ولی اللہ احمدی سے گفتگو

امام خمینی کو قید میں دیکھا تھا

انٹرویو: احسان منصوری

2016-6-10


 

 

اشارہ: ولی اللہ احمدی ، ۷۲ سال کی عمر طے کرچکے ہیں،   عصا کے سہارے چلتے ہیں ، کمر جھکی ہوئی، ہمیشہ مسکراتے چہرہ۔  اراک کے ایک قدیم محلہ کے رہائشی ہیں اور اپنی زوجہ کے ساتھ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ابھی بھی مذہبی معاملات اور  مجالس و محافل  میں بہت سرگرم ہیں ۔ عجیب یہ کہ  فدائیان اسلام سے  مربوط تھے، امام خمینی سے جیل میں ملاقات ہوئی تھی۔ اراک میں پہلا انقلابی اسٹیج ڈرامہ  تشکیل دیا تھا اور آیت اللہ مشکینی کے ساتھ بھی ملاقات رہتی تھی، البتہ ابھی جو بیان کیا جارہا ہے ان کی زندگی کا وہ  پہلو ہے جو تاریخی واقعات پر انکی نظر اور رائے کے سبب  ان واقعات میں ایک نیا معنی پیدا کردیتا ہے۔

 

منصوری : کس وجہ سے مذہبی امور میں دلچسپی پیدا ہوئی ؟

احمدی: عزاداری کے جلوس، ماتمی انجمنوں میں جانا،  ہم تہران کی ایک ماتمی سنگت انجمن قمر بنی ہاشم علیہ السلام  میں شرکت کرتے تھے جو فدائیان اسلام تنظیم سے متعلق تھی۔  ایک دفعہ میں جب اپنے دوست کے ہمراہ وہاں پہنچا تو انجمن کے تمام افراد کو بس میں ڈال  کرلے جاچکے تھے۔ میں اور وہ  دوست بچے تھے بس۔

 

منصوری : کس سال ؟

احمدی: ۵۰، ۵۵ سال پہلے

منصوری : ۱۹۶۰ ؟

احمدی: اس وقت ۶ جون - ۱۵ خرداد- کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا، اس سے پہلے کی بات ہے

منصوری : آیت اللہ بروجردی زندہ تھے اس وقت ؟

احمدی: نہیں، وہ بھی نہیں تھے ، کچھ عرصہ قبل ہی انکی وفات ہوئی تھی۔

منصوری : بس ۱۹۶۱ کی بات ہے ؟

احمدی: ان کو جمع کر کے لے جاچکے تھے، کسی نے کہا کہ قم  کے صحرا کی طرف لے گئے ہیں، ہمدان میں۔ ہم نے بہت ڈھونڈا لیکن جیب میں پیسے ہوتے نہیں تھے  ، چھوٹے بھی تھے۔

منصوری : کتنے سال کے تھے ؟

احمدی: ابھی ۷۲ سال کا ہوں ، ۱۹۳۴ کی پیدایش ہے ، ۵۳ سال قبل کتنے سال کا ہوا۔ ۔ ۔

منصوری : ۱۸ سال کے ہونگے؟

احمدی: ہاں  ۱۷، ۱۸ سال کا ہونگا

منصوری : اس جگہ کو کیسے جانا ؟

احمدی: میں تہران میں ہوتا تھا،  میرے ایک چچا گاڑیوں کے رنگ کا کام کرتے تھے۔

منصوری : ادھر کام کیا کرتے تھے ؟

احمدی: ہاں، رات میں وہاں جا کر سوتا تھا۔ اس وقت مقرر کرتے تھے کہ کوئی سڑ کوں پر کھڑا ہو، جیسے محاز  پر جانے والے لڑکے آتے تھے اور بے حجاب خواتین کو منع کرتے تھے۔ ہماری بھی یہی عادت تھی۔ کیونکہ ایک استانی تھیں  میری، میری دادی۔ انہوں نے مجھے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم دی تھی۔ اس وقت سے ،  شہادت سب نعمتوں سے بڑی نعمت ہے، میرےذہن پر سوار ہوگیا تھا، اس کا اصل سبب میری دادی تھیں۔  انہوں نے ایک چھوٹا سے قرآن مجھے دیا تھا اور کہا تھا : " یہ تمہارا دین ہے، کہیں جاو اور یہ بھول جاو تو جان لینا کہ اپنا دین بھول گئے ہو۔ شاید شیطان تمہیں دھوکا دے" میرے ذہن میں  امیر المومنین علیہ السلام کا وہ کلام آگیا ، اپنی تمام نیکیوں کے باوجود، اسقدر  علمی  و قوی شخصیت کے ساتھ امام فرماتے ہیں کہ "میرا دین سالم ہے " اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔  میں کئی مشکلات تحمل کرسکتا تھا ، کہانی لمبی ہے ورنہ بتاتا۔  جہاں بھی کوئی مشکل ہوتی میں وہاں اسٹیج ڈرامہ  کرتا  کہیں کسی گلی میں کسی پارک میں  کہیں بھی کسی بھی وقت۔

منصوری : یہ شعلہ کب بھڑکا ؟

احمدی: پہلی بار جب دیکھا کہ اراک میں لوگ جمع نہیں ہوئے۔اس وقت امام خمینی نے شاہ کے جانے سے متعلق کچھ نہیں کہا تھا۔ ملک کے آئین اور ان پانچ مجتہدوں کے  درمیان مسئلہ تھا۔ آقا قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے تھے، ابتداء سے یہ بات نہیں چھیڑی تھی کہ شاہ اس ملک سے چلا جائے۔ پہلے شاہ کو وارننگ دی تھی، اور کہا تھا کہ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں ، میں امام کی اس تقریر میں موجود تھا۔

منصوری :  ۱۹۶۴ میں امام خمینی نے جو تقریر کی تھی اس میں تھے ؟ جس میں آپ نے کہا تھا کہ ایسا کام نہ کرو کہ مجھے کہنا پڑے کے تم کو باہر پھینک دیں؟

احمدی: ہاں ، امام کی تقریر میں ، ایک دو بعد کی گلیوں میں تھا۔

منصوری : قم کیوں چلے گئے تھے ؟

احمدی: امام کا مقلد تھا۔

منصوری : اس وقت سے ؟

احمدی: ہاں،  اس وقت تھانے  میں تھا  میرے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا تھا۔ میں تیسری منزل پر تھا۔ امام کو بھی گرفتار کیا تھا وہ چوتھی منزل پر تھے۔

منصوری : مشترکہ کمیٹی کے جیل کا کہہ رہے ہیں ؟

احمدی: نہیں، ایک عارضی تھانہ تھا، جہاں ابتدائی عرصے کے لئے رکھتے تھے عارضی طور پر۔  میں نچلی منزل پر مار کھا رہا تھا۔  ایک سید آئےمیرے قریب، طباطبائی نام تھا کہنے لگا : "زیادہ  غمگین نہ ہو۔اس سید کو دیکھ رہے ہو اوپر والی منزل پر ؟ " کچھ کررہے تھے نہیں معلوم۔ کہنے لگا کہ جو کچھ تم برداشت کر رہے ہو ، تم سے پہلے وہ برداشت کر چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ بولا: آیت اللہ خمینی۔ میں بھی عمر کہ اس حصہ میں تھا جب مرجع تقلید کو انتخاب کرنا ہوتا ہے۔  امام خمینی کو بغیر دیکھے اور بغیر جانے ایسے ہی اپنے مرجع کے عنوان سے انتخاب کیا۔ البتہ جانتا تھا اور سن رکھا تھا امام کے بارے میں لیکن پہلی بار وہیں دیکھا۔ کالی اور سفید داڑھی، بوڑھے بھی نہیں تھے، جب کھڑے ہوتے تو ایک جوان کے ہیکل کی مانند لگتے۔

منصوری : آپ کو کیوں گرفتار کیا تھا ؟

احمدی: پوری بس کو گرفتار کیا تھا۔ مجھے پل چوبی کے کنارے پکڑا ، جو کچھ ہوا تھامیں نے  سب بتادیا۔ میں ہمیشہ کچھ چھپاتا نہیں تھا سب سچائی کے ساتھ کہہ دیتا تھا ۔ بولنے لگے کہ اپنے بیٹے کے ساتھ تھے ؟ جی۔ کیا نعرے لگارہے تھے؟ مردہ باد شاہ۔ تعجب کرتے تھے میری اس حرکت پر۔ میں نے کہا کہ تم پوچھ رہے ہو میں جواب دے رہا ہوں۔ کیا سچ نہیں پوچھنا چاہ رہے ، تو سچ ہی تو بتا رہا ہوں ۔ ابھی تو شاہ کو چاہتے ہو اس سے تنخواہ لیتے ہو، اسکا نمک کھاتے ہو۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ شاہ نے کہا کہ احمدی کو قتل کرو تو نہیں کروگے کیا  ؟ تمہاری ذمہ داری یہی ہے۔ تمہیں قتل کرنا ہوگا اور کوئی بری بات بھی نہیں تم کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔

میں شازند میں، اراک میں بھی گرفتار ہوا۔ فوجی آتے تھے گرفتار کرلیتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ یہ کام میں نے نہیں کیا۔ کہتا تھا کہ "کیا ہے"، پوچھتے تھے "کیا ہے ؟" کہتا تھا "ہاں" کہتے کیوں کیا  تو میں کہتا تھا کہ "کیونکہ آقا نے حکم دیا ہے۔"

میری زندگی بہت پیچیدہ ہے۔ مجھے افسوس بھی نہیں۔ ابھی مالی حالت انقلاب کے بعدسے زیادہ بدتر ہونے کے باوجود الحمدللہ خوش ہوں۔ اس وقت اتنی  چادریں خریدتا تھا ، اور مظاہروں کے دوران خواتین کو دیتا تھا تاکہ پہنیں۔ سب کہتے تھے کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔

منصوری : تاکہ خواتین چادر پہنیں ؟

احمدی: ہاں، چادر نہیں تھی۔ خواتین ایسے ہی بغیر چادر کے آجاتی تھیں۔ ایک دفعہ ہماری چادروں کو  جلا بھی  دیا تھا۔ مہدی برزآبادی  (۱)، اسماعیل نادری (۲)اور محسن کریمی (۳)میرے شاگرد تھے۔ بہت سے کمانڈرز میرے شاگرد ہیں۔

منصوری : کس نے آپ کو آرٹس کی طرف جانے کا کہا ؟

احمدی: امیرالمومنین  علیہ السلام نے

منصوری : لیکن آرٹس کا کام کیا ہے ؟

احمدی: آرٹس اور فنون ، جیسے کہتے ہیں  نا کوئی کام نہیں تھا تو جنگ پر چلا گیا۔ میں تقریبا ۱۵۰ ایسے شہیدوں سے ملاقات کرچکا ہوں کہ جو حقیقت میں ایک انسان کامل تھے، اسطرح نہیں تھا کہ بیکار بیٹھے ہوئے تھے تو سوچا جنگ پر ہی چلے جائیں۔ جب علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس عظمت و جلالت کے بعد یہ کہیں کہ میرا دین سالم ہے ، میں بھی اسی مطلب کے پیچھے چل پڑا۔ دیکھا اراک میں تو کچھ ہے ہی نہیں، چلتے پھرتے مردہ جسموں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

منصوری : جب تہران سے آئے تھے ؟

احمدی: جب تہران سے آیا تھا تو والد بیمار تھے اور والدہ کی آنکھ کا آپریشن ہوا تھا۔

منصوری : کس سال ؟

احمدی: شاید ۱۹۶۸، ۶۹ میں آیا تھا

منصوری : بہت پرانی بات ہے، تقریبا ۵۰ سال پہلے، اراک آکر کیا کیا ؟

احمدی: اراک آیا تھوڑا بہت ادھر ادھر گیا، اچھی مقبولیت ملی۔ نہیں معلوم کس طرح ، خدا جانتا ہے کہ اسی کا کرنا تھا۔  آخر میں اراک کے دروازہ تہران (۴)گیا ، میں نے کہا کہ ایک دکان چاہئے ہے میں گاڑیوں کے رنگ وروغن کا کام کرتا ہوں۔ یہ کام بھی چل گیا اور میں "اوس ولی رنگ والا" مشہور ہوگیا، جنگ میں بھی لڑکے مجھے یہی کہتے تھے۔ ایک دفعہ  انجمن میں ایک آدمی کے منہ پر مارا تھا، شاہ کے لئے دعا کررہا تھا۔

منصوری : مکا مارا تھا ؟

احمدی: نہیں، اسکا منہ پکڑا تھا اور کہا تھا  اور  کہا: ان لعنتیوں کے لئے دعا نہ کرو۔ ہم سید الشہداء کے غلام ہیں۔ مجھے غصہ آگیا تھا، تھوڑی دیر بعد شاہ کے کارندوں نے آکر گرفتار کیا اور مجھے لے گئے۔ جان پہچان والے لوگ آگئے تھے اور دروازے کے پیچھے ہوکر رو رہے تھے، میں نے کہا کہ ڈرو نہیں۔ ۔ ۔

منصوری : وہ پہلا دن جب آپ نے آرٹس سے متعلق کام شروع کیا تھا ؟

احمدی: پہلا دن وہی  ہے جو بتایا، دیکھا اراک میں کچھ بھی نہیں ہے، کوئی  یہاں نہیں آتا۔ ہم شور شرابہ بھی کرتے تو بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ایک دفعہ کسی نے مجھ سے کہا کہ تم ۳۲ سال کہ ہو  نوجوانوں کے کام ہیں۔ گھر آیا تو میری بیوی نے کہا کہ : اپنے بیٹے کی مسلمانی نہیں کرانی ؟  میرا بیٹا ابھی آزرآب کمپنی میں انجینئر ہے۔ میں نے کہا : کیوں نہیں۔  میں اسماعیل  نادری اور دوسرے لڑکوں کے پاس گیا، میرا ارادہ تھا کہ اس سنت  کی دعوت میں کچھ الگ ہوجائے۔ میں نے کہا کہ  ایک دعوت رکھ رہا ہوں  جس میں ہم اسٹیج ڈرامہ بھی کریں گے مسجد کی فریاد کے نام سے۔ مسجد کی ہی زبان سے ۔ اسکے فنکار  محمد مسافر، قاسم مسافر، برزآبادی اور اسکا بھائی تھے کہ اکثر شہید ہوگئے۔

جو کچھ بھی ملک کے مسائل تھے مسجد کی زبان سے بتادیے گئے۔ بعض مرتبہ لطیفہ بھی سناتے تھے  لوگ ہنستے تھے مسکراتے تھے۔ بعض دفعہ مرثیہ خوان و منقبت خوان افراد کو بھی بلایا جیسے شہید طاھری ، خدا اس پر رحمت نازل کرے۔ شہیدوں میں سے بہت سارے تھے، شہید ناصری، شہید اسد کریمی وغیرہ، ہم نے اس جگہ سب سے زیادہ لوگوں کو جمع کیا۔ پھر کہا کہ : "کل یہیں پر احتجاج ہے" کسی کو یقین نہیں آیا ، کسی نے کہا "دیوانہ" کسی نے "احمق"۔ اسطرح ہم نے اراک میں مظاہروں کی بنیاد ڈال دی۔

منصوری : پہلے دن، مسجد کی کہانی تھی ؟

احمدی: جی، پہلا اسٹیج ڈرامہ جو میں نے اراک میں پیش کیا، وہ مسجد کی زبانی تھا۔ باتیں، ساری مسجد کی باتیں تھیں۔ مسجد عیوب کو بیان کررہی تھی۔

منصوری : اسکرپٹ پڑھ رہے تھے ؟

احمدی: اسکرپٹ میں نے دے دیا تھا

منصوری : کس نے لکھا تھا ؟

احمدی: خود میں نے۔ سارے کام میں خود کرتا تھا۔

منصوری : کس مہینے کس سال ؟

احمدی: میرا بیٹا کوئی ۵، ۶ مہینے کا ہوگا

منصوری : کتنے افراد تھے پہلے اسٹیج میں ؟

احمدی:  جہاں تک دکھ رہا تھا لوگ موجود تھے، ۴۰۰، ۵۰۰ افراد تھے۔صحیح تعداد نہیں معلوم۔

منصوری : کس طرح لوگوں کو بتا یا ، اشتہار لگائے تھے ، کیا کیا تھا ؟

احمدی: انقلاب سے قبل ایک گاڑی تھی میرے پاس  ہرے رنگ کی ۔ اسکے کیرئر پر سپیکرز لگادیے تھے۔ اسماعیل کو بھی کبھی لے جاتا تھا اعلان اور نعرے لگانے کے لئے۔  اسکی آواز بہت کم نکلتی تھی، لیکن اعلانات وغیرہ میں میری مدد کرتا تھا۔ ہماری کمپین بہت جاندار ہوتی تھی۔

منصوری : مائیک ہوتا تھا ساتھ ؟

احمدی: جی مائیک ہوتا تھا، ایک سائکل  ، ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی۔

منصوری : کیا اعلان کرتے تھے کہ اسٹیج ڈرامہ دیکھنے آئیں ؟

احمدی: ہاں

منصوری : کوئی پولیس وغیرہ آپ لوگوں کو اسطرح کے کاموں سے روکتے نہیں تھے ؟

احمدی: جب تک انکی سمجھ میں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں، ہم وہاں سے بھاگ چکے ہوتے تھے۔

منصوری : اس گاڑی کے ذریعے اعلانات کرتے تھے؟

احمدی: جی ہاں۔

منصوری : کوئی قصہ یاد ہے اسٹیج کا ؟ کچھ بتائیں۔

احمدی: میں نے مسجد کو لوگوں کے سامنے کھڑا کر دیا تھا  کہ کیوں بیکار بیٹھو ہو ؟ اس قدر ظلم کیا جارہا ہے تم لوگوں کی آواز نہیں نکلتی، کچھ نہیں کہتے۔ البتہ اتنا سنجیدہ نہیں ہوتا تھا ،  بیچ بیچ میں مزاق بھی چلتا رہتا تھا۔

منصوری : مزاق ؟

احمدی: ہاں،تقریبا مزاق کی طرح ہی ۔ لیکن بہت موثر ہوتا ، بعض دفع لوگ رونے بھی لگتے۔

منصوری : کتنا ٹائم تھا ڈرامے کا ؟

احمدی: ۲ گھنٹے

منصوری : دو گھنٹے ؟

احمدی: جی

منصوری : اسکےبعد  کیا ہوا ، پولیس نہیں آئی ؟

احمدی: کیوں نہیں آئی، میں وہاں سے بھاگ چکا تھا۔ کچھ اور افراد بھی فرار کر گئے تھے۔

منصوری : اگلے دن کیا ہوا ؟ احتجاجی ریلی ہوئی ؟

احمدی: اسٹیج کے اگلے دن ریلی نکالی، جس میں گذشتہ رات ہونے والے اسٹیج ڈرامے سے کئی گنا زیادہ افراد تھے۔  لوگ مسجد محمودیہ اور  راہزان اسکوائر پر جمع ہوئے تھے۔ اتنا بڑا پروگرام ہوا۔ الحمدللہ ہم نے کئی جگہو ں ہر اسٹیج ڈرامہ کیا۔

منصوری : اگلے دن کی ریلی کہاں تک گئی  تھی ؟

احمدی: مسجد آقا ضیاء اور ملی باغ کے اطراف تک گئے تھے۔  پھر سب ختم ہوگیا، یہاں تک کہ امام خمینی کے بیٹے کو شہید کیا گیا اور اسکے بعد انکے چہلم کے پروگرامات شروع ہوگئے ۔

منصوری : کیا نعرے لگتے تھے ؟

احمدی: توپ، ٹینک اور بندوق اب کچھ نہیں بگاڑ سکتیں

اس دن سے ڈرو جس دن خمینی نے ہمیں جہاد کا حکم دے دیا

منصوری : یہ اراک کے افراد نے بنائے تھے ؟

احمدی: اس میں سے کئی اراک کے افراد  نے بنائے  تھے، لیکن کیوں کہ اراک میں کوئی بزرگ شخصیت نہیں تھی تو  قم و اصفہان کے افرا د کو دیتے تھے۔ اکثر  نجف آباد لے جاتے تھے: منتظری صاحب کے شہر۔  میں بیرون ممالک کے ریڈیو کو بہت سنتا تھا۔ جہاں بھی جاتا میرے ساتھ میرا ریڈیو ہوتا۔ اس  تھیٹر کا جو سب سے پہلا نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ ہمیں دوسری جگہوں پر بھی موقع ملا۔

خیر، جنگ شروع ہوگئی، ایک کتاب مجھے دی "روشنی کی طرف" ۔ ایک  نتیجہ نکالا  میں نے ظہور کے متعلق۔ میری ناقص اور ان پڑھ عقل میں یہ بات آئی اور پھر میں نے اسکا  ایک ٹکڑا لکھا۔  اپنے ذہن میں ، نہ کاغذ پر۔  بار بار اسکی تصحیح کی۔ اسکے بعد اپنی بیٹی کا آواز دی: "یہ لکھو" اسنے لکھا اور سو گئی، جب وضو کرنے اٹھی تاکہ نماز پڑھے،  میں نے اسکے بعد کہا کہ :"بیٹا اسکو مکمل کردو" آئی اور لکھ دیا۔ کارخانہ گیا، ابھی کچھ لکھنا باقی تھا،  ایک آدمی تھا علی حاجیان نام تھا سکا، اس سے کہا کہ میرے لئے ۲ ،۳  دن وقت نکالو۔ اپنی دکان میں جا کر اسکو مکمل کیا۔  گاڑی میں بیٹھا ، اسماعیل کو ڈھونڈا اور ایک بیابان کی جانب چلے گئے اور وہاں جا کر اسکو  اسٹیج کی شکل میں مکمل کیا۔
اسماعیل پڑھنے لگا اور ایک قلم ہاتھ میں لیا تھا تاکہ غلطی کو صحیح کرسکے لیکن اسنے ایک لکیر بھی نہیں کھینچی۔  پھر کہا: " کہ اسکا پہلا کردار میرا" کیونکہ پہلا کردار بہت اہم تھا۔ اسکے بعد اکبر فتحی (۵)سے کہا : "تم اسکو اجرا کروگے" اسنے پڑھا  اور کہا: "آپکا حکم سر آنکھو پر" اسکے بعد میں نے علی رضا مرادی (۶)کو دیاکیونکہ وہ ہم سے زیادہ پڑھا لکھا تھا، انقلابی بھی تھا۔  اکبر  فتحی اسکے  پہلے پروگرام  میں نہیں تھا    کیونکہ سپاہی کی ڈیوٹی پر تھا۔ اگلے شو میں وہ بھی تھا۔  بہت ہی زبردست رہا۔

 کچھ عرصے بعد ہم نے اسے بند کردیا۔

پھر  مجھے آیت اللہ خوانساری (۷)کی طرف سے ایک  شخص ملنے آیا ، کہا کہ:"کیا کرنا چاہتے ہو ؟" میں نے کہا کہ سارے اراک کو شاہرا ہ راہزان پر جمع کرنا ہے۔ اس نے پوچھا کہ : کیا خرچہ ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ نہ چائے نہ پانی کچھ بھی نہیں دینا، اور نہ ہی میں کچھ لونگا۔ تو کہنے لگا کہ پھر کیا کروں میں ؟ تو میں نے کہا کہ  جتنی آواز لگا سکتے ہو لگاو کہ "راہزان اسکوائر پر آجاو " ۔ انہوں نے  سپاہ کو حکم دیا  اور الیکٹرک کی وائرنگ وغیرہ اس ایریا میں کرادی۔
عجیب منظر تھا۔ سب سے بڑا تھیٹر اور اسٹیج ڈرامہ۔۔۔ جو کوئی بھی وہاں مووجود تھا خلوص سے ہنس رہا تھا اور خلوص ہی سے رو رہا تھا۔

منصوری : انقلاب سے پہلے کتنے اسٹیج ڈرامے کیے ؟

احمدی: شاید ۶۰، ۶۵۔۔۔

منصوری : کوئی ایک ہمیں سنائیں۔

احمدی: بہت زیادہ ہے۔  اگر میں نے پورا سنانا شروع کیا تو تم لکھتے رہ جاوگے۔

منصوری : انقلاب سے پہلے کتنے اسکرپٹس تھے ؟ اس کے علاوہ جو ابھی بتایا۔

احمدی: انقلاب سے پہلے ۲ تھے، ایک میں فائرنگ بھی کی گئی تھی ہم بھاگ گئے تھے۔ تہران میں۔

منصوری : تہران کیسے پہنچ گئے ؟

احمدی: بتایا تو کہ انجمن حضرت عباس علیہ السلام میں تھا، جو تہران کی انجمن تھی،

تہران پارس میں ایک سکرپٹ تھا ہمارا جس کانام تھا "شاہ چور" اسکا نام شاہ نہیں ہونا چاہئے تھا صرف چور ہونا چاہئے تھا۔ وہ سکرپٹ علی پروین اور اسکے ساتھ کے جو دوسرے اداکار تھے انہوں نے پرفارم کیا تھا۔  ہم نے اس ڈرامہ کو انڈوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ایک بادشاہ کسی گاوںآتا ہے تو کوئی اسکا استقبال نہیں کرتا۔ اسکو بہت غصہ آتا ہے، اپنے وزیر کو کہتا ہے تو وزیر ایک ترکیب سوچتا ہے تاکہ گاوں والوں کو سبق سکھائے۔ سب گاوں والوں  سے کہتا ہے کہ ہر بندہ انڈے لے کر آئے۔  سب مرغی کے انڈوں کو ملا دیتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے لڑنے لگتے ہیں کہ یہ میرا انڈا ہے یہ تیرا اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ پہلوی حکومت بھی ہمارے ساتھ یہی کھیل کھیل رہی ہے۔ تھیٹر میں ملکی صاحب بھی تھے بہت ہی عاقل انسان تھے فدائیان اسلام کے رکن بھی تھے۔ اس اسٹیج میں انہوں نے تقریر بھی کی، پھر پولیس آگئی اور ہم بھاگ گئے۔

منصوری : آیت اللہ مصطفی خمینی کی وفات کے بعد ؟

احمدی: نہیں اس سے پہلے

منصوری : ڈرامہ "مسجد مورچہ ہے " یہ شو کہاں کیا تھا ؟

احمدی: مسجد رسول اللہ ص میں، سپاہ کے افراد کے لئے شو تھا۔ علی ابن ابی طالب بٹالین کے افراد تھے۔

منصوری : اسکا کیا قصہ تھا ؟

احمدی: منافقین کی کہانی تھی، کہ مسجدوں کو خالی کرا کر کیا کرنا چاہتے تھے۔ اس میں بھی ہنسی اور رونا دونوں تھے۔  میرے تقریبا سارے اسٹیج ڈرامے ایسے ہی ہوتے تھے  کیونکہ صرف غمگین کرنا نہیں چاہتا تھا، اصل مقصد  مردانگی جرات اور جذبہ پیدا کرنا  تھا۔

منصوری : شعر بھی کہتے ہیں ؟

احمدی: ہاں، شہید بہشتی کے بارے  میں ایک شعر کہا تھا:

عمامه‌ خونین و سیَه‌رنگ بهشتی

بر سر بنه و قیام کن علیه زشتی

اور شعر کہا تھا جو بہت ہی خوبصورت تھا۔  شعر کی ایک محفل کے لئے بھیجا، تو کہا کہ یہ نہیں چلے گا۔ میں نے کہا: "مرضی، نہیں لے کر جاو" کہنے لگے کہ: "اب چھوڑو مسئلہ نہیں ہے،  بیٹھ جاو،  اگر شرکت کرنا چاہو تو۔ " میں بیٹھ گیا دیکھا کہ چند اشعار کے بعد کسی نے میرا شعر پڑھ دیا ۔ جب ختم ہوا تو میں نے پوچھا کہ : کیوں یہ شعر پڑھا؟ کہنے لگا کہ :" انہوں نے کہا کہ اس شعر کا کہنے والا نہیں معلوم  کہاں ہے، اسکو بغیرپڑھے نہیں رہنا چاہئے ہے تم ہی پڑھ دو۔" 

عمامه خونین و سیه رنگ بهشتی 

بر سر بنه و قیام کن علیه زشتی 

مظلوم بهشتی مظلوم بهشتی

با تیغ زبان یاور قرآن خدا شد

با جوهره علم مسلح به سلاح شد

با جمع رفیقان بده جان را چو بهشتی

مظلوم بهشتی مظلوم بهشتی

در کوره ایمان ذوب همچو طلا شد 

در مکتب عشق عاشق خون شهدا شد   

مظلوم بهشتی مظلوم بهشتی

 دوسری جگہوں پر بھی میں نے شعر پڑھے۔ آیت اللہ مشکینی کے لئے بھی لکھے تھے۔ مجھے ساتواں نمبر دیا گیا تھا، پانچویں کی باری آئی تو دیکھا کہ مشکینی صاحب اوپر آئے تاکہ خطاب کریں۔ میں نے کہا کہ آپ مہمان ہیں ابھی بیٹھیں۔ وہ بیٹھ گئے اور میں اسٹیج پر شعر پڑھنے چلا گیا۔ جب میں نے شعر پڑھے تو انہوں نے گریہ کیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اپنے ہاتھوں سے کلہاڑی اپنے پاوں پر دے ماری، اب تم جانو اور یہ صاحب ہم تو جارہے ہیں۔ میں نے کہ :"بھائیوں یہ مشکینی صاحب ہیں۔۔۔ ان سے کیوں ڈر رہے ہو ؟ ہم جانے لگے تو پوچھا کہ "یہ شعر کس نے پڑھے " میں نے جواب دیا کہ: "میں نے" تو کہا کہ کسی کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں سب موجود رہیں۔ باقی لوگ ڈر گئے تھے میں نے سمجھایا بھی کہ :" یہ مشکینی صاحب ہیں، ماوں سے زیادہ مہربان ہیں ڈر کیوں رہے ہو "بعد میں جب اکثر لوگ چلے گئے تو آواز آئی کہ : "صاحب آجائیں لوگ تیار ہیں " مشکینی صاحب آئے  اور کہا کہ :" جو میرے بارے میں کہہ رہا تھا کون ہے ؟" میں نے جواب دیا تو ۔ آپ نے مجھے پیار کیا، میر ا ہاتھ پکڑا اور مجھے اندر لے کر چل دیے۔ کہنے لگے:"میری بیٹی کوفتہ بنا کر  لائی تھی، مجھے بہت پسند ہیں، ہمارا دوپہر کا کھانا کوئی خاص نہیں کہ آپ  ۷،۸ افراد کی مہمان نوازی کی جاسکے۔ فی الحال میری خواہش ہے کہ آپ لوگ میرے ساتھ ان کوفتوں کو تناول فرمایے۔ ہم نے کوفتے بھی کھائے اور انہوں نے مجھے ۷۰ ہزار تومان بھی دیے۔  اس  وقت ۷۰ ہزار تومان بہت ہوتے تھے۔

منصوری : تو آپ کو صلہ بھی مل گیا ؟

احمدی: ہاں، صلہ بھی مل گیا۔ دوستی ہوگئی ہم لوگوں میں۔ میں ان سے شرعی مسائل پوچھا کرتاتھا کیونکہ امام خمینی کے نمائندہ بھی تھے اور قم میں امام جمعہ بھی۔ بہت خوش ہوتے تھے۔ رات میں سوتا تھا ور صبح بغیر خدا  حافظی کے گھر سے نکل جاتا تھا،  میں انکا ایک اطاعت گزار غلام بن گیا تھا۔

 

توضیح: موجودہ  مستندات میں امام خمینی کا عارضی تھانے میں جانا  نہیں ہے، اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ جن صاحب کا  انٹرویو ہے انہوں نے کسی اور شخصیت کو دیکھا اور امام خمینی سمجھ رہے ہوں۔

 

۱۔ مہدی برزآبادی، سپاہ ماسداران کے  رٹائرڈ ہیں اور  اراک میں رہتے ہیں اور آج کل دفاع مقدس کے آثار پر کام کررہے ہیں۔

۲۔ اسماعیل نادری، دفاع مقدس کے ایک زخمی مجاہد ہیں، اور آج کل دفاع مقدس کے مختلف آپریشنز  کے بارے میں اپنی یادوں کو تحریر کررہے ہیں۔

۳۔ محسن کریمی، ابھی مرکزی صوبہ کی سپاہ روح اللہ کے کمانڈر ہیں اور بہت روشن ماضی کے حامل ہیں۔

۴۔ دروازہ تہران،  اراک کے ایک چوراہے کا نام   ہے جسے سرداران اسکوائر بھی کہتے ہیں۔

۵۔  اکبر فتحی، دفاع مقدس کے فعال افراد میں سے ہیں اور ابھی اراک کی یونیورسٹیز میں استاد ہیں۔

۶۔ علی رضا مرادی، مشہور منقبت و نوحہ خواں اور اراک کے مجاہدین میں سے ہیں۔

۷۔ آیت اللہ خوانساری، اراک شہر کے امام جمعہ تھے جو  ۲۰۰۲ میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔



 
صارفین کی تعداد: 3570


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔