ایک جنگی آپریشن کے نازک لمحات کی روداد کمانڈر بیر انوند کی زبانی

۱۳۹ بریگیڈ کا غیر معمولی کمانڈر

انٹرویو اور ترتیب: امین کیانی
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-18


جناب بیرانوند جمہوری اسلامی  ایران کی فوج میں کمانڈر ہیں۔ جو ۱۹۶۰ء میں فوجی اسکول میں داخل  ہوئے اور اس کے بعد فوج میں آگئے۔ آپ ۱۹۸۲ء میں فتح المبین نامی جنگی آپریشن  میں دشت عباس کے مقام پر دستہ نمبر ۸۴ کے بریگیڈیئر تھے۔ اور دشت عباس، علی گرہ زد، تینہ، چیخواب کی نہر کے پل، عین خوش کی پہاڑیوں اور چھاؤنیوں، کمر سرخ و تیشہ کن کی پہاڑیوں کو واپس لینے میں آپ کا اہم کردار تھا۔  ایران کی تاریخ شفاہی (زبانی تاریخ) کی ویب سائٹ  کی ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو آپ لوگوں کے پیش خدمت ہے۔

 

اس وقت سے شروع کرتے ہیں جب آپ خرم آباد کے مستقل بریگیڈ میں داخل ہوئے۔

جی، ۱۹۸۲ء میں خرم آباد کے مستقل بریگیڈ کی کمانڈر شپ کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ مجھ سے پہلے خرم آباد کے آفیسر جناب حسن رضا کلانتری تھے  جو نہایت ہی شریف آدمی تھے۔ پہلے تو میں نے  قبول نہیں کیا، جس پر مجھے تہران طلب کرلیا گیا۔ شہید صیاد شیرازی نے مجھ کہا: "محترم! یہ اسلامی نظام ہے، ذمے داری ہے، میں نے آپ کو حکم دیا ہے، آپ کو اسے قبول کرنا چاہیے۔" میں نے کہا: حتماً، اور قبول کرلیا۔

بریگیڈ کی حالت بہت اچھی نہ تھی، فقط ایک اور آدھا دستہ تھا۔ اس کے باوجود کہ مرحوم کلانتری نے بریگیڈ کو ایک حد تک بہتر کر دیا تھا لیکن پھر بھی ایک مستقل بریگیڈ بننے کیلئے  وقت درکار تھا۔ میں نے اس بریگیڈ کی ذمے داری کو قبول کیا اور اسے مزید بہتر بنایا۔ مختلف چھوٹے چھوٹے دستوں کو جمع کیا اور آپس میں ملا دیا۔ دستہ نمبر ۱۳۹ "پاوہ" میں تھا، اسے بھی اسی بریگیڈ سے ملحق کرکے اپنی تحت نظر لے لیا۔ یہ سب فوج کے چیف شہید صیاد شیرازی کی مدد سے ہوا جو کہ ایک بہترین اور زحمت کرنے والے فوجی تھے۔  اگر امام خمینی ؒ خدا میں ضم ہوچکے تھے تو وہ (شہید صیاد شیرازی) امامؒ میں ضم ہوچکے تھے۔  مختصر یہ کہ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے اس بریگیڈ کو جمع کرنے اور مزید مضبوط بنانے کی اجازت دیں۔ مزید سپاہی دیں اور اس طرح کی دوسری چیزوں کی درخواست کی۔

آپریشن فتح المبین میں، اس بریگیڈ کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ایک دستہ موٹر سائیکلوں پر آر پی جی چلانے والوں کا تشکیل دیا جو کہ ایک اچھا، مؤثر اور فعال دستہ تھا۔ ایک دن تہران سے ایک جوان آیا اور کہنے لگا: "آپ کی کیا خواہش ہے؟" میں نے کہا: "جو کہوں گا وہ پورا کروگے۔" کہنے لگا: "ہاں" میں نے کہا: "۵۰۰ موٹر سائیکلیں چاہئیں"۔ کہنے لگا: "ایک درخواست لکھو، ۲۵۰ تمہیں دے دونگا۔"

 

یہ جوان کون تھا؟

اس کا نام میرے ذہن سے نکل گیا ہے۔ تہران سے تھا اور تقریباًٍ آپ کی عمر کا  تھا(یعنی ۲۵ سال)۔

 

فوجی تھا؟

نہیں، تاجر تھا۔ میں بہت خوش ہوگیا تھا، میں نے کہا: کیا واقعی سچ کہہ رہے ہو؟ دس دن نہیں گزرے تھے کہ ۲۵۰ موٹر سائیکلیں لے آیا۔

 

نوروز ۱۹۸۲ء سے پہلے کی بات ہے؟

جی ہاں،  نوروز سے پہلے کی بات ہے۔ اس وقت ہم آپریشن فتح المبین کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

 

اس وقت تک قیام گاہ تشکیل نہیں پائی تھی؟

کیوں نہیں، قیامگاہ تشکیل پا چکی تھی لیکن اس طرح کی نہیں تھی کہ اس میں اسٹاف رہ رہا ہو۔ تقریباً آدھا کام آرگنائز ہوچکا تھا۔ قیامگاہ تشکیل پانے کے بعد میں شہید صیاد شیرازی کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے کہا: "تمہیں جو چاہئیے، میں دونگا، اس بریگیڈ کو مضبوط کرو۔" میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ: "مجھے تقریباً تین ہزار سپاہی چاہئیں۔" خدا ان پر رحمت کرے، تین ہزار سپاہی، شاید اس سے کچھ زیادہ سپاہی انھوں نے دے دیئے۔ ہر ٹریننگ سنٹر سے سو، دو سو سپاہی بھیج دیئے۔ کہنے لگے: "بیرانوند! اتنے سارے سپاہی میں نے تمہارے لئے بھیج دیئے ہیں، میں دیکھتاہوں، تم کیا کرو گے!!"

مختصر یہ کہ ہم نے انہیں منظم کیا۔ مثال کے طور پر شہید شاہ مراد نقدی کا دستہ جو کہ اس مستقل بریگیڈ کا بہترین دستہ تھا۔ ہم نے دستوں کو منظم کرنے کے کام کو بڑھا دیا یہاں تک کہ ہر گروہ میں ۳۶۲ لوگوں کی نفری ہوگئی۔ موٹر سائیکل والے دستے کو شہید نقدی کے حوالے کیا جو کہ ایک ماہر افسر تھے۔ میں نے شہید نقدی سےکہا: "نقدی! ہر موٹر سائیکل پر دو لوگ ہونے چاہئیں۔ ایک آر پی جی چلانے والا اور ایک موٹر سائیکل چلانے والا۔ جو کہ عراقی ٹینکوں کی طرف زگزیگ کی حالت میں جائیں اور اس کی توپوں کو تباہ کرکے واپس آئیں۔" یہ (شہید نقدی) تقریباً دو مہینے ہمارے ساتھ رہے اور انھوں نے اس دستے کی ایسی تربیت کردی تھی کہ دل خوش ہوگیا تھا۔

 

شہید نقدی؟

جی، شہید نقدی، خدا اس پر رحمت کرے۔ اس دستے کے تشکیل پانے کے بعد، ہم نے زِرہ پوش سوار دستے کی تیاری شروع کردی۔ سخت تھا (لیکن) زرہ پوش سواروں کا دستہ بھی تکمیل پاگیا۔ شہید صیاد شیرازی نے مہربانی کی، ۴ سے ۵ چھوٹے ٹینک ہمارے لئے بھیج دیئے۔ زرہ سواروں کیلئے سواری بھی بنادی گئی۔ شہید صیاد شیرازی نے چند مکینک بھی بھیجے۔ ہمارے پاس ۴۴ ٹینک تھے۔ ہم مختلف یونٹس میں جایا کرتے تھے اور بات کرتے تھے۔ بہت اچھا لگتا تھا، بریگیڈ اچھی طرح سے منظم ہوچکا تھا۔

 

آپریشن فتح المبین میں آپ بریگیڈیئر تھے؟

ایک مستقل بریگیڈ کا کمانڈر، جو کہ تقریباً ا یک لشکر بن چکا تھا۔

 

آپ آپریشن میں کونسی قیامگاہ میں تھے؟

قیامگاہ قدس۔

 

قیامگاہ قدس کا ا فسر کون تھا؟

کرنل امر ا... شہبازی،  معین  وزیری جو کہ کرد تھے، ان کے معاون تھے۔ کرنل دژکام بھی اسی قیام گاہ میں تھے۔ کرنل شہبازی ہارٹ اٹیک ہونے کے باوجود میدان جنگ میں آیا کرتے تھے۔ جنگ کے ابتدا میں جب عراق نے "کرخہ" پر حملہ کیا، کرنل شہبازی کے ساتھ تین، چار دن ہم نے عراقیوں کو روکا۔ (اور پھر) تین بندوق بردار سپاہی وہاں مقرر کئے۔ جناب سگوند، جناب نصر ا ... سلیمانی، جناب ہمایوں۔ تین بندوق بردار سپاہی، ۱۰۶ تاؤ سیکھے ہوئے اور ڈریگن سپاہی تھے۔ ہم نے انھیں تین جگہوں پر مقرر کیا اور عراق کو "کرخہ" سے آگے نہ بڑھنے دیا۔

 

آپ کی یہ مستقل بریگیڈ کس جگہ پر ٹھہری ہوئی تھی؟

مولاب، یہ وہ دشت ہے جو شہر میں موجود درّہ سے نیچے کی طرف ہے،  اسے دشت مولاب کہا جاتا ہے۔ ا س کے پہاڑ کا نام، کوہ مولاب ہے۔ مولاب خود ایک پانی کو کہا جاتا ہے جو مقدار میں کم اور ایک چٹان سے آتا ہے، البتہ وہ پانی قابل استعمال نہیں تھا۔ ہم جس جگہ سے حملہ کرنا چاہتے تھے وہاں سے ہمارے ہدف (Targets) ۱۵ سے ۲۴ کلومیٹر کے فاصلے پر تھے، جو شہید نقدی کے ذمے تھے۔

 

اس بریگیڈ کا دفتر کس جگہ تھا؟

کوہ مولاب کے ٹھیک اوپر تھا،  ہم قیامگاہ قدس سے ۶۰۰ سے ۷۰۰ میٹر کے فاصلے پر تھے۔ ہم آگے تھے۔ ہمارے پاس دو بڑے ٹرک تھے جن میں سے ایک میں افسروں اور قیامگاہ سے  رابطے کیلئے وائرلیس  کا نظام تھا جبکہ دوسرے میں بریگیڈ کے سپاہیوں سے رابطے کیلئے وائرلیس کا نظام تھا۔ جب بریگیڈ کے سپاہیوں سے بات کرنی ہوتی تھی تو ایک ٹرک میں جاتے اور قیامگاہ بات کرنے کیلئے دوسرے ٹرک  جاکر بات کرتے تھے۔

 

خود سپاہیوں کے دستے کہاں ٹھہرے ہوئے تھے؟

میرے تحت نظر رہنے والے دستے پہلے دفاع کرنے گئے ہوئے تھے۔  دھلران کے مقام سے ابوغُریب تک تیل کے ساتھ کنوئیں ہیں۔ یہ دستے دشت عباس کے سامنے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم نے کمرسرخ کے پہاڑوں اور سرخ پہاڑی پر پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی۔ آپریشن کے وقت ایک ہی رات میں، میں نے سب کو جمع کیا۔ لشکر ۱۳۹ کے کمانڈر شہید نقدی تھے اور لشکر ۱۸۲ کے کمانڈر اس وقت کے  آرمی چیف ہیں،  بہت بہترین افسر تھے، گشت کے افسر جناب علی نشاطی۔

 

کیا آپ لوگ آپریشن سے پہلے لشکروں کے ٹھہرنے کی جگہوں پر چکر لگاتے تھے؟ آپ کو حالات کیسے لگتے تھے؟ کیا کامیابی کی امید رکھتے تھے؟

میں جب اپنے اسٹاف سے بات کرتا تھا اور وہ لوگ جو جواب دیتے تھے، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے حو صلے بلند ہیں۔ کمانڈر کو حوصلہ اپنے اسٹاف سے ملتا ہے اور مجھے کامیابی کی بہت زیادہ امید تھی۔

 

آپ کونسے بریگیڈ سے رابطے میں تھے؟

ہماری بائیں طرف دزفول کا بریگیڈ تھا۔  ایک بریگیڈ جس کے کمانڈر قاسم سلیمانی تھے، وہ ہم سے آملا اور اس کے علاوہ میں نے "ثار اللہ" نامی بریگیڈ سے بھی بات کی۔

 

آپ کے ٹھہرنے کی جگہ کیسی تھی؟ خیمے تھے یا پکی جگہیں؟

پکی جگہیں تھیں۔ ہم خیمے بالکل بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ چوکیاں تھیں۔

 

پہلی رات حملہ کرنے کا دستور دیا گیا لیکن پھر حملہ کرنے سے روک دیا گیا!

ہاں، رات کے تقریباًٍ ڈیڑھ، دو بجے حملہ کرنے کے حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔ ہمیں کہا کہ جہاں پر بھی ہو وہیں رہنا اور ہلنا مت۔ ہم قیامگاہ قدس کے تحت نظر تھے اور وہیں سے ہمارے لئے احکامات صادر ہوتے تھے۔

 

اس حکم کے بعد آپ کی کیا کیفیت تھی؟ آپ کے خیالات کیا تھے؟

جب کہا گیا کہ آپریشن نہ کیا جائے تو میرا دل چاہ رہا تھا اپنے سر پر ہتھوڑا مارلوں۔  ہم نے اس آپریشن کی تیاری کیلئے اچھی خاصی زحمت اٹھائی تھی۔ اب آپریشن نہ کرنے کا کیا مطلب تھا؟مختصر یہ کہ آپریشن کی رات تک انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ ہمیں آپریشن کی خوشخبری دی گئی۔

 

یعنی آپ سمجھ رہے تھے کہ آپریشن کینسل ہوگیا ہے؟

میں تو یہی سمجھ رہا کہ آپریشن کینسل ہوگیا ہے۔ حتی جب دیگر افسران میرے ساتھ بات کر رہے تھے تو میں نے ان سے کہا: مجھے شدید غصہ آرہا ہے، مجھ سے بات نہ کریں ۔جب میں مختلف یونٹس میں گیا تاکہ سپاہیوں کی کیفیت دیکھوں، کیسی ہے؟  تو سب ہی ناراض اور غصے میں تھے۔ لشکر نمبر ۱۳۹ اور ۱۸۲ اور دوسرے دو لشکروں میں گیا، جن کے مجھے ابھی نام یاد نہیں آرہے۔ ان لشکروں کے کمانڈروں سے جب میں نے بات کی تو سب ہی آپریشن کے رک جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔

 

آپ کب سمجھے کہ آپریشن ہوگا؟

دوپہر کے تقریباً ایک، دو بج رہے تھے کہ قیامگاہ قدس سے پیغام آیا کہ آپ لوگ افسردہ نہ ہوں کچھ کام چل رہا ہے۔

 

آپریشن فتح المبین میں تنہا لشکر جو آپ سے آگے تھا، کونسا تھا؟

شہید نقدی تھے، آپریشن سے پچھلی رات میں ہم تقریباً آٹھ کلومیٹر چل چکے تھے۔ تمام ہی لشکر پہاڑ کے کنارے آ پہنچے تھے اور فاصلہ کم ہوچکا تھا۔ ۲۰۲ کی بلند پہاڑیوں کو ہم شہید نقدی کے حوالے کرچکے تھے۔ خدا اس پر رحمت کرے، سب سے پہلا افسر تھا جس نے اہدف سے ۲۴ کلومیٹر کا فاصلہ ہونے کے باوجود، سب سے پہلے انہیں  پکڑ لینے کی خوشخبری سنائی۔ عراقی توپخانوں کی نسبت بہت حساس تھے اور شہید نقدی کا لشکر ان کے تمام ہی توپخانوں کو لے چکا تھا۔ دو آگ کے گولوں کے توپخانے تھے۔ اور عراقی وسائل کا مرکز جیسے اسلحہ ، گولہ بارود اور کھانے پینے کی اشیاء۔ میں مطمئن ہوگیا۔ میں نے کہا: بہترین، ۲۰۲ کی پہاڑیاں آخری ٹارگٹ ہے۔

سپاہ کے پیچھے ایسی پہاڑیاں تھیں جو عراق کی خاص نگرانی میں تھیں اور میں نے وہاں افسر یوسف وند کو رکھا تھا۔ نقدی نے کہا: توپخانہ پوری طرح سے ہمارے اختیار میں ہے اور آگ کے گولے مارنے والی دو توپوں اور تلافی کرنے کی جگہوں اور شیلٹروں کو اس طرح سے چھپایا ہوا ہے کہ صر ف ان کے اوپر کا حصہ نظر آرہا ہے، جس پر مٹی پوتی ہوئی ہے۔ میں نےکہا: ابھی آتا ہوں۔ ایک گھنٹہ پیدل چل کر پہنچا۔ یوسف وند، شہید نقدی سے مزید تین کلومیٹر آگے تھا۔ کیونکہ "تینہ" کی بلند پہاڑیوں کے گرد گھوم کرجانا تھا اور چیخواب کی نہر میں سے گزرنا تھا تاکہ ھاوی کے صحرا میں پہنچا جائے۔ "تینہ" کی پہاڑیوں کے اُس پار، صحرائے ھاوی ہے۔ یوسف وند کے پاس گیا۔ سب سے پہلے قیدی اس نے بنائے، اس کے بعد نقدی کے پاس گیا، یہاں ۴۵۰۰ تک کلاشنکوف گنی گئی تھیں۔

 

جب وائرلیس پر اعلان ہوا کہ عراقی فوج کی لائن کو عبور کرچکے ہیں تو آپ کی کیا کیفیت تھی؟

فتح کی خوشی میں دیوانے ہوگئے تھے۔ میں سڑک کے اس پر گیا اور دعا، گریہ اور نماز میں مصروف ہوگیا۔ اس کے بعد سپاہیوں کے یونٹ میں گیا ان سے باتیں کرنے لگا۔ میں نے نقدی سے کہا: تمہارے خیال میں ہمیں ان سب چیزوں کا کیا کرنا چاہئیے؟ نقدی نے کہا: انہیں یہاں سے کہیں اور منتقل کردینا چاہئیے، خدانخواستہ اگر ہمیں شکست ہوگئی تو افسوس کی بات ہوگی کہ یہ تمام اسلحہ ان لوگوں کو واپس مل جائے۔ ہم تمام اسلحے کو سرخ پہاڑی کے پیچھے لے آئے۔ یہ درہ کی مانند جگہ تھی۔ غنیمت میں ملنے والے ٹینکوں کو بھی وہیں لے آئے تھے اور شیلٹروں کو بھی۔ عراقیوں کے تالے کے علاوہ، ہم نے بھی اس پر ایک تالا لگادیا۔

 

بریگیڈ کے بقیہ لشکر اپنے مقاصد تک پہنچ سکے؟

تمام ہی اپنے اہداف تک پہنچ گئے تھے۔

 

آپریشن فتح المبین میں بریگیڈ کے کتنے سپاہی شہید ہوئے؟

(تھوڑا ٹھہر کر بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ) نقدی  اور مختلف لشکروں کے ۱۶ کماندڑ اور ان کے معاون اور ساٹھ سے زیادہ افسر۔ آپریشن کے چوتھے دن مجھے وائرلیس پر کہا گیا: "نقدی نہیں ہے اور حالت خطرناک ہوچکی ہے۔" میں، میرے آفیسر اور ایک اور شخص، ہم تینوں لوگ گئے۔ ان کا نام میرے ذہن سے نکل گیا ہے۔ پتلے سے آفسر تھے جو کہ بہت ماہر تھے۔ ہم گئے، ہمیں نقدی نہیں ملے! خدایا! کیا کریں، نقدی کو کہاں ڈھونڈیں، گروپ کا صرف ایک سپاہی واپس آیا جو نقدی کی شہادت کا گواہ بھی تھا۔ جس نے بتایا: ہم جب عراقیوں سے ۱۵ میٹر کے فاصلے پر پہنچے  تو انھوں نے ہم پر راکٹ مارنا شروع کر دیئے تھے جن میں سے کچھ نقدی کے سرو سینے پر لگے۔ نقدی کے ساتھ ایک اور افسر جو کہ اچھی قد کاٹھ کے تھے، افسر نیازی، وہ بھی شہید ہوئے۔ مختصر یہ کہ نقدی اور لشکروں کے کمانڈر شہید ہوگئے۔ گروپ کا صرف ایک سپاہی بچا تھا جو گاڑی میں پیچھے بیٹھا ہوا تھا وہ رات ہوتے ہی گاڑی سے اترا اور واپس آگیا۔ اس نے کہا: نقدی نے تین چار لوگوں کے برابر چھلانگ لگائی اور ایک بڑے پائپ میں جاکر چھپ گیا، جس پر راکٹ لگا۔ نقدی کی شہادت کے تین چار دن بعد کی جانے والی پیشقدمی  کے نتیجے میں نقدی اور نیازی کی نعشیں ملیں۔

 

نقدی کی شہادت کے بعد کیسا ماحول تھا؟

میرا نہیں خیال کہ کوئی نقدی کو جانتا ہو اور اس کی شہادت کے بعد رویا نہ ہو۔ کیونکہ وہ مہربان اور زحمت اٹھانے والا آدمی تھا۔ نقدی بہت عجیب آدمی تھا۔ وہ اس آپریشن میں شہیدا ہوا جس آپریشن (فتح المبین) نے حقیقت میں صدام کی کمر توڑ دی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3665


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔