شہید تقوی فر - انکی زوجہ کی زبانی

حاجی حمید، صدام کے قتل کا منصوبہ بنا چکے تھے

بیان: پروین مرادی تقویفر

ترتیب: فاطمہ مرادی

ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-5-12


۱۹۸۰ء میں حمید تقوی فر سے میری شادی ہوئی، وہ اپنے والد کے ساتھ میرا ہاتھ مانگنے آئے تھے۔ شادی کے لئے انکا معیار سادگی اور اخلاص تھا۔ شادی کے وقت بھی وہ اپنی کسی ذمہ داری کو انجام دیکر لوٹے تھے، اپنی سادہ سی گاڑی اور فوجی لباس میں ملبوس مجھے لینے آئے اپنے والد کو انکے دفتر سے لیا اور سپاہ پاسداران کے ایک دفتری ہال میں ہماری شادی کی تقریب ہوئی۔

شمخانی صاحب اس وقت اھواز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سردار تھے، انہوں نے حضرت علی علیہ السلام و جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی شخصیات کے بارے میں بیان کیا تھا۔ اسکے بعد آھنگران اور پناہی صاحب نے ایک ا سٹیج ڈرامہ کیا جس کا نام "مرشد اور مرشد کا بچہ" تھا۔ کھانے پینے کا انتظام بھی بہت سادہ تھا۔ جس میں کچھ پھل اور مٹھائی وغیرہ تھی۔

 

شادی کے بعد چند روز تک حاجی حمید گھر نہیں لوٹے، کیونکہ ابھی نیا نیا انقلاب آیا تھا، منافقین اور انقلابیوں کے درمیان جھڑپیں اور اسی طرح خلق عرب نامی گروہ کے ساتھ مشکلات برقرار  تھیں۔

کچھ روز بعد جب یہ گھر آئے تو مجھ سے کہا "جس گاوں میں کام میری ذمہ داری ہے وہاں کی خواتین کو نماز جماعت کے لئے مسجد میں آنے کی اجازت نہیں۔" مجھے ان ثقافتی مسائل کی وجہ سے وہاں لے جانا چاہتے تھے۔ ایک میٹنگ مسجد میں ہوئی اسکے بعد ہم نے اپنے گھر میں دعوت دی۔

شادی کے دو ہفتے بعد، انکے کام کے سلسلے میں ہم اھواز کے علاقے "کیان پارس" منتقل ہوگئے۔

وہاں حاجی حمید نے سپاہ کے تبلیغی ادارے میں فیلم کے سکرپٹ اور ثقافتی امور کے لئے میرے نام تجویز کیا۔

ثقافتی انقلاب کو روکنے کے لئےمجاہدین خلق کے افراد نے اھواز یونیورسٹی کا محاصرہ کرلیا تھا اور لوگوں کو تنگ کررہے تھے۔ سپاہ لوگوں کے بچاو کی خاطر اس مسئلہ میں کود گئی، ایک صاحب پتھراو کی وجہ سے نابینا بھی ہوگئے۔ کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس وقت اھواز میں حاکم شرع ایت اللہ جنتی تھے، حاجی حمید نے مجھ سے کہا کہ خواتین کے کیس کے سلسلے میں عدالت جاوں۔ کیونکہ ان کاموں میں خواتین کی تعداد کم تھی۔ میں نے منع کیا تو انہوں نے قران کی آیت سنائی کہ اللہ کے حکم کے نفاذ کے لئے، کسی سستی کا شکار نہیں ہو۔ بالآخر اس ذمہ داری کو قبول کیا۔

 

حکم کے مطابق، مجاہدین خلق کی بعض خواتین جنہیں گرفتار کیا گیا تھا کسی اور جگہ منتقل کرنا تھا۔ اسی دوران فائرنگ شروع ہوگئی اور ایک لڑکی زخمی لڑکی جو بمشکل سانس لے رہی تھی، ہماری بس میں لائی گئی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی مجاھدین خلق سے تعلق رکھتی ہے اور اپنے گروہ کی خواتین کو آزاد کرانے کے لئے حملہ کیا تھا۔ میرے لئے یہ منظر بہت سخت تھا۔

عراق کے حملے سے پہلے کی بات ہے، اھواز میں سیلاب آیا ہوا تھا، ایک ایرانی شخص اپنی امریکی بیوی کے ساتھ ایران آیا ہوا تھا، گھر والوں کی مخالفت کی وجہ سے اسکے پاس کوئی جگہ نہیں تھی تو شہید تقوی فر نے کہا کہ "ہمیں انکی مدد کرنی چاہئے ہے۔" اور انکو  دعوت دی کہ کچھ دن ہمارے گھر بطور مہمان ٹہر جائیں۔

جنگ شروع ہونے کے بعد،، حاجی حمید کی ذمہ داری عراق میں تھی اور وہ مسلسل عراق آتے جاتے رہتے تھے۔ عربی زبان اور لہجہ پر کافی عبور تھا۔ جنگ کے بعد سردار سلیمانی نے حمید صاحب سے کہا کہ "تم عراق نہیں آو، کیونکہ تم کو پہچان لیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں مارنے کا منصوبہ ہو۔"

۱۹۹۳ء کی بات ہے، ہم گھر میں تھے کہ مہمان خانہ سے ایک خوفناک آواز آئی، کمرہ تباہ ہوچکا تھا، حاجی حمید کو نشانہ بنانا چاہا تھا لیکن، خدا کے ارادے سے زندہ رہے۔ انہوں نے جنگ جے دوران صدام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور صدام کے بیٹے کا پاوں بھی زخمی ہوگیا تھا۔

میرا شوہر، ایک عوامی شخص تھا۔ کچھ سال پہلے ہم لوگ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشھد گئے۔ میں حرم میں تھی تو فون آیا کہ جنگ کے ایک زخمی جو مشہد میں رہتے تھے ہم سے ملنے ہوٹل آرہے ہیں۔ ہوٹل پہنچی، نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ تہجد کی نماز پڑھنے گئی تھی اسکے بعد فون کیا کہ "کیا آپ کے دوست آگئے ہیں ؟" تو برتنوں کی آواز آرہی تھی۔ جب مسجد سے نکلی تو دیکھا کہ ہوٹل کا ایک نوکر حاجی حمید کا شکریہ ادا کررہا ہے۔ اندازہ ہوا کہ کیونکہ نماز کے بعد وہ فارغ تھے تو اسکے ساتھ برتن دھلوانے میں مدد کررہے تھے۔

حاجی حمید کو شہادت سے محبت تھی اور کہتے تھے کہ "انسان اپنی موت اور شہادت کو مینج کرسکتا ہے" وہ جب بھی محاز جنگ سے لوٹتے تھے تو کہتے تھے کہ "میرا ایک دوست شہید ہوگیا" تو میں کہتی تھی کہ "شاید آپ امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ساتھیوں کا زخیرہ ہوں"

حاجی حمید کو ۳۰ سال بعد بھی رٹائرمنٹ نہیں دی، ۳ سال مزید لگے کہ رٹائر ہوں۔ بہت غمگین تھے۔ میں نے پوچھا تو کہا کہ "میز پر بیٹھ کر کرنے والا کام مجھے پسند نہیں۔ ۳۳ سال کا تجربہ، عراق سے سیاسی اور عسکری روابط، چاہتا ہوں کہ وہیں جا کر خدمت کروں"

حاجی حمید عراقی کی والینٹر فورسز کے رکن تھے۔  ۲۰۱۴ میں اربعین امام حسین علیہ السلام میں شرکت کرنے والی کی سکیورٹی کی ذمہ داری انکی تھی۔ وہاں شیعہ و سنی اتحاد میں بہت اہم کردار تھا۔ ۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ کو سامرہ کے ایک شہر بلد میں حرم عسکریین کے دفاع کے دوران شہید ہوگئے۔

 

  • ·  پروین مرادی تقوی فر، شہید حمید تقوی فر کی زوجہ ہیں۔ شہید حمید سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سرداروں میں سے تھے اور داعش سے مقابلے کے دوران سامرا میں شہید ہوئے۔
  • اس یادداشت کو "شب خاطرہ" کے نام سے ایک محفل میں جو مقاومت کی ادبیات اور ھنر کے درفتر میں منعقد ہوئی، مورخہ  ۲۴ فروری ۲۰۱۶ کو بیان کیا گیا تھا۔ 


 
صارفین کی تعداد: 3812


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔