عبد الرضا زمانی گندمانی کی یادوں سے

جماران کی حفاظت اور امام ؒ سے ملاقات

سارا رشادی‌زاده
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-10


جون  کی تیسری تاریخ،  ۱۹۸۹ ء  میں بانی انقلاب اسلامی کے ملکوتی ایام کو یاد دلاتی ہے۔ ایک ایسا مرد جو بادشاہی نظام کو نابود کرکے اب تک کی ایرانی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب رہا اور خود کو ایرانی تاریخ میں واضح مقام دلا سکا۔ اس عرصے میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کے ذہنوں میں جون ۱۹۸۹ء  کے واقعات موجود ہیں۔ عبد الرضا زمانی  گندمانی بھی اُنہی  میں سے ہے جو اُن دنوں جماران میں تھا ، اس کا امام خمینیؒ، ان کے خاندان سے قریبی  تعلق تھا اور اسے اُس سال  جون کے گرم دنوں کی بہت سی واقعات  یاد ہیں۔ ایران کی اورل ہسٹری سائٹ سے ہونے والی گفتگو آپ کے پیش نظر ہے۔

 

جناب زمانی، امام خمینی کے قریبی افراد میں کب سے آپ کا شمار ہوتا ہے؟

میں  ۱۹۸۱ء سے اور یہ وہ زمانہ تھا جب میں محاذ اور محرم نامی آپریشن سے تہران واپس لوٹا تھا  اور خادمین امام سے ملحق ہوگیا تھا، میری ڈیوٹی گشت لگانے والے افراد کی سربراہی تھی جو بہت سخت  اور مشکل تھی۔ میرے اختیار میں کچھ سپاہی تھے جن کی مدد سے جماران میں داخل ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لیکر ٹرک تک کی چیکنگ کرنا تھا۔  میں خود بھی گشت پہ ہوتا اور ایک ایک چیز چیک کرتا مثال کے طور پر کچھ اہم موارد پیش آئے کہ جنہیں کمال ہوشیاری کے ساتھ پکڑلیا گیا۔ ۱۹۸۳ء میں ایک بار  جی تھری گن گاڑی میں چھپائی گئی تھی کہ جسے ڈھونڈ کر ضبط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں نے اپنے افراد کو کہا ہوا تھا کہ کسی بھی مشکوک شخص کے ساتھ کوئی رویہ اختیار نہ کرے اور اُسے سیدھا میرے پاس بھیج دیں تاکہ میں خود اُس سے باز پرس کروں۔ اس واقعہ میں جب میں ڈرائیور کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے امام بارگاہ کے سامنے کام ہے اور وہ وہاں تک گاڑی لے جانے پہ بضد تھا۔  چیکنگ کے دوران اُس کے ردّعمل کی بنا پر مجھے احساس ہوا کہ ڈرائیور کے پیچھے والا دروازہ باقی دروازوں سے تھوڑا اُبھرا ہوا ہے پھر اسے کھولنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اُس میں ایک جی تھری اور ۲۰ اضافی گولیوں کو چھپایا گیا ہے۔

اُسی سال ایک واقعہ پیش آیا، وہ اسلحہ باہر سے لایا گیا تھا، مجھے خبر دی گئی کہ جماران سے پہلے ہاشمی چوراہے پر ایک مشکوک مورد دیکھا گیا ہے۔ میں نے آمادگی کے بعد اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اُسے جانے دو اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک کوڈ ورڈ ہے۔ اُس کے گزر جانے کے بعد، میں نے ڈرائیور کا تعاقب کیا اور جب اس تک پہنچا تو دیکھا کہ اُس نے ایک بہت بڑا اسلحہ کمبل میں لپیٹا ہوا ہے اور اُسے منتقل کرنا چاہتا ہے میں نے اسی حالت میں اُسے گرفتار کرلیا۔ یہ اسلحہ، پیچیدہ اسلحوں میں سے تھا،  جو بڑا اور دوربین  والا تھا  اور میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ کس طرح کا اسلحہ تھا۔

 

امام خمینی ؒ کے گھر میں اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بتائیے؟

محاذ سے جماران اور الحدید چھاؤنی لوٹنے کے بعد جماران کے اندر گیا۔ مجھے پلٹے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور گھر والوں کے علاوہ، جناب انصاری جو انقلاب سے پہلے  سے، نیز جناب مختار جو سپاہ کے کسی ادارے میں کمانڈر تھے ، مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور ہم الحدید میں ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ اُنہی اوائل ایام میں، ایک دن ہمیں بتایا گیا کہ امام کے کمرے میں رطوبت  پھیل گئی ہے اور حتماً اس کی مرمت ہونی چاہیے۔ میں نے گھر میں جانے کے بعد دیکھا کہ امام کے کمرے میں رطوبت ہے اور امام کے کمرے کی بیک سائٹ پر پانی جمع ہوگیا ہے۔ اوستا عین علی نامی مستری اور سپاہ کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر  قالین کو لپیٹا تاکہ مرمت کا کام شروع کریں ایسے امام تشریف لے آئے۔ اُنھوں نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد مجھے دیکھا اور فرمایا: "آپ نے مالک مکان سے اجازت لی ہے؟" مجھے جماران آئے ہوئے ابھی دو دن ہوئے تھے، میں سمجھا کہ امام کی مالک مکان سےمراد خود وہ ہیں، میں نے کہا: "نہیں" انھوں نے فرمایا: فوراً قالین بچھاکر کمرے کو دوبارہ سیٹ کرکے  پہلے مالک مکان سے اجازت لیں۔

میں کمانڈر کے پاس آیا اور اُس سے مالک مکان کا نام پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ گھر جمارانی صاحب کا ہے۔ میں اُن کے گھر گیا جب اُنھیں ساری داستان سنائی، جمارانی صاحب تھوڑے ناراض ہوئے کہ ایسے کام کیلئے اجازت کیوں لی جا رہی ہے، پھر کہنے لگے کل صبح جب امام لوگوں سے ملنے کیلئے چلے جائیں گے تو میں خود آکر کمرے کی مرمت کروں گا۔ اگلے دن صبح ۷ بجے جناب جمارانی، امام خمینی کے گھر پہنچ گئے اور  کمرے کی مرمت کردی۔ اُس دن میں باورچی خانہ میں پانی لینے گیا، میں مستقل ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ ایک رہبر کا گھر کتنا سادہ ہے۔ میں بہت پریشان تھا، میں گھر آنے کے بعد سوچوں میں ڈوب گیا۔ میں نے خود سے کہا جب ایک رہبر اتنی سادہ زندگی گزار رہا ہے تو مجھے بھی آسائشات میں گرفتار نہیں ہونا چاہے ، میں نے ہمیشہ سادہ زندگی کو ترجیح دی۔

 

اُس وقت کی بہت سی یادیں ہیں، کوئی بہت زیادہ جالب واقعہ ہمارے لئے بیان کریں؟

ایک دن امام کا خادم، حاجی عیسی ایک چھوٹی سی بالٹی لیکر میرے پاس آیا اور کہنے لگا امام کیلئے کچھ شہتوت چاہئیں۔میں بھی امام کے عشق میں درخت پر چڑھ گیا اور ۱۵ شہتوت توڑ کر بالٹی میں ڈال دیئے۔  جب حاجی عیسیٰ امام کیلئے شہتوت لے گئے تو امام نے کہا: "صرف مجھے ہی شہتوت پسند نہیں ہے کم توڑا کرو تاکہ دوسروں کو بھی ملیں۔" پھر اس کے بعد حاجی عیسی صرف ۵ دانے شہتوت توڑ کر امام کیلئے لے گئے۔

 

۳/ جون ۱۹۸۹ء کے دن اور اُس دن کی کیفیت کے بارے میں آپ کو کیا یاد ہے؟

جیسا کہ پہلے بھی بتایا کہ اُس علاقے کی امنیت برقرار رکھنا میرے ذمے تھا۔ امام خمینی ؒ کی رحلت سے ایک دن پہلے شام کے وقت اپنے ایک دوست جو کہ سہ راہ پر ڈیوٹی انجام دے رہا تھا، اُسے وائرلیس  دینے گیا۔ اُس نے مجھ سے کہا امام کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے، بہتر ہے کہ میں اوپر جاؤں۔ اُس وقت امام انتہائی نگہداشت میں تھے، میں اُن کے گھر گیا اور دیکھا کہ آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ ہاشمی اور دوسرے افراد وہاں موجود ہیں۔ اُس وقت امام کے کمرے اور انتہائی نگہداشت میں کیمرہ نصب کیا گیا تھا اور ہم ہسپتال سے اُن کی ویڈیو دیکھا کرتے تھے۔ اُس کے بعد آیت اللہ توسلی کی امامت میں نماز مغرب اور آیت اللہ مشکینی کی امامت میں نماز عشاء اداکی گئی اور رات دس بجے کے قریب بتایا گیا کہ امام کی حالت کچھ بہتر ہے۔

 

امام ؒ کے رحلت کی خبر کب منتشر ہوئی اور کیا ہوا؟

رحلت امام ؒ کی خبر اُسی رات آگئی اور دوسرے دن مصلای تہران میں ایک ماڈل کمرہ تیار ہوا، تھوڑا سا ٹائم لگا۔ میں اُس دن خبرنگاروں کی جگہ کھڑا ہوا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ پورے علاقے میں لوگ ہی لوگ تھے جو  رو رہے تھے۔

 

کیا اُس دن جماران میں امام کی رحلت کے بارے میں جاننے کیلئے لوگوں کا رش نہیں تھا؟

جماران میں ایک بڑا گیٹ ہے جس کا نام سہ راہِ بیت ہے، اس گیٹ کے پیچھے بہت سے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ لوگ رُک نہیں رہے تھے، مستقل جماران کی طرف آرہے تھے۔ اُنہی ایام میں سے ایک دن میں نے دیکھا عزاداروں سے بھری ایک بس جماران  آئی ہے  اور ایک خاتون انتہائی سوگ میں بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں جماران آئی ہے۔ اُن دنوں میں نے بڑی مشکل سے اپنے بچوں کیلئے جوتے خریدے تھے، اُس خاتون کو جوتے دیئے  اور اُس سے کہا یہ جگہ امام سے مربوط ہے، جوتے پہن لو اور جاؤ کہیں قافلے والےچلے  نہ جائیں۔ امام کی سادہ زندگی لوگوں پر اتنی اثر انداز ہوئی کہ جس کے باعث لوگ امام کو چاہنے لگے۔

 

مصلائے تہران کے علاوہ جماران میں بھی مجالس کا انعقاد ہوا تھا؟

جی ہاں، لوگ مستقل جماران آتے ۔ لیکن امام کی رحلت کے بعد امنیتی تدابیر کا کم خیال رکھا جاتا کیونکہ لوگ سوگ میں تھے اور چیکنگ کروانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ حتی کہ مجھے یاد ہے کہ رحلت امام کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک بہت ہی معروف عالم دین  شدید سوگ کے عالم میں اپنے سر کو پیٹ رہے تھے۔  میں اُن کی طرف گیا اور انہیں سنبھالنے کی کوشش کی۔ یا دوسرے افراد جیسے جناب خلخالی  اور دوسرے بہت سے افراد سرتا پا سوگ میں تھے۔

 

کیا جناب احمد خمینی کی وفات کے وقت بھی آپ یہاں موجود تھے، ان کے اور ان کی رحلت کے بارے میں بتائیں

اُس وقت میں اپنے گاؤں گیا ہوا تھا۔ داستان کچھ اس طرح ہے کہ شام کے چار بجے کے قریب میں اوپر اُن کے دفتر میں ان کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ حاجی عیسیٰ آئے اور کہنے لگے کہ گاؤں سے فون آیا ہے تمہاری پھوپھی کا بیٹا مسیح اسدی شہید ہوگیا ہے  اور طے پایا ہے کہ اس کی تشییع جنازہ ہونی ہے ۔ میں نے حاجی عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ نہ کہے لیکن حاج احمد سمجھ گئے اور کہا: "جاؤ تشییع جنازہ میں شرکت کرو۔" میں گاؤں چلا گیا شہداء کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے پھوپھی کے بیٹے کا جنازہ ایک دن بعد پہ ٹل گیا۔ رات اپنی والدہ کے گھر سویا ہوا تھا لیکن پریشان تھا۔ ابھی صبح کی اذان میں کچھ منٹ رہتے تھے کہ مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے دفتر فون کر ڈالا تو حاج عیسیٰ نے فون اٹھاتے ہی رونا شروع کردیا۔ اُن کے رونے کی آواز سن کر میں نے یہی بھی نہیں پوچھا کہ کیا ہوا؟ نماز پڑھتے ہی جماران لوٹ آیا، پتہ چلا کہ جناب احمد صاحب کو ہسپتال لے گئے ہیں اور بیہوش کرنے والے ڈاکٹر کی تلاش میں ہیں۔ طالقانی ہسپتال میں میرے کچھ جاننے والے تھے، وہاں پر ہسپتال کے مالی امور کے ہیڈ جناب دانشور ہماری مدد کیلئے پہنچے اور ہم ایمبولنس لیکر بیہوش کرنے والے ڈاکٹر کو تلاش کرکے حاجی احمد کے سرہانے لائے لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوسکا اور اُن کا انتقال ہوگیا۔

 

آپ جماران میں کب تک رہے؟

میں حاج احمد خمینی کی وفات تک جماران میں رہا پھر اُس کے بعد امام خمینی ؒ کے مرقد چلا گیااور پچھلے سال تک جوکہ میری ریٹائرمنٹ کا سال تھا، امام کے مرقد پہ ہی رہا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3670


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔