رضا شاہ کی علی امینی کے ساتھ ٹیلی فونی گفتگو کی وضاحت

موسسہ مطالعات سیاسی و ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

2015-9-15


محمد رضا شاہ کی علی امینی کے ساتھ ٹیلی فونی بات چیت کی وضاحت

یہ آڈیو فائل  دراصل ساواک کے وائر ٹیپ سے شاہ کے زمانے کے پہلے وزیر ڈاکٹر علی امینی کے گھر سے لی گئی ہے۔ یہ تاریخی گفتگو انقلاب اسلامی کی فتح سے کچھ عرصہ قبل ، 5 دی 1357 کو انجام پائی اس گفتگو کے آغاز میں شاہ نے کریم سنجابی کی تقریر کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ اس نے پہلوی اسپتال( موجودہ امام خمینی اسپتال) میں کی تھی۔ ساواک کی دستاویزات کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ 4 دی ماہ 1357 کو پہلوی اسپتال کے مختلف میڈیکل کالجوں میں اعلامیہ نصب کیا گیا تھا جس میں کالج کے تمام عملے سے کہا گیا تھا کہ تہران یونیورسٹی میں دھرنے میں بیٹھے ہوئے پروفیسروں کی حمایت میں صبح 10 بجے گلیوں میں مارچ کرنا ہے اسی ریلی کے اختتام پر کریم سنجابی نے شرکاء سے خطاب کیا تھا۔ شاہ کی علی امینی سے اس تاریخی گفتگو میں سنجابی کی تقریر کے علاوہ5 دی کو ہونے والے واقعات پر بھی آپس میں مشورہ کیا گیا، شاہ ایران چھوڑنے سے 21 دن پہلے واضح طور پر کہتا ہےکہ " کمزور ہوتے جارہے ہیں" آگے اشس گفتگو میں شاہ کریم سنجابی کی تقریر سے متعلق علی امینی کی راۓ جاننے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ کریم سنجابی نے اپنی تقریر میں علی الاعلان ایران میں شہنشاہی حکومت کے بجاۓ جمہوری حکومت کی ضرورت اور تشکیل پر زور دیا تھا ، علی امینی نے اس ماجرے سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوۓ اسے غیر قانونی ‍قرار دیتے ہیں اور شاہ کا سنجابی کی گرفتاری پر مشورہ مانگنے پر، اپنے متفق ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔

اس گفتگو کے دوسرے حصے میں پروفیسر نجات الہی کے قتل کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے جوکہ خیابان ویلا میں وزارت علوم کی عمارت پر( جوکہ دھرنے کی جگہ تھی) چہل قدمی کرتے ہوۓ فورسز کی گولی کا نشانہ بنے تھے شاہ اور امینی اس واقعے پر شبے کا اظہار کرتے ہوۓ اسے مخالفوں کا کام قرار دیتے ہیں۔

اس گفتگو کے تیسرے حصے میں تیل کی صنعت کے کارکنوں کی ہڑتال اور اسکا ایران کی معیشت پراثر کے حوالے سے بات کی گئی ہے اس بارے میں امینی کچھ با اعتماد انقلابیوں کی مدد سے اس ہڑتال کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس حصے میں شاہ تیل کی آمدنی کے ہاتھ سے جانے اور اسکو حکومت کے خاتمے سے تعبیر کر کے تشویش کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ہار گئے اور بغیر عزت و وقار کے بوڑھی عورتوں کی طرح چلے جائیں گے۔

ڈاکٹر علی امینی کی محمد رضا پہلوی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا مکمل متن:

 دربار سے علی امینی کے گھر فون کیا گیا

امینی : ہیلو

شاہ: ہیلو

امینی :آپکی تعظیم بجا لاتا ہوں

شاہ: آپکی رات بخیر گذرے، سنا ہے کل سنجابی نے ایران میں جمہوریت کی بات کی ہے؟

 امینی :نہیں جناب

شاہ:اچھا تو پھر کیا کریں اس صورت میں؟

امینی :یہ تو غیر قانونی ہے جناب

شاہ: اور اس کو برداشت بھی تو نہیں کیا جاسکتا۔

امینی : مگر آپکے قربان جاؤں میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی

شاہ: جی اطلاع آئی ہے کہ پہلوی اسپتال میں میٹنگ ہوئی ہے اور وہیں یہ جمہوریت کی بات ہوئی ہے

امینی : اچھا یہ تو بڑی عجیب بات ہے

شاہ: جی اسی طرح سے بتایا گیا ہے

‎‌‎ امینی : میں نے تو نہیں سنا جناب

شاہ: اچھا اگر یہ بات درست ہو تو پھر؟

امینی : یہ قانون کے خلاف ہے اور اگر ہم چاہیں بھی کہ اسکو نظر انداز کریں پھر بھی یہ نعرے برداشت کے قابل نہیں۔

شاہ: کمزور ہوتے جارہے ہیں

امینی :نہیں جناب ایسا نہیں، مجموعی طور پر تیل کے کارکنوں کی ہڑتال پر اقدامات کۓ تھے اور ان پر عمل بھی ہوا اور آغا فلسفی سے بات کے بعد طے ہوا کے تھوڑا بول کر مطالبات پیش ہوں گے اور ابھی آغا طالقانی کا پیغام ملا ہے کہ اندرونی معاملات کی درستگی میں مصروف ہیں

شاہ: اچھا پھر اس کی آمدنی کا کیا ہوگا؟

 امینی: جناب عالی داخلی معاملات میں جلدی کرنا خطرناک ہے ابھی دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے آغا انتظام صبح مصروف تھے تو کل رات فون کیا تین طرح کے اقدامات کۓ گۓ۔ ایک فوج سے متعلق تھا کہ شکایت ہے کہ فوج زیادہ تیل لے کر جاتی ہے اسکو متوازن تقسیم ہونا چاہیے ایک آبادان سے متعلق اور ایک خوزستان میں فوجیوں کو جمع کرنے کے متعلق تھا کہ اتفاقا کل رات آپ سے ڈسکس کر لیا تھا اور دوبارہ بتاتا چلوں کہ تین حصوں پر مشتمل تھا جس میں سے داخلی تیل کا مسلہ سب سے خطرناک ہے لہذا اس میں دیر نہیں ہونی چاہیے

شاہ: کل میری فوج کے ساتھ میٹنگ بھی ہے، اب میں خود اس مسئلے کو دیکھوں گا اور اگر سنجابی والے مسئلے کو قبول کر لیں تو کیا ہم بھی منظور کرلیں؟

امینی :میری نظر میں اس کو قبول کرنا مشکل ہوگا اس طرح اختیارات ہاتھ سے چلے جائیں گے

شاہ: مکمل طور پر

امینی :جو کہ صحیح نہ ہوگا

شاہ: تو پھر یہ چال نہ چلیں

امینی : مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں

شاہ:پھر اسکا کیا ہوگا جو پہلوی اسپتال میں کہا گیا کہ جمہوری ملک چاہتے ہیں رومانیوں کی طرح۔

امینی : اچھا میں نے نہیں سنا

شاہ: گلیوں میں بھی نعرے بازی جاری ہے

امینی : جی کچھ لوگ شدت سے اسکے خواہاں ہیں صبح بھی رابطہ کیا گیا کہ اب یہ نہیں چلے گا

شاہ: پھر ٹھیک ہے کہ قانون ہی لاگو ہوگا

امینی : جی قوانین کو لاگو کئے بغیر چارہ نہیں لیکن ایک منصوبہ بندی کے بعد ورنہ سب خراب ہوجاۓ گا اور تقریبا ایسا ہی ہوا ہے کہ آج فوجی حکومت ہے بھی اور نہیں بھی اور عوام برباد ہورہی ہے

شاہ: مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کل کیا ہوگا یعنی اگر قانون لاگو نہ کریں تو۔۔۔۔۔

امینی: نہیں جناب اگر ایسا نہ ہوا تو بڑی مشکل ہوجاۓ گی

شاہ: اب کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی

امینی: جی بالکل کیونکہ آدھے لوگ بہت ضدی ہیں اور کچھ موافق کہ اگر ان سے کہا جاۓ کہ باہر نہ نکلیں تو عمل کریں گے لہذا کچھ نہیں کہا جاسکتا

شاہ:ٹھیک ہے اب میں سنجابی کے بارے میں تحقیق کرتا ہوں اور اگر سب درست ہوا تو؟

امینی: پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کا راستہ بند کر دیا جاۓ

شاہ: پس گرفتار کرلیں

امینی: جی بالکل کیونکہ کچھ لوگ غلام حسین کے آنے میں رکاوٹ ڈالنا چاہ رہے ہیں

شاہ:ہاں سوچتے ہیں کہ آۓ گا

امینی:جی ایسا ہی ہے

شاہ: میرے خیال میں شہر میں بھی اسکا تدارک کرنا پڑے گا

امینی: جی جی تھوڑا بہت روکیں ورنہ زحمتیں ایجاد کرےگا اور عوام بے روزگار بھی تو بہت زیادہ ہیں جو ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اس طرح زیادہ تر لوگ غصے کا شکار ہو رہے ہین

شاہ: ایک کوئی بالکونی میں بھی آیا تھا دھرنے کی جگہ پر اور کہاں سے گولی آکر اسے لگ کئی اور مرگیا کہ یہ انہی ڈاکٹروں میں سے ایک تھا اب کل اس کو بھی جھیلنا پڑے گا کہ یہ چاہتے ہیں کہ عثمان کی قمیض کو کھینچیں۔

امینی: بالاخر کچھ لوگ یہ کام کرتے ہیں مگر پتہ نہیں یہ غیر ذمہ دارانہ عمل کس نے انجام دیا

شاہ: میرے خیال میں یہ حکومتی گاڑی سے فائرنگ کر رہے ہیں

امینی: یہ تو بہت عجیب بات ہے

شاہ: عام افراد آتے ہیں موبائل سے فائرنگ کرتے ہیں بسیں بھی جلادی ہیں

امینی: جی بالکل اس معاملے میں سختی ہونی چاہیے

شاہ: میں اس فکر میں ہوں کہ اگر قانون لاگو نہ ہوا تو کیا ہوگا

امینی: قانون کے لاگو ہونے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے

شاہ:ہاں اس سے پہلے کہ بوڑھی عورت کی طرح میری کوئی حیثیت نہ رہ جاۓ یہ کام ہوجانا چاہیے، تبریز کے بارے میں بھی فرمان دیا ہے پتہ نہیں آفیسر کو فون کیا کہ نہیں

امینی: نہیں ابھی نہیں

شاہ: ابھی نہیں کیا

امینی: نہیں

شاہ: جبکہ کل رات ہی بات ہوئی تھی کہ قانون لاگو ہوگا

امینی: جی آغا صدیقی بھی متفق ہیں

شاہ: اچھا اب آپ کے پیچھے رہنے کی دلیل یہ ہے جو کل دی تھی؟

امینی: جی جی ایک حد تک، اب کچھ لوگوں کو آغا صدیقی کے پاس بھیجا ہے جمعرات کی صبح وہ پروفیسر آۓ تھے تاکہ یہ کام جلدی ہو ۔ دیر مناسب نہیں

شاہ؛ لیکن اس وقت تک نظم و ضبط بر قرار رکھنا ہوگا

امینی: جی جی کیونکہ اس کے بغیر گذارہ نہیں۔

شاہ: ہاں فضول کام تھا اور یونیورسٹی کا دھرنا اس سے بھی بدتر۔

امینی: جی مگر جب تھک جائیں گے تو باہر آجائیں گے

شاہ: کیوں باہر آئیں گے اس جگہ کو مرکز بنا لیا ہے ٹیلی فون ہے ہر چیز ہے پیرس رابطہ کرتے ہیں نوکر ہیں دوست ہیں انہوں نے اسکو گڑھ بنا لیا ہے

امینی: جہاں فون کرتے ہیں کاٹ دیا جاتا ہے

شاہ: لائٹ اور فون کاٹ دیا گیا ہے

امینی: جی

شاہ: پھر تو کوئی مسئلہ نہیں تھک کر باہر آجائیں گے

امینی: جی اگر کچھ ہوا تو آپ کو بتا دوں گا آپ کا سایہ سلامت رہے۔۔۔۔

 

----------------------------------------------------------------------------

شاہ کی علی امینی کیساتھ تاریخی گفتگو کا تجزیہ

ایران کے سیاسی مطالعے اور ریسرچ سینٹر کی سا‌ئٹ نے انقلاب کو 36 سال گذرنے کے بعد، پہلی دفعہ ایران کے سابق وزیر علی امینی کی شاہ کے ساتھ گفتگو کی آڈیو کو عصر حاضر کے  تاریخی محققین اور چاہنے والوں کو مہیا کی ہے تاکہ ایرانی انقلاب کی پس پردہ حقیقت کو جان سکیں۔ امید ہے کہ یہ روشن خیالی اسی طرح پھیل کر آنے والی نسلوں تک پہنچے گی

یہ تاریخی مکالمہ ملک کی انفارمیشن اور سیکیورٹی کی تنظیم ساواک کی دستاویزات کا حصہ ہیں کہ جن میں سے بعض کو سیاسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے حوالے کردیا گیا ہے تاکہ یہ آڈیو دستاویزات عصر حاضر کے محققین کیلۓ معاون ثابت ہوں گی۔

 

شاہ کی امینی کے ساتھ مستند گفتگو

جن لوگوں نے شاہ اور علی امینی کی آوازیں سنی ہو‌ئی ہیں ان پر اس آڈیو کا مستند ہونا ثابت ہوجاتا ہے اس کے علاوہ اس ٹیپ کا مواد خود حقیقت کی عکاسی کرتا ہے لہذا اس آڈیو سے شاہ کے گفتار اور کردار کا فرق  اور اختلاف صاف ظاہرہوتا ہے۔

 

شاہ کی امینی کے ساتھ اس گفتگو کی اہمیت کی دلیل:۔

اس آڈیو دستاویز کا نشر ہونا مختلف حوالوں سے اہمیت کا حامل ہےمگر پانچ مورد بہت اہم ہیں:

 

اس گفتگو کے وقت، حالات۔

اس گفتگو کا متن بالخصوص پروفیسر نجات الہی کی شہادت کی طرف اشارہ جو کہ 5 دی 1357 کو ہوئی یعنی شاہ کے فرار سے 21 دن پہلے ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس زمانے میں شہنشاہی نظام کے خلاف لوگون کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی اس واقعے کے تناظر میں شاہ کے الفاظ" کمزور ہورہے ہیں" اس بات کی دلیل ہے  کہ وہ اس صورتحال میں بھی اپنی نام نہاد حکومت بچانے کے مشورے کر رہا تھا کیونکہ اس وقت تک وہ امینی کو امریکا کا ایران میں ایک مہرہ سمجھتا تھا اور ان سب چیزوں سے  غافل کہ امام خمینی تدابیر اور قیادت نے امریکی انٹیلی جنس کو لاچار کر دیا ہے اور وہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ دالنے سے قاصر ہیں

 

شاہ اور امینی کے درمیان نا گفتہ حقائق

شاہ جو کہ جمہوری حکومت کے وعدوں کو سن کر اپنی حکومت کے خاتمے کو دیکھ رہا تھا ہر ڈکٹیٹر کی طرح کوشش کرتا ہے کہ امریکی آلہ کار ہونے کی بنا پر امینی کی ساتھ مل کر کوئی راہ حل تلاش کرے لیکن یہ واضح تھا کہ 5 دی تک کسی بھی تدبیر کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔

 

تیل کی صنعت کی ہڑتال کی طرف اشارہ اور شاہی حکومت کے خاتمے پر اس کے اثرات:

شاہ کی جابرانہ حکومت بخوبی جانتی تھی کہ تیل کی آمدنی ہاتھ سے دینے کے بعد وہ اپنی حکومت کی گاڑی نہیں چلا پاۓ گی لہذا اس کی ہر ممکن کوشش تھی کہ اس ہڑتال کو ختم کرایا جاۓ اس وجہ سے علی امینی اور دیگر با اثر ذرائع سے اس امر میں مدد مانگتا ہے مگر امام حمینی جو کہ شاہ کی چالوں کو جانتے تھے اس ہڑتال کو ایک کمیٹی کے ذریعے ختم کرواتے ہیں اور شاہ کونا کام بنا دیتے ہیں۔

 

ملک کو چلانے میں شاہ کی بے تدبیری کا انکشاف

اس آڈیو کے متن سے صاف واضح ہے کہ شاہ کی تمام فریب کاریوں کے باوجود آخری چند سالوں میں باہر کے ممالک اس بات کو آچھالنے لگے تھے کہ شاہ کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی اور وہ کوئی فیصلہ صادر کرنے کے قابل نہیں رہا اور پروفیسر نجات الہی کی شہادت کو بھی مخالفین کے سر ڈال رہا ہے۔

 

ناکام فیصلوں کی تفصیلات کا انکشاف

 اس آڈیو فائل میں واضح طور پر غلام حسین کے پہلے وزیر بننے کی خبر دی گئی ہے  اور کریم سنجابی نیشنل فرنٹ کے رہنما کی جوہوری حکومت کی تشکیل کی گفتگو کو در حقیقت نئے وزیر کے بننے پر رد عمل کے طور پر دیکھا گیا ہے جبکہ غلام حسین خود بس اپنا مفاد چاہتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تاریخی آڈ یو میں جو کچھ بھی ہے وہ شاہ کی درپردہ سیاست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو محققین کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ایسے تاریخی حقائق کو شایع کیا جاۓ گا تا کہ محمد رضا اور اس کی جابرانہ حکومت کی حقیقت نئی نسل پر آشکار ہو سکے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4213


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔