جب تک خرمشہر آزاد نہیں ہوتا واپس نہیں آئیں گے

سارہ رشادی زادہ
۲۲ جون ، ۲۱۰۶
مترجم: سید مبارک حسین زیدی
سارہ رشادی زادہ

۲۲ جون ، ۲۱۰۶

2016-7-18


فیروز احمدی ایک بسیجی اور روٹیاں پکانے والے تھے جو آٹھ سالہ جنگ میں  ایک نگہبان اور  توپخانے کے انچارج بن گئے اور ان کے ریکارڈ میں ۱۱ سے زیادہ آپریشنز میں شرکت کا اندراج ہے۔ جناب احمدی کو ملک کے مغربی اور جنوبی محاذوں کے بہت سے واقعات یاد ہیں  اور اُنہوں نے اس بارے میں  ایران کی ازبانی تاریخ  کی ویب سائٹ سے بات چیت کی ہے۔

احمدی صاحب پہلے اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟

میں فیروز احمدی،  ۱۰ مئی ۱۹۶۲ میں پیدا ہوا۔ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے تک روٹیاں پکایا کرتا تھا  جب جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ پڑھائی کو بھی ترک کردیا اور کردستان چلا گیا تاکہ مشہور قول کے مطابق جنگ کو تین مہینے  میں اختتام تک پہنچاؤں، لیکن جنگ کے اس عرصے میں  نہ صرف یہ کہ میں باپ بنا بلکہ  میرے بچے بھی بڑے ہو گئے اور پانچ دفعہ شدید زخمی ہونے کے بعد جنگ اپنے اختتام تک پہنچی۔

 

جب پہلی بار جنگی محاذ پر گئے تو کتنے سال کے تھے؟

میں تقریباً ۱۹۸۰ ء میں محاذ پر گیا ۔ میری عمر تقریباً ۲۰ سال یا اس سے بھی کم تھی  جب میں کردستان کے محاذ پر گیا۔ جنگ کے شروع شروع میں کوئی منظم بریگیڈ  نہیں تھی۔ ہم بھی ایک مہینہ کے شارٹ کورس پر امام حسین (ع) چھاؤنی گئے اور  وہاں سے اسلحے کی سخت ٹریننگ کے بعد سنندج بھیجے گئے۔  اُس وقت سنندج تازہ آزاد ہوا تھا، لیکن پھر بھی پورے کردستان پر جنگی ماحول طاری تھا کیونکہ ڈیموکریٹک اور کوملہ  (کردستان میں بائیں بازو کی  کمیونسٹ پارٹی)نامی دستے رات میں کردستان کے راستے کو بند کردیتے۔ کردستان صوبہ کا ایک اہم ترین شہر بانہ اُن دنوں کوملوں کے قبضے میں تھا  اور ہمارے ہوتے ہوئے یہ شہر مکمل آزاد ہوچکا تھا۔

 

آپریشنز، مغربی محاذ اور خاص طور سے شہر میں اپنے شرکت کے بارے میں تفصیل سے بتائیں؟

جب ہم شہر بانہ پہنچے، تو چاہتے تھے بانہ اور سردشت کی مرکزی شاہراہ کو  بھی آزاد کرالیں جو کوملوں کے قبضے میں تھے۔ جس رات اس شاہراہ کی آزادی کے لئے آپریشن کرنا تھا وہ ماہ مبارک رمضان کی ۱۹ ویں شب تھی۔ اُس آپریشن میں میجر حسین شہرام فر ہم لوگوں کے پاس آئے اور کہا ایسے سپاہی  چاہیے کہ جن کی مدد سے بانہ اور سردشت ہائی وے کی آزادی کے لئے اقدام کیا جائے  اور ہماری بٹالین میں  سب کے سب شمیران اور قلھک کے لوگ تھے جنہوں نے جنگی محاذ پر پہلی دفعہ اس آپریشن میں شرکت کی۔  تاہم ہمارا آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوا  اور ہم نے علاقے کو آزاد کرالیا، لیکن  کوملہ کے مختلف مقامات اور مورچے ہماری فائرنگ کی زد سے دور تھے  جس کی وجہ سے اُس آپریشن میں میجر شہرام فر شہید ہوگئے۔ اسی آپریشن میں کچھ اور ساتھی شہید ہوئے اور کچھ قیدی بنے۔ اس کے بعد ایک مہینے تک وہیں رہے پھر  وہاں سے سرپل ذھاب منتقل ہوگئے۔

سرپل ذھاب میں  ہم ابوزر چھاؤنی چلے گئے  اور یہاں دوسرے مرحلے میں ہم طولانی آپریشنز کیلئے  آئے۔ اس علاقے میں ہمارا دوسروں سے رابطہ بہت کم تھا۔ غذا بھی بہت کم تھی اور ہم کبھی  کبھار سوکھی روٹی سے اپنا پیٹ بھرتے  کیونکہ کوئی سڑک ہی نہیں تھی  اور خچروں کے ذریعے ہم تک کھانا پہنچایا جاتا تھا۔ یکم ستمبر کو بلندی سے نیچے کی طرف چھاؤنی کے کھانے کا حصہ  لینے گیا جو آلو گوشت کا سالن تھا۔ ہمارے کھانے کو عراقی دیگوں میں لاتے تھے جو انڈے کی شکل میں ہوتیں  اور اُس میں چالیس افراد کا کھانا ہوتا تھا۔ اُس دن میں نے محمد رضا حکیم کے ساتھ چھاؤنی  کا کھانالیا  اور ایک خچر کے ساتھ چھاؤنی کی طرف حرکت کرنا چاہی ہی تھی کہ  شیل مارا گیا اور حکیم  زخمی ہوگیا ۔ اس حال میں بھی آگے بڑھتے رہے اور راستے میں اس مضمون کی لکھی ہوئی عبارت دیکھ کر چونکے "محبوب صدر" اور "محبوب شہید صدر"۔ ہمیں اُس دن پتہ چلا کہ ۲۹ اگست  ۱۹۸۱ء کو  رجائی اورباہنر شہید  ہوگئے  اور یہ بات ہمیں اس لئے نہیں بتائی گئی  تھی کہ کہیں ہم ہمت نہ ہار جائیں۔ اس وجہ سے دوسرے مرحلے کے طولانی آپریشن شہید باہنر اور رجائی کے نام سے انجام پائے۔

 

ان آپریشنز میں  کس کا ساتھ نصیب ہوا اور کیا حادثات پیش آئے؟

ان آپریشنز میں میری شیخ محمود غفاری سے ملاقات ہوئی۔ ۳۰، ۴۰ سالہ مولانا صاحب جو بہت صحت مند اور قوی تھے ، سر پر عمامہ اور   ہاتھوں میں کیمرہ ہوتا۔ یہ آرٹلری آرمی کے نگہبان تھے اور ان کی خاص شخصیت مجھ پر کچھ ایسی اثر انداز ہوئی کہ میری زندگی بدل گئی، اس طرح سے کہ جنگ کے آخر تک آرٹلری حصے اور نگہبانی کی پوسٹ پہ  ہی رہا۔

 

ان کاروائیوں کے بعد کیا ہوا؟ کہا ں بھیجے گئے؟

یہ کاروائیاں ۱۹۸۰ء میں اُس وقت ختم ہوئیں جب تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا تھا  اور چونکہ میں نے آٹھویں کلاس تک پڑھا تھا اس لئے تہران واپس آیا تاکہ اپنی پڑھائی مکمل کروں۔ اسکول گیا اور داخلہ لیا لیکن چونکہ میں نگہبان  تھا اور  میرا کام بہت خاص تھا، اس لئے ساتھ ہی ساتھ سپاہ میں بھی بھرتی ہوگیا تاکہ  لمبے مشنز پر جاسکوں۔ اس کے بعد سپاہ کی نویں بٹالیں میں منتقل ہوگیا کہ اتفاق سے اُن کے ساتھ طولانی مدت کی کاروائیوں میں بھی شریک تھا،  لیکن جیسا کہ اس بٹالین کی ذمہ داری صدارتی انتظامیہ کی حفاظت ہے، اس لئے کاروائی کے فوراً بعد ان سے الگ ہوگیا۔ اس بٹالین سے الگ ہونے کے بعد اپنے  افسر کی اجازت سے مغربی محازوں پر چلا گیا  تاکہ نگہبانی کروں اور وہاں آرمی کے نگہبان کے عنوان سے کام کرنے لگا۔

 

کیا آپ نے دوسری کاروائیوں میں بھی شرکت کی ہے؟

جی ہاں، کچھ عرصے بعد فتح مبین آپریشن  شروع ہوا۔ جس وقت ہم فتح مبین آپریشن کے لئے تیار ہو رہے تھے، ۶۳ توپخانے کے کمانڈر، رضا صادقی نے کہا: "یہ جگہ اُحد کی مانند تنگ ہے، بہت حساس ہے  اور دشمن کے ہاتھوں نہیں گھرنا چاہیے" اور حقیقت میں بہت حساس جگہ تھی، کیونکہ ان کاروائیوں کے دوران ، اگر دشمن اُس طرف سے  اپنی کاروائی کا آغاز کرتا تو آرام سے کرمانشاہ پر قبضہ کرلیتا۔ ہم بھی کاروائی کے جذبے سے سرشار تھے  کہ جائیں  لیکن مغربی محاذوں پر رکے رہے تاکہ فتح مبین آپریشن ختم ہو۔  اپنی ڈیوٹی اور فتح مبین آپریشن کے اختتام پر تہران واپس آیا  تاکہ سپاہ کی نویں بٹالین میں شامل ہوسکوں اور اسی وقت بیت المقدس آپریشن کا آغاز ہوا۔

 

اور اس طرح سے آپ جنوبی محاذ پر دیکھے گئے؟

جی ہاں، ہم تیار ہوئے تاکہ جنوبی محاذ پر جائیں۔ اس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای موجودہ صدر تھے ہماری بٹالین کو جو کہ سپاہ کی نویں بٹالین تھی، جنگی محاذ پر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، کیونکہ صدارتی انتظامیہ بھی بہت اہمیت کی حامل تھی۔ ہم نے کسی نہ کسی طرح اُن کی اجازت سے  خود کو جنوبی محاذ پر پہنچایا۔ ہم چاہتے تھے کہ محسن وزوایی تک پہنچ جائیں  جو دوسرے مرحلہ کے طولانی آپریشنز میں ہماری بٹالین کے کمانڈر تھے لیکن وہ شہید ہوگئے   اور ہم نے اُن کے تشییع جنازہ میں شرکت کی اور نعرے لگائے "بٹالین جائے گی اور خرمشہر کی آزادی تک واپس نہیں آئے گی"۔

ہماری بٹالیں میں سب ہی ماہر اور  بہترین افراد شامل تھے  اور عباس شعف، محسن وزوای، حاج علی موحد دانش ، احسان قاسمیہ، فراہانی اور امین سلیمانی  جیسے افراد ہمارے درمیان موجود تھے۔  مثال کے طور پر  امین سلیمانی جس کی شادی کو صرف تین دن ہوئے تھے اور قرار نہیں تھا کہ وہ ہمارے ساتھ بیت المقدس کاروائی میں شرکت کرے لیکن اُسے کاروائی میں دیکھ کر بہت ہی تعجب ہوا اور اتفاقاً وہ اُسی کاروائی میں درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

 

جنوبی محاذ پر  جانے کے بعد ڈائریکٹ خرم شہر چلے گئے؟

ہم تہران کی ولی عصر (عج) چھاؤنی سے اہواز  کی چھاؤنی چلے گئے  اور چھان بین کے بعد  مجھے نگہبان کے طور پر مقرر کیا اور میں اسٹاف میں چلا گیا۔ بیت المقدس کاروائی تقریباً ۵۴۰۰ کلومیٹر مربع رقبے پر انجام پائی اور مثال کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ بیت المقدس کاروائی میں لمبائی اور چوڑائی میں تہران سے قم تک کا فاصلہ  ہوگا۔ ہم چاہتے تھے کہ خرم شہر کی آزادی کا کام  ۸ جون تک ہوجائے، لیکن  ۲۳ مئی کو ہی خرم شہر آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

 

آپ بیت المقدس آپریشن میں کب تک رہے؟

یہ آپریشن  ۳۰ اپریل ۱۹۸۲ء  کو شروع ہوا تھا،  لیکن میں ۹ مئی کو گولی لگنے سے زخمی ہوگیا اور میرے پیٹ کا حصہ مجروح ہوا تھا سرخہ حصار کے ہاسپٹل لے جایا گیا۔ میں خرم شہر کے فتح کی خبر ریڈیو کے ذریعے سنی ۔  اُس دن پورے ہاسپٹل پہ ایک خاص جذبہ و جنون طاری تھا اور سب لوگ بہت خوش تھے۔

 

کیا صحتیاب ہونے کے بعد بھی محاذ پر گئے؟

۷ مہینے بعد جب میں صحتیاب ہوا  تو  میں  و الفجر کی ابتدائی کاروائیوں میں پہنچا  اور اُس کے بعد میں نے و الفجر ۱ اور ۲ میں بھی شرکت کی۔ و الفجر ۱ اور والفجر ۲ کی درمیانی مدت میں ، میں نے شادی کی جب و الفجر ۲ کاروائی میں موجود تھا کہ وہاں میرے ہاتھوں کی انگلیاں کٹ گئیں۔ ان کاروائیوں کے بعد میں نے و الفجر ۴ میں بھی شرکت کی اور اُس کے بعد خیبر آپریشن میں بھی حاضر ہوا کہ اُس دوران پھر میں زخمی ہوگیا۔ اس دفعہ دشمن کے جہازوں کی فائرنگ سے میری کمر کا حصہ مجروح ہوا جو کہ ایک طویل داستان ہے۔ کربلائے یک آپریشن میں بھی شریک ہوا  جس میں میرے ساتھ میرے والد بھی تھے اور وہ اس آپریشن میں زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد کربلائے ۴ اور پانچ نامی آپریشن میں بھی شرکت کی جو میری جنگی محاذوں پر آخری جدوجہد شمار ہوتی ہے  اور ایک دفعہ پھر گاڑی اُلٹنے کی وجہ سے میرا کندھا ٹوٹ گیا۔

 

آخری سوال۔۔۔۔ آپ نے جتنے بھی آپریشنز میں شرکت کی سب میں آپ نے نگہبانی کی ڈیوٹی انجام دی؟

جی ہاں،  میں لشکر ۱۰ سید الشہہداء (ع) میں نگہبانی کا مسئول اور آرٹلری افسر،  بریگیڈ ۱۱۰ خاتم (ص)  میں نگہبانی کا مسئول اور سپاہ میں توپخانے کا مسئول تھا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3615


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔