کتاب "وہ ۲۳ افراد" سے اقتباس

ان ۲۳ افراد کا رمضان کیسا گذرا ؟


2015-11-7


کافی دفعہ ایسا ہوتا کہ کو‌ئی سر پھرا عراقی نگہبان، افطار سے آدھا گھنٹہ پہلے آتا ،ہمارے  حوالات میں داخل ہوتا اور ہماری پانی کی بوتل کو منہ لگا کر پی جاتا اور خالی کردیتا، اس کے بعد ہمیں دیکھتا اور قہقہے لگاتا ہوا باہر نکل جاتا، اس وقت ہم میں سے ذیادہ تر کو شید غصہ آتا مگر نہ وہ ہم پر اعتراض کر سکتا تھا اور نہ ہم اس کو منع کر سکتے تھے۔

سن 1361 میں، بیت المقدس آپریشن کے دوران،کافی زیادۂ ایرانی نوجوان عراقی فوجیوں  نے گرفتار کرلئے تھے البتہ یہ وہی آپریشن تھا جو خرم شہر کی آزادی کا سبب بنا تھا ان23جوانوں میں زیادہ تر کا تعلق کرمان سے تھا اور یہ عراقیوں کیلئے بڑی حیرت کاباعث تھا کہ اس سن وسال کے نوجوان بھی جنگ میں شرکت کریں۔ کیونکہ اس گروہ  کے زیادہ  کی عمر 13 سے 16 سال تھی اور سب سے بڑا نوجوان 19 سال کا تھا۔ صدام نے جب ان نوجوان قیدیوں کی تصاویر دیکھیں تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ ان نوجوانوں کو استعمال کیاجاۓ اور انہی کے ذریعے ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کیاجاۓ۔ اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ عراقیوں کو اس جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا  تھا اور اب وہ اسکا بدلہ لینا چاہتے تھے کیونکہ اس آپریشن سے پہلے صدام یہ کہہ چکا تھا کہ اگر ایران نے خرم شہر کو آزاد کروالیا تو میں بصرہ ان کے حوالے کر دوںگا مگر جب شکست سے دوچار ہوا تو عراقی اخباروں میں جھوٹی خبریں ایران سے منسوب کرنے لگا۔ ان لوگوں نے عراقیوں کے رویے کی وجہ سے بھوک ہڑتال کردی اور 5 دن تک صرف پانی پیتے رہے اور مطالبہ کیا کہ ہمیں ہمارے دوسرے دوستوں کے پاس ہمارے کیمپ میں واپس بھیجا جاۓ ایک عراقی جنرل ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم لوگ چاہتے ہو ایسا کرکے ہیرو بن جاؤ ‎۔ لہذا یہ ڈرامے بازیاں چھوڑو ورنہ اسی جیل میں بھوکے مرجاؤ گے اور کو‌ئی تمھاری آواز بھی نہیں سن پاۓ گا۔

"وہ تیئس لوگ" کتاب دراصل احمد یوسف زادے کے مشاہدات اور یادیں ہیں جو ان کی اپنی اور ان کے دوستوں کی قید اور ان کے جہاد کے واقعات پر مبنی ہے۔ 408 صفحات پر ان واقعات کو لکھا ہے اور "سورہ مہر پبلشرز" کو دے دیا۔

آئیں ماہ رمضان کی مناسبت سے "اس کے ایک اقتباس کو جوکہ قیدیوں کے روزے کے متعلق ہے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔

سن 1361 ،تیرماہ کی دس تاریخ کو 1413 قمری سال  کا پہلا روزہ تھا (عراق میں) ہمیں ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا تھا کہ ہم قید میں تھے اور شرعی لحاظ سے نمازوں کو پورا پڑھنے پر قادر تھے اور روزہ بھی رکھ سکتے تھے ہم نے ساتھ ملکر عراقیوں سے کہا کہ ہمارے دوپہر اور رات کے کھانے کو ایک ہی ساتھ مغرب کے وقت دیا کریں تاکہ ایک سے افطاری کریں اور دوسرے کو سحری میں کھاسکیں۔ عراقیوں نے بھی مان لیا۔ لیکن اس بوڑھا عربی کی جب یہ سمجھ میں آیا کہ یہ سب کچھ اس لۓ کہہ رہے ہیں کہ اس تنگ وتاریک زندان میں روزہ رکھیں تو وہ بگڑ گیا اور صالح سے اس نے بارہا کہا کہ وہ ہم سب کو روزہ رکھنے سے روکے۔۔۔۔ غرضیکہ پہلا روزہ رکھا۔ جوکہ بہت مشکلوں سے نقاحت اور پیاس کی شدت کے ساتھ، بم اور گولوں کی آوازوں کے ساتھ افطار کیا عراق میں افطار کے وقت کا اعلان  اذان کے بجا‎‎ۓ توپ کے  گولے سے ہوتا جو کہ ہم سب کی جان نکال دیتا۔ وہ بوڑھا عرب روزے نہیں رکھتا تھا  مگر ہم سےزیادہ افطار کے وقت کا انتظار کرتا تھا اور جب افطار میں 3 گھنٹے رہ جاتے تو منصور سے کہتا، بس منصور تین گھنٹے اور۔۔۔ مجھے اس بوڑھے کے اس اعلان کے بغیر بھی معلوم تھا کہ اذان کا وقت کب ہوتا ہے اور میں اس کا اندازہ سورج کی روشنی سے لگاتا تھا جوکہ قید خانے کے روشن دان سے سامنے کی دیوار پر پڑا کرتی تھی اور قید خانے کے دروازے کے کنارے تک پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے لیتی تھی اور جب ہہیں رک کر ڈھانے لگتی تو اس کے ساتھ ہی توپ کی آواز آیا کرتی تھی اور افطار کا وقت ہوجاتا۔۔۔ اسی دھوپ کی وجہ سے وہ بوڑھا بھی حساب لگایا کرتا تھا کہ منصور دوگھنٹے اور۔۔۔۔ منصور ایک گھنٹہ اور۔۔۔ منصور آدھا گھنٹہ۔۔۔۔ منصور پندرہ منٹ اور۔۔۔۔۔۔ اور توپ کی آواز کے ساتھ ہی بہت شوق سے بیٹھ کر منصور اور دوسرے نوجوانوں کو افطار کرتے دیکھتا۔۔۔۔ تیسرے روزے میں جب ہمارے ٹھنڈے پانی کی فراہمی، کی درخواست رد کردی گئی تو عباس پور خسروانی نے خالی خشک دودھ کی بوتل جو کہ ایک افسر کی لائی ہوئی تھی اور ایک کونے میں خالی پڑی تھی کو استعمال کیا اور بیت الخلا سے واپسی پر اس کو بھر لایا اور اس کے گرد گیلا تکیہ لپیٹ کر پنکھے کے نیچے رکھا جس کے نتیجے میں ہمیں قدرے ٹھنڈا پانی افطار کے وقت میسر آگیا مگر سب کو بس ایک کپ کے قریب ہی مل پایا، باقی پھر اسی بالٹی کے پانی سے اپنی پیاس کو بجھایا، چار رمضان کو صالح جب زندان کے صحن سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں مالٹے کے شربت کی ایک بوتل تھی اس نے خوشی سے ہماری طرف اچھال کر کہا، یہ رہا آج کے افطار کے لۓ شربت ہم نے پوچھا یہ کہاں سے آئی؟ بولا سگریٹ کے بدلے شربت۔۔ عراقی ہر روز کچھ سگریٹ صالح کو دیا کرتے جنکو وہ روزے کی وجہ سے جمع کرتا رہتا اور ان عراقی قیریوں کو جو کہ عموما جنگ سے فرار کرنے کے جرم میں گرفتار کۓ گۓ تھے مہنگے داموں بیچ دیتا اور ان پیسوں سے ہمارے لۓ شربت خرید لیتا، ایک دن مغرب کے بعد ہم نے اس شربت کو پانی کے ساتھ ملایا تو منصور آدھا گلاس اس بوڑہے کے لۓ بھی لے کر گیا مگر اس نے اصرار کیا کہ پہلے منصور پۓ پھر میں پیوں گا اور جھک کر صالح کو کچھ کہنے لگا ۔۔۔ صالح نے کہا تم لوگوں کو معلوم ہے یہ کیا کہہ رہا ہے ہم نے کہا نہیں صالح نے کہا کہہ رہا ہے کہ جب ایرانیوں کے بچے اتنے اچھے ہیں تو بڑے کیسے ہوں گے۔ اس طرح عباس پور خسروانی ہر دن دوپہر میں بوتل بھر کر پانی ٹھنڈا کیا کرتا لیکن پھر  اکثر ایسا ہونے لگا کہ افطار سے آدھا گھنٹہ قبل کوئی سر پھرا عراقی نگہبان ہمارےحوالات میں داخل ہوتا ہے اس بوتل کو منہ لکا کر پی جاتا اور خالی کرکے ہنستا ہوا باہر چلا جاتا مگر نہ تو وہ جرات اعتراض رکھتا تھا نہ ہم جات ممانعت۔۔۔۔ ایک دن سارےعراقی قیدیوں کو ہمارے حوالات میں بھیج دیا گیا تاکہ ان کے حوالات کی صفائی ہو سکے عبد النبی کا بھا‌ئی ان قیدیوں میں سے تھا جو نۓ لاۓ گۓ تھے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو گلے لگالیا اور وہ ہمارے ساتھ اسوقت تک رہا جب تک باقی قیدی وہاں رہے۔ تئیس رمضان کو ظہر سے پہلے کا وقت تھا کہ عراقی آۓ اور ہمیں کہا چلنے کے لۓ تیار ہوجاؤ کہاں لے کر جارہے تھے کوئی نہ جانتا تھا عبدالنبی، بوڑھا عرب اور رضا ہمیں اشک بار آنکھوں سے الوداع کہہ رہے تھے مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ صالح ہمارے ساتھ جا رہا ہے تو ہم سب ہی خوش ہوگۓ ہمیں امید تھی کہ ہمیں کیمپ لے کر جارہے ہیں اور یہ ہمارے لۓ خوش خبری تھی کہ ہزاروں قیدی، حمام، سورج کی روشنی اور بہت کچھ میسر آجاۓ گا مگر دیکھا باہر ایک کالے رنگ کی وین ہماری منتظر تھی ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم سب کیسے اس میں سمائیں گے مگر ہمیں اس دھات سے بنے ڈبے میں ٹھونس دیا گیا جو دھوپ کی تمازت سے بری طرح تپ کر ایساہوگیآ تھا کہ ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم زندہ ہی تنور میں ڈال دیۓ گۓ ہیں۔گاڑی چل رہی تھی اور بغداد شہر سے باہر نکل آئی، پسینے اور گرمی کی وجہ سے ہم سب ہی نیم بے ہوش تھے۔ گاڑی ایک سفید رنگ کی عمارت کے سامنے جاکر رکی  سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کونسی جگہ ہے ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا بس کہیں دور سے ہلکی ہلکی یا کریمی کی صدائیں آرہیں تھیں ہم سب بے چین تھے کہ کب اس عمارت کا دروازہ کھلے اور ہم اندر جاکر دیکھیں کہ اب ہمیں کہاں لاۓ ہیں کہ گاڑی اندر آئی اور  اس عمارت کے صحن میں جاکر رک گئی ہمیں اتارا گیا ہمارے تصور کے بر عکس  وہاں کوئی قیدی نہ تھا جبکہ گاڑی ہمیں چھوڑ کر واپس روانہ ہوچکی تھی ہم چند  سپاہیوں کے ہمراہ وہاں کھڑے تھے عراقی سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرکے ہمیں  دکھا رہے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ یہ ٹی وی پر ہماری ویڈیو اور تصاویر دیکھ چکے  ہیں لہذا ہم ان کے لۓ اجنبی نہیں۔۔۔

اس عمارت کے ہر حصے میں چار کمرے تھے جن کے دروازوں پر تالے پڑے تھے  عمارت کے اندرونی راستے پر کچھ سرخ پھول اور ایک پانی کا پائپ تھا جس نے اطراف کے حصوں کو نم کر رکھا تھا ہم سب پیاس کی شدت سے نڈہال اور قریب المرگ تھے مگر سب کا روزہ تھا کہ صالح ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے حد ترخص پار کرلی ہے لہذا اب روزہ کھول سکتے ہیں اس کی اس آواز کے سنتے ہی ہم  سب زنگ آلود مٹی والے گرم پانی کے پائپ پر ٹوٹ پڑے اور وہ گرم پانی بھی شوق سے پیا۔

 کچھ دیر بعد ایک دبلا پتلا سپاہی ہمارے پاس آیا اور ہمیں ایک کمرے میں لے گیا وہ کمرہ تو بغداد کے قید خانے سے بھی چھوٹا تھا مگر کیا کرتے اسی تنگ اور گرم کمرے میں بیٹھ گۓ اور صالح راستے میں عراقی محافظوں سے جتنی باتیں سن کر آیا  تھا ہمیں بتانے لگا۔

ماخذ: انتشارات سورہ مہر                                                  

 



 
صارفین کی تعداد: 3986


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔