صدامی فورسز کے سامنے جدوجہد کرنے والے سالوں میں محمد مجیدی کی یادیں۔ تیسرا اور آخری حصہ

وہ ملاقات اور آزادی کی شرائط

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-15


محمد مجیدی، دفاع مقدس کے سالوں میں محاذ پر گئے ؛ لیکن جنگی محاذوں پر صرف دس دن رہنے کے بعد دشمن کی افواج کے قیدی بن جاتے ہیں ۔ اُنھوں نے ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے سالوں میں اپنی یاد داشت کے دریچوں کو وا کیا۔ اس انٹرویو کے پہلے اور دوسرے حصے میں اُن کے محاذ پر جانے، کربلائے ۵ آپریشن میں ہونے والے اتفاقات، اسیر ہونے کے طریقہ اور اسیری کے وہ ایام اور واقعات جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا، یہ باتیں ہوچکی ہیں۔اب آپ اس انٹرویو کا تیسرا اور آخری حصہ پڑھیں گے۔

 

صدامی فورسز کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں کے مقابلے میں آپ ان کے طعنوں اور توہین کا کس طرح جواب دیتے؟

ہماری کیمپ میں ایک عراقی رینجر تھا جو بہت ہی سڈول بدن اور خوبصورت آواز کا  مالک تھا  وہ ہر میزائل آپریشن کے بعد آجاتا اور شعر پڑھنے لگتا "یہ میزائل ہمارا انتقام ہے، دیکھو اس نے کیا کر دکھایا، ایران میں تباہی مچادی و ۔۔۔" میں نے عربی زبان صحیح سے سیکھی ہوئی تھی، میں مسلسل اسی فکر میں رہتا اور جواب بنانے کیلئے شعر پڑھتا رہتا۔  ایک دن سوچوں میں ڈوبا  احاطہ میں ٹہل رہا تھا، میرا ایک دوست جو ایک ہاتھ والا حاجی کے نام سے مشہور تھا،  اُس نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ مارا۔ میں جو خیالوں میں گم تھا، گھبراتے ہوئے کہتا ہوں: "یاحسین …"پلٹ کے اُس کو دیکھنے تک شاید میرا دس کلو وزن ہوگیا ہو؛ کیونکہ عدنان، جو عراقی تھا وہ بھی کبھی قیدیوں کا  لبادہ میں ہمارے درمیان گھومتا اور ایک دم کلائی پکڑ لیتا۔ مثلاًٍ آتا اور کہتا کہ "تم نے صدام کے بارے میں یہ کہا ہے" اور آدمی ایسا پھنس جاتا کہ انکار نہیں کرپاتا، کیونکہ اُس نے خو د سنا ہوتا ہے لہذا اب کیا ہوسکتا۔

اُس دن بھی میں نے سوچا کہ یہ عدنان نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا ہے، لیکن دیکھا تو محمد فریسات یا وہی ہمارا دوست ایک ہاتھ والا حاجی ہے۔ اُس نے کہا: "پگلے، دماغ خراب، تمہیں پتہ ہے کہ کیا کہہ رہے ہو؟" میں نے کہا: "ہاں جانتا ہوں کہ کیا کہہ رہا ہوں۔" اُس نے کہا: "اگر میری جگہ یہاں عدنان ہوتا تو پھر؟" میں بولا: "یہیں گاڑھ دیا جاتا۔" فریسات غصے سے بولا: "جب تمہیں پتہ تو پھر کیوں بول رہے ہو؟  تھوڑا احتیاط اور تقیہ سے کام لو۔"

 

ہمیں محمد فریسات کے بارے میں بتائیں

محمد فریسات جس کا ایک پیربھی گھٹنے سے قطع ہوگیا تھا، قید کے ایام میں زیادہ تر لوگوں کا مترجم تھا۔  جب اُس کے پیر کو گھٹنے سے الگ کیا گیا، وہ بے حس تھا اور متوجہ نہیں تھا  کہ اُس کا پاؤں کاٹ دیا گیا ہے۔ وہ بیڈ سے اُترنے کیلئے کھڑا ہوا،  اُس کے گھٹنے کا اگلا حصہ ہسپتال بیڈ کی راڈ سے ٹکرایا ایک دم اُس کی چیخ فضا میں گونجی۔ عراقی نرس نے بھی اُسے دلاسہ دینے اور سکون کا انجکشن لگانے کے بجائے صحن سے ایک اینٹ اٹھا کر اُس کے سر پر ماری تاکہ دوبارہ شور نہ مچائے۔

 

قید کے آخری سالوں میں آپ کے حالات اور شرائط کیسے تھے؟

سن  ۱۹۸۹ء تھا اور امام خمینی ؒ کی رحلت میں ابھی ایک دو مہینے باقی تھے  ہم سیکٹر دو سے سیکٹر چہار میں منتقل ہوگئے اور ہمارا کیمپ تبدیل ہوگیا۔ اُس زمانے میں ۱۱ نمبر چھاؤنی میں چار سیکٹر اور ہر سیکٹر میں تین سنٹر تھے جو ۱۰۰ سے ۱۵۰ میٹر کے فاصلے پر ایک دوسرے کے برابر میں تھے۔  دو سیکٹروں کے درمیان پانی سے بھرا ایک سوئمنگ پول تھا  کہ ہمیں جس میں ہاتھ ڈالنے کی حسرت ہی رہی۔ لیکن وہ سردیوں میں ہمیں اذیت دینے کیلئے سوئمنگ پول پہ جمی برف توڑ دیتے ۔ اس طرح کرتے کہ کپڑے اُتروا کر ہمیں سوئمنگ پول میں برف توڑنے بھیجتے پھر ہمارے گیلے بدن پر چھڑی سے مارتے۔

ہمارے سنٹر کا مسئول ایک  سارجنٹ تھا جس کی شکل ناموزوں اور گندی تھی۔ ایک دن یہ سارجنٹ چھٹی پر چلا گیا اور اپنی جگہ  مصطفی نامی افسر کو چھوڑ گیا ۔ مصطفی جو چھ تاروں والا مصطفی سے مشہور تھا آکر کہنے لگا لائن میں لگ جاؤ۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے اور اُس نے تقریر کرنا شروع کردی کہ اس پانی کو نہیں پی سکتے، اسے دیکھنے کا بھی حق نہیں ہے، تمہیں حق نہیں ہے کہ یہ کام کرو اور یہ نہ کرو۔ سب اُس سامنے والے سیکٹر کی طرف دیکھو اور جان لو یہاں سے آگے نہیں بڑھنا، یہ ممنوعہ علاقہ ہے۔ خلاصہ ایک گھنٹے تک تقریر کرتا رہا اور حکم چلاتا رہا۔  جیسے ہی اُس نے کہا: "اب آزاد ہو" جیسے کسی مجمع میں کوئی بمب پھٹ جائے بالکل اس طرح ہر کوئی ایک طرف گیا۔ کچھ لوگ حملہ ور ہونے کی طرح برابر والے سیکٹر کی طرف دوڑے اور آپ یقین کریں  ہم اتنے عذاب میں تھے باوجود اس کے کہ ہم تمام قیدی ایک ہی لشکرسے تھے لیکن تین سالوں تک ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے  اور نزدیک سے سلام کرنے کی حسرت ہی رہی۔ کچھ لوگ سوئمنگ پول کی طرف گئے  اور اُنھوں نے اپنے سروں کو پانی میں ڈالتے ہی پانی پینا شروع کردیا۔ کچھ لوگ سامنے والے سیکٹر کی طرف گئے اور دوسرے قیدیوں سے باتیں کرنے لگے اور کچھ لوگ اپنے کپڑے پھیلانے ملحقہ خاردار تاروں کی طرف گئے کہ جہاں جانا مطلقاً ممنوع تھا۔

اُس دن صبح تیسرے سیکٹر  میں رہنے والے میرے ایک دوست نے اپنا کمبل دھویا تھا اور میں کمبل پھیلانے کیلئے اُس کی مدد کرنے جارہا تھا ۔  مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ مصطفی اپنی کرسی ڈالے کوریڈور کے نزدیک بیٹھا ہوا ہماری آمدو رفت  کو دیکھ رہا ہے۔ میں ابھی اپنے دوست کے کمرے سے ۵۰ میٹر  دورتھا  کہ میرے ایک ہمدانی دوست نے کھڑکی سے ہاتھ بڑھا کر مجھ سے کہا: "سلام جناب مجیدی، آپ کیسے ہیں؟" میں نے بھی اپنا ہاتھ بڑھایا اور اُس سے خیریت دریافت کی اور کچھ باتیں کیں کہ "کیا ہورہا ہے؟ آپ کا سنٹر کیسا ہے؟ زیارت عاشورا کا کیا کرتے ہو؟ زیارت عاشورا ہے ہمیں دوگے؟ نہیں ہے؟" اب تھی یا نہیں، یہ   رہنے دیں۔ کچھ باتیں ثقافتی کام کے بارے میں ہوئی کہ اچانک مصطفی نے کہا: "اوئے ذرا ادھر آنا، تم لوگ کیا کر رہے ہو؟" اور غصے کی حالت میں میری طرف آنے کیلئے کھڑا ہوگیا، میں بھی اُس کی طرف بڑھا، چند قدم کے فاصلے پر پہنچا تو وہ ٹوٹی پھوٹی فارسی میں بولا: "جاؤ، میں نے کہا جاؤ…"میں نے کہا: "مجھے کچھ کہنے کا موقع دو"، لیکن آہستہ آہستہ مصطفی کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا اور بالآخر اُس نے مجھے مارنے کیلئے مٹھی بنالی، میں نے دیکھا اگر اب روکا تو وہ میرا سر پھاڑ دیگا۔

اور جیسا کہ میں نے سفید بنیان پہنی ہوئی تھی اور دو سیکٹر کے تمام افراد جو ٹوٹل ۳۰۰ بنتے تھے، اُنھوں نے زرد رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا، اگر میں فرار کرتا تو پھر بھی پکڑ لیا جاتا اور وہ مجھے مارتا۔ میں نے دیکھا مصطفی غصہ میں ہے میں نے پلٹ کر کیمپ کے اطراف میں بھاگنا شروع کردیا۔ سب لوگ ماشاء اللہ  کہہ کر اور تالیاں بجا کر میری  حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور میں بھاگ رہا تھا، مصطفی بھی اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ میرے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ تھوڑا بھاگنے کے بعد جب اُسے لگا مجھ تک نہیں پہنچ سکتا تو اُس نے غصے میں اپنی گھڑی  اُتار کر زمین پر پٹخی اور گالی بکی۔ میں سمجھ گیا کہ اب اُسے چکر نہیں دینا چاہیے، بہتر یہی ہے کہ رُک جاؤں ورنہ وہ بعد میں مجھ ماردے گا۔ میں ٹھہر گیا اور مصطفی میرے پاس آکر پھر ٹوٹی پھوٹی فارسی میں کہنے لگا: "کیوں بھاگے؟ میں نے کہا تھا؟" میں نے پھر کہا: "مجھے کچھ کہنے کا موقع تو دو۔" اچانک مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا ہوا اور اُس نے کیا کیا؟ صرف اتنا پتہ چلا کہ میری بنیان خون میں تربتر ہے۔

مصطفی نے مجھ سے کہا: "جا کے اُس حوض میں بیٹھ جاؤ" مصطفی نے جس حوض کی طرف اشارہ کیا تھا وہ ایک معمولی میز جتنا تھا جس میں عراقی فوجیوں کے لیٹرین کا پانی جمع ہوتا تھا تاکہ باقی احاطہ صاف رہے ۔ میں جاکے اُس حوض میں بیٹھ گیا اور خود سے کہنے لگا: "ابھی اچھا وقت ہے کہ میں ایک اور ڈرامہ کروں۔" میں اپنے گھٹنے پر سر ٹکائے ایسے ہی بیٹھا ہوا زمین کی طرف دیکھ رہا تھا، خون کے قطرے  پانی کی بوندوں کی طرح گر رہے تھے۔ میں خون کے ہر قطرے کو اپنے بدن پر مل لیتا، میرا پورا بدن خون میں غرق ہوگیا۔

اتنے میں مصطفی  منھ ہاتھ دھوکر اپنے لئے چائے لے آیا تھا، پھر مڑ کر میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:" ہاں اب بتاؤ، اب بولوں کیا کہنا چاہتے تھے؟" میں آرام سے اٹھا اور جا کے اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا اُس نے جیسے ہی مجھے خون میں تربتر دیکھا  اُس کی تو جان نکل گئی۔ وحشت سے بولا: "کیا ہوا ہے؟ کس نے مارا ہے؟" میں نے جرات کے ساتھ ہنستے ہوئے اُسے طعنہ مارا: "قندرہ! (عربی میں جوتے کو کہا جاتا ہے اور درحقیقت  توہین آمیز لفظ ہے)، تم نہیں جانتے مجھے کس نے مارا ہے؟" مصطفی پریشان ہوگیا تھا اور اُسے دھچکا لگا تھا، کہنے لگا: "آؤ بیٹھو ، بتاؤ مجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے؟" میں نے وہاں جاکے اُس سے کہا: "کیا آپ کے یہاں یہی مرسوم ہے اگر کوئی آپ کی طرف ہاتھ بڑھائے تو آپ ہاتھ کھینچ لیں؟ اگر کوئی سلام کرے تو کیا اُس کا جواب دینا واجب نہیں؟ اُس نے سلام کیلئے ہاتھ بڑھایا اور میں نے بھی ناچاہتے ہوئے مجبوراً ہاتھ بڑھا دیا۔" مصطفی نے کہا: "عجیب، ناچاہتے ہوئے تھا؟" میں نے کہا: "جی، نا چاہتے ہوئے تھا، میں ہاتھ ملانا نہیں چاہتا تھا۔" پھر کہنے لگا: "اب کیا چاہتے ہو؟ جو کہنا ہے کہو، البتہ اس شرط پر کہ نگہبان کو مت بتانا کہ میں نے تمہیں مارا ہے۔" کیونکہ وہ جانتا تھا کہ چھاؤنی کا افسر ایک گھنٹے بعد گنتی کرنے کیمپ میں آئے گا۔ میں نے دیکھا کہ موقع اچھا ہے، میں نے کہا: "میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتا ہوں۔" مصطفی نے کہا: "تم ایک گھنٹے تک  آزاد ہو جو کرنا چاہتے ہو کرلو۔"

میں نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھایا اور ہر قیدی سے جاکر ملا اور خیریت دریافت کی چاہے جاننے والا ہویا کوئی غیر اور اسیری کے ان تین سالوں کی معلومات کا تبادلہ خیال کیا۔ حتی ہم لوگ یہ باتیں کر رہے تھے، فلاں واقعہ ہوا ہے، ایسا ہوگیا ہے، ہم نے یہ کام کیا، فلاں جگہ جاکر ہم نے یہ کام کیا، اپنے سنٹر کے مسئول کو اس طرح سیدھا کیا، فلاں منافق کو اپنے راستے سے ایسے ہٹایا، افراد کہنے لگے کہ "بس بہت ہوگیا، اب تم اپنے سیکٹر میں چلے جاؤ۔" میں نے تین گھنٹے تک سب سے باتیں کی اور میری ملاقات طولانی ہوگئی، میں خود بھی تھک گیا تھا، لیکن میں سب سے کہہ رہا تھا: "اس ملاقات میں مزہ ہے کیونکہ اُس کی مار کھا چکا ہوں۔"

 

بالآخر کون سے سال آپ صدامی فوج کی قید سے آزاد  ہوئے؟

میں ۱۵ ستمبر سن ۱۹۹۰ء والے دن آزاد ہوا، آپ نے یہ سنا ہوگا کہ کچھ قیدیوں کو بارڈر تک لایا گیا اور اُنھیں پھر واپس کیمپ بھیج دیا گیا۔

 

جی ، ہم نے  اُس بارے میں تھوڑا بہت سنا تھا،  وہ کیا داستان تھی اور  کیا اُن قیدیوں میں آپ بھی تھے؟

جی ہاں، بات کچھ اس طرح ہے کہ جب قیدیوں کے تبادلے کا ماجرا پیش آیا، عراقی فوجیوں نے ۵۰۰ ایرانی قیدیوں کو ۱۰ بسوں پر سوار کرکے بارڈر کی طرف بھیجا۔ ان ۵۰۰ افراد میں، میں اور وہ ۱۶۰ مخالف مشہور افراد بھی شامل تھے جنہیں ۹۹ سال سے ۴۰۰ سال تک سزا سنائی گئی تھی۔ ہمیں تکریت سے ملحقہ علاقے اور بغداد کے قریب بعقوبہ  منتقل کردیا۔ وہاں صدام کے خاص فوجیوں کی تیسرا ہیڈ کوارٹر تھا اور ہم سے کہا گیا تھا کہ تمہیں ایران بھیجیں گے۔ ہم چند دن تک وہاں رہے اور بالآخر وہ دن بھی آگیا جس دن قیدیوں کو آزاد کرنا تھا۔ اُس سے ایک دن پہلے جب لوگ چپکے سے کیمپ کی بیک سائڈ پر کھانا لینے گئے تھے،  تو انھوں نے وہاں کرنل محمد وارستہ کو دیکھا۔ وارستہ پائلٹ کرنل تھا  جو ۱۱ ویں کیمپ میں ہمارے ساتھ موجود تھا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا: "کرنل صاحب آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" وارستہ کہتا ہے: "میں دیگر دس افراد کے ساتھ یہاں ہوں جن میں جناب ابوترابی بھی ہے اور عراقی فوجی ہمیں ریڈ کراس کے کیمپ میں لاکر ڈرامہ کر رہے ہیں تاکہ ہم ریڈ کراس والوں کی گاڑیاں دیکھ کر پرسکون ہوجائیں  ہمارا تبادلہ یقینی ہے، لیکن وہ ہمیں عراق میں ہی رکھنا چاہتے ہیں، جاؤ اور اپنے کیمپ کے لوگوں کو بھی بتاؤ۔" افراد نے واپس آکر ہمیں اس ماجرے سے آگاہ کیا اور ہم نے عراق میں نہ رہنے کیلئے، کچھ دوستوں کے ساتھ جیسے جناب خالدی، نادر دشتی، جناب رحیم قمیشی اور علی گلوند جو لشکر کمانڈر تھے، اپنے کیمپوں کو تبدیل کرلیتے ہیں۔

 

پس علی گلوند بھی آپ کے ساتھ قید میں تھے؟

جی، جناب علی گلوند کیمپ میں قیادت کونسل کے رکن تھے، جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا، یہ جو بھی کہتے ہم بغیر چوں و چرا کیئے اُسے انجام  دیتے۔

 

ایک اور سوال، یعنی کیمپ تبدیل کرنا اتنا آسان تھا اور آپ نے اتنی جلدی اپنے کیمپوں کو تبدیل کرلیا؟

نہیں جناب، اُس دن اصل موضوع سے آگاہ ہونے کے بعد ہم نے کہا: "دوستوں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" تھوڑا غور و فکر کیا اور نماز ظہر و عصر پڑھنے کے بعد ہم نے کہا بہترین کام یہ ہے کہ ہم لوگ شورش کرتے ہیں۔ کیونکہ اس موضوع کے علاوہ ہم اپنے دوستوں کو بھی نجات دلانا چاہتے تھے۔ تکبیر اور اللہ اکبر کہتے ہوئے دروازوں اور دیواروں کے ذریعے کیمپ کے اوپر چڑھ گئے اور چھت پر کھڑے ہوگئے، پھر خاردار تاروں کو پکڑ کے اُنہیں کھولنا شروع کردیا، کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ ریڈ کراس والے وہاں موجود ہیں اور کم سے کم ہمیں قتل نہیں کیا جائے گا اور زیادہ سے ہمیں ٹارچر کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتہ تھا  کہ خار داروں  کے اُس پار کھڑے آمادہ ٹینکوں اور چیک پوسٹوں پر کھڑے چوکیداروں کو گولی چلانے کا حق نہیں ہے۔ اس موضوع سے آگاہ ہونے کے سبب ہم نے اللہ اکبر کہنا شروع کردیا۔ افسر آکر کہنے لگا : "کیا ہوگیا ہے؟ کیوں موت آرہی ہے؟ تمہیں کھانا زیادہ دیا جائے تو چیخنے لگتے ہو،  کم دیا جائے تو چیختے ہو۔ اب کیا ہوا ہے؟" ہم نے کہا: "ہمیں اپنے وہ دوست چھڑوانے ہیں۔" عراقی افسر بولا: "وہاں تو کوئی نہیں ہے۔" ہم نے کہا: " نہیں نہیں، ہیں، اُن لوگوں کو لیکر آؤ ورنہ ہم کیمپ کو آگ لگادیں گے" اور سنٹر کے سامنے جو بھی پتھر اور ٹوٹی ہوئی اینٹیں تھی جمع کرلیں اور اُس کا ڈھیر لگا کر چھلانگ لگانے کیلئے تیار ہوگئے۔ اُن دنوں ہم ہر بات پر ڈٹ جاتے تھے اس حال میں بھی ہم جانتے تھے کہ وہ لوگ ان چالوں سے ہمارے دوستوں کو  ہمارے حوالے نہیں کریں گے۔

جناب مصطفوی نے جاکر افسر نگہبانی سے بات کی اور کہا: " دیکھو، اب تک تم نے جو کچھ کہا، ہم نے کہا اطاعت  اور جو چاہا ہم نے انجام دیا،  اس دفعہ تم ہماری بات سنو اور ہمارے ساتھیوں کو ہمارے حوالے کردو۔" افسر جو مشکل حالات میں پھنس چکا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے کہنے لگا: "ٹھیک ہے، منظور ہے۔ ہم تسلیم ہوجاتے ہیں، جاؤ جاکر دروازہ کھولو اور نیچے آجاؤ جب تک تمہارے دوستوں کو لاتے ہیں۔" ہم نے کہا: "نہیں، ہم خود تمہارے ساتھ آئیں گے، اگر تم ابھی چلے جاؤ گے تو اُنہیں دوبارہ کہیں اور منتقل کردوگے ہمیں تمہارے ساتھ رہنا چاہیے۔" بہرحال ہم نے اُنہیں ہر طرف سے گھیر لیا  اور وہ جناب مصطفی مصطفوی جو بٹالین کمانڈر تھے کے ہمراہ ایک وفد  لے جانے پر مجبور ہوگئے۔ وفد گیا اور ہمارے دوستوں کو کندھوں پر بٹھاکر لے آیا۔

افراد جناب حاجی ابوترابی کو لے آئے اور سب اُن کے گرد بیٹھ گئے اور آدھے گھنٹے تک ان کی نصیحتیں اور تقریر سنتے رہے اور ہم نے اُن کی گفتگو سے استفادہ کیا۔ وہ ہمارے متحد اور ایک جان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور ہماری یک جہتی اور اتحاد  کی وجہ سے وہ ہمارے پاس آگئے۔ پھر ہم نے عراقی فورسز کے لئے شرائط رکھیں اور کہا: "اگر ہمیں آزاد ہونا ہے، تو ہماری کچھ شرائط ہیں۔" ہماری شرائط یہ تھیں کہ سب سے پہلے تو ہماری بسوں کی تعداد دس ہونی چاہیے اور ہم سب سوار ہوں۔ اور ہم سب سے ہماری مراد یہ تھی کہ حتی اگر ایک آدمی بھی سوار نہ ہوا  تو کوئی بھی سوار نہیں ہوگا۔  اس کے علاوہ بسیں ایک کے پیچھے ایک اور بغیر فاصلے کے چلیں اور اگر اُن کے درمیان فاصلہ ہوا تو ہمیں بسوں کو آگ لگا دیں گے۔

ہمیں محمد وارستہ کے جدا ہونے والا واقعہ  سنائیں

ماہ مبارک رمضان کے ایام تھے ، آئے اور محمد وارستہ کو ہم سے جدا کرکے لے گئے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کیمپ کے اندر ایک آدمی عراقی فورسز کا جاسوس تھا  اور وہ روازنہ  روٹی لینے کے  بہانے جاتا اور کیمپ میں ہونے والی حرکت کو برملا کردیتا  یا جھوٹ بولتا کہ فلاں شخص پاسدار ہے، یا کسی نے تاروں کو چھیل دیا ہے تاکہ چوکیداروں کو مار سکے  اور ہر دفعہ روٹی کے ایک لقمے  کیلئے ایک جھوٹ بولتا۔ عراقی فورسز اور خاص طور سے عدنان نامی چوکیدار، روزانہ  انہی جھوٹ کی وجہ سے مختلف اور نئے نئے اقسام کے شکنجے اور اذیتیں دیتا۔

 

کیا ہمیں سنانے کیلئے آپ کو عدنان کا بھی کوئی واقعہ یاد ہے ؟

جی ہاں، عدنان بھی جس طرح سے ہوتا ہمیں اذیت کرتا۔ مثال کے طور پر اُس نے ایک دفعہ  دو اینٹیں رکھی اور ایک قیدی سے کہنے لگا: " لیٹ جاؤ اور  اپنے پاؤں  اس پر رکھو۔" اس کے بعد پیروں پر شیٹ مارتا۔ ایسا لگتا جیسے ابھی پیر کٹ جائے گا اور بیس میٹر دور جاگرے گا۔ اتنا زیادہ مارتا کہ ہم بے حال ہوجاتے۔ ایک دفعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اُس نے ہمارے ایک دوست کو شیٹ  سے اتنا مارا کہ شیٹ ٹیڑھی ہوگئی اور پھر اُسے اُسی درد بھرے پاؤں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ عدنان کے پاس خیزران کی چھڑی تھی جو ڈھائی میٹر لمبی ہوگی اور وہ اُسے چوپان کی طرح اپنے پیچھے چھپا کر رکھتا۔ ظاہری لحاظ سے عدنان کا جسم چوڑا اور قد لمبا تھا جبکہ وہ چہرے اور جسم سے تجربہ کار اور ڈیسنٹ لگتا تھا۔ بالکل مرتب رہتا اور بہترین کپڑے پہنا تھا۔ بہت ہی بھاری بھر کم تھا اور بقول اُس کے وہ جنگ سے پہلے  لوہار کا کام کرتا تھا۔

کبھی عدنان قسم کھاکے کہتا: "میں تو تم لوگوں کو مارتا ہی نہیں ہوں، خدا کی قسم میں تو صرف ا س لئے مارتا تاکہ تم لوگ فساد نہ مچاؤ اور یہاں آگ نہ لگادو ، جسے کنٹرول کرنا کہا جاتا ہے۔" ایک دفعہ اُس نے ہمیں بتایا: "تم جاننا چاہتے ہو کہ میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کیا کیاَ؟ایک جگہ کچھ لوگوں کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی  تاکہ وہ میرے زیر نظر کام کریں۔ میں ایک دن دوپہر کا کھانا کھانے گھر گیا۔  اُس دن گھر میں میرے علاوہ میری والدہ اور بھائی تھے۔  میں نے صبح باہر جانے سے پہلے اپنے بھائی  سے کہا آج صبح جاکے یہ کام کردینا، میرے بھائی نے کہا ٹھیک ہے؛  لیکن جب میں ظہر کے وقت اپنا کام انجام دیکر گھر پلٹا، دیکھا کہ میرا بھائی بھی دستر خوان پر بیٹھا ہوا ہے اور جو کام میں نے کہا تھا وہ انجام نہیں دیا ہے۔ جیسے ہی میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا میں نے اپنے بھائی کے منھ پر ایک گھونسا مارا تاکہ وہ دستر خوان سے اُٹھ جائے۔ میرا بھائی جاکے کمرے کے کونے میں بیٹھ گیا اور گھٹنوں پر سر رکھ کے رونے لگا۔ میں بھی اپنے کام سے باہر چلا گیا۔ رات تقریباً ۹ یا ۱۰ بجے گھر پہنچا تو دیکھا میرا بھائی ابھی تک رو رہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو تو مارتا ہی نہیں!"

لیکن عدنان بہت ہی بری طرح مارتا تھا۔ ہم ۲۰۰ لوگوں کو مارنے کے بعد کہتا  کہ : "ابھی تو میرا ہاتھ گرم ہوا ہے، جاؤ میری شیٹ  لیکر آؤ،  میرا سریہ  لے آؤ، میرا ڈنڈا لے آو، میری خیزران والی چھڑی لے آؤ۔" عدنان ہر دفعہ کم از کم ۱۰ لوگوں کے  جبڑے نکال دیتا اور کہتا ابھی تو میں گرم ہوا ہوں اور ہمیں اتنا مارتا کہ لوگ ہسپتال جانے پر مجبور ہوجاتے۔ عدنان مسلسل یہی کہتا تھا: "میں نے ایران کے ایک محلے میں دس سال گزارے ہیں اور تم لوگ وہاں کی جس علاقائی زبان میں بات کرتے ہو میں سمجھتا ہوں۔" لیکن اُس نے اتنے ظلم ڈھائے کہ آخر میں یوسف (اسی انٹرویو میں اُس کے بارے میں بات ہوئی ہے) کی سخت بیماری میں مبتلا ہوگیا اور آکر کہنے لگا: "مجھے معاف کردینا۔"



 
صارفین کی تعداد: 3728


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔