ایک تصویر کی کہانی

کتاب کی جلد کے لئے کس طرح تصویر کا انتخاب کیا گیا

مجید روشنگر

2015-8-29


مجید روشنگر، ناشر مترجم اور صحافی سن ۱۳۱۵ شمسی میں پیدا ہوئے۔ وہ امریکا میں کئی سالوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک میگزین 'بررسی کتاب' (کتابوں پر تحقیق) کی اشاعت کر رہے ہیں۔ خلیل جبران کی شاعری کا ترجمہ " دل واپس شادمانی تو ھستم" (تیری خوشی کے لئے فکرمند) بھی آپ ہی کی کاوش ہے۔

عصر حاضر کی ایرانی شاعری پر مبنی کتاب 'انتخاب فروغ فرخزاد' بھی ان ہی کی کوششوں کے بدولت منتشر ہوئی ہے۔

میرے خیال میں اس بات کو بھی یہاں لکھنا ضروری ہے کہ سن ۱۳۴۰ شمسی میں کچھ دوستوں کی مدد سے 'مروارید پبلشرز' کی ایران کے شھر 'گرمابہ' اور گلستانم' کے اپنے دوستوں کے ساتھ بنیاد رکھی، اور ان ابتدائی کتابوں سے مروارید پبلیکیشنز نے اس زمانے کے مشھور مصنفوں اور شاعروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی کہ جن میں سے ایک فروغ فرخزاد تھیں۔

'تولدی دیگر' کے منتشر ہونے کی کہانی کو ایک دوسری جگہ قلم بند کر چکا ہوں اور یہ یاد پلٹتی ہے تولدی دیگر کی پہلی اشاعت کے سرورق کی تصویر کی طرف۔

ان دنوں رایج رسم کے مطابق میں نے چاہا کہ فرغ فرخزاد اپنی ایک جدید تصویر کے ساتھ اپنے حالات زندگی  مجھے دیں کہ جسے میں کتاب کی پشت پر چھپواؤں۔ انھوں نے کہا کہ میرے پاس اپنی کوئی سوانح حیات نہیں اور یہ کہ میں کہاں اور کب پیدا ہوئی اور میں نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ باتیں کسی کو کوئی فائدہ نہیں دینے والیں۔ جتنا بھی اصرار کیا انھوں نے منع ہی کیا۔ بس اپنی ایک تصویر میرے سپرد کی۔ جس دن وہ اپنی تصویر لے کر آئیں اور جوں ہی انہوں نے تصویر لفافے سے نکالی اور میں نے اسے دیکھا تو دیکھا کہ ان کی ناک اس تصویر میں بہت پھیلی ہوئی نظر آ رہی ہے اور وہ تصویر کسی بھی طرح میرے دل کو نہیں بھائی، لیکن اسی لمحے مجھے خیال آیا کہ ان کی تصویر اسی ناک سے دو حصوں میں تقسیم کردوں اور آدھی تصویر سرورق پر اور آدھی پشت پر چھپواؤں تاکہ ناک کی اصل بناوٹ دیکھنے والے پر گراں نہ گزرے اور پھر یہی میں نے کیا۔ اور جب کتاب چھپ کر آئی تو فروغ اس عمل سے بہت خوش ہوئیں۔ مگر میں نے اس کا سبب انہیں نہیں بتایا اور یہ پہلی بار ہے کہ اس واقعے کو یہاں نقل کر رہا ہوں اور وہ کبھی بھی اپنی تصویر کہ آدھا ہونے پر متوجہ نہ ہوئیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4106


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔