غلام حسین دربندی اور نوروز کی یادیں

عید اور ایثار

گفتگو: مہدی خانبان پور
ترتیب: تاریخ شفاہی ایران
ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-6-10


بریگیڈیئر جناب غلام حسین دربندی ، عراق کی جانب سے ایران پر مسلط جنگ میں صوبہ خوزستان کے شہر زرہی کے لشکر ۹۲ میں افسر کے فرائض انجام دے رہے تھے،   آج کل شہید علی صیاد شیرازی نامی ایک انجمن جو  مسلط کردہ جنگ  کے امور سے مربوط ایک ذیلی ادارہ ہے، اسکے مسئول ہیں۔  اور جنگی مناطق میں موجود واقعات کی تفاصیل سے آگاہ کرنے والے ادارےجسے "راویان راہیان نور" کہا جاتا ہے اسکے سربراہ ہیں۔  ذیل میں عید نوروز کے ان ایام، کی یادیں  ہیں  جو انہوں نے عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران گذارے۔

ہم تمہیں کبھی بھولیں گے نہیں

نوروز کی دعاوں میں احسن الحال کی دعا کی جاتی ہے،، جنگ میں سب اسی کے منتظر تھے ۔ اس کے معنی کو گھر میں بیٹھ کر یہ دعا پڑھنے سے زیادہ بہتر سمجھ رہے تھے۔
محاذ پر سب کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہر نیک کام میں سب سے آگے ہوں، جان قربان کرنے میں، ایثار اور درگذر۔ کھانا لیتے وقت کوشش کرتے کے سب سے آخر میں باری آئے۔ نوروز کہ دن بھی ایسے ہی تھے، اپنے اخلاق و خلاقیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔
سات سین والے دسترخوان پر جو چیزیں رکھی جاتیں ان میں سیم خاردار  یعنی خاردار تار، سنگ، سوئی اور اس طرح کی سین سے شروع ہونے والی اشیاء اور ساتھ اپنے  ان دوستوں کی تصویریں جو جنگ میں شہید ہوگئے ۔ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہم تمہیں کبھی بھولیں گے نہیں۔

پہلا تجربہ

محاذ  پر میری پہلی عید نوروز تھی،  سن ۱۹۸۱ ء تھا۔  کچھ دن پہلے ہم دہلاویہ کے ایک نزدیکی گاوں میں تھے۔ ہم آپریشن کی تیاری میں تھے تاکہ اللہ اکبر  کی صداوں کے ساتھ اس علاقے کے شمالی حصہ کو عراقیوں سے آزاد کرائیں، البتہ یہ آپریشن تقریبا ۷ مئی کو  شروع ہوا کہ الحمدللہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہم۔
۱۹۸۱ ء میں شمسی  سال کی تبدیلی کے وقت جوان صرف نکل کر خوشی میں ہوائی فائرنگ کررہے تھے لیکن عراقی سمجھے کہ ہم نے حملہ شروع کردیا ہے۔ اور انہوں نے جوابا ہمارے اوپر آگ کے گولے برسانہ شروع کردئے۔ سارے جوان مورچوں میں بھاگ گئے، کئی گھنٹے تک ہم ٹینک کے گولوں، راکٹس اور بموں کی زد پر تھے۔

جنگ کے محاذ  پر دو اور  نوروز کی عیدیں

اگلے سال یعنی ۱۹۸۲ء کے ایام نوروز میں  ہم  طریق القدس آپریشن مکمل کرچکے تھے اور فتح المبین آپریشن کی تیاریوں میں تھے۔ آپریشن شب نوروز شروع ہوا تھا،  تقریبا نصف شب۔  رات میں کچھ جوان مٹھائی وغیرہ بھی لے گئے ہوئے تھے۔
آپ ان حالات کو تصور کریں، نئے سال کی شروعات اور اسکی تقریبات، دوسری جانب آپریشن شروع کرنا تھا، مزید یہ کہ دشمن نے ایک رات قبل رقابیہ کے علاقہ پر حملہ کردیا تھا  جو الحمدللہ جوانوں کی استقامت سے روک دیا گیا اور زیادہ نقصان نہ اٹھا نہ پڑا۔ ایسے حالات میں سال کی تبدیلی کا وقت بھی اگیا۔ 
ہم مٹھائیاں کھا رہے تھے، ایک دوسرے کو مبارک بعد دے رہے تھے، گلے لگا رہے تھے اور ذہن میں یہ تھا کہ نہیں معلوم کل ان دوستوں میں سے کون کون ہمارے درمیان ہوگا ؟البتہ اس سال بھی پچھلے سال کی طرح ایام فاطمیہ تھے، لہذا جوانوں نے ان ایام کے احترام میں زیادہ شور شرابہ کرنے سے پرہیز کیا اور انہی چیزوں پر اکتفاء کیا۔

ہمارے اس آپریشن ، یعنی فتح المبین کا کوڈ بھی "یا زہرا سلام اللہ علیہا" تھا، گرچہ یہ آپریشن زیادہ کارآمد ثابت نہیںہوا لیکن ہم نے دیکھا کہ وہ مہینہ ہمارے لئے کئی فتوحات لے کر آیا تھا۔  مزید یہ کہ امام خمینی نے بھی فتح المبین آپریشن کی مناسبت سے جوانوں کے نام جو پیغام بھیجا تھا اس میں فرمایا تھا کہ "میں آپ کے ہاتھ اور بازووں کا بوسہ لیتا ہوں  کہ جن پر ملائکۃ اللہ موجود ہیں، اور اس پر فخر کرتا ہوں"
امام کے یہ الفاظ ہماری مزید خوشی کا باعث بنے۔

اگلے سال  ۱۹۸۳ء کے نوروز پر ہم نے آپریشن کیا جس کا نام "خیبر" تھا، مجھے یاد ہے کہ میں اس سال کی تبدیلی کے وقت کیمپ کمیل میں موجود تھا۔ ہمارے ساتھ شہید سردار غلام رضا طرق موجود تھے۔ہمارے عظیم اور اصلی ترین شہداء میں سے ایک۔

یکم فروردین کے شہداء کی یاد تازہ کریں

۱۹۸۴ء  میں نوروز کے ایام ہم نے جفیر اور طلائیہ کے علاقوں میں گذارے۔ ہمارے مورچے وہاں تھے۔ ان دنوں شہید ہونے والوں کو آج یاد رکھنا چاہئے، یا جو زخمی ہوئے  سال کی تبدیلی کے وقت وہ اسپتالوں میں تھے۔ جو شہید ہوگئے تھے انکے گھر والے اس نوروز پر بہت غمگین تھے ۔

ایک مثال دیتا ہوں، جیسے شہید حسن خلع تبری بہت ہی عظیم انسان جنہوں نے کئی محاذ فتح کئے اور اول فروردین یعنی ۱۹۸۵ء کے نوروز  والے دن شہید  ہوئے۔ اس بندہء خدانے دشمن کی کشتیوں کو، بحری جہازوں اور نیوی کو اتنا مارا تھا کہ حسن مارویک کے نام سے مشہور ہوگیا تھا جو اس میزائیل کانام تھا جس سے وہ حملہ کرتا تھا۔
وہی شہید کہ جنگ کو انسانیت اور اسلام کی نگاہ سے دیکھتا تھا،  جب دشمن کے ایک پل کو تباہ کرنے جارہا تھا تو پل پر ایک گاڑی دیکھتا ہے جس میں بچہ بیٹھا اسکی جنگی جہاز کی جانب دیکھتا ہوا اپنا ہاتھ ہلا رہا ہے۔ اسنے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ  میں نے سوچا اگر دشمن آج میرے شہر پر حملہ کرے اور میرے بچوں کو مار دے تو میری کیا حالت ہوگی ؟ یہ خاندان بھی ابھی اسی حال میں ہے۔ لہذا اسنے سوچا کہ ایک چکر لگاوں تاکہ جب تک یہ گاڑی یہاں سے چلی جائے، دشمن کی فضا میں ایک گول چکر لگانا یعنی ہزاروں کی تعداد میں گولیاں، کئی راکٹ کا نشانہ بننا اور اپنی جان کو داو پر لگانا تاکہ کسی کے گھر میں سوگ نہ برپا نہ ہو کہ بچے کو مار دیا، وہ بھی اپنے نہیں بلکہ دشمن کے۔
ہمارے پاس ایسے افراد موجود تھے۔ میں اپنی باتوں کو اس شہید کے وصیت نامہ کے ایک جملہ  پر تمام کرتا ہوں، آپ دیکھیں کہ اس ایک جملے میں ساری دنیا ہے، غیرت، مردانگی، ایفائے عہد، ولایت کی اطاعت، فداکاری۔ وہ جملہ یہ ہے کہ "اگر کوئی چیز اپنی جان سے زیادہ قیمتی رکھتا ہوتا تو وہ اپنی اس ملت ہر قربان کردیتا"

بہر حال ان شہداء کو یاد کرتے ہیں، خصوصا وہ شہداء جو اول فروردین کو شہید ہوئے، کیونکہ یہ کم یاد کیے جاتے ہیں اور لوگ عید نوروز منانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایسے شہداء کی جانب اپنی توجہ سے مبذول کرنی چاہئے ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 3605


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔