امریکی نظام اور انگریزوں کی ساخت

اکاونٹنگ انسٹیٹیوٹ، جواد ضیائی کی زبانی

ترتیب: مہدی امانی یمین
ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-6-17


ماڈرن ازم یا  نو گرائی کی جانب حرکت،  مختلف عوامی حلقوں کے اجتماعی ڈھانچوں میں تبدیلی  اور اسی طرح ایرانی عوام کی اقتصادی سطح میں تبدیلی کا باعث بنی۔ تیل کی مصنوعات کا ملک میں درآمد  ہونا،  ان تبدیلیوںمیں اجتماعی و اقتصادی پہلووں کی نسبت کافی حد تک شدت کا سبب بنا۔ اسی طرح صنعتی ترقی اور  صنعت کار طبقہ کے وجود میں آنے نے ، معاشرے کی دیگر ضروریات کا زمینہ ہموار کیا۔

ایران میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ حسابداری کا فن جدید علوم میں ایک نئے شعبہ کے عنوان سے ملک کی فوری ضرورت سمجھا جانے لگا۔ اس سے پہلے کے حساب کتاب کا طریقہ کار  موجودہ  صنعت کاروں  کے لئے مزید فائدہ مند نہ رہا ۔ رضا شاہ پہلوی کے دور میں بعض اعلی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو حسابداری کے اس جدید علم سے آشنائی کے لئے یورپ بھیجا گیا ،  ۱۹۷۰ کی دہائی کے اوائل تک یہ افراد وہیں مقیم رہے۔

سن ۱۹۵۷ء  میں ایران نیشنل آئل کارپوریشن نے چند انگریز حسابدار وں کےساتھ ہمکاری کے ذریعے "اسکول آف اکاونٹنگ اینڈ فنانشل سائنسز" کے عنوان سے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔  تجارتی اور صنعتی شعبوں میں مسائل کے حل کیلئے  ۶۰ء کی دہائی میں،اس علم کے طالب علموں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اسکے حصول کے لئے تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی قابل دید اضافہ ہوا۔
ان اداروں میں ایک اہم ادارہ "امین ہائرانسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ" ہے جو ۱۹۶۴ ء میں ڈاکٹر عزیز نبوی نے تاسیس کیا ۔ ذیل میں اس ادارے کے ایک فارغ تحصیل جناب جواد ضیائی صاحب سے کی گئی گفتگو ہے۔  آپ اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انڈسٹریل کریڈٹ بینک کے  ماہر سپروائزر رہے اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بالترتیب سرمایہ کاری سے متعلق نظارت ، اسٹاک ایکس چینج کے ڈائریکٹر اور  صنعت و معدنیات کے بینک ڈائریکٹر رہے۔

 

سوال : کچھ اپنے بارے میں  بتائیے

ضیائی : میرا نام جواد ضیائی ہے اور میں  جنوری ۱۹۴۹ ء میں تہران کے علاقے امیریہ میں پیدا ہوا جو کہ اس وقت تہران شہر کے مرکزی علاقوں میں شمار ہوتا تھا اور ریلوے اسٹیشن سے بھی قریب تھا۔ اسی محلے میں بچپن گذرا،  میرے والد کازرونی سپر سٹور پر کام کیا کرتے تھے جہاں اصفہان کی 'زایندہ رود' اور 'وطن 'نامی کمپنیز کی اشیاء  فروخت کی جاتی تھیں، یہ کارخانہ بھی کازرونی خاندان کی ملکیت تھے ۔ یہ وہ سرمایہ دار خاندان تھا جس نے رضا شاہ کے دور میں ترقی کی اور ان پہلے افراد میں سے تھا جنہوں نے ایران میں انڈسٹریل پلانٹس کی بنیاد رکھی۔

میرے والد وہاں دفتری امور کے انچارج تھے ، میرے چچا بھی وہیں میرے والد کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔  میرے والد وہاں کچھ مینجنگ امور بھی انجام دیا کرتے تھے ۔ یہ سپر سٹور کافی بڑا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے انقلاب کے اوائل تک کازرونی کے نام سے ہی خیابان سعدی پر واقع تھا ، اسکے بعد کسی اور نے اسکو خرید لیا  ۔

بہر حال، ہمارے آبائی خاندان کا تعلق اصفہان سے ہے۔ ہائی اسکول کے بعد میں نے بلا فاصلہ ہائرانسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ میں داخلہ لیا  اور انڈسٹریل اکاونٹنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

 

سوال : امتحانی طریقہ کار سے ہی وہاں قبول ہوئے تھے ؟
ضیائی  : جی ہاں ، البتہ اس وقت تمام اعلی تعلیمی ادارے خود امتحان لیا کرتے تھے، آج کی طرح نہیں تھا کہ پورے ملک میں ایک امتحان ہو۔ یعنی اگر آپ کو اصفہان کے میڈکل کالج میں جانا ہوتا تھا تو ہیں جاکر امتحان میں شرکت کرنا ہوتی تھی۔ ملکی سطح پر امتحان نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس ادارے کا بھی اپنا ایک امتحان ہوتا تھا  ، یہ اکاونٹنگ  کا مخصوص ادارہ  تھا جس کے بانیوں میں عزیز نبوی صاحب جو ایک باکمال اور کامیاب شخصیت تھے  ،  انہوں نے ملکی ضرورت کو دیکھتے ہو اس ادارے کی بنیاد رکھی ۔ میں اس ادارے کے چوتھے بیج کا حصہ تھا۔

سوال : تعلیمی دورہ ۴ سال کا تھا ؟

ضیائی  : جی

سوال : اس ادارے کا آغاز سن ۶۰ء کی دہائی میں ہوا ؟

ضیائی: میرا  داخلہ ۶۹ء میں ہوا تھا اور اسکی تاسیس ۱۹۶۵ء کی میں ہوئی۔ یہ میدان فردوسی کے پاس خیابان ایران شہر پر واقع تھا۔  البتہ انہی ۴ سالوں میں کہ ہم وہاں زیر تعلیم تھے، اسکی ایک اور برانچ  بھی بنائی جاچکی تھی۔ ۱۹۷۲ء میں میدان ونک کے پاس اسکا مرکز قائم ہوگیا تھا اور ہم وہیں اس ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اسکے بعد ڈیڑھ سال کے لئے فوجی تربیت تھی  جسکے بعد میں مزید تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلے گیا تھا۔

سوال : ہائر انسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ کے سسٹم  کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ کہ  کس طرح سے داخلہ دیا کرتے تھے ؟

ضیائی : پہلے سال تو صرف پڑھائی ہی کی۔ آخری کے ۲ سال امین  آڈٹنگ کمپنی میں انٹرنشپ کی ۔ وہ مجھے ۵۰۰ تومان دیا کرتے تھے جو کوئی کم قیمت نہیں تھی۔ اسکے  ذریعہ سے میں مختلف کمپنیز میں آڈٹ کے لئے جایا کرتا تھا۔ میرے جو  باس تھے وہ عبد الرحمن بوشہری صاحب تھے جو بعد میں صنعت و معدنیات کے بینک ڈائریکٹر ہوئے۔ وہ آئل کارپوریشن  کے سکول آف اکاونٹنگ اینڈ فنانشل سائنسز سے ماسٹرز کررہے تھے اور میں اس وقت ہائر انسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ میں تھا۔ یہ دونوں ادارے کافی مماثلت رکھتے تھے کیونکہ دونوں کا کام اکاونٹنٹ بنانا تھا۔ لیکن وہ ادارہ ہمارے ادارے کی نسبت قدر  بہتر تھا کیوں کہ آئل کارپوریشن  کا تعلیمی اور کاروباری نظام برطانیہ سے لیا گیا تھا جبکہ ہمارے ادارے کا نظام اور ساختار امریکی طرز پر تھا۔
یونیورسٹی کے طلاب کوامتحان کے ذریعے قبول کیا جاتا تھا، اس امتحان میں ریاضی، انگریزی زبان، فارسی ادبیات اور انٹیلی جنسی کا امتحان  تھا جسے آئی کیو کہا جاتا ہے۔ جو بھی ان اداروں میں جاتا اسکو فیس دینی پڑتی تھی۔

سوال : کتنی فیس دینی پڑتی تھی ؟
ضیائی  : ہر سیمسٹر میں ۱۸ کریڈٹس ہوتے تھے جس کے ۱۸۰۰ تومان بطور فیس ہم دیتے تھے۔  سالانہ ۳۶۰۰ تومان۔ ۱۰، ۲۰ تومان اضافی لیے جاتے تھے جس میں بیمہ، صحت و صفائی اور اس  طرح کی مختلف سہولیات شامل ہوتی تھیں۔  بہر حال اس وقت کے حساب سے ۳۶۰۰ تومان ایک کثیر رقم تھی۔ جب میں نے کام شروع کیا تو اس وقت مجھے ۵۰۰ توما ن ملتے تھے جبکہ اس  وقت اس درجہ پر ۳۰۰، ۳۵۰ تومان دیے جاتے تھے۔ اس وجہ سے  انٹرنشپ سے بھی صحیح پیسے مل جاتے تھے۔

سوال :  اس ادارے میں اکثر تہران کے ہی طالب علم ہوتے تھے ؟
ضیائی: نہیں اکثر دوست احباب مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے تعلق رکھتے تھے ۔

سوال: کمیونیکیشن سسٹم بہت محدود تھا، تو کس طرح مختلف شہروں کے بچے رابطہ برقرار کرتے تھے ؟
ضیائی : معاشرے میں ان کو کوئی جانتا نہیں تھا، کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اکاونٹنگ ہوتی کیا ہے۔ لہذا جو بھی یہاں آتا اتفاق سے ہی آتا۔  ہم جب اس ادارے میں آئے تو اس کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ کتنی زیادہ ضرورت ہے اسکی ملک میں۔ البتہ جیسا کہ میں نے بتایا آئل کارہوریشن  کے بھی  آکاونٹنگ کے ادارے تھے  لیکن انکی شرط یہ تھی کہ جو بھی وہاں پڑھے گا کہیں کام بھی کرےگا۔

سوال: پہلے ہی سمسٹر سے ؟
ضیائی: جی، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں تھا سکول آف اکاونٹنگ اینڈ فنانشل سائنسز  کے ۲ شعبے تھے۔ ایک تہران میں اور دوسرا آبادان میں۔ اس میں اکثر طالب علم وہ  ہی لئے جاتے جو کسی آئل کمپنی سے مربوط تھے  ۔ لہذا ہر طرح کے افراد کا داخلہ تھوڑا مشکل ہوتا تھا۔
میں نے  امین  ہائرانسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ کا اس وقت نام بھی نہیں سنا تھا، بعد پتہ لگا کہ ایک ایسا ادارہ بھی ہے ۔

سوال : اکاونٹنگ کے کس شعبہ میں تربیت دی جاتی تھی ؟
ضیائی: تینوں شعبہ جات میں، صنعتی، حکومتی اور آڈٹنگ۔ پہلے ۳ سال سب کی کلاسز مشترک ہوتی تھیں لیکن آخری سال طالب علم کسی خاص شعبہ میں سپیشلائزیشن کرتا تھا۔ میں نے صنعتی یعنی انڈسٹریل اکاونٹنگ کا انتخاب کیا۔ اکثر لڑکے اسی شعبہ میں جایا کرتے تھے۔ میں نے آڈٹنگ کا  کام زیادہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں نہیں گیا اور صنعتی شعبہ کا انتخاب کیا۔
بہت ہی بہترین اساتیدہمیں ملے، اور اس شعبہ کے اساتید کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے شروع میں اسی ادارے کے فارغ التحصیل طلاب کو بطور استاد رکھا گیا۔  جیسے  ہمیں اکاونٹنگ 'ا 'اور'۲' تولائی صاحب نے پڑھائی تھی جبکہ اس سے پہلے جتنے اساتید تھے سب برطانیہ سے چارٹرڈ اکاونٹنگ ہو کر  آئے تھے۔
جہاں میں کام کرتا تھا، امین آڈتنگ فرم میں ، وہاں بھی ملکیان صاحب اور فاطمی صاحب دونوں برطانیہ سے  فارغ التحصیل چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے۔ اس وقت اکثر افراد ایران میں جو اکاونٹنگ جانتے تھے برطانیہ کہ فارغ التحصیل تھے، امریکہ سے اس وقت تک کوئی نہیں آیا تھا۔
برطانیہ کے لئے ایران کا راستہ کیوں کھلا تھا ؟ اس کی بڑی وجہ سٹیٹ بینک کا  طالب علموں کو پڑھنے کے لئے  برطانیہ بھیجنا تھا اوردوسرا آئل انڈسٹریز کا بننا تھا۔

سوال: البتہ میرا خیال ہے کہ یہ ملی بینک تھا جس نے طالب علموں کو برطانیہ بھیجا ؟
ضیائی: جی، ملی بینک ہی تھا اور اسکے بعد سٹیٹ بینک، ملی بینک سے جدا  بنایا گیا تھا۔ اور در واقع یہ اکاونٹنگ کے اساتید وہی چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے۔  البتہ  آہستہ آہستہ انہی تعلیمی اداروں کے طالب علموں نے اساتید کی جگہ پر کر لی۔

سوال : تہران بزنس اسکول سے کبھی آپ کی وابستگی رہی ؟
ضیائی : تہران بزنس اسکول نے ہائر اکاونٹنگ انسٹی ٹیوٹ سے پہلے ہی اپنا کام شروع کردیا تھا۔ یہ خیابان عباس آباد پر واقع تھا، وہیں  جہاں آج علامہ طبا طبائی یونیورسٹی کا ایک کیمپس موجود ہے۔  ان لوگوں کی زیادہ توجہ اکاونٹنگ پر نہیں تھی، صرف ایک مضمون کے عنوان سے پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن  ہائر اکاونٹنگ انسٹی ٹیوٹ ، اکاونٹنگ کا خصوصی ادارہ تھاجب بھی اس سے کوئی فارغ التحصیل ہوتا تھا تو مختلف کمپنیز کو اسکی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ ادارہ مرحوم عزیز نبوی صاحب اور انکے بھائی بہروز نبوی صاحب نے تاسیس کیا تھا۔ مرحوم نبوی اس ادارے میں  بہترین اساتید کو لانے میں کامیاب رہے۔

سوال: عزیز نبوی صاحب کا کوئی یاد گار جملہ یا واقعہ آپ کے ذہن میں ہے ؟

ضیائی: میری کبھی ان سے براہ راست گفتگو نہیں ہوئی۔ جب ہم پڑھتے تھے تو اس وقت تک انہوں نے پڑھانا چھوڑ دیاتھا ۔ بلکہ ادارے کے دفتری امور انجام دیا کرتے تھے۔ اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا تھا کہ وہ پڑھا سکیں۔ انکے خاندان کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ کسی بھی سیاسی عہدہ دار سے انکا تعلق نہیں تھا۔ ہم نے انکو محب وطن اور روشن فکر پایا، اسی ملک کے لوگوں سے محبت کرتے تھے، چاہتے تھے کہ ملک ترقی کرے۔ اور تا آخر اسی کی کوشش میں لگے رہے۔

سوال: سن ۶۰ء کی دہائی میں ، صنعتی شعبوں میں ترقی کے ساتھ سرمایہ دار طبقہ وجود میں آیا  یہ باعث بنا کہ اکاونٹنٹ کی ضرورت کو محسوس کیا جاسکے۔ کیا یہ چیز ان تعلیمی اداروں کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بنی ؟

ضیائی : کیوں نہیں۔ اس ضرورت کا احساس بڑھتا جارہا تھا۔ بڑے کارخانوں اور کمپنیز کا حساب کتاب، انکی پروڈکشن  اور آمدنی کا حساب کتاب۔ یہ تمام چیزیں پیچیدہ ہوتی جارہی تھیں ۔ پرانے دور کے حساب کتاب کرنے والے افراد اسکا حال پیش نہیں کر پارہے تھے۔

سوال:انسٹی ٹیوٹ آف اکاونٹنگ کا آخر میں کیا ہو ا ؟

ضیائی : یہ ادارہ ۱۹۷۸ ء تک تھا۔ ۷۷ء ، ۷۸ میں کئی طالب علموں کو داخلہ بھی دیا تھا۔ تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہوگئی تھی نیز  ملک بھی اس وقت ایک بہران کا شکار  تھا۔  ان حالات میں کہ جب طالب علموں کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی اور سیاسی بہران بھی درپیش تھا یہ ادارہ نبوی صاحب کے ہاتھوں سے نکل گیا اور کچھ واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے مکمل بند ہوگیا۔

سوال: مرحوم عزیز نبوی ملک سے باہر چلے گئے تھے ؟

ضیائی : شایدان واقعات کے بعد   سوئز لینڈ چلے گئے تھے۔ البتہ بعض طالب علموں کا بعد میں بھی  ان سےرابطہ  رہا۔ تقریبا ۲۰ سال قبل ۹۰ء  سے پہلے کی بات ہے  کہ ایک گیدرنگ رکھی گئی تھی  تاکہ اس ادارہ کو دوبارہ کھڑا کیا جاسکے۔ اسی سلسلے میں ایک  ادارہ بھی لانچ کیا "فیوچر اکاونٹنٹس" کے نام سے، لیکن اس میں پہلی والی بات نہیں رہی۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3592


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔