زبانی تاریخ کو لکھنا اورلکھا جانا

محمد علی فاطمی
ترجمہ: سید جون عابدی

2015-11-24


ہم روزانہ، ہفتے میں، مہینوں اورسال بھر متعدد مسائل کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں۔فطری سی بات ہے ہم انسان ہیں اور ہمارا ایک مشغلہ باتیں کرناہےاور یہ عمل عام طور پردوسروں کے ساتھ کلامی رابطہ برقرار کرنے،اپنی رائے کے اظہار،دوسروں کی رائے کو جاننے کےلئے انجام دیا جاتا ہے۔نیز یہ عمل اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بھی ایک راستہ ہے۔اب آپ حساب لگائیے کہ اگر ان باتوں کی صرٖف ضروری اوراہم نکات کو لکھاجائے توبھی بہت زیادہ صفحات کی ضرورت پڑیگی۔اور اگر جدید وسائل کا استعمال کریں اوراسے انٹرنٹ کی نامحدود فضا میں ڈالاجائے توبھی ہمیں اس کو اپگریڈ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

اگر کسی واقعے یا ماجرے کے باتیں اور رد عمل کو دنوں اورمنٹوں کے کی صورت میں لکھا جائے تو وہ روزانہ کے کی یادداشت میں تبدیل ہوجائیں گے۔اوراس عمل سے ان واقعات کے رونما ہونے کا صحیح وقت معلوم ہوجائے گا۔اورایک موقع ایسا آئیگا کہ یہ تحریریں اتنی اہم ہوجائیں گی کہ انہیں اسناد اوردستاویزات کا جائے گا۔اگر کسی مسئلہ کے بارے میں آج قلم  اٹھائیں اورکچھ تحریر کریں تو اس کی اہمیت کا اندازہ ابھی نہیں ہوگا اورہم یہ خیال کریں گے یہ تو ایک سامنے کی بات ہے اس کو  لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن تھوڑا وقت گذرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہونے لگے کہ وہ سامنے کی اور بدیہی بات بہت اہم تھی جسے لکھا گیا تھا۔یہاں تک کہ کسی میٹنگ کہ انعقاد کی تاریخ اور وقت بھی بہت اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔

اگر کسی واقعے کی باتوں اور اس کے رد عمل کو روزانہ نہ لکھا جاسکے۔اوروہ صرف ذہن میں ہی محفوظ رہ جائے۔تو اگرچہ یہ امر اس واقعہ کی شان میں کمی کا باعث ہوگا لیکن ایک عرصہ یا  ایک سال ،دوسال یا بیس سال کے بعد جب اس واقعےکو بیان جائے گا تو اس کا ایک الگ ہی لطف ہوگا۔ لوگوں کے لئے ہم اس لئے اہمیت کےحامل ہوجایئنگے کیونکہ ہم ماضی سے تعلق رکھتے ہیں اورہم نے خاص لوگوں،واقعات اورحادثات کا نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے۔ گویا ہم اس زمانے اور آج کے زمانےوالوں کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہیں۔اس وقت رونما ہونے والے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔اوراب ان واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ یادوں کے سہارے بیان کررہے ہیں۔ جس ذہن میں مسلسل تبدیلیاں پیداہورہی ہیں۔لیکن اس راہ کی انتہا لکھنا اورلکھا جانا ہے۔اوریہیں سے زبانی تاریخ کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہیں سے زبانی تاریخ کی ذمہ داری شروع کرتی ہے۔اس میں ایک مسئلے یا واقعہ کو قلم بند کیا جاتاہے تاکہ اس سے متعلق موجود اطلاعات محفوظ کی جاسکیں۔نیز کسی موضوع سے متعلق تمام باتوں کو بھی لکھا جاسکے۔اس لحاظ سے زبانی تاریخ مسلسل اپنی اہمیت اورضرورت کے ساتھ باقی رہتی ہے۔اور اس طریقے سے جو اطلاعات حاصل ہوتی ہیں اگر انکی بنا صحت رکھی جائے تو ان سے متعلق ملنے والے دستاویزات،اسناد اور ان  باتوں کوجنہیں ابھی تک بیان نہیں کیا گیا ہے کے ذریعہ ، ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے اوریہ امر اس کی اہمیت کی کمی کا باعث نہ ہوگا بلکہ لکھے جانےکے بعد راوی کی روایت کے ذریعہ  اس کا لطف حاصل کیا جاتا ہے۔اس مقام پر ماجرے کی اصلاح اورتکمیل کی خاطرہمارے لئے راستے کھلے ہوئے ہیں۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ زبانی تاریخ کا میدان بہت وسیع اور نامحدود ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ انسان اب تک اپنی زندگی کے تمام تجربات کو بیان کرکے محفوط نہیں کرسکا ہے۔اس کی زندگی لمحہ بہ لمحہ پیچیدہ تر اور اس کی زندگی کے اسرار میں ہر آن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لہذا زبانی تاریخ کے ذریعے محفوظ کئے جانے والی اطلاعات کا دائرہ لامحدود ہے۔لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ تحریر اسی نچلی سطح پر باقی رہے۔کیوں کہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے واقعہ سے متعلق لکھی جانے والی بات بھی تاریخ کا حصہ قرار پائے گی۔اور اسے زبانی تاریخ میں ہی شمارکیا جائےگا۔ لیکن زبانی تاریخ کے ناقابل تردید ہونے کے باوجود چاہے کوئی بھی وجہ ہو راوی حضرات اس امکان سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔اور اس بات پر اصراربھی نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ عمل مؤثر نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ لکھنے کا کام بہت ہی سخت ہے (اب چاہے وہ تصنیف کا مرحلہ ہو،واقعات کو قلمبند کرنےکا مسئلہ ہو یا پھر کسی واقعے اور ماجرے کی رپورٹ تیار کرنے کا مسئلہ ہو)۔لھٰذا وہ باتیں جو لکھی جاچکیں ہیں انکےلکھنےوالوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔اورجو نہیں لکھی گئی ہیں ان کے سلسلہ میں زبانی تاریخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اطلاعات اور روایات کو تحریری صورت میںڈھال دیا جانا چاہئے۔



 
صارفین کی تعداد: 4321


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔