شروع ہونے والا تھا لیکن آخری مرحلہ میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی آپریشن کے آخری مرحلے کو مرحلہ دوم کا نام دیا گیا ، گروہ کے سارے جوان شہید ہوچکے تھے جو بچ گئے تھے وہ 8 تھے شاید اور جو بچ گئے تھے وہ زخمی تھے ، قم کے بسیج کے کچھ جوان ہمارے ساتھ تھے اور سپاہ کے بٹالیں دو اور پانچ کے کچھ افراد۔ ہمارا گروہ تقریباً 450 یا 500 افراد پر مشتمل تھا ، ایک اندازہ کے مطابق اس میں دو بٹالین کے سپاہی تھے جو سب کے سب شہید ہوچکے تھے ، شلمچہ سے نئے پل کے سامنے ہم آپریشن کررہے تھے جو ارادہ تھا وہ یہ کہ ہم دشمن کی صف کے درمیان سے گزر کر نئے پل پر قبضہ کرلیں ، ہماری ذمہ داری یہ تھی کہ نئے پل سے خرمشھر میں داخل ہوں ، خدا رحمت کرے شہید محمود شھبازی پر، گروہ محمد رسول اللہ میں حاج احمد متوسلیان کے جانشین تھے ، اپنی ماموریت سے دو تین رات پہلے آئے اور ہمارے گروہ کے لیڈر سے تھوڑا سخت طریقے سے پیش آئے کہ جیسا کہتا ہوں ویسا کرو ، کہا کہ کچھ جوانوں کو بھیجو علاقے کو دیکھیں اور معلومات حاصل کریں ، کیونکہ دو دن پہلے ہم آپریشن سے واپس آئے تھے فون پر کہا جارہا تھا کہ جائیں چاند کی طرف ، چاند آسمان پر تھا اور ہم چاند کی طرف دوڑتے اور دشمن تک پھنچ جاتے اور اسے مارتے ، اسی فون کو دشمن بھی سنتا تھا جب بھی ہم دشمن کی جانب جاتے ہم پر فائرنگ کی جاتی اور گولہ ہمارے آس پاس گرتے لیکن ہم اس آپریشن میں کامیاب ہوئے خدا رحمت کرے شھید شھبازی پر کہتے تھے "آپ لوگوں نے دو آپریشن کئے دونوں میں کامیاب ہوئے اس میں بھی کامیاب ہوں گے جائیں اور لڑیں" لیکں جوان تھک چکے تھے تیسرا دن تھا کہ سوئے نہیں تھے ان تین دنوں میں صرف بھاگے تھے ، ایک جگہ سے عبور کرتے ، دفاعی افراد آتے ان کے حوالے کرتے اور آگے جاتے ، دشمن کی عقب نشینی اور فرار کی رفتار بھی بڑھ چکی تھی وہ گاڑیوں میں فرار کرتے اور ہم پیدل ان کے پیچھے بھاگتے ، مجھے یاد ہے کہ ہمارا پہلا گروہ تھا جو حسینیہ بارڈر تک پہنچا تھا جو خرمشھر کے جنوب غرب میں تھا ہم بھاگ رہے تھے اور خرم شہر کا چکر لگانے میں مشغول تھے جہاں بھی پہنچتے کچھ دیر مقابلہ ہوتا اور پھر آگے بڑھتے۔ شلمچہ میں ہماری ایک جانب بارڈر پیڈ تھا اور دوسری جانب اہواز - خرمشھر کا ہائی وے ، شاید 7 یا 8 کیلو میٹر  کے فاصلہ پر ایک مورچہ تھا کہ ہم نے جس پر قبضہ کرلیا تھا۔ ہم ۴۰- ۳۰ افراد تھے۔ عراقی بھی فرار کر چکے تھے لیکن ٹی 72 ٹینکوں میں کہ جس کے مقابلے میں آر پی جی بھی کام نہیں کرتی تھی ہم پر شیل برساتے ، ہیلی کاپٹر سے گولے برساتے اور ہم ۳۰- ۴۰ افراد اوہاں اسی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ یعنی اگر وہ اپنے ٹینکوں کو اسپیڈ دیتے تو وہ ہمارے اوپر سے گزر جاتے اور آپریشن وہیں پلٹ جاتا جہاں سے شروع ہوا تھا۔  آج ہم بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں  اور دیکھتے ہیں کہ امام رہ نے فرمایا تھا کہ خرمشھر کو خدا نے آزاد کروایا واقعا ایسا ہی تھا یہ ہمارے بس کی بات نہیں  تھی ۔ ہم 30- 40 جوان تھے اس مقام پر کہ شاید پورے آپریشن میں اس سے زیادہ مھم کوئی اور جگہ نہیں تھی، ہم کلاشنکوف اور آر پی جی کے ساتھ کہ جو ٹینکوں پر اصلاً اثر نہیں کرتی تھی ، عراقی 1 2 کیلو میٹر دور جا کر نئی آرائش کے ساتھ ہم پر حملہ کر رہے تھے تھوڑا آگے آتے اور پھر پیچھے چلے جاتے ، گروہ کے سربراہ کے نمائندہ نے آکر ہمیں کہا کہ فرخی اگر ٹینک یہاں سے جانا چاہیں تو تمہارے جنازے پر سے گذر کر جائیں اس جگہ کے مسئول تم ہو ، ہم غروب تک شیل کھاتے رہے لیکن بالاخر وہ جگہ محفوظ رہی ہماری وجہ سے نہیں بلکہ اس خدا کی وجہ سے جس نے اس آپریشن کو کامیاب کیا تھا اور اس جگہ کو دشمن سے محفوظ رکھا تھا یہ عام انسان کے بس سے باھر ہے ، اس کو آپریشن کا نام دینا غلط ہے یہاں خدا نے چاہا اس وجہ سے خرمشھر آزاد ہوا تھا ہاں لیکن 4 یا 5 جوانوں کے ذریعے سے جو زخمی تھے کہ ان کا ایمان اپنے زخمی ہاتھوں، پیروں پر نہیں تھا، بہت سی چیزیں ہمارے پاس کم تھی اسلحہ کم تھا فوج کم تھی دوائیں کم تھیں یہاں تک کہ روٹی اور پانی بھی کم تھا یقین جانئے کہ یہ سوال اب تک میرے لئے حل نہیں ہوا کہ ہم تین دن تک بھاگے اصلا ًپانی تھا ہی نہیں جو پیتے ، کھانا نہیں تھا کہ محاذ تک پہنچایا جاتا ، ایک دفعہ جب پانی یا لیموں کا شربت آیا تو اس قدر جلدی ہم اپنی جگہ تبدیل کرتے تھے ممکن نہیں تھا سب جوانوں تک پہنچایا جائے آپریشن بیت المقدس ۲۹ اپریل کو شروع ہوا تھا اور ہم ۳ مئی کو اس جگہ پہنچے تھے ، حالات کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم خاک و خون میں گھرے ہوئے تھے نہ سوئے تھے نہ کھانا کھایا تھا نہ پانی پیا تھا ایک اور جگہ دریا کے کنارے تھی وہاں بھی پیدل جاتے تھے دوسرے تیسرے دن ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہے تھے سب سو رہے تھے آنکھیں کھلی تھیں لیکن سو رہے تھے دماغ کام نہیں کررہا تھا میں خود دیکھ رہا تھا کہ چلتے چلتے لڑکے زمیں پر گر پڑتے۔

 

مورچے اور کرولنگ

ایک جگہ گھمسان کی جنگ جاری تھی ، شام 6 یا 7 بجے  سے نکلے ہوئے تھے اور ہماری جھڑپیں شروع ہوچکی تھیں۔ رات ۱۱ بجے تک لڑتے رہے، ہم مارتے، عراقی مارتے۔ ہمارے وسائل کی آخری گولی بھی فائر ہوگئی اورہمارے پس صرف چند گرنیڈ تھے۔ شہید امرہ ای کی روح خوش رہے، یافت آباد کے رہنے والے تھے، بے نظیر  شجاعت کے مالک تھے، ایسی جرأت جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم مورچوں میں سینے کے بل لیٹے ہوئے تھے، عراقی بھی سینے کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ اُن کے پاس توپیں اور جنگی سامان تھا اور ہم ۲۵، ۳۰ لوگ تھے جن کے پاس صرف کلاشنکوف اور آر پی جی تھی، زیادہ تر کلاشنکوف۔ ہمارے پاس پانچ، چھ سے زیادہ آر پی جی نہیں تھیں۔ اب آپ اسی آپریشن کا حساب لگائیں  ہم پانچ گھنٹے ان کے سامنے کھڑے رہے اور رات کے گیارہ بج گئے۔ وائرلیس سے رابطہ بھی منقطع ہوچکا تھا؛ یعنی وائرلیس نہیں، جنگی سامان اور گولیاں نہیں ہیں اور نیند بھی آرہی ہے۔  نیند کی شدت کی وجہ سے ہم تین سیکنڈ سوتے، یہ تین سیکنڈ ہمارے چارج کردیتے۔ ایک لمحہ مجھے احساس ہوا کہ ایک گرنیڈ میرے پاؤں کے پاس گرا ہے۔ میں اُس کے پھٹنے کی آواز سے اٹھ گیا۔ آواز بہت قریب سے آئی تھی۔ابھی جنگ جاری ہے اور پوزیشنیں بھی ردّ و بدل ہو رہی ہیں  لیکن زیادہ طرف دشمن کی طرف سے۔میں نے دیکھا کہ زمین میں ہونے   والے گڑھے کا مجھ سے فاصلہ ۲۵ سینٹی میٹر کا ہ، یعنی وہ گرنیڈ مجھے ۲۵ سینٹی میٹر کے فاصلہ پر پھٹا تھا اور مجھے ایک خراش بھی نہیں آئی تھی۔ حتی ایک پتھر بھی نہیں لگا، صرف اُس نے مجھے نیند سے بیدار کردیا،  جیسے وہ یہاں اس لئے گرا ہے تاکہ میں نیند سے بیدار ہوکر اپنا کام شروع کردو۔ اب شہید امرہ ای رات کی اُس تاریکی کرولنگ کرتے ہوئے جاتا ہے،  وہ بھی دو مورچوں کے درمیان فاصلہ کہ جہاں سے گاڑیاں گزرتی تھیں۔ سڑک پر کرولنگ کرتے ہوئے جاتا اور نیچے جاکے عراقیوں میں مل جاتا۔ اوپر آکر مجھ سے کہتا: "ایک گرنیڈ پھینکو" ہم ۳۰- ۲۵ لوگ مختلف مورچوں میں تقسیم ہوگئے تھے تاکہ دیکھنے میں زیادہ نظر آئیں۔ میرے پاس سے ۱۵- ۱۰ میٹر دوسری طرف کسی اور فوجی کے پاس جاتا، ۷-۸ میٹر دوسری طرف کسی اور فوجی کے پاس جاتا، پھر وہاں سے دوبارہ عراقیوں کے پاس جاتا، پھر اوپر آتا اور کہتا: "ایک گرنیڈ پھینکو۔" ہمارے صرف چند گرنیڈ تھے۔ وائرلیس نے کسی طرح کام کرنا  شروع کردیا تھا اور کہہ رہے  تھے: "عقب نشینی کرو، پیچھے آجاؤ، اب تک ڈٹے ہوئے تھے اور جو کام ہونا تھا ہوگیا ہے۔" اب وہ آپریشن شروع ہو رہا ہے جسے کے ذریعے بارڈر تک پورے علاقے کی صفائی ہوگی ۔ ہم غلطی سے بارڈر کراس کرچکے تھے اور عراقی حدود میں داخل ہوچکے تھے جہاں عراقی گاڑیوں کو پارک کرتے تھے۔ گاڑیوں اور ٹینکوں کو ہمارے پیچھے بھیجا گیا ۔کچھ لوگ چلا رہے تھے: "یہاں نہیں جاؤ، واپس آجاؤ…"،  اُس تاریکی، جنگ اور شور و غوغا میں۔ پھر آپریشن شروع ہوگیا  کہ حساس نقطہ پر ہم قابض ہوگئے اور افراد منتشر ہوگئے۔ گروہ اپنے کام سے چلا گیا اور ہم ۴۰-۵۰ افراد وہیں رہ گئے اور اُس جگہ کی اگلے دن غروب تک حفاظت کی۔ خدا کے لطف و کرم سے آپریشن واقعی کامیاب ہوگیا۔

 

آپ خرم شہر میں بھی  داخل ہوئے تھے ؟

نہیں، بٹالین کے تقریباً سارے ساتھی شہید ہوچکے تھے اور میں زخمی ہوگیا تھا۔ بٹالین ۹ کے ۴۵۰- ۵۰۰ افراد میں سے ہم ۴۰- ۵۰ زخمی بچے تھے باقی سب شہید ہوچکے تھے۔

 

آپ بھی زخمی ہوئے تھے؟

جی ہاں،  ہم رات تک وہاں رہے اور میں صبح ۵ بجے زخمی ہوگیا۔ تقریباً پوری بٹالین زمین گیر ہوچکی تھی۔ عراقی بھی مورچے پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں سے کھیل رہے تھے۔ یعنی ایک ایک  کو مار رہے تھے۔ مثلاً میں نے گرنے کے وقت تین چار گولیاں کھائیں۔ ہم تقریباً ۵۰- ۶۰ میٹر عراق میں پھنس گئے تھے۔ بہت ہی عجیب و غریب حالات تھے کہ اُن کا بیان کرنا سخت ہے۔ شہید قاسمیہ جس کا ہاتھ مورچے تک پہنچ چکا تھا کہ شہید ہوگیا۔ ایک دوست تھا جس کا نام برزگر تھا، خدا اُس کی روح کو شاد رکھے، جوان تھا اور اُس کی دو بیٹیاں تھیں۔ ہمارے برابر کا تھا لیکن اُس نے جلدی شادی کرلی تھی۔ مجھ سے تھوڑے سے فاصلہ پر اُس کے پیٹ پر تین چار گولیاں لگیں وہ بیچ سے تقریباً دو ہوگیا تھا۔  میں نے دو تین مرتبہ اُس کے منھ سے فقط ٹوٹا پھوٹا  اللہ اکبر  سنا اور وہ شہید ہوگیا؛ ایک مورچے میں جو کہ تقریباً آخری مورچہ تھا کہ جس کے بعد نیا پل تھا  اور وہاں سے خرم شہر میں داخل ہونا تھا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد میں البتہ ہم نے سنا ہے کہ وہاں طے پایا کہ دشمن کی دو بہت ماہر  بٹالین ایک ساتھ مل کر کام کریں اور اگر ایسا ہوجاتا تو خرم شہر کا معاملہ بہت ہی سخت ہوجاتا۔ کم سے کم بہت ہی مشکل ہوجاتا۔ ان افراد کی شہادت  اور ایسی جگہ پر آپریشن کی وجہ سے دشمن کی فوجیں اُس مرحلے میں ایک ساتھ مل کر کوئی کام انجام نہ دے سکیں تاکہ خرم شہر پر قبضہ کرلیں۔ بہرحال ان افراد کے خون نے اپنا اثر دکھایا۔ بہت ہی دردناک منظر تھا، لیکن بہت ہی باعظمت تھا۔ اگر اس کی فلم بنائی جائے تو حتماً کہا جائے گا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایک آدمی بھی زمین گیر نہیں ہو رہا تھا، صرف بھاگ رہے تھے، حتی کوئی بھی اپنے لئے جائے پناہ نہیں بنا رہا تھا کہ اُسے گولی نہ لگے یا وہ مر نہ جائے، ایسا لگتا تھا کہ ان ۴۰۰- ۵۰۰ افراد کا ایک ہی دماغ اور ایک ہی دل ہےجو ان سے کہہ رہا ہے کہ بھاگو۔ جیسے یہ سب ایک ہی ہوں، ایک فرد جو بھاگنے کا ارادہ کرے، ایک  فرد جو اس مورچے کو آزاد کرانے کا فیصلہ کرے، آپریشن انجام پائے۔ ایک دل و دماغ ، ان ۴۵۰- ۵۰۰ افراد کو  لے گیا یہاں تک کہ آخری فرد زمین پر گرے، یعنی حقیقت میں اپنے تمام معانی اور کمالات کے ساتھ ڈٹے رہتے ہوئے جان دینا۔ ہم رات تک وہیں رہے اور ہمارے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ آخری رات، کرولنگ کرتے ہوئے ، قلابازیاں کھاتے ہوئے میں دو تین گھنٹے پیچھے آتا۔ ۱۰- ۱۲ افراد ایک دوسرے سے نزدیک تھے۔ میں نے مٹی کے ٹیلے کے پیچھے جو آدھے میٹر کا تھا، کسی کو دیکھا جو کسی کو اپنے پیٹھ پر رکھے کرولنگ کرتا ہوا ہمارے نزدیک آرہا تھا۔ اس کا نام اصغر صالحِی تھا۔ اس نے کہا: "فرخی تم بھی زخمی ہوگئے؟" میں نے کہا: "ہاں" وہ بولا: "میں تم پر قربان جاؤں، پلٹو اور اپنے پیچھے دیکھو … آؤں اُس ٹیلے کے پیچھے چلیں۔"وہ ٹیلہ ہم سے بیس میٹر کے فاصلے پر تھا اور اس کی بلندی آدھا میٹر تھی، اور دو میٹر چوڑا تھا۔ میں نے کہا: "میں ہل بھی نہیں سکتا، میرا پاؤں جواب دے گیا ہے۔" میرے پیر اور کمر پر گولی لگ گئی تھی۔ وہ بولا: "تمہارے ہاتھ تو کام کر رہے ہیں، آؤ … یہ لوگ مورچوں کے اوپر سے ایک ایک کرکے لوگوں کو مار رہے ہیں … تم سے کہہ رہا ہوں آجاؤ، اگر کرسکتے ہو تو ہاتھوں کے ذریعے آؤ …۔" اُس کے جانے کے بعد میں کچھ سیکنڈ تذبذب کا شکار رہا۔ میں واپس جانے کیلئے پلٹا،  عراقی گن مین نے گولیاں برسانا شروع کیں۔ اب میں خود کو اپنے ہاتھوں سے گھسیٹ رہا تھا۔ اس بیس میٹر کے فاصلے میں اُس نے مجھ پر دو ہزار گولیاں برسائی ہوں گی جو میرے نزدیک سے میرے بالوں  کو چھوتی ہوئی گزریں اور مٹی اُڑ کے میرے چہرے پر آرہی تھی اور میری آنکھوں میں گھس رہی تھی۔ جتنی گولیاں مجھے لگنی تھیں بس لگ چکی تھیں،  اب مجھے کوئی گولی نہیں لگ رہی تھی۔ میں جلدی جلدی آگے بڑھا اور اُس گن میں نے جتنا بھی فائر کیا، مجھے ایک بھی گولی نہیں لگی۔ میں نے مٹی کے ٹیلے کے پیچھے جاکے دیکھا تو ۱۰- ۱۲ افراد وہاں پڑے ہوئے تھے،  سب کٹے پھٹے پڑے ہوئے تھے۔ خلاصہ یہ کہ رات تک وہیں رہے۔ رات کو بولڈرز کی آواز آئی۔ ہمارے اپنے بولڈرز کی آواز تھی۔  بعد میں پتہ چلا کہ شہید چراغ بولڈرز لیکر آئے ہیں  اوروہ کام انجام دیا جو ہم نے انجام نہیں دیا  تھا۔ بولڈرز لیکر اُس مورچے کی طرف بڑھے جہاں سے ہم پر فائرنگ ہو رہی تھی  اور عراقی وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے۔ رات گیارہ یا ساڑے گیارہ بجے لوگوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا اور ہمیں پیچھے لے گئے۔

جاری ہے …



 
صارفین کی تعداد: 3703


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔