اصحاب جمعرات

محمد تقوی
مترجم: روح اللہ رضوی

2015-8-29


شاید اس مقالہ کا موضوع کچھ الفاظ کا مرکب ہونا چاہئے تھا، مثلا ہوشنگ گلشیری یا داستانوں کا کارخانہ جو بہت جامع اور مکمل نہیں لگتا، اس کی دلیل بھی یہی ہے کہ ٹیم ورک اسکے لئے بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس سے اہم کہ میں کچھ سادہ الفاظ کا مرکب بناوں۔

اگر گلشیری کی ادبی زندگی میں دقت کریں تو ہم کئی پر تلاطم موجوں کا ملاحظہ کریں گے جو ابھی تک ہمارے پاس  آچکی ہیں اور ہم سے بھی گزر جائیں گی۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اس مقالہ کا عنوان یہ ہو: گلشیری، ایک موثر لکھاری۔

گلشیری کی زندگی میں ہم اسکا ٹیم ورک اور گروہ کی صورت میں کام کرنے کی نسبت ایک خاص لگاو اور تاکید پر نظر کرسکتے ہیں۔ گلشیری تیز ذھن والوں کا تنھائی میں کام کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا، وہ زیادہ تر ان مراکز اور صاحبان قلم گروہوں سے نزدیک ہوجاتا تھا جو مشترکہ اھداف اور تحفظات رکھتے ہوں۔ پہلا اور مشھورترین گروہ جس سے گلشیری منسلک ہوا اور انکے اہم اراکین میں بھی اسکا شمار ہونے لگا جنگ اصفھان تھا۔

ہوشنگ گلشیری نے ۱۳۳۸ ہجری شمسی میں ادبیات کے کالج سے تحصیل کا آغاز کیا اور ۳۹ سے اسکا تعلق ادبی انجمن صائب سے ہوگیا۔ جنگ اصفھان نے بعد میں انہی ادبی انجمنوں سے اثر قبول کیا۔ انجمن صائب زیادہ تر نئی نسل کے جوانوں پر مشتمل تھی اور اس زمانے کے مشھور ادبا کے درمیان کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی لیکن جنگ اصفھان کے بعد ابوالحسن نجفی جیسے بڑے افراد کو بھی اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہوئی کہ جنہوں نے فرانس میں تعلیم حاصل کی اور جدید مکاتب نقد سے آگاہ تھے ساتھ لسانیات سے بھی واقف تھے۔

جنگ اصفھان کے جلسے ۱۳۳۹ سے ۱۳۵۰ تک چند دوروں میں منعقد ہوئے۔ طریقہ یہ تھا کہ ہر جلسہ میں کسی کے فن پارے کو پڑھا جاتا تھا، مخاطبین اس پر بحث کرتے تھے، غور کیجیے گا کہ اسی کام پر بحث ہوتی تھی نہ اسکے معاشرے میں قبولیت یا اسکے طبقاتی پہلو پر۔ وہ زمانہ، وظیفہ شناس ادبیات کا زمانہ تھا، وہ ناقدین جو ادبیات کو صرف اپنی اجتماعی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیتے تھے اور بس۔  اس دور میں انتہائی درجہ کے جمالی اور خوبصورتی کا پہلو ادبی آثار میں دکھاوے کا باعث تھا۔ لہذا اس نقصان دہ فکر کو توڑنے اور اس سے دور ہٹانے میں ہمیں ان جلسات کا مقروض ہونا چاہئے ہے۔

ہم اس وقت جہاں کھڑے ہیں اگر یہاں سے کھڑے ہو کر دیکھیں تو اس بات کا واضح ملاحظہ کریں گے کہ جنگ اصفھان صرف میٹینگز کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ ادب کی ایک باشعور تحریک تھی جو نہایت اثر گذار بھی تھی۔

کسی بھی کام کی کیفیت اور کمیت، میٹنگز میں زیر بحث آتی تھی اسی جلسے میں واضح ہوجاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جلسے کے آخر میں خود بخود واضح ہوجاتا تھا کہ کون سی چیز چھپنے کے قابل ہے اور کس چیز کو دوبارہ لکھا جائے۔ جہاں تک کہ گلشیری نے خود کہا تھا کہ جنگ کے اراکین نے کبھی بھی فیصلے کے لئے ووٹنگ نہیں کی اور بنیاد اس بات پر نہیں تھی کہ اکثر لوگ جس بات پر جمع ہوجائیں وہ فیصلہ ہوگا۔


ابھی کسی بھی چیز یا کام کی نسبت آراء کا فارم ہمارے لئے بدیہیات کی حیثیت رکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقد کرنے کے لئے ہماری بہت سی محصولات جنگ اصفھان کے تجربہ کا ماحصل ہیں: کسی کے کام کی اپنی حیثیت اور منزلت کو جانچنے کے لئے ایک مستقل ڈھانچہ کی ضرورت  ہوتی ہے جو ناقدین کی مستقل آراء کو طلب کرے۔ واقعے کو پیش کرنے کے بجائے اس کا بنانا اور اسکی طرف نشاندہی، روایت کی جگہ تعریف ان تمام چیزوں نے ایک نئی فضا قائم کردی جس نے اسی وقت ایک امید پیدا کردی تھی جو آج تک لہروں کی صورت میں ہم تک پہنچی ہے۔


ہوشنگ گلشیری نے داستان کا مجموعہ "ہمیشہ کی طرح" ۱۳۴۷ میں چھاپا۔ لیکن اس مجموعے کی اکثر داستانیں اس سے قبل جنگ اصفھان میں چھپ چکی تھیں۔ حقیقت میں ایک ایک داستان جنگ کی میٹینگز میں زیر بحث آچکی تھیں، ان کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاچکا تھا اوردوبارہ تصحیح کرائی جاچکی تھیں تاکہ بہترین کیفیت حاصل کرلیں کہ جو شہر کے فنی روایت کو مطلوب ہے وہ شہر جو دقت نظر میں شہرت رکھتا ہے۔
یہاں ایک ایسے مقام پر ہم پہنچے ہیں کہ ورکشاپ اور ادبی انجمنوں کے اراکین مخاطب کی منزلت کو جانچ سکیں، ایسا پڑھا لکھا مخاطب جو ایک بہترین ماہر فن کے لئے حیات بخش دوا کی مانند ہوتا ہے۔ اس نے خود کہا ہے کہ اسکی بعض داستانیں شاید صرف ۵ افراد کے لئے لکھی گئی ہیں۔ مخاطب با ذوق تھے جو موجودہ دور کی ادبیات میں گلشیری کی بلندیوں کو چھو سکا اور ایسے ف نپارے تخلیق کئے کہ اسکے مخاطبوں نے اس سے قبل کسی جگہ نہیں پڑھے تھے۔ "کریستین و کید" جیسے گوہر نایاب لکھے گئے۔ ایسی عجیب و غریب داستان کہ کئی جلسوں میں ایسے مخاطبین کو سنائی گئی کہ جیسے وہ خود اسی کہانی کا کردار ہیں۔ گلشیری کی بہت سی داستانیں کسی بھی داستان سے کم نہیں تھیں۔ فن پارے جیسے "معصوم پنجم" یا "قصہ خوان خمسہ ابن محمود" اس دور کے داڑھی مونچھ والے ناقدین کی برداشت سے باہر تھیں۔ گلشیری کو پڑھنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوا لیکن وہ متعدد بار شدید تنقید کا نشانہ بنا۔ وہ کہتے تھے کہ گلشیری سخت لکھنے والا ہے اور لوگوں کو اہمیت نہیں دیتا لیکن اس نے آہستہ آہستہ اپنے مخاطبین کی تربیت کی۔ لہذا پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ جو آج  موجودہ زمانے کی ادبی داستانوں کے مخاطبین ہیں ایک اور تحریک تھی جو اس عظیم لکھاری کے ذریعے ہمارے زمانے تک پہنچی۔ جی، یہی مخاطبین جو کئی ھزار ہیں اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتے۔


گلشیری ایک موثر اور لوگوں میں فکری تبدیلی اور ہلچل پیدا کردینے والا لکھاری تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ عام مخاطب فنی تخلیق کے فارمولے میں ایک متغیر )انکانسٹینٹ( حیثیت رکھتا ہے جبکہ ایک فن پارے کے فارمولے میں جامد )کانسٹینٹ( حیثیت رکھنے والوں میں سے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے رہتے اور ممکن ہے کہ یہ فارمولا چند روز میں جواب بھی دے دے، بہت دیر سے نہیں، شاید کل۔ گلشیری ایک موثر اور تبدیلی لانے والا لکھاری تھا کیونکہ اسکے تجربات جدید تجربوں کے لئے موثر مقدمہ بنے جو کئی لہروں کی صورت میں ہم تک پہنچے۔ ہوشنگ گلشیری ہر چیز سے پہلے ایک لکھاری تھا اور ہمیشہ ایک استاد بھی تھا۔ اس نے کئی سال ہر درجہ کے افراد کو جن کا آپ تصور کرسکتے ہیں، پڑھایا ہے۔ پرائمری سے ہائر سیکنڈری کو لیں یہاں تک کہ یونیورسٹی۔ بہت سوں کو داستانیں سکھائیں۔ داستان لکھنا، داستان کا پڑھنا، داستان سمجھنا ، داستان پر تنقید اور ہر دوسری چیز جو داستان اور داستان لکھنے سے متعلق ہے۔  جی ہاں، وہ داستان کا قلعہ تھا۔ اس کا سینہ عقلمند اور وسیع و عظیم طالب علموں سے لبریز تھا۔ کئی بار خود اسنے کہا ہے کہ وہ ایک رات والی عقلمندی پر یقین نہیں رکھتا اور  فنی خلاقیت کو پڑھائی کا نتیجہ، ریڑھ کی ہڈی اور تمام نظم و ضبط سے زیادہ اہم سمجھتا تھا۔ یونیورسٹی اور مختلف داستان نویسی کی ادبی کلاسوں پر اسکی خاص توجہ نے لکھنے کے انانیت و تعصب کو توڑ دیا تھا۔ ابھی بھی ہم میں سے بہت سوں کے ذھن میں ہے کہ بزرگ کہتے تھے لکھائی، سیکھنے سے نہیں آتی بلکہ انسان کے خون میں ہونی چاہئے ہے۔ لکھنا صرف ان افراد سے منحصر ہے جن کو خدا نے صلاحیت دی ہے۔


آج گذشتہ کی نسبت سب سے زیادہ تاکید داستان لکھنے کی تکنیک کے سیکھنے پر ہوتی ہے، اور قدیم ادبیات کے دوبارہ سمجھنے اور نقد کے مختلف تفکرات کے سیکھنے پر۔

اور یہ ایک الگ لہر ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ ہوشنگ گلشیری ایک تحرک پیدا کرنے والا لکھاری ہے۔ گلشیری کے گھر کی منتقلی کی وجہ سے ۱۳۵۳ سے لیکر ۱۳۵۶ تک انجمن کے جلسات اور میٹینگز نے تھران میں تسلسل پایا۔ ۵۶ میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شعر کی۱۰ راتوں کے پروگرام کے انعقاد کے بعد، میٹینگز بڑے پیمانے پر منعقد ہونے لگیں کہ چاہتے نا چاہتے انکا سیاسی اور اجتماعی چہرہ زیادہ نمایاں تھا۔ ۵۷ کے آخر میں واپس اصفھان چلا گیا اور ۵۸، کلچرل اسٹڈیز کے دفتر میں ادبیات کی درس و تدریس میں گذار دیا۔ ۵۹ میں تہران آگیا اور فائن آرٹس کالج میں چھوٹی داستانیں، ناول، اور قدیم ادبیات کی تدریس میں مشغول ہوگیا۔ یونیورسٹی میں، جب طالب علموں سے اس دور کے ادباء کی تنقید کی نسبت نا امید ہوا تو بنیاد صحیح کرنے میں لگ گیا اور اس کام کے لئے موپاسانت، ایڈگر ایلن پو، ہیمنگوے، جان اسٹینبیک، بیلزک، فیوڈر ڈوسٹویسکی اور جیمز جویس کے فن پاروں کی درس و تدریس میں مشغول ہوگیا۔ جب بنیاد اور اساس مضبوط ہوگی تو طالب علموں کے لئے ہماری اپنی ادبیات پر نقد اور تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت کا اقبال و ادراک آسان ہوگا۔ بعد میں بھی گلشیری نے اسی طریقہ و روش کو جاری رکھا اور ہم نے کسری گیلری میں ادبیات جھان اور اپنی معاصر کی ادبیات کی چوٹیوں کے اہم ترین دور کو اسکے ساتھ پڑھا ہے۔ کسی بھی فن پارے کے ایک ایک لفظ کی تدریس، بہت ہی باریک کجیوں کا سراخ کہ جو ایک فنپارے پر موثر ہوتی ہیں، داستانوں کے ایک ایک جز کا تجزیہ و تحلیل اور داستان کے ہر ایک عنصر کو جاچنا، مختلف مفھوم جیسے نثر، زبان اور لحن وغیرہ میں فرق کرنا ایک تحرک ہے جس نے میری نظر میں ہماری ادبیات کی تالاب میں لہروں کو ایجاد کردیا جو آج ہم تک پہنچیں اور ہم سے گذر کر آئندہ آنی والی نسلوں تک پہنچیں گی۔ گلشیری کی فعالیتوں کی تاریخ میں جمعرات کی نشستیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ نشستیں ۱۳۶۱ سے ۱۳۶۷ تک ہفتہ میں ایک بار اراکین کے گھر میں منعقد ہوتی تھیں۔ جمعرات کی نشستیں ان متعدد نشستوں کے درمیان کہ جن میں گلشیری ان سے پہلے شرکت کرتا رہا، زیادہ تر داستان کہنے والی ورکشاپس سے ملتی جلتی تھیں، ان جلسات کا نتیجہ و ھدف کام میں خلاقیت اور داستان کی خالص ادبیات میں نئی خلقت و آفرینش تھا اور بہت کم ہی باقائدہ سکھانے اور تعلیم دینے کی کوئی بات تھی۔ ان نشستوں کا اصلی خاکہ داستان خوانی تھا۔ ان جلسات میں کسی بھی فنپارے پر نقد اور تنقیدی جائزہ ہمیشہ مورد بحث رہا لیکن جلسات کا ورکشاپس کی طرز پر ہونا حقیقت میں  تمام لکھنے والوں کی مدد کی تھی تاکہ ایک دوسری نظر سے اس زمین کو کشف کریں کہ خود جسکی تلاش میں اسے جلدی تھی۔
ان جلسات کا پہلا ماحصل داستانوں کا مجموعہ "ھشت کتاب" تھا کہ جو دوسرے بہترین مجموعوں کی نسبت اپنی الگ حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ دو مجموعہ اور بھی جمعرات کے ان جلسوں میں زیر بحث آئے، جو رد کردیے گئے اور چھپنے کی اجازت نہ حاصل کرسکے۔ "کنیزو اور دس دوسری کہانیاں" اور "تیسری سیڑھی"۔

ان جلسوں کے شرکا تقریبا سب ہی شاعر یا داستان نویس تھے اور ان میں سے بہت سے ان جلسوں سے قبل اہنی کتاب چھاپ چکے تھے اور جو اب تک اپنی کتاب چھاپنے سے رہ گئے تھے ان جلسات کے بعد ان میں سے ہر ایک نے مستقل بنیادوں پر کتابیں نشر کیں اور اکثریت اس عشرے کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے افراد شمار ہوِئے۔

داستان کی ورکشاپ کی نظر ہمیشہ تخلیقی مرحلہ پر ہوتی ہے اور ہمیشہ بعد میں اسکے چھپنے اور نشر ہونے کی بات سامنے آتی ہے۔ اس بنیاد پر ورکشاپ میں زیر بحث داستان، نامکمل داستان ہوتی ہے۔ ایسی داستان جو ابھی تک اپنے خالق کے ہاتھوں میں تمرینی مراحل اور تبدیلی جھیل رہی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ داستان کا محور ہی تبدیل ہوجاتا ہے اور داستان کسی اور سمت میں چلی جاتی ہے۔ داستان کی ورکشاپ سب کے تجربہ اور تعلیم کی رد و بدل کے ذریعے لکھنے والے کی مدد کرسکتی ہے۔ یہ ورکشاپ دوسرے گروہی کاموں سے ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ یہ داستانوں کا نا تمام ہونے والا میدان ہے۔ ان ورکشاپس کی حدود اس کہانی کا تخلیقی میدان ہے۔ شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ گلشیری ہمیشہ ان داستانوں کی ورکشاپس میں رہا۔ کیونکہ ہمیشہ تخلیقی لحظات میں رہتا تھا۔ پس اصلی راز اسی نکتہ میں موجود ہے۔ خلاقیت ہمیشہ باقی رہ جانے والا ہنر۔

۶۹ میں یورپ کے سفر کے بعد، گلشیری نے ایک ہال کسری گیلری میں کرائے پر لے لیا۔ اس دفعہ اسنے باقاعدہ عمل کا آغاز کیا اور داستان کی ان ورکشاپس کو نام اور اسکے لوازمات کے ساتھ شروع کیا اور بدھ کے جلسوں کا آغاز کیا۔ البتہ اسی جگہ ہفتے اور پیر کی نشستیں بھی برقرار تھیں۔ اس دفعہ دوبارہ کام، رابطہ اور دوستی کے ساتھ شروع نہیں ہوا۔ گلشیری ان خوابوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا جو ہمیشہ وسائل کی کمی کے باعث پورے نہ ہوسکے۔ اس بار خود اپنی جمع پونجی سے بغیر کسی کی مالی یا دیگر مدد کے کام کا آغاز کیا۔ دلچسپی رکھنے والے افراد خود اپنے نام لکھواتے اور اول وقت درس میں شرکت کرتے تھے۔ ہفتے کا دن ہماری اپنی عصری ادبیات سے مخصوص تھا، پیر دوسری زبانوں کی ادبیات سے اور بدھ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے داستان کی ورکشاپ سے مختص تھا۔ لیکن داستان نویسی کی ورکشاپ کے لئے نام اور رجسٹریشن وغیرہ نہیں ہوتی تھی۔ گلشیری شروع سے جانتا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ بدھ کے جلسے درس یا کلاس شمار نہیں ہوتے تھے وہ ایک ورکشاپ تھے۔ گلشیری اس ورکشاپ کے اعضا کو خود چنتا تھا۔ جو بھی ان جلسات میں شرکت کا خواہشمند ہوتا وہ پہلے اپنی ایک داستان گلشیری کے سامنے پیش کرتا اور وہ خود اسکی تشخیص دیتا کہ کون اس ورکشاپ میں شرکت کرسکتا ہے اور کون نہیں۔ یہ جلسے تقریبا سات افراد کی شراکت سے شروع ہوئے۔ جلد ہی ہر نئی لکھی جانے والی داستان کا پڑھنا، داستان لکھنے کے ان جسلوں میں اہم جزو میں بدل گیا اور پھر چھپنے سے پہلے بشمول گلشیری کے تمام افراد کے فن پارے عیب و نقص سے دور کئے جاتے۔


گلشیری نے خود "باغ در باغ" کے مقدمے میں ان جلسات کو ان سالوں کے بہترین اور خوبصورت ترین کاموں میں شمار کیا ہے۔ ان جلسات کا تسلسل اور کلاسیں کچھ وجوہات کی بنا پر ایک دو سال سے زیادہ گیلری میں نہیں چل سکیں اور گیلری کا یہ کام بلآخر رک گیا لیکن جلسات گھروں میں منتقل ہوکر تسلسل کے ساتھ چلتے رہے۔ تاریخی متون کا پڑھنا، "حی ابن یقظان" سے لیکر سھروردی کی "آواز پر جبرئیل" یہاں تک کہ بہترین فن پارے جیسے "فرج بعد از شدت" اور تاریخ بیھقی" اور شاہنامے کی بہت سی داستانیں اور کم و بیش پرانی اور قدیم داستانوں میں سے اکثر جیسے "سمک عیار" کا پڑھنا ان جلسات کا حصہ تھا۔ اسی طرح الفاظ کے اشارے و کنایہ کی بحث جو داستان لکھنے والے کے بہت کام آتی ہیں، کا وسیع مطالعہ اور ایک کامل اور عمیق دورہ جس میں عصر حاضر کی ادبی داستانوں کو جمال زادہ سے لیکر آج تک، تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اسی طرح ادبی دنیا میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے لیکر بہترین پائے کے افسانوں کا پڑھنا بعض اوقات مختلف ترجموں کے ہمراہ اور مختلف جدید طریقوں کے ذریعے انکا نقد۔

زندہ رود کے چھپنے کے ساتھ اسکے کچھ شمارے اس سال کے خلاقیت سے بھرپور آثار سے مختص ہوگئے۔ اور جلسوں میں شریک بہت سے افراد کی داستانیں اور مقالے اس میں چھپے جنہوں نے بعد میں اپنی داستانوں اور افسانوں کا مجموعہ منتشر کیا اور ۷۰ اور ۸۰ کی دھائی کے نامور لکھنے والوں میں شمار ہوئے۔ لیکن ان جلسات کا اصلی کام "کارنامہ" میگزین کے ابتدائی گیارہ شمارہ تھے جو انہی دوستوں کی مدد سے چھپے۔ گلشیری نے خود اپنے اکثر مقالے اسی دورہ پر نقد اور تنقید  کے دوران لکھے جو ان رسالوں کے چھپنے اور منتشر ہونے کا سبب تھے۔  اجتماعی حساسیت نے ایسی فضا قائم کر رکھی تھی کہ اس نے سب حاضرین کو جست و جو میں لگا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ گلشیری کے دوروں کی مطبوعات بہت با حیات اور زمانہ کے مطابق ہوتیں اور اکثر اپنے زمانے کے ضرورتوں کے جواب میں۔ آج بھی ہر کتابخانہ میں "مفید" یا " نقد آگاہ" اور زندہ رود"  اور کارنامہ" کا ایک مکمل دورہ آرام سے دیکھا جاسکتا ہے۔ گلشیری نے ان تمام کاموں میں وہی کام کیا جو ہمیشہ سے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ تیار رہتا کہ ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی آنکھوں کو بند کرکے، اپنے دل و دماغ کو بولنے پر آمادہ کرکے، اپنے کانوں کو سننے کے لئے تیار کر کے تمہیں کہے: "پڑھو"۔

گلشیری نے وہی کیا جو ہمیشہ کرتا تھا، ہر داستان، یونیورسٹی، میگزین، ضمیمہ  اسکے لئے ایک بھانہ تھا تاکہ میدان کو ایک واقعہ کے لئے تیار کرسکے کہ حقیقت میں خود سے بڑھ کر دوسرے لوگ اسکا ہدف تھے تاکہ انکو کسی بھی طریقے سے جمع کیا جاسکے۔

یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک کام انجام دینے والا نہیں تھا بلکہ شاید سب سے زیادہ فائدہ ان جلسوں کا اس نے ہی اٹھا یا ہو۔ یقین جانئے کے اگر ان میں سے کسی ایک سے بھی مراجعہ کریں گے جو ان جلسات میں شریک ہوا ہو اور گلشیری کے لئے کوئی داستان پڑھی ہو اس سے کہیں گے کہ ایک داستان لکھی ہے جو آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ آپکی نظر لےسکوں تو پہلے وہ ایک خالی اور شور شرابے سے پاک جگہ کی تلاش کرے گا، اور پھر آپکو آرام سے جگہ دیگا اور کہے گا کہ: "پڑھو" اور پھر ہر چیز ابتداء سے شروع ہوگی۔ یہ ایک تحریک ہے جس کا اختتام نہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4140


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔