محترمہ لالہ افتخاری کے ساتھ گفتگو

میں چاہتی ہوں اپنے والد اور شوہر کی شہادت کے حالات صفحات پر منعکس کروں۔

انٹرویو: سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسین زیدی
۲۵/ جون، ۲۰۱۶

2016-7-21


شہدا کے بچے اور ان کی بیگمات وہ افراد ہیں جو دفاع مقدس کے وارث کے عنوان سے آج بھی ان کی یادوں اور ان کی خو اہشوں اور تمناؤں کو زندہ رکھ کر، ان کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ محترمہ لالہ افتخاری نویں پارلیمنٹ کی رکن، ان لوگوں میں سے ہیں جو شہید کی صاحبزادی ہونے کے ساتھ ساتھ، ایران اور عراق کی جنگ میں شوہر کے شہید ہوجانے کا بھی افتخار رکھتی ہیں۔ اور انھوں نے ان دونوں شہیدوں کی یادوں کو اپنی زندگی میں زندہ و جاوید رکھا ہوا ہے۔

 

محترمہ افتخاری صاحبہ، آپ نے اس جنگ میں اپنی زندگی میں موجود دو اہم مردوں یعنی والد اور شوہر کھو دیئے، ایک عورت ہونے کے ناطے یہ بات آپ پر اور آپ کی زندگی پر کس قدر اثر انداز ہوئی ہے؟

آیت اللہ جوادی آملی کی تعبیر کے مطابق،  ہم نے شہداء کو جنگ میں حاصل کیا ہے، نہ یہ کہ انہیں کھو دیا ہے۔ ان کا ظاہری اور مادّی بدن ہمارے درمیان سے چلا گیا ہے لیکن روحانی طور پر وہ ابھی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ میرے والد اور شوہر دونوں ہی جنگ میں آپریشن کربلائے ۴ میں سن ۱۹۷۹ میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ اس آپریشن میں میرے شوہر میدان جنگ میں شہید ہوگئے اورمیرے والد زخمی البتہ وہ زخموں کی تاب نہ لاسکے اور کچھ دنوں بعد ہسپتال میں شہید ہوگئے۔ ہمیں ان کے وارث ہونے کے ناطے، دونوں کی شہادت کی خبر ایک ہفتے بعد دی گئی۔ اور ان دونوں کو ایک دوسرے کنارے ہی فن کیا گیا ہے۔

ان دونوں کی شہادت کی خبر ملنے کے بعد میری ایک خاص کیفیت تھی۔ یعنی ایک ایسا احساس کہ جس میں شیرینی بھی  تھی اور تلخی بھی کیونکہ میں دونوں ہی سے بہت نزدیک تھی اور ان دونوں کیلئے بھی میں اسی  طرح تھی۔ مثال کے طور پر میرے والد جن کا ایک دواخانہ تھا، اپنی ۶۴ سالہ زندگی کے آخری دنوں میں کئی مرتبہ جنگ پر گئے تھے اور ایک علمی شخصیت تھے اور عبادت گزار، مجھ سے اس قدرت محبت کرتے تھے کہ ہمیشہ میرے دائیں ہاتھ کا بوسہ صرف اس لیئے لیا کرتے تھے کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔ جبکہ اس وقت خود میرے تین بچے تھے اور بچے اپنے والد سے زیادہ نزدیک تھے۔ میرے شوہر ہم لوگوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی زندگی کا آغاز اس پودے کی طرح کیا جو کہ جب زمین سے نکلتا ہے تو بہت مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ بہرحال ہم نے مشکل حالات کی سختی کو کاٹا۔ ان دنوں میں سیکنڈری میں پڑھ رہی تھی البتہ میں نے اپنی تعلیم کو ڈاکٹریٹ تک جاری رکھا اور اس کے بعد مدیریت کے کاموں میں مشغول ہوگئی۔

 

اس زمانے میں بہت ساری خو اتین میدان جنگ کے پشت پردہ مجاہدوں کی ضرورت کی چیزوں کی تیاری میں مصروف ہوا کرتی تھی، کیا آپ نے اس طرح کے کاموں میں بھی حصہ لیا؟

ہاں،  میں ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہوا کرتی تھی اور ہمارا گھر وہ مقام تھا جہاں (میدان جنگ کیلئے) امدادی سامان پڑوسیوں سے جمع کرکے اس امام بارگاہ میں بھجوایا جاتا تھا، جوکہ میرے والد کی تھی۔ اس کام کی ذمے داری میری والدہ کے کاندھوں پر تھی۔ اس امام بارگاہ کا نام "شہید افتخاری امام بارگاہ" تھا جو کہ شہر شاہرود میں شاہراہ فردوسی پر واقع مسجد افتخاری کے برابر میں ہے۔ میں کھانے اور لباس تیار کرنے کے علاوہ ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر بعض مطالب اور روایات کو کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ان کھانوں کے ڈبوں میں رکھ دیتی تھی، جو کہ مجاہدین  اسلام کیلئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ میرے والد کا ایک باغ تھا، جس کے پھل، بالخصوص سیب اور بقیہ پھلوں کو  گاڑی میں جمع کرکے، میدان جنگ بھیجنے کا کام کیا کرتی تھی۔ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیاں بھی ہمارے پروگرام کا حصہ ہوا کرتی تھیں مثلاً مجاہدوں اور شہدا کے گھر والوں سے ملاقات، انہیں تسلی دینا، ان کی مشکلات برطرف کرنے کی کوششیں کرنا۔

 

کیا ابھی تک آپ نے اپنے شہدا، کی یادوں کو کہیں لکھ کر محفوظ کیا ہے یا آپ کا ایسا کوئی ارادہ ہے؟

میری خواہش تھی کہ میں پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد، ان یادوں کو ایک جگہ لکھ لوں۔ اپنی زندگی کے انقلاب آنے سے پہلے کے ایام کے بارے میں، اپنے والدین کے بارے میں، جن کا میری زندگی میں بہت اہم کردار  رہا ہے اور ان کے بعد میرے شوہر بھی اسی طرح سے، ان سب کے بارے میں لکھوں۔ بالخصوص وہ کرامتیں جو میرے والد اور شوہر کی شہادتوں کے بعد، ان سے ظاہر ہوئی ہیں جو کہ کم نہیں ہے ۔ لیکن حسن اتفاق کہیئے یا سوءِ اتفاق کہ پڑھائی ختم کرنے کے بعد حکومتی ذمہ داریاں (عوام کی خدمت) میں مصروفیت اور اس کے بعد   پارلیمنٹ کی بارہ سالہ رکنیت کے سبب اب اس کام کیلئے وقت ہی میسر نہیں ہو پاتا۔

ہر چند کہ "مرکز حفظ آثار و ارزش ہای انقلاب اسلامی" نے ان میں سے بعض چیزوں کو محفوظ کرلیا ہے اور بعض یادوں اور واقعات کو کتبی شکل  دیدی ہے لیکن تین دن شہدا کی یاد میں ہونے والی تقریب میں، کہ جہاں میں میزبانی اور بانی ہونے کے فرائض انجام دے رہی تھی، اپنی کچھ یادیں ان شہدا کے بارے میں بتا چکی ہوں۔ اس سب کے باوجود ابھی بھی چاہتی ہوں کہ شہدا کی یادیں اور ان کی باتیں کتبی صورت میں محفوظ کریں۔

 

آپ شہدا کی یاد میں ہونے والی کتنی تقریبیں بعنوان بانی منعقد کرچکی ہیں، ان تقریبوں کا خیال آپ کو کیسے آیا اور آپ نے یہ تقریبیں کیونکر برگزار کیں؟

قرآن کریم کا حکم ہے کہ بعض مخصوص دنوں کی یاد منائیں  تاکہ یہ ایام ہمیشہ زندہ رہیں۔ جیسا کہ حضرت آیت ا۔۔۔ خامنہ ای فرماتے ہیں: "شہدا کی یاد منانا اور ان کی یادوں کو زندہ رکھنا، خود شہادت سے کم نہیں ہے۔" اور وہ اس آموزش (یعنی شہادت و شہدا) کو زندہ رکھنے پر تاکید بھی کرتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ فراموش کردیئے جائیں۔ میں نے بھی جب رہبر سے ملاقات کی اور اس موضوع پر ان کی تاکید دیکھی تو اس کام کا ارادہ کرلیا۔ یہ "شہدا کی یاد میں کی جانے والی تقریب" ایک مستقل پروگرام ہے جو کہ ابھی بھی ہوتا ہے۔ میں نے رہبر کی اسی تاکید کہ وجہ سے ارادہ کیا ہے کہ اس بارے میں مزید سرگرمیاں انجام دوں کیونکہ ہم کئی سالوں  سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ اس پروگرام کو خود پارلیمنٹ میں بھی برگزار کیا جائے لیکن وسائل مہیا نہیں ہو پاتے تھے  اور کچھ چیزیں رکاوٹ بن جاتی تھیں جس کی وجہ سے یہ پروگرام نہیں ہوپاتا تھا۔ لیکن پارلیمنٹ کے نویں دور میں ہم دفاع مقدس کیلئے پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بنانے میں  کامیاب ہوگئے اور  "شہدا کی یاد میں" ایک تقریب خود پارلیمنٹ میں برگزار کرچکے ہیں۔ اس پارلیمنٹ کا دورانیہ شروع  ہونے سے پہلے  اِس کے تین پروگرام خود پارلیمنٹ میں ہوچکے ہیں۔

 

آپ کا کیا خیال ہے، اس طرح کے پروگرام کا کوئی نتیجہ ہوگا؟

ہم نے ان پروگراموں میں کوشش کی ہے کہ حکومت کے عہدہ دار، پارلیمنٹ کے اراکین و شہدا کے بچے شرکت کریں ان پروگراموں کے سبب شہدا کے واقعات نقل کرنے والے لوگوں کو اپنے کاموں سے کچھ دور ہونا پڑا اور وہ دفاع مقدس کی فضا میں واپس آئے اور انھوں نے اپنے مجاہدوں کے اور شہدا کے واقعات کو اپنے ذہنوں میں تازکگی بخشی۔ یہ موضوع ایثار و شہادت کی تعلیم کے پھیلنے کا سبب بنے گا اور دوسری طرف سے شہدا کے گھر والوں کی مشکلات کو برطرف کرن کیلئے بھی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مستقل بنیادوں پر ایک پیشرفتہ پیکج پاس کیا گیا ہے، جس کی بنا پر قربانیاں دینے والوں کو اور شہدا کے خاندانوں کو مالی مدد فراہم کی  جائے گی۔  



 
صارفین کی تعداد: 3810


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔